فکری آزادی کا حق
جناح صاحب نے ہمیشہ قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے نفاذ پر زور دیا۔
تاریخ حقائق کو اکٹھا کرنے اور ان حقائق کو بلا کم وکاست پیش کرنے کا علم ہے۔ حکومت نے پاکستان کے قیام کی مستند تاریخ لکھنے کے لیے یورپی اور امریکی مصنفین کی خدمات حاصل کی تھیں ۔ 50ء کی دہائی کے اختتام تک تعلیمی اداروں میں تاریخ کی جوکتابیں پڑھائی جاتی تھیں ان میں مسلمان بادشاہوں،آزادی کی تحریک کے بارے میں بہت سے حقائق بیان کیے جاتے تھے۔
بانی پاکستان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ آزادئ اظہار، خواتین کے مردوں کے برابر حقوق، آزادئ صحافت اورٹریڈ یونین کی آزادی کی جدوجہد میں گزرا۔ ان کی اس جدوجہد میں ان کی اہلیہ رتی جناح ان کے ہم رکاب تھیں، جناح صاحب نے ہمیشہ قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے نفاذ پر زور دیا۔ وہ تمام مذاہب کے ماننے والے شہریوں کے بنیادی حقوق کے علمبردار تھے۔ ان کے مختلف مذاہب کے ماننے والے شہریوں سے ذاتی تعلقات تھے۔ قائد اعظم نے شدید سیاسی اختلافات کے باوجود کانگریس کے بعض رہنماؤں سے ذاتی تعلقات قائم رکھے۔
حکومت نے پاکستان کی کتابوں میں نہیں لکھا کہ پنجاب اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد دو تہائی ارکان کی مدد سے منظور ہوئی تھی اور جب بھارتی حکومت نے پاکستان کے اثاثے ضبط کیے تو گاندھی نے بھوک ہڑتال کی تھی جس پر ایک ہندو انتہاپسند نے انھیں قتل کیا۔ جناح صاحب کی ہدایت پر گاندھی کے قتل پر سوگ میں عام تعطیل ہوئی تھی۔ یہ تعلقات 1945ء سے 1947ء تک شدید ہنگامی صورتحال میں بھی قائم رہے مگر جناح صاحب کی زندگی کے ان روشن پہلوؤں کا ملک کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں ذکر نہیں ملتا۔
کانگریس 1885ء میں قائم ہوئی، مسلم لیگ کا قیام 1905ء میں عمل میں آیا۔ کانگریس میں شروع میں مسلمانوں کی اکثریت شامل تھی۔ خود جناح صاحب کانگریس کے رکن رہے۔ مسلم لیگ کے قیام کے بعد بہت سے مسلمان رہنما مسلم لیگ اور کانگریس دونوں میں شامل تھے۔کمال اتاترک نے ترکی کو جدید ریاست میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا اور خلافت کے ادارے کو ختم کیا۔
مولانا محمدعلی جوہر اور ان کے ساتھیوں کے نزدیک ترکی میں خلافت کا خاتمہ برطانوی حکومت کی سازش تھی۔ اس بناء پر محمدعلی جوہر نے خلافت کی بحالی کی تحریک شروع کردی۔گاندھی اس زمانے میں کانگریس میں اپنی قیادت مستحکم کررہے تھے۔ انھوں نے خلافت تحریک کی حمایت کی ۔ محمد علی جناح تحریک خلافت میں شامل نہیں ہوئے۔
ممتاز دانشور حمزہ علوی پہلے سوشل سائنٹسٹ ہیں جنہوں نے خلافت تحریک کا حقیقی طور پر تجزیہ کیا مگر تاریخ سیاسیات کے بہت سے اساتذہ ان کے نام سے واقف تک نہیں۔ پھر مسلم لیگ کی 1905ء سے 1947ء تک کی تاریخ میں کئی موڑ آئے، بہت سے فیصلے تبدیل ہوئے، کئی فیصلے غلط ثابت ہوئے اور مسلم لیگ بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر مجوزہ ملک کے آئینی ڈھانچے کا خاکہ تیار نہ کرسکی مگر ان وجوہات پر بات نہیں ہوتی۔ پھر مجوزہ ملک کو کنفیڈریشن بنانے، صوبوں کی خودمختاری اور واحدانی طرزِ حکومت جیسے اہم معاملات مبہم رہے جن کا نقصان آزادی کے بعد ہوا مگر ہمارے تاریخ دان ایسے اہم موضوعات پر قلم نہیں اٹھاتے۔
ڈاکٹر مبارک علی کا تعلق ہندوستان کی ریاست ٹونک سے ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا خاندان آزادی کے فوراً بعد حیدرآباد میں آباد ہوا۔ سندھ یونیورسٹی کے تاریخ کے شعبہ سے انھوںنے ایم اے کیا اور سندھ یونیورسٹی میں لیکچرار ہوگئے۔ کالج کے زمانے میں طلبہ سیاست میں حصہ لیا اور مقرر کی حیثیت سے ملک کے مختلف شہروں میں ہونیوالے مباحثوں میں انعامات اور ٹرافیاں حاصل کیں۔ ڈاکٹر صاحب ڈاکٹریٹ کے لیے برطانیہ چلے گئے۔
برطانیہ جا کر انھیں علم ہوا کہ وہاں اعلیٰ تعلیم بہت مہنگی ہے اور مغربی جرمنی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اخراجات کم ہوتے ہیں تو پھر وہ مغربی جرمنی چلے گئے۔ پہلے جرمن زبان سیکھی اور پھر جرمن زبان میں اپنا مقالہ تحریر کیا۔ ڈاکٹر مبارک علی مارکسزم کے اسیر ہوئے مگر سوویت یونین اور مشرقی جرمنی وغیرہ کو آئیڈیل ملک نہیں سمجھا۔ وہ ایک طرح سے مارکسزم کے نقاد بن گئے۔ ڈاکٹر مبارک علی نے عوام کی تاریخ لکھنے کے فلسفہ کو سمجھا اور یہ بات لکھی کہ تاریخی حقائق بغیر کسی ملاوٹ کے پیش کردینے چاہئیں۔
علم پھیلانے اور نوجوانوں کو شعور دینے کی خواہش کے ساتھ حیدرآباد آگئے مگر سندھ یونیورسٹی میں طویل عرصے تک تنخواہ اور ترقی سے محروم رہے مگر ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ کے مادی تصور کو اجاگر کرنے اور عوام کی تاریخ اردو میں لکھنے کی تحریک شروع کی۔ ڈاکٹر مبارک علی نے مختلف موضوعات پر مختصر کتابیں لکھنے کی روایت ڈالی۔ ڈاکٹر مبارک علی اور ان کے چند ساتھیوں نے شروع شروع میں ہاتھ سے کتابیں تحریرکیں، کافی عرصے بعد پبلشرز نے ان کی کتابیں شایع کرنا شروع کیں۔
ڈاکٹرمبارک علی نے جب سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے کی وجوہات اور اس کے اثرات کے بارے میں اپنا ایک مقالہ شایع کیا تو وہ ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بن گئے۔ اسی طرح انھوں نے مغل بادشاہوں کے ادوارکا بھرپور تجزیہ کیا۔ اپنی ان بے باک تحریروں کی بناء پر ڈاکٹر مبارک علی پر بے پناہ تنقید ہوئی۔ انھیں ملک دشمن، غیر ملکی ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا خطاب دیے گئے مگر ڈاکٹر صاحب کے دلائل کا جواب نہیں دیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے سندھ یونیورسٹی کے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر ریٹائرمنٹ لے لی اور لاہور چلے گئے مگر پنجاب کی کسی یونیورسٹی نے بھی انھیں قبول نہیں کیا۔ ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر مؤرخ ہیں اور ملاوٹ کے بغیر حقائق بیان کرنے پر یقین رکھتے ہیں، اس بناء پر انھوں نے بعض تلخ حقائق بیان کیے مگر بعض لوگوں نے ان کے اٹھائے ہوئے نکات کا جواب دینے کے بجائے ذاتی نوعیت کی تنقید شروع کردی۔ اگرچہ ڈاکٹر مبارک علی کے لیے یہ کوئی نیا تجربہ نہیں، وہ زندگی میں کئی دفعہ اپنے نظریات کی پاسداری میں اس طرح معتوب ہوچکے ہیں مگر نئی نسل کے لیے یہ کوئی صحت مندانہ رجحان نہیں ہے۔ اس طرح کے رویے سے ماضی میں خاصا نقصان ہوا ہے۔
جن مصنفین نے مختلف تاریخی حقائق کو آشکار کرنے کی کوشش کی وہ معتوب قرار دیے گئے جس کا نقصان یہ ہوا کہ ملک میں تحقیق کرنے کا ماحول ختم ہوا۔ درباری تاریخ دانوں کی تاریخ سے نئی نسل گمراہ ہوئی اور نئی نسل کا ایک مخصوص قسم کا ذہن تیار ہوا جس کا نقصان پہلے دسمبر 1971ء میں سامنے آیا جب مشرقی پاکستان کے عوام کی حقیقی جدوجہد کوغلط طور پر سمجھا گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا مگر اسٹیبلشمنٹ سے طاقت حاصل کرنے والے تاریخ دانوں نے پھر غلط تاریخ لکھی اور عوام کا ذہن کنفیوژن کا شکار ہوا۔ حکمرانوں نے اس کا حل انتہاپسندی میں تلاش کیا۔ ملک میں شدت پسندی کی جڑیں گہری ہوگئیں جس کا نقصان سب کے سامنے ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ تاریخی حقائق کو بغیر ملاوٹ کے بیان کرنے کی روایت کو مستحکم کرنا ملک کے وسیع ترین مفاد میں ہے۔ یہ حقائق بظاہر بہت تلخ محسوس ہوتے ہیں اور پرانا بیانیہ فرسودہ نظر آتا ہے مگر یہ تاریخی حقائق ملک میں حقیقی فضاء قائم کرنے میں نوجوانوں کو متوازن سوچ کا مالک بناتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک نے کبھی قومی اعزاز اوردیگر مراعات کی خواہش ظاہر نہیں کی۔ قومی ایوارڈ کے لیے کسی حکمراں سے درخواست نہیں کی مگر ڈاکٹر مبارک علی بنیادی حق فکر کی آزادی کے تحفظ کے خواہاں ہیں۔ فکر کی آزادی کے ذریعے نظریات کا اظہار اور آزادانہ بحث و مباحثہ ہی صحت مند معاشرے کو جنم دیتا ہے اور انتہاپسندی کی جڑیں ختم ہوتی ہیں۔ اس معاشرے کو ڈاکٹر مبارک علی کی ضرورت ہے۔
بانی پاکستان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ آزادئ اظہار، خواتین کے مردوں کے برابر حقوق، آزادئ صحافت اورٹریڈ یونین کی آزادی کی جدوجہد میں گزرا۔ ان کی اس جدوجہد میں ان کی اہلیہ رتی جناح ان کے ہم رکاب تھیں، جناح صاحب نے ہمیشہ قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے نفاذ پر زور دیا۔ وہ تمام مذاہب کے ماننے والے شہریوں کے بنیادی حقوق کے علمبردار تھے۔ ان کے مختلف مذاہب کے ماننے والے شہریوں سے ذاتی تعلقات تھے۔ قائد اعظم نے شدید سیاسی اختلافات کے باوجود کانگریس کے بعض رہنماؤں سے ذاتی تعلقات قائم رکھے۔
حکومت نے پاکستان کی کتابوں میں نہیں لکھا کہ پنجاب اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد دو تہائی ارکان کی مدد سے منظور ہوئی تھی اور جب بھارتی حکومت نے پاکستان کے اثاثے ضبط کیے تو گاندھی نے بھوک ہڑتال کی تھی جس پر ایک ہندو انتہاپسند نے انھیں قتل کیا۔ جناح صاحب کی ہدایت پر گاندھی کے قتل پر سوگ میں عام تعطیل ہوئی تھی۔ یہ تعلقات 1945ء سے 1947ء تک شدید ہنگامی صورتحال میں بھی قائم رہے مگر جناح صاحب کی زندگی کے ان روشن پہلوؤں کا ملک کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں ذکر نہیں ملتا۔
کانگریس 1885ء میں قائم ہوئی، مسلم لیگ کا قیام 1905ء میں عمل میں آیا۔ کانگریس میں شروع میں مسلمانوں کی اکثریت شامل تھی۔ خود جناح صاحب کانگریس کے رکن رہے۔ مسلم لیگ کے قیام کے بعد بہت سے مسلمان رہنما مسلم لیگ اور کانگریس دونوں میں شامل تھے۔کمال اتاترک نے ترکی کو جدید ریاست میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا اور خلافت کے ادارے کو ختم کیا۔
مولانا محمدعلی جوہر اور ان کے ساتھیوں کے نزدیک ترکی میں خلافت کا خاتمہ برطانوی حکومت کی سازش تھی۔ اس بناء پر محمدعلی جوہر نے خلافت کی بحالی کی تحریک شروع کردی۔گاندھی اس زمانے میں کانگریس میں اپنی قیادت مستحکم کررہے تھے۔ انھوں نے خلافت تحریک کی حمایت کی ۔ محمد علی جناح تحریک خلافت میں شامل نہیں ہوئے۔
ممتاز دانشور حمزہ علوی پہلے سوشل سائنٹسٹ ہیں جنہوں نے خلافت تحریک کا حقیقی طور پر تجزیہ کیا مگر تاریخ سیاسیات کے بہت سے اساتذہ ان کے نام سے واقف تک نہیں۔ پھر مسلم لیگ کی 1905ء سے 1947ء تک کی تاریخ میں کئی موڑ آئے، بہت سے فیصلے تبدیل ہوئے، کئی فیصلے غلط ثابت ہوئے اور مسلم لیگ بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر مجوزہ ملک کے آئینی ڈھانچے کا خاکہ تیار نہ کرسکی مگر ان وجوہات پر بات نہیں ہوتی۔ پھر مجوزہ ملک کو کنفیڈریشن بنانے، صوبوں کی خودمختاری اور واحدانی طرزِ حکومت جیسے اہم معاملات مبہم رہے جن کا نقصان آزادی کے بعد ہوا مگر ہمارے تاریخ دان ایسے اہم موضوعات پر قلم نہیں اٹھاتے۔
ڈاکٹر مبارک علی کا تعلق ہندوستان کی ریاست ٹونک سے ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا خاندان آزادی کے فوراً بعد حیدرآباد میں آباد ہوا۔ سندھ یونیورسٹی کے تاریخ کے شعبہ سے انھوںنے ایم اے کیا اور سندھ یونیورسٹی میں لیکچرار ہوگئے۔ کالج کے زمانے میں طلبہ سیاست میں حصہ لیا اور مقرر کی حیثیت سے ملک کے مختلف شہروں میں ہونیوالے مباحثوں میں انعامات اور ٹرافیاں حاصل کیں۔ ڈاکٹر صاحب ڈاکٹریٹ کے لیے برطانیہ چلے گئے۔
برطانیہ جا کر انھیں علم ہوا کہ وہاں اعلیٰ تعلیم بہت مہنگی ہے اور مغربی جرمنی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اخراجات کم ہوتے ہیں تو پھر وہ مغربی جرمنی چلے گئے۔ پہلے جرمن زبان سیکھی اور پھر جرمن زبان میں اپنا مقالہ تحریر کیا۔ ڈاکٹر مبارک علی مارکسزم کے اسیر ہوئے مگر سوویت یونین اور مشرقی جرمنی وغیرہ کو آئیڈیل ملک نہیں سمجھا۔ وہ ایک طرح سے مارکسزم کے نقاد بن گئے۔ ڈاکٹر مبارک علی نے عوام کی تاریخ لکھنے کے فلسفہ کو سمجھا اور یہ بات لکھی کہ تاریخی حقائق بغیر کسی ملاوٹ کے پیش کردینے چاہئیں۔
علم پھیلانے اور نوجوانوں کو شعور دینے کی خواہش کے ساتھ حیدرآباد آگئے مگر سندھ یونیورسٹی میں طویل عرصے تک تنخواہ اور ترقی سے محروم رہے مگر ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ کے مادی تصور کو اجاگر کرنے اور عوام کی تاریخ اردو میں لکھنے کی تحریک شروع کی۔ ڈاکٹر مبارک علی نے مختلف موضوعات پر مختصر کتابیں لکھنے کی روایت ڈالی۔ ڈاکٹر مبارک علی اور ان کے چند ساتھیوں نے شروع شروع میں ہاتھ سے کتابیں تحریرکیں، کافی عرصے بعد پبلشرز نے ان کی کتابیں شایع کرنا شروع کیں۔
ڈاکٹرمبارک علی نے جب سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے کی وجوہات اور اس کے اثرات کے بارے میں اپنا ایک مقالہ شایع کیا تو وہ ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بن گئے۔ اسی طرح انھوں نے مغل بادشاہوں کے ادوارکا بھرپور تجزیہ کیا۔ اپنی ان بے باک تحریروں کی بناء پر ڈاکٹر مبارک علی پر بے پناہ تنقید ہوئی۔ انھیں ملک دشمن، غیر ملکی ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا خطاب دیے گئے مگر ڈاکٹر صاحب کے دلائل کا جواب نہیں دیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے سندھ یونیورسٹی کے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر ریٹائرمنٹ لے لی اور لاہور چلے گئے مگر پنجاب کی کسی یونیورسٹی نے بھی انھیں قبول نہیں کیا۔ ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر مؤرخ ہیں اور ملاوٹ کے بغیر حقائق بیان کرنے پر یقین رکھتے ہیں، اس بناء پر انھوں نے بعض تلخ حقائق بیان کیے مگر بعض لوگوں نے ان کے اٹھائے ہوئے نکات کا جواب دینے کے بجائے ذاتی نوعیت کی تنقید شروع کردی۔ اگرچہ ڈاکٹر مبارک علی کے لیے یہ کوئی نیا تجربہ نہیں، وہ زندگی میں کئی دفعہ اپنے نظریات کی پاسداری میں اس طرح معتوب ہوچکے ہیں مگر نئی نسل کے لیے یہ کوئی صحت مندانہ رجحان نہیں ہے۔ اس طرح کے رویے سے ماضی میں خاصا نقصان ہوا ہے۔
جن مصنفین نے مختلف تاریخی حقائق کو آشکار کرنے کی کوشش کی وہ معتوب قرار دیے گئے جس کا نقصان یہ ہوا کہ ملک میں تحقیق کرنے کا ماحول ختم ہوا۔ درباری تاریخ دانوں کی تاریخ سے نئی نسل گمراہ ہوئی اور نئی نسل کا ایک مخصوص قسم کا ذہن تیار ہوا جس کا نقصان پہلے دسمبر 1971ء میں سامنے آیا جب مشرقی پاکستان کے عوام کی حقیقی جدوجہد کوغلط طور پر سمجھا گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا مگر اسٹیبلشمنٹ سے طاقت حاصل کرنے والے تاریخ دانوں نے پھر غلط تاریخ لکھی اور عوام کا ذہن کنفیوژن کا شکار ہوا۔ حکمرانوں نے اس کا حل انتہاپسندی میں تلاش کیا۔ ملک میں شدت پسندی کی جڑیں گہری ہوگئیں جس کا نقصان سب کے سامنے ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ تاریخی حقائق کو بغیر ملاوٹ کے بیان کرنے کی روایت کو مستحکم کرنا ملک کے وسیع ترین مفاد میں ہے۔ یہ حقائق بظاہر بہت تلخ محسوس ہوتے ہیں اور پرانا بیانیہ فرسودہ نظر آتا ہے مگر یہ تاریخی حقائق ملک میں حقیقی فضاء قائم کرنے میں نوجوانوں کو متوازن سوچ کا مالک بناتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک نے کبھی قومی اعزاز اوردیگر مراعات کی خواہش ظاہر نہیں کی۔ قومی ایوارڈ کے لیے کسی حکمراں سے درخواست نہیں کی مگر ڈاکٹر مبارک علی بنیادی حق فکر کی آزادی کے تحفظ کے خواہاں ہیں۔ فکر کی آزادی کے ذریعے نظریات کا اظہار اور آزادانہ بحث و مباحثہ ہی صحت مند معاشرے کو جنم دیتا ہے اور انتہاپسندی کی جڑیں ختم ہوتی ہیں۔ اس معاشرے کو ڈاکٹر مبارک علی کی ضرورت ہے۔