ٹریفک اور تجاوز

ہمارے لوگ جاہل، بدتہذیب اجڈ اور ناقابل اصلاح ہیں

h.sethi@hotmail.com

مجھے پہلی بار لفظ ٹریفک اور تجاوز کے درمیان تعلق، قربت اور ہمسائیگی کا اندازہ چند روز قبل اس وقت ہوا جب میں ایک مارکیٹ میں اپنی موٹر کار کھڑی کر کے ایک دکان میں گیا اور وہاں سے واپس آیا تو اپنی کار کے پیچھے ایک مہنگی اور نئی کار کو کھڑے اور میرے نکلنے کا رستہ بلاک کیے ہوئے پایا۔

دوسری کار کا مالک یا ڈرائیور وہاں موجود نہ تھا اور میری کار دائیں بائیں اور پیچھے والی کاروں کے درمیان پھنسی کھڑی تھی۔ کچھ دیر انتظار کے بعد میں نے دو راہگیروں کی مدد حاصل کرکے پیچھے والی کار کو دھکیل کر رستہ بنانے کی کوشش کی تو ناکامی ہوئی کیونکہ اس کار کا گیئر لگا ہوا تھا۔ مجھے چند ایک جگہ کام سے جانا تھا انتظار، بے چینی اور غصے میں بیس منٹ گزرگئے تو ایک خوش پوش شخص اس کار کا ریموٹ کنٹرول سے دروازہ کھولتے دیکھا۔

میں نے لپک کر اسے کار میں داخل ہونے سے روکا اور غصے کی حالت میں کہا ''یہ کیا بیہودگی تھی تم غلط گاڑی لگا کر میری کار بلاک کرکے چلے گئے'' بجائے معذرت کرنے یا معافی مانگنے کے اس نے بے رخی سے کہا ''گاڑی پارک کرنے کی نزدیک اور کوئی جگہ نہیں تھی اور کیا تم مجھے نہیں جانتے یا بتاؤں'' مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ بندہ سرکاری یا سیاسی ہے یا پھر بدمعاش لہٰذا میں نے کیچڑ میں پتھر پھینکنے سے اجتناب کرنا ہی مناسب سمجھا کیونکہ میں اپنے کپڑے گندے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ عزت بھی عزیز تھی، اس کے ایک فقرے ہی سے معلوم ہوگیا تھا کہ تجاوز اس کی سرشت میں شامل ہے اور وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔

ٹریفک متحرک ہوتی ہے جب کہ تجاوز ساکت اور وہ شخص دونوں خوبیاں بشکل برائیاں رکھتا تھا۔ اس نے گاڑی موڑتے ہوئے ایک بار مجھے گھور کر دیکھا جس کا مطلب مجھے خوب معلوم تھا۔ وہ چلا گیا لیکن مجھے سوچتا ہوا چھوڑ گیا۔

عام خیال ہے کہ ہمارے لوگ جاہل، بدتہذیب اجڈ اور ناقابل اصلاح ہیں لیکن یہی بے ہدائتے جب یورپ، برطانیہ یا امریکا وغیرہ جاتے ہیں تو یکدم تیر کی طرح سیدھے ہوجاتے ہیں۔ سڑک پر ہوں تو ٹریفک کا اصول نہیں توڑتے، کسی اسٹور میں ہوں تو قطار میں لگ جاتے ہیں ہاتھ میں کاغذ یا گتے کا خالی گلاس ہو تو ڈسٹ بن کے علاوہ کہیں نہیں پھینکتے اور قانون کے پاسدار و مہذب بن جاتے ہیں یہ ''جیسا دیس ویسا بھیس'' والی مثال ہے۔ یا سزا کے خوف کا نتیجہ لیکن جونہی یہ لوگ اپنی ملکی پرواز کے ذریعے واپس پاکستان کے لیے جہاز میں سوار ہوتے ہیں تو اپنی سیٹ پر سے اٹھ کر پیچھے بیٹھے دوست سے بلند آواز میں ہنسی ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں جیسے کہ وہ بھاٹی لوہاری یا انار کلی بازار میں دہی بھلے والے کھوکھے پر کھڑے ہوں۔ ہمارے لوگوں کے ایسے دوغلے رویے اور عادت کا تجزیہ اور تدارک ایک اہم معاملہ ہے۔ جو بچوں کے والدین اساتذہ اور اہل دانش کے لیے توجہ طلب ہے۔

آپ کسی مارکیٹ کا چکر لگا کر دیکھیں اسٹور یا دکان کی حدود کے باہر بھی اس اسٹور کا سامان سڑک یا فٹ پاتھ پر سجایا ہوا ملے گا۔ تجاوز کی عادت یا حرص زمین کی حد تک محدود نہیں ہمارے بااختیار حکمرانوں کی عادت فطرت ثانیہ بن کر نچلی سطح تک یعنی بیوروکریسی اور ''کلرکوکریسی'' کی جڑوں میں داخل ہوچکی ہے۔

حکمرانوں کا اختیارات سے تجاوز یا لازمی امور سے انحراف کا یہ سطور لکھنے تک یہ عالم ہے کہ ایک آئینی اور ضروری عہدہ جسے آڈیٹر جنرل کہتے ہیں ملک میں پہلی بار کئی روز سے خالی پڑا ہوا ہے۔ اسی طرح صوبہ پنجاب میں کوئی مستقل انسپکٹر جنرل پولیس بھی نہیں ہے۔ ان دونوں بے حد اہم عہدوں پر عدم تعیناتی کا رویہ بھی اختیارات کے منفی تجاوز کا غماز ہے جس میں مطلق العنانی کا واضح پیغام ہے۔


ملک کے چاروں صوبوں میں ٹریفک کو قانون کے دائرے میں رکھنے اور کنٹرول کرنے کے لیے موٹر وہیکل آرڈیننس موجود ہے جس کا اطلاق موٹر وہیکلز اور ان کے ڈرائیوروں پر ہوتا ہے جس کے مطابق موٹروں کی فٹنس اور ڈرائیوروں کا لائسنس ہولڈر ہونا ضروری ہے۔ کسی بھی قسم کی آٹو موبائل چلانے کے لیے نہ صرف لائسنس لازمی ہے اس مخصوص موٹر کے لیے اسے چلانے کے لیے ٹیسٹ میں پاس ہونا بھی ضروری ہے۔

اس وقت موٹر بائیکس، رکشہ، ویگن، ٹریکٹر، بس، ٹرک، جیپ وغیرہ سڑکوں پر چلانے والوں کی اکثریت کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو جعلی یا Expired ہیں جن کے پاس جینوئن ڈرائیونگ لائسنس ہیں وہ بھی نوے فیصد ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کیے بغیر ہیں۔ بیشمار کم عمر بچے موٹر سائیکل اور گاڑیاں چلارہے ہیں۔ لاتعداد آٹو موبائل جو سڑکوں پر ہیں۔ مکینکلی Unfit ہیں ان ہی وجوہات کی وجہ سے سڑکوں پر حادثات میں اضافہ ہورہا ہے۔

ابھی چند ماہ قبل انجینئرنگ یونیورسٹی کا ایک گریجویٹ جو گزشتہ تیس سال سے کار چلا رہا اور ہر دوسرے تیسرے ماہ بیرون ملک جاتا ہے کینیڈا میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا خواہشمند ہوا تو دو بار وہاں ڈرائیونگ ٹیسٹ میں فیل ہوگیا۔ ایک بار انڈیکیٹر دیئے بغیر لین تبدیل کرنے پر اور دوسری بار پیچھے دیکھنے کے تینوں Mirrors پر نظر نہ رکھنے پر۔

ہماری ہی نہیں کسی بھی شہر بلکہ ملک کی ٹریفک اس کے شہریوں کی ذہنی تربیت کی غماز ہوتی ہے۔ آپ کسی بھی ملک کے شہر کے چوراہے پر آدھا گھنٹہ کھڑے ہوکر کانوں اور نظروں کا استعمال کرنے کے بعد وہاں کے لوگوں کی تعلیم و تربیت، اخلاق، تہذیب، اصول پسندی، رواداری، احترام انسانیت، قانون کی عملداری، خدا خوفی، عجلت پسندی و بے صبری بلکہ مکمل خصلت کا چلتا پھرتا نظارہ کرسکتے ہیں جو اس معاشرے کی سرشت کا آئینہ ہوگا۔

ہماری ٹریفک کی بدنظمی دراصل ہمارے کیریکٹر کا عکس ہے اور یہ بگاڑ مستقل نہیں کیونکہ یہی لوگ کسی یورپین ملک کو تو چھوڑیئے اپنی ہی موٹر وے پر سفر کرتے ہیں تو یکدم Disciplined ہوجاتے ہیں۔ اس کا تجزیہ کریں تو وہی دو وجوہات معلوم ہوتی ہیں۔ ایک گرفت اور سزا کا خوف دوسرا دائیں بائیں آگے پیچھے والے موٹر ڈرائیوروں کا ڈسپلن۔ نتیجہ یہ کہ مادر پدر آزاد شہر کے اندر جو آٹو موبائلز چلانے والے دوسروں کی تقلید کی وجہ سے بدنظمی پیدا کرتے ہیں۔

اگر دوسروں کو صحیح ڈرائیونگ کرتے دیکھیں گے تو وہ خود بھی موٹر وے ٹریفک والا ڈسپلن اپنا لیں گے۔ ہر روز کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہمارا ٹریفک کو کنٹرول اور ریگولیٹ کرنیوالا پولیس اسٹاف ٹریفک کنٹرول کرنے میں ناکام ہے ورنہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ موٹر وے پر تو ٹریفک صحیح چل رہی ہو لیکن ان ہی گاڑیوں کے ڈرائیور شہر کی حدود میں داخل ہوتے ہی مادر پدر آزاد ہوجائیں۔

شہروں کے اندر ٹریفک کی بدنظمی ٹھیک کرنے میں موجودہ وارڈنز ناکام ہیں یا تو انھیں پنجاب پولیس میں ضم کرنا ہوگا یا ان سے ٹریفک کنٹرول کروانے کے لیے ان کی شکایات کا ازالہ کیا جائے تاکہ وہ چار چار سات سات کی ٹکڑیوں میں اکٹھے ہو کر گپ شپ کرنے اور اپنے موبائل ٹیلیفونوں سے کھیلنے میں وقت گزارنے کی بجائے اپنے فرائض منصبی ادا کریں۔
Load Next Story