نہ بدنامی پسند ہے نہ ہی عزت

بیس برس قبل اعزاز کے اجرا سے اب تک تئیس شخصیات کو اقوامِ متحدہ نے پیغامبرِ امن تسلیم کیا۔

ISLAMABAD:
اقوامِ متحدہ نے انیس سو ستانوے میں فیصلہ کیا کہ ان عالمی شہریوں کو یو این میسنجر آف پیس ( پیغامبرِ امن ) کا اعلی ترین اعزاز دیا جائے گا جو انفرادی سطح پر اس کرہِ ارض کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے سماجی شعبوں میں کمال کا کام کر رہے ہیں اور اس کام کے سبب قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

پیغامبرِ امن عموماً تین برس کے لیے بنایا جاتا ہے اور اگر وہ شخصیت مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہے تو اس اعزاز کی مدت میں توسیع کر دی جاتی ہے۔ بیس برس قبل اعزاز کے اجرا سے اب تک تئیس شخصیات کو اقوامِ متحدہ نے پیغامبرِ امن تسلیم کیا۔ان کے قد کاٹھ کا مختصر تعارف کچھ یوں ہے۔

ونگانی متھائی : جمہوری استحکام ، امن اور ماحولیات کی بہتری کے لیے جدوجہد کے اعتراف میں کینیا کی یہ بیٹی پہلی افریقی خاتون ہیں جنھیں دو ہزار چار میں امن کا نوبیل انعام ملا۔

اداکار جارج کلونی : دو ہزار نو میں ٹائم میگزین نے انھیں سو بااثر عالمی شخصیات کی فہرست میں شامل کیا۔دارفورخانہ جنگی کے پناہ گزینوں ، ہیٹی کے زلزلہ زدگان ، اور دو ہزار چار کے ایشیائی سونامی سے متاثر لاکھوں افراد کے لیے فلاحی خدمات کے اعتراف میں اقوامِ متحدہ نے جارج کلونی کو پیغامبرِ امن تسلیم کیا۔

وائنٹن مارسیلس : جاز کا ناخدا ، واحد گلوکار جس نے بیک وقت جاز اور کلاسیکی موسیقی میں نو گرامی ایوارڈز جیتے۔ان میں سے پانچ ایوارڈز لگاتار پانچ سال میں جیتے۔انیس سو چھیانوے میں ٹائم میگزین نے پچیس بااثر امریکیوں میں مارسیلس کو شامل کیا۔

وجے امرت : پہلا بھارتی ٹینس کھلاڑی جس نے ویمبلڈن سمیت تمام اہم عالمی ٹینس ٹورنامنٹس میں شرکت کی اور بیسیوں اعزازات پائے۔

لوسیانو پاوروتی : بیسویں صدی کے عظیم اطالوی اوپرا سنگرز میں شمار ہوا۔کروڑوں دیوانے پیدا کیے۔

اینا کتالدی : سرکردہ اطالوی سماجی کارکن ، ادیبہ ، صحافی اور فلم پروڈیوسر جس نے سماجی مسائل کو اپنے قلم اور کیمرے سے اجاگر کیا۔

محمد علی باکسر : نام ہی کافی ہے۔

ایلی ویزل : انیس سو چھیاسی کا نوبیل امن انعام یافتہ نازی کنسنٹریشن کیمپ سے زندہ باہر آنے والا رومانوی نژاد امریکی یہودی سیاسی و سماجی کارکن اور استاد۔

ایرکس میگیاس : جہاں جہاں فرانسیسی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں گلوکار ، گیت نگار ، موسیقار میگیاس کے دیوانے وافر پائے جاتے ہیں۔

سٹیوی ونڈر : سیاہ فام امریکی گلوکار۔وہی جس نے '' یو آر دی سن شائن آف مائی لائف '' اور '' آئی جسٹ کالڈ ٹو سے آئی لو یو '' سمیت ایسے درجنوں گیت بکھیر کر انیس سو اسی کی دھائی کی نوجوان نسل کو بالخصوص عالمگیر سطح پر اپنا چپر غٹو بنا دیا۔

چارلیز تھیرون : جنوبی افریقہ کی پہلی آسکر انعام یافتہ اداکارہ۔

مدوری گوٹو : جاپانی نژاد امریکی وائلن ماسٹر اور سماجی کارکن و مخئیر۔

پاؤلو کوہلو : برازیلین نژاد سب سے بڑا پرتگیزی ادیب۔ناول الکیمسٹ اگر پڑھا نہیں تو سنا ضرور ہوگا۔اب تک پاؤلو کوہلو کے ناولوں کی تین سو پچاس ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں اور مزید بک رہی ہیں۔


ڈینئل بیرنبیم : پیانو نواز ، میوزک ڈائریکٹر جو بیک وقت ارجنٹینا کا باشندہ اور اسپین ، اسرائیل اور فلسطین کا اعزازی شہری ہے۔

یو یو ما : چینی نژاد امریکی موسیقار۔ دونوں حریف ملکوں میں یکساں مقبول ہے اور یکساں فروخت ہوتا ہے۔

لینگ لینگ : چینی پیانو نواز جو اس وقت دراصل عالمی پیانسٹ ہے۔

اداکار مائیکل ڈگلس : فلموں سے زیادہ غریب بچوں کی نگہداشت اور بحالی کا کام اب مائیکل کا بیشتر وقت لے جاتا ہے۔

جین گودال : برطانوی ماہرِ حیاتیات و بشریات۔ جنہوں نے چیمپنزیز پر اتنی ارتقائی تحقیق کی کہ اس موضوع پر سب سے بڑی عالمی اتھارٹی ہیں۔

اسکاٹ کیلی : ساڑھے تین سو دن خلا میں گذارنے والے انٹرنیشنل سپیس سینٹر کے سابق کمانڈر جو اب سائنسی تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔

لیونارڈو ڈی کیپریو : ٹائٹانک فلم کے اکیڈمی ایوارڈ یافتہ۔اداکاری کی پہلی صف کے بعد اب ماحولیات اور بچوں کی بہتری کی جدوجہد کی صفِ اول میں ہیں۔

ایڈورڈ نورٹن : تین بار کے آسکر یافتہ امریکی اداکار اور سماجی انصاف و ماحولیات کے سرگرم وکیل۔

ملالہ یوسف زئی : ان کی ملالہ فاؤنڈیشن دنیا بھر میں بچیوں کی تعلیم کے فروغ میں پیش پیش ہے۔اب سے چھ دن پہلے سیکریٹری جنرل انتونیو گتوریس نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ایک خصوصی تقریب میں ملالہ کو اقوامِ متحدہ کے پیغامبرِ امن کے اعزاز سے نوازا۔

پیغامبرِ امن کے اعزاز کے دو روز بعد یعنی بارہ اپریل کو ملالہ نے کینیڈا کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔انھیں دو ہزار چودہ میں کینیڈا کی اعزازی شہریت دی گئی تھی۔اب تک صرف چھ شخصیات کو کینیڈا کی اعزازی شہریت پیش کی گئی ہے۔یعنی ملالہ سے پہلے سویڈش سفارت کار اور انسانی حقوق کے کارکن راؤل ویلن برگ ، نیلسن منڈیلا ، دلائی لامہ ، آنگ سان سوچی ، پرنس کریم آغا خان۔

پچھلے ایک سو سولہ برس میں جن ایک سو تین شخصیات کو امن کا نوبیل انعام ملا، ان میں سب سے کم عمر ملالہ ہیں۔انھیں دو ہزار چودہ میں سولہ برس کی عمر میں یہ اعزاز ملا۔وہ اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والی ، اقوامِ متحدہ کا سفیرِ امن بننے والی،کینیڈا کی اعزازی شہریت حاصل کرنے والی اور کینیڈا کی پارلیمنٹ سے خطاب کرنے والی سب سے کم عمر شخصیت ہیں۔

ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔جہاں ایسی ہر خبر کے بعد ایک گروہ کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ملالہ کو سب سے کم عمر اسلام دشمن ، غدار اور مغربی ایجنٹ ثابت کیا جائے۔ جب بھی انھیں کوئی نیا عالمی اعزاز ملنے کی خبر آتی ہے تو مقامی میڈیا اسے ایک معمول کی خبر کے طور پر جلدی جلدی پیش کر کے آگے گذر جاتا ہے۔

سرکاری ریکارڈ میں ملالہ پاکستان کی قابلِ فخر بیٹی ہے مگر جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ملالہ نے خطاب کیا تو محض اتفاق ہے کہ پاکستانی وزیرِ اعظم کا طیارہ تاخیر سے نیویارک پہنچا۔جب اسٹاک ہوم میں ملالہ نوبیل انعام کی تقریب سے خطاب کر رہی تھی تو حسن اتفاق سے اس روز پاکستان کے ہر ٹی وی چینل پر ایک اہم کرکٹ میچ دکھایا جا رہا تھا۔مگر اتنا ضرور ہوا کہ ایک نشریاتی وقفے میں ملالہ کے نوبیل انعام کو بریکنگ نیوز کے اعزاز سے نوازا گیا۔

کسی کو کچھ یاد ہے کہ آخری بار کب کسی پاکستانی صدر، وزیرِ اعظم یا سپاہ سالار نے کہا تھا کہ ملالہ اب پاکستان واپس آؤ ؟ یہاں بھی لاکھوں بیٹیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ یہ کیسی بیٹی ہے جوہر ملک میں جاتی ہے مگر اپنے گھر نہیں آ پا رہی اور پاکستان کو بھلا بھی نہیں پا رہی۔پرہجوم کینیڈین پارلیمنٹ میں بھی کہتی ہے '' آپ کی اعزازی شہریت سر آنکھوں پر مگر وطن تو پاکستان ہی رہے گا''۔ پہلا نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام بھی یہی کہتا تھا۔بلاخر اس کی مراد بر آئی اور ایک دن وہ پاکستان لوٹ آیا۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
Load Next Story