ایک کتب خانے کا پرسہ
شہر دل کے ایک گوشے میں ایک قبرستان آباد ہوتا ہے جو عمر کے ساتھ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے
میری ایک قاریہ اکثر اوقات مجھے اپنے خیا لات سے نوازتی رہتی ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر یاد کیا ہے اور ایسا یاد کیا ہے کہ مجھے بڑھاپے میں اپنی جوانی یاد کرا دی ہے۔ ان کے خیالات کے بارے مزید کچھ کہنا نہیں آپ خود مطالعہ کریں اور اس خوبصورت تحریر پر انھیں داد دیں۔
شہر دل کے ایک گوشے میں ایک قبرستان آباد ہوتا ہے جو عمر کے ساتھ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس میں مدفون ہوتی ہیں کچھ بھولی بسری یادیں، چند دیرینہ لمحات، بچپن سے کچھ وابستہ کچھ قصے، عزیز دستوں کی معیت میں لگائے گئے کچھ قہقہے، بہائے گئے کچھ آنسو، عہد رفتہ سے جڑُی کچھ روایات، کچھ علامات۔ میرے بچپن سے جڑُی ایک ایسی ہی یاد، ایک علامت تھا لاہور کی مال روڈ پر واقع ایک کتب خانہ ''فیروز سنز''۔
کہنے کو تو کتب خانہ بھی ایک دکان ہی ہوتی ہے، کسی کاروباری ادارے سے وابستہ، جہاں کتاب نام کی جنس بیچی اور خریدی جاتی ہے لیکن ہوا کچھ یوں کہ لاہور میں بچپن اور جوانی گزارنیوالے انگنت لوگوں کی زندگیوں میں اس کی حیثیت محض ایک دکان کی نہیں اس سے بہت بڑھ کر کچھ ہے۔ ایک جذباتی وابستگی، ایک گہری یاد، ایک دلی لگاؤ اور بہت سے لوگوں کی طرح میں پہلی بار اس جگہ اپنے بابا کی انگلی پکڑ کر گئی تھی۔
اسکول کا کچھ سامان خریدا گیا اور پھر مجھے اجازت ملی کہ کہانیوں کی کتابیں منتخب کروں۔ بابا امی اپنے ذوق کی کتابیں دیکھنے میں مصروف ہو گئے۔ کتابیں تو دوست ہوتی ہیں اور یہاں تو اتنے بہت سارے دوست تھے۔ یہ جگہ تو خوب دوست نواز تھی۔ اس کتب خانے کا اپنا ایک رکھ رکھاؤ تھا۔ ہر طرف مطالعے کے شائق لوگ۔ ایک بڑی خاموش محرابوں والی عمارت جیسے کو ئی خانقاہ، جہاں سے لوگوں کو فیض ملتا ہو۔ ماحول میں رچی ہوئی کتابوں کی خوشبو، اوراق پلٹنے کی مقدس سرسراہٹ۔
لاہور کی فضاؤں میں پلنے بڑھنے والے کتنے ہی جید ادیب، شعراء، صحافی، استاد اس کتب خانے کے آنے والوںمیں سے تھے۔ لگتا تھا ان کے تخیل کی مہک بھی اس عمارت کے ماحول میں رچ بس گئی ہے۔ میں بڑی ہوئی تو بطور طالبعلم اور پھر استاد بن کر یہاں جانا ہوا۔ہر بار ایسے لگا میں اپنے بابا کی انگلی پکڑے ہوئے ہوں۔ وہ مقامات جہاں آپ اپنے والدین کا ہاتھ تھامے گئے ہوں وہ آپ کے دل میں ہمیشہ کے لیے آباد ہوجاتے ہیں۔
تغیر کو ثبات ہے، زمانہ بدل رہا ہے اور بدلناہی ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی کاا نقلاب آچکا، نت نئی ان گنت ایجادات نے کتب بینی کی روایت کو دھندلادیا ہے۔ لوگوں کے پاس کتاب پڑھنے کا وقت نہیں رہا۔ وہ مشینوں کے ساتھ زندگی گزارتے گزارتے انجانے میں خود بھی مشین بنتے جا رہے ہیں۔ اب سرہانوں پہ سیل فون، ٹیبلٹ، آئی پیڈ وغیرہ رکھے ہوتے ہیں، کتابیں نہیں۔
کتابیں تو بے غرض دوست ہوتی ہیں لیکن کتاب فروشوں کی اولاد بھی ہوتی ہے اور ضروریات بھی۔ لوگوں نے کتابیں پڑھنا چھوڑ دیں اور کتب فروشوں کے دن تنگ ہوتے چلے گئے۔ کئی کتب خانے بند ہو رہے ہیں۔ اب کی بار فیروز سنز مال کے بند ہونے کی خبر آئی ہے۔ شہر دل کے قبرستان میں ایک نئی قبر کھد گئی ہے۔ یقینا معاشی تقاضوں، بڑھتے ہوئے مالی نقصان کے ہاتھوں مالکوں کو یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے۔ لاہور میں ہی اس ادارے کے اور بھی کتب خانے موجود ہیں لیکن... وہ خانقاہوں جیسی پرُ فیض عمارت، وہ بچپن کی ایک سلگتی ہوئی یاد جسے ہم بچوں کو ایک حسرت بھری داستان کی طرح سنایا کریں گے۔ وہ تو نہ رہی۔
بیشک انسان اپنے ہر نقصان کا خود ذمے دار ہے۔ شہر بہت پھیل گیا ہے مال روڈ جو کبھی لاہور کی تاریخ و ثقافت کا جھومر تھی جہاں غلام عباس، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی کے کئی افسانوں نے جنم لیا، جہاں منٹو ٹہلا کرتے تھے، جہاں چلتے پھرتے فیضؔ پر کئی وجدانی شعر اترے ہونگے، اب اس مال کو نئی نسل کے لاہوری کچھ بہت قریب سے نہیں جانتے۔ نئی مارکیٹوں نے نئے علاقوں کو پرُرونق بنا دیا ہے۔ ایک نسل ہے جو اس مال کے رومانس کے ساتھ زندہ رہے گی اور مر جائے گی۔
ایک دکان بند نہیں ہوئی، یادوں کا ایک سلسلہ بند ہوا ہے۔ بچپن کو کھلنے والا ایک دریچہ بند ہوا ہے۔ شہر لاہور کا ایک ثقافتی استعارہ اختتام پذیر ہوا ہے۔ کتنے ہی لوگوں کی زندگی کا ایک باب ختم ہوا ہے۔
بھلا کوئی دکانوں کے بھی نوحے لکھا کرتا ہے لیکن یہی تو مسئلہ ہے کہ یہ محض ایک دکان بند ہونے کا قصہ نہیں ہے ایک یاد گلی بند ہوئی ہے، ایک دوست نواز نے آنکھیں موند لی ہیں۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے
ہم اور تو کچھ نہیں کر سکتے مگر فیض مندان ایک دوسرے کو ایک دیرینہ یاد کا پرُسہ تو دے سکتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ جب سب لوگ کتابیں پڑھنا چھوڑ دینگے تو سوکھے ہوئے پھولوں کہاں رکھے جائیں گے۔یادوں کو زندہ رکھنے کے لیے کہاں محفوظ کیا جائے گا یا یہ یادیں بھی بڑی دکانوں کے برآمدوں اور موٹروںکے پارکوںمیں گم ہو جائیں گی۔
لکھنے کو تو بہت جی چاہ رہا ہے لیکن ایسی یادوں کو پڑھنے والے کون ہونگے اور کہاں سے ملیں گے۔وہ تو اب گرانی کے زمانے میں اسی مال روڈ کے ایک فٹ پاتھ پر چھٹی کے دن جمع ہوتے ہیں اور پرانی کتابوں کو سستے داموں خریدنے پر خوش ہوتے ہیں بعض اوقات کچھ نایاب کتابیں بھی مل جاتی ہیں بہت ہی سستے داموں جن کی نایابی ان کا مذاق اڑاتی ہے کہ اپنی اسی نایاب قسم کی اوقات پر فخر کرتی تھیں اب یہ سب ایک میلے سے فٹ پاتھ پر دیکھ لو اور اگر جیب ساتھ نہیں دیتی تو جیب کے مطابق اپنی تسکین کر لو۔ یہ تو آپ کی خواہشوں کا بازار ہے جہاں سے آپ اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں اور بعض اوقات نادر روزگار کتابیں بھی آپ کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔
شہر دل کے ایک گوشے میں ایک قبرستان آباد ہوتا ہے جو عمر کے ساتھ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس میں مدفون ہوتی ہیں کچھ بھولی بسری یادیں، چند دیرینہ لمحات، بچپن سے کچھ وابستہ کچھ قصے، عزیز دستوں کی معیت میں لگائے گئے کچھ قہقہے، بہائے گئے کچھ آنسو، عہد رفتہ سے جڑُی کچھ روایات، کچھ علامات۔ میرے بچپن سے جڑُی ایک ایسی ہی یاد، ایک علامت تھا لاہور کی مال روڈ پر واقع ایک کتب خانہ ''فیروز سنز''۔
کہنے کو تو کتب خانہ بھی ایک دکان ہی ہوتی ہے، کسی کاروباری ادارے سے وابستہ، جہاں کتاب نام کی جنس بیچی اور خریدی جاتی ہے لیکن ہوا کچھ یوں کہ لاہور میں بچپن اور جوانی گزارنیوالے انگنت لوگوں کی زندگیوں میں اس کی حیثیت محض ایک دکان کی نہیں اس سے بہت بڑھ کر کچھ ہے۔ ایک جذباتی وابستگی، ایک گہری یاد، ایک دلی لگاؤ اور بہت سے لوگوں کی طرح میں پہلی بار اس جگہ اپنے بابا کی انگلی پکڑ کر گئی تھی۔
اسکول کا کچھ سامان خریدا گیا اور پھر مجھے اجازت ملی کہ کہانیوں کی کتابیں منتخب کروں۔ بابا امی اپنے ذوق کی کتابیں دیکھنے میں مصروف ہو گئے۔ کتابیں تو دوست ہوتی ہیں اور یہاں تو اتنے بہت سارے دوست تھے۔ یہ جگہ تو خوب دوست نواز تھی۔ اس کتب خانے کا اپنا ایک رکھ رکھاؤ تھا۔ ہر طرف مطالعے کے شائق لوگ۔ ایک بڑی خاموش محرابوں والی عمارت جیسے کو ئی خانقاہ، جہاں سے لوگوں کو فیض ملتا ہو۔ ماحول میں رچی ہوئی کتابوں کی خوشبو، اوراق پلٹنے کی مقدس سرسراہٹ۔
لاہور کی فضاؤں میں پلنے بڑھنے والے کتنے ہی جید ادیب، شعراء، صحافی، استاد اس کتب خانے کے آنے والوںمیں سے تھے۔ لگتا تھا ان کے تخیل کی مہک بھی اس عمارت کے ماحول میں رچ بس گئی ہے۔ میں بڑی ہوئی تو بطور طالبعلم اور پھر استاد بن کر یہاں جانا ہوا۔ہر بار ایسے لگا میں اپنے بابا کی انگلی پکڑے ہوئے ہوں۔ وہ مقامات جہاں آپ اپنے والدین کا ہاتھ تھامے گئے ہوں وہ آپ کے دل میں ہمیشہ کے لیے آباد ہوجاتے ہیں۔
تغیر کو ثبات ہے، زمانہ بدل رہا ہے اور بدلناہی ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی کاا نقلاب آچکا، نت نئی ان گنت ایجادات نے کتب بینی کی روایت کو دھندلادیا ہے۔ لوگوں کے پاس کتاب پڑھنے کا وقت نہیں رہا۔ وہ مشینوں کے ساتھ زندگی گزارتے گزارتے انجانے میں خود بھی مشین بنتے جا رہے ہیں۔ اب سرہانوں پہ سیل فون، ٹیبلٹ، آئی پیڈ وغیرہ رکھے ہوتے ہیں، کتابیں نہیں۔
کتابیں تو بے غرض دوست ہوتی ہیں لیکن کتاب فروشوں کی اولاد بھی ہوتی ہے اور ضروریات بھی۔ لوگوں نے کتابیں پڑھنا چھوڑ دیں اور کتب فروشوں کے دن تنگ ہوتے چلے گئے۔ کئی کتب خانے بند ہو رہے ہیں۔ اب کی بار فیروز سنز مال کے بند ہونے کی خبر آئی ہے۔ شہر دل کے قبرستان میں ایک نئی قبر کھد گئی ہے۔ یقینا معاشی تقاضوں، بڑھتے ہوئے مالی نقصان کے ہاتھوں مالکوں کو یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے۔ لاہور میں ہی اس ادارے کے اور بھی کتب خانے موجود ہیں لیکن... وہ خانقاہوں جیسی پرُ فیض عمارت، وہ بچپن کی ایک سلگتی ہوئی یاد جسے ہم بچوں کو ایک حسرت بھری داستان کی طرح سنایا کریں گے۔ وہ تو نہ رہی۔
بیشک انسان اپنے ہر نقصان کا خود ذمے دار ہے۔ شہر بہت پھیل گیا ہے مال روڈ جو کبھی لاہور کی تاریخ و ثقافت کا جھومر تھی جہاں غلام عباس، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی کے کئی افسانوں نے جنم لیا، جہاں منٹو ٹہلا کرتے تھے، جہاں چلتے پھرتے فیضؔ پر کئی وجدانی شعر اترے ہونگے، اب اس مال کو نئی نسل کے لاہوری کچھ بہت قریب سے نہیں جانتے۔ نئی مارکیٹوں نے نئے علاقوں کو پرُرونق بنا دیا ہے۔ ایک نسل ہے جو اس مال کے رومانس کے ساتھ زندہ رہے گی اور مر جائے گی۔
ایک دکان بند نہیں ہوئی، یادوں کا ایک سلسلہ بند ہوا ہے۔ بچپن کو کھلنے والا ایک دریچہ بند ہوا ہے۔ شہر لاہور کا ایک ثقافتی استعارہ اختتام پذیر ہوا ہے۔ کتنے ہی لوگوں کی زندگی کا ایک باب ختم ہوا ہے۔
بھلا کوئی دکانوں کے بھی نوحے لکھا کرتا ہے لیکن یہی تو مسئلہ ہے کہ یہ محض ایک دکان بند ہونے کا قصہ نہیں ہے ایک یاد گلی بند ہوئی ہے، ایک دوست نواز نے آنکھیں موند لی ہیں۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے
ہم اور تو کچھ نہیں کر سکتے مگر فیض مندان ایک دوسرے کو ایک دیرینہ یاد کا پرُسہ تو دے سکتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ جب سب لوگ کتابیں پڑھنا چھوڑ دینگے تو سوکھے ہوئے پھولوں کہاں رکھے جائیں گے۔یادوں کو زندہ رکھنے کے لیے کہاں محفوظ کیا جائے گا یا یہ یادیں بھی بڑی دکانوں کے برآمدوں اور موٹروںکے پارکوںمیں گم ہو جائیں گی۔
لکھنے کو تو بہت جی چاہ رہا ہے لیکن ایسی یادوں کو پڑھنے والے کون ہونگے اور کہاں سے ملیں گے۔وہ تو اب گرانی کے زمانے میں اسی مال روڈ کے ایک فٹ پاتھ پر چھٹی کے دن جمع ہوتے ہیں اور پرانی کتابوں کو سستے داموں خریدنے پر خوش ہوتے ہیں بعض اوقات کچھ نایاب کتابیں بھی مل جاتی ہیں بہت ہی سستے داموں جن کی نایابی ان کا مذاق اڑاتی ہے کہ اپنی اسی نایاب قسم کی اوقات پر فخر کرتی تھیں اب یہ سب ایک میلے سے فٹ پاتھ پر دیکھ لو اور اگر جیب ساتھ نہیں دیتی تو جیب کے مطابق اپنی تسکین کر لو۔ یہ تو آپ کی خواہشوں کا بازار ہے جہاں سے آپ اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں اور بعض اوقات نادر روزگار کتابیں بھی آپ کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔