گیس ایشو پر سندھ اور وفاق کے درمیاں گرما گرمی
صورتحال کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے روکنے کے لیے سندھ حکومت کو دانشمندانہ حل نکالنا چاہیے۔
نوری آباد پاور پلانٹ کو گیس کی سپلائی کے حوالے سے پیدا شدہ تنازع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی سندھ اسمبلی کی تقریر زیر بحث رہی، جس میں انھوں نے گیس کی عدم فراہمی پر شدید برہمی ظاہر کی اور وارننگ دی کہ رواں ہفتہ کے اختتام تک نوری آباد پاور پلانٹ کو گیس کی عدم فراہمی پر راست اقدام کیا جائے گا۔
ایوان میں وزیراعلیٰ کے بیان اور جذباتی تقریر کا حکومت اور اپوزیشن ارکان نے ڈیسک بجا کر خیرمقدم کیا جب کہ دوسری جانب صوبہ کے فہمیدہ سیاسی حلقوں کو یقین تھا کہ شاہ صاحب اس مسئلہ کا ضرور کوئی منصفانہ اور قابل قبول حل جلد نکال لیں گے، بعض سیاست دانوں نے اس غیر معمولی اظہار خیال کو وزیراعلیٰ سندھ جیسے پیکر عجز ، اعتدال پسند اور افہام و تفہیم پر یقین رکھنے والی صوبہ کی ذمے دار شخصیت کے سیاسی اضطراب سے تشبیہ دی یا سندھ کی پر تپش سیاسی صورتحال اس کا منطقی نتیجہ ہوسکتی ہے کیونکہ کراچی سمیت اندرون سندھ مسائل کے انبار لگے ہیں جن کو سب سیاستدانوں نے جمہوری جذبہ کے تحت حل کرنا ہے۔
صرف گیس ہی نہیں سندھ کے ارباب اختیار صوبہ کی زرعی ترقی اورہمہ گیر انڈسٹریلائزیشن کے لیے کچھ ڈیلیور کرکے ہی عوام کو مطمئن کر سکیں گے۔گیس کنکشن اگر پنجاب میں دیے جارہے ہیں تو سندھ سمیت ہر صوبہ میں عوام کو یہ سہولت ملنی چاہیے، گیس ، بجلی ، پانی ، اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور انفرا اسٹرکچر ملکی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، صوبائی حکام وفاق سے گلہ کرنے کی خو بھی بدلیں، وفاق کراچی سمیت خیبر پختونخوا، بلوچستان سندھ اور پنجاب کو منصوبوں کے لیے وافر فنڈز مہیا کرتا ہے۔
ادھر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے وفاق سے کہا ہے کہ گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج میں اضافے کا وعدہ پورا کرے جو وفاقی وزیر پٹرولیم نے کیا ہے ۔ صوبوں کے آئینی اور قانونی حقوق کی ادائیگی آئین کے آر ٹیکل5 کے تحت ناگزیر ہو چکی ہے۔ اس لیے مرکز اپنے وعدے کو بروقت پورا کرے۔ وہ وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں کرک، ہنگو اور دیگر جنوبی اضلاع میں قدرتی گیس کے استعمال سے متعلق مقامی لوگوں کی شکایات کے تناظر میں امن و امان کے ایک خصوصی اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔
جمعرات کو سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے پوائنٹ آف آرڈر کے بعد ایوان میں وزیراعلیٰ کے بیان سے نوری آباد کے صنعتی علاقہ میں گیس کی فراہمی کی ضرورت اجاگر ہوئی، اور یہ خوش آیند بات ہے کہ گیس کی فراہمی میں حائل مالی و فنی دشواریوں کی بروقت وضاحت کی گئی، اور توقع کی جانی چاہیے کہ گیس کی جلد فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا جب کہ صورتحال کا ٹھنڈے دل سے معروضی تجزیہ دو طرفہ مفاہمت اور گیس کی فراہمی کو یقینی بنا سکتا ہے۔
سندھ حکومت بھی گیس کمپنی کے موقف کو سنجیدگی سے سنے جس کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ وہ سندھ حکومت کے تحفظات دور کرنے کے لیے تیار ہیں، مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، وزیراعلیٰ کی طرف سے وزیراعظم کو لکھے گئے خط سے آگاہ ہیں، جس لمحے بینک گارنٹی (جو ایک ارب روپے ہے) ملے گی گیس فراہم کردیں گے۔ ادھر وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ سندھ میں نوری آباد پاور پلانٹ کو گیس فراہم کی جائے گی۔
اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ صوبائیت کو فروغ دے کر وفاق کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کی جائے، جو صائب رائے تھی، سیاسی جماعتوں کو اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا چاہیے کہ میڈیا نے عوام کو سیاسی شعور سے اس قدر مالال مال کردیا ہے کہ وہ ہر سیاسی بیان کے اندر اس کی کیمسٹری اور جدلیات سے واقف ہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے، میڈیا پنڈتوں کے مطابق اس شعلہ بیانی کا سبب کچھ اور بھی ہوسکتا ہے تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ آیندہ سیاسی اور انتخابی منظر نامہ کی تشکیل سے بھی اس کی کوئی نسبت ہوسکتی ہے۔
پاناما کیس کے فیصلہ کے انتظار میں سیاستدان بیکار مباش کچھ کیا کر کے تحت اپنی انتخابی مہم ابھی سے شروع کیے ہوئے ہیں اور بلیم گیم کا سارا منظرنامہ اسی کی ریہرسل ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سندھ اور ملک کو صنعتی ترقی کی اشد ضرورت ہے ۔ گیس ، بجلی ، پانی اور ٹرانسپورٹ سہولتوں کی فراہمی کے لیے تمام اداروں کو ایک دوسرے سے تعاون کی مثال قائم کرنی چاہیے۔ صورتحال کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے روکنے کے لیے سندھ حکومت کو دانشمندانہ حل نکالنا چاہیے۔
جمہوریت تلخ گوئی سے عبارت نہیں، میڈیا کی کشش اور اس کے سحر میں گرفتار سیاست دان عوام کی خدمت کے لیے بھی وقت نکالیں اور اپنے جمہوری رویوں کی بھی تربیت کریں، ملک کے معاشی ہب کراچی میں گڈ گورننس ناگزیر ہے، شہر قائد کھنڈر بن چکا ہے جہاں عوام کو پانی،گیس، بجلی ٹرانسپورٹ ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے ، عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے بجائے سیاست دان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال خود آیندہ الیکشن کے پلے انگ فیلڈ کو خراب کررہے ہیں، ضرورت جمہوریت کو مستحکم کرنے اور آیندہ الیکشن کے لیے سیاسی جماعتوں کے لیے وقت کچھ کر گزرنے کا ہے۔
ایوان میں وزیراعلیٰ کے بیان اور جذباتی تقریر کا حکومت اور اپوزیشن ارکان نے ڈیسک بجا کر خیرمقدم کیا جب کہ دوسری جانب صوبہ کے فہمیدہ سیاسی حلقوں کو یقین تھا کہ شاہ صاحب اس مسئلہ کا ضرور کوئی منصفانہ اور قابل قبول حل جلد نکال لیں گے، بعض سیاست دانوں نے اس غیر معمولی اظہار خیال کو وزیراعلیٰ سندھ جیسے پیکر عجز ، اعتدال پسند اور افہام و تفہیم پر یقین رکھنے والی صوبہ کی ذمے دار شخصیت کے سیاسی اضطراب سے تشبیہ دی یا سندھ کی پر تپش سیاسی صورتحال اس کا منطقی نتیجہ ہوسکتی ہے کیونکہ کراچی سمیت اندرون سندھ مسائل کے انبار لگے ہیں جن کو سب سیاستدانوں نے جمہوری جذبہ کے تحت حل کرنا ہے۔
صرف گیس ہی نہیں سندھ کے ارباب اختیار صوبہ کی زرعی ترقی اورہمہ گیر انڈسٹریلائزیشن کے لیے کچھ ڈیلیور کرکے ہی عوام کو مطمئن کر سکیں گے۔گیس کنکشن اگر پنجاب میں دیے جارہے ہیں تو سندھ سمیت ہر صوبہ میں عوام کو یہ سہولت ملنی چاہیے، گیس ، بجلی ، پانی ، اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور انفرا اسٹرکچر ملکی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، صوبائی حکام وفاق سے گلہ کرنے کی خو بھی بدلیں، وفاق کراچی سمیت خیبر پختونخوا، بلوچستان سندھ اور پنجاب کو منصوبوں کے لیے وافر فنڈز مہیا کرتا ہے۔
ادھر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے وفاق سے کہا ہے کہ گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج میں اضافے کا وعدہ پورا کرے جو وفاقی وزیر پٹرولیم نے کیا ہے ۔ صوبوں کے آئینی اور قانونی حقوق کی ادائیگی آئین کے آر ٹیکل5 کے تحت ناگزیر ہو چکی ہے۔ اس لیے مرکز اپنے وعدے کو بروقت پورا کرے۔ وہ وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں کرک، ہنگو اور دیگر جنوبی اضلاع میں قدرتی گیس کے استعمال سے متعلق مقامی لوگوں کی شکایات کے تناظر میں امن و امان کے ایک خصوصی اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔
جمعرات کو سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے پوائنٹ آف آرڈر کے بعد ایوان میں وزیراعلیٰ کے بیان سے نوری آباد کے صنعتی علاقہ میں گیس کی فراہمی کی ضرورت اجاگر ہوئی، اور یہ خوش آیند بات ہے کہ گیس کی فراہمی میں حائل مالی و فنی دشواریوں کی بروقت وضاحت کی گئی، اور توقع کی جانی چاہیے کہ گیس کی جلد فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا جب کہ صورتحال کا ٹھنڈے دل سے معروضی تجزیہ دو طرفہ مفاہمت اور گیس کی فراہمی کو یقینی بنا سکتا ہے۔
سندھ حکومت بھی گیس کمپنی کے موقف کو سنجیدگی سے سنے جس کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ وہ سندھ حکومت کے تحفظات دور کرنے کے لیے تیار ہیں، مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، وزیراعلیٰ کی طرف سے وزیراعظم کو لکھے گئے خط سے آگاہ ہیں، جس لمحے بینک گارنٹی (جو ایک ارب روپے ہے) ملے گی گیس فراہم کردیں گے۔ ادھر وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ سندھ میں نوری آباد پاور پلانٹ کو گیس فراہم کی جائے گی۔
اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ صوبائیت کو فروغ دے کر وفاق کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کی جائے، جو صائب رائے تھی، سیاسی جماعتوں کو اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا چاہیے کہ میڈیا نے عوام کو سیاسی شعور سے اس قدر مالال مال کردیا ہے کہ وہ ہر سیاسی بیان کے اندر اس کی کیمسٹری اور جدلیات سے واقف ہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے، میڈیا پنڈتوں کے مطابق اس شعلہ بیانی کا سبب کچھ اور بھی ہوسکتا ہے تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ آیندہ سیاسی اور انتخابی منظر نامہ کی تشکیل سے بھی اس کی کوئی نسبت ہوسکتی ہے۔
پاناما کیس کے فیصلہ کے انتظار میں سیاستدان بیکار مباش کچھ کیا کر کے تحت اپنی انتخابی مہم ابھی سے شروع کیے ہوئے ہیں اور بلیم گیم کا سارا منظرنامہ اسی کی ریہرسل ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سندھ اور ملک کو صنعتی ترقی کی اشد ضرورت ہے ۔ گیس ، بجلی ، پانی اور ٹرانسپورٹ سہولتوں کی فراہمی کے لیے تمام اداروں کو ایک دوسرے سے تعاون کی مثال قائم کرنی چاہیے۔ صورتحال کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے روکنے کے لیے سندھ حکومت کو دانشمندانہ حل نکالنا چاہیے۔
جمہوریت تلخ گوئی سے عبارت نہیں، میڈیا کی کشش اور اس کے سحر میں گرفتار سیاست دان عوام کی خدمت کے لیے بھی وقت نکالیں اور اپنے جمہوری رویوں کی بھی تربیت کریں، ملک کے معاشی ہب کراچی میں گڈ گورننس ناگزیر ہے، شہر قائد کھنڈر بن چکا ہے جہاں عوام کو پانی،گیس، بجلی ٹرانسپورٹ ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے ، عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے بجائے سیاست دان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال خود آیندہ الیکشن کے پلے انگ فیلڈ کو خراب کررہے ہیں، ضرورت جمہوریت کو مستحکم کرنے اور آیندہ الیکشن کے لیے سیاسی جماعتوں کے لیے وقت کچھ کر گزرنے کا ہے۔