کراچی کے مسائل اور پی ایس پی کا دھرنا
خیر سے اب قتل وغارت گری سے اس شہر کو کافی حد تک نجات مل چکی ہے
ملک کو سب سے زیادہ ٹیکس، زرمبادلہ اورملازمتیں فراہم کرنے والے شہرکراچی کے عوام کے ساتھ بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی میں کھلواڑ کرنا اس ترقی یافتہ دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ پانی، بجلی، گیس اورصفائی کی حالت زار نے تو اس شہرکے باسیوں کو پریشان کر ہی رکھا ہے بدقسمتی سے روز افزوں اسٹریٹ کرائمز، ڈاکے، بھتے اور لوٹ مار کے واقعات نے بھی شہریوں کو عجب کشمکش میں مبتلا کردیا ہے۔
خیر سے اب قتل وغارت گری سے اس شہر کو کافی حد تک نجات مل چکی ہے ورنہ روز ہی بیس سے پچیس لوگوں کا مارا جانا معمول بن چکا تھا۔اب اس وقت کراچی کا سب سے گمبھیر مسئلہ شہر کا کچرا کنڈی میں تبدیل ہونا ہے۔ کراچی کی چھوٹی بڑی سڑکوں پر عوام کوکچرے کے ڈھیروں کے ساتھ ساتھ گٹر کے گندے پانی کا بھی سامنا ہے۔ دیکھنے میں آرہا ہے کہ شہر کے تمام بڑے چوراہوں پر اکثرگٹر کا پانی سیلاب کی طرح بہہ رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ سڑکوں گلیوں سے کچرا اٹھانا بلدیہ کی ذمے داری ہے اور گندے پانی کی نکاسی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ذمے داری ہے مگر دونوں ہی اپنے فرائض سے غافل چلے آرہے ہیں۔
بلدیہ کا چارج کراچی کے میئر کے پاس ہے اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا محکمہ حکومت سندھ کی تحویل میں ہے۔ دونوں کی بے حسی کی وجہ سے اب تو شہری یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ دونوں کی ملی بھگت سے ان کو ناجائز تنگ کیا جا رہا ہے اور شہر کی فضا خراب کی جا رہی ہے۔ ماضی میں کبھی کراچی کی یہ حالت زار نہ تھی۔
کراچی دس سال پہلے تک صفائی ستھرائی کے حوالے سے پاکستان کے دوسرے شہروں سے بہتر تھا۔ اس سے بھی پہلے یعنی قیام پاکستان سے قبل تو کراچی کو پورے برصغیر کے تمام شہروں میں سب سے زیادہ صاف ستھرا شہر مانا جاتا تھا۔ 1933 میں مدراس میں منعقد ہونے والی میئرز کانفرنس میں جس میں اس وقت تک قائم ہونے والی کلکتہ، ممبئی، دہلی، مدراس اورکراچی کی میونسپل کارپوریشنز کے میئرز شریک تھے کراچی کو برصغیر کے تمام شہروں میں سب سے زیادہ صاف ستھرا شہر قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت کراچی کے میئر جمشید نسروان جی مہتہ تھے جن کے دور میں کراچی کی سڑکوں کو صابن اور پانی سے دھویا جاتا تھا۔ وہ کراچی کے ایک مثالی میئر تھے۔
کراچی کے موجودہ میئر کا کہنا ہے کہ وہ بے اختیار ہیں چنانچہ کچرا اٹھوانے سے قاصر ہیں۔ حکومت سندھ نے ان کے اختیارات غصب کر رکھے ہیں۔ حکومت سندھ اس کے جواب میں کہتی ہے کہ میئر صاحب کام کرنا نہیں چاہتے اس لیے وہ اختیارات کا رونا رو رہے ہیں۔ ان دونوں کی جنگ میں کراچی کے عوام پس کر رہ گئے ہیں ۔ جب دونوں ہی ذمے داران اپنا پلّو جھاڑ رہے ہیں تو وہ پھرکس کے آگے جاکر اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں فریاد کریں؟ عوام کی بے چینی، متعلقہ اداروں کی ہٹ دھرمی اور شہرکے بڑھتے ہوئے مسائل کو دیکھتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی نے عوامی مسائل کو حل کرانے کے لیے حکومت اور بلدیہ کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔
پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال اورصدر انیس قائم خانی نے اپنی پارٹی کے دیگر عہدیداران کے ساتھ کراچی کے عوامی مسائل کے عملی طور پر حل ہونے تک دھرنا دینا شروع کردیا ہے۔ وہ کراچی پریس کلب کے باہرکئی روز سے دھرنا دے رہے ہیں۔ ان کے احتجاجی دھرنے کے سولہ مطالبات ہیں ان میں شہر سے کچرا صاف کرنے کو اولیت دی گئی ہے۔ شہر کی تمام مذہبی سماجی تنظیمیں، تاجر برادری اور سیاسی پارٹیوں کے وفود ان سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے یہاں جوق در جوق آرہے ہیں۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے عہدیداران کا اپنی پارٹیوں کو خیرباد کہہ کر پی ایس پی میں شمولیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
سندھ حکومت کے وزیر ٹرانسپورٹ کی سربراہی میں ایک وفد نے مصطفیٰ کمال سے ملاقات کی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس وفد نے پی ایس پی کے مطالبات پر غورکرنے کا وعدہ کیا ہے۔ پی ایس پی والوں کا کہنا ہے کہ وہ وعدوں پر نہیں عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ جب شہرکے مسائل عملی طور پر حل ہونا شروع ہوں گے وہ اپنا دھرنا ختم کردیں گے۔
مصطفیٰ کمال کے اس دھرنے میں شہری بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔ جب دھرنے میں شریک ایک شخص سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں اتنا پرجوش ہے تو اس نے کہا کہ کراچی کو لاوارث سمجھ لیا گیا ہے ہم حکومت اور میئر کراچی کی اس شہر کے مسائل کے حل کے سلسلے میں بے حسی دیکھ کر مصطفیٰ کمال کے جذبے کو سلام کرنے یہاں آئے ہیں۔ وہ پہلے بھی اس شہر کے مسائل کو حل کرچکے ہیں اور انھوں نے اپنی میئری کے زمانے میں اس شہرکو بہت کچھ دیا جس کا احسان ہم کبھی بھی نہیں بھول سکتے اور ہمیں امید ہے کہ اگر عوام نے انھیں پھر موقعہ دیا تو وہ اس شہر کے تمام مسائل حل کردیں گے اور کراچی کو گل گلزار بنادیں گے۔
اس دھرنے کی خاص بات یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی اپنے رفقا کے ساتھ یہاں چوبیس گھنٹے موجود ہوتے ہیں وہ رات کو بھی یہاں فٹ پاتھ پر سو رہے ہیں۔ جب کہ عمران خان کے دھرنے میں ہم نے یہ مخلصی نہیں دیکھی تھی وہ رات کے وقت اپنے مداحوں کو چھوڑ کر اپنی رہائش گاہ پر جاکر سوتے تھے اسی طرح مولانا طاہر القادری اپنے پُرآسائش کیبن میں رات گزارتے تھے۔ یہ پارٹی ابھی صرف ایک سال قبل ہی وجود میں آئی ہے۔
مبصرین کے مطابق اس نے اس مختصر سی مدت میں نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں عوامی توجہ حاصل کرلی ہے۔ آئندہ الیکشن میں اس نے اپنے امیدوار دراصل کراچی پر کئی سال غالب رہنے والی پارٹی کی طرح خود کو ملک کے صرف ایک طبقے تک محدود نہیں رکھا ہے اس طرح اس نے نفرت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کرکے نہ صرف پاکستانیت اور وطن پرستی کو اپنی سیاست کا محور قرار دیا ہے بلکہ ملک کے تمام صوبوں کے عوام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے قدم بڑھایا ہے۔
اس پارٹی کے رہنماؤں کی بدولت کراچی کے عوام تیس سال سے یہاں مسلط شخصی، مطلق العنانی اور سیاسی گھٹن سے ضرور آزاد ہوگئے ہیں مگر اب کراچی کے عوام کو درپیش بنیادی شہری مسائل سے نجات دلانا اس کے رہنماؤں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ اب یہ اپنی احتجاجی تحریک کے ذریعے شہر کے سلگتے مسائل کو کس حد تک حل کرا پاتے ہیں اس کا دار و مدار حکومت اور بلدیاتی اداروں کے ان سے تعاون پر منحصر ہے مگر یہ بات ضرور ہے کہ عوامی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں حکومت سمیت شہر کی تمام سیاسی پارٹیوں کو آگے آنا ہوگا۔ کیونکہ اس میں ان کا آئندہ الیکشن میں کامیابی کا راز پنہا ہے۔ اب گرمی کے موسم کے شروع ہوتے ہی کراچی میں پانی کی قلت اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی صورت حال دن بہ دن خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی کو مزید پانی سپلائی کے لیے حکومت سندھ عوام کو ڈھارس دے رہی ہے کہ K-4 منصوبے کی تکمیل کے بعد شہر کو اس کی ضرورت کے مطابق پانی میسر آنے لگے گا مگر اس سے پہلے K-3 منصوبے کے سلسلے میں بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ اس کی تکمیل کے بعد پانی کی کمی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ جہاں تک بجلی کا معاملہ ہے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ شہریوں کو یہ پریشانی تو اپنی جگہ ہے بجلی کے بلوں میں اوور بلنگ نے شہریوں کی پریشانی کو مزید بڑھادیا ہے اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے کارکنان نے کے الیکٹرک کے خلاف شہر میں دھرنوں کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔
پی ایس پی سمیت شہر کی دیگر سیاسی پارٹیاں بھی کے الیکٹرک سے اوور بلنگ کی مد میں دو ارب روپے سے زیادہ وصول کی گئی رقم کو شہریوں کو واپس کرنے کا پرزور مطالبہ کر رہی ہیں۔ کاش کہ کے الیکٹرک کے ارباب اختیار عوام پر ترس کھا کر ان کا حق انھیں لوٹا دیں اور لوڈ شیڈنگ کم کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار معاہدے کے تحت بڑھادیں۔
خیر سے اب قتل وغارت گری سے اس شہر کو کافی حد تک نجات مل چکی ہے ورنہ روز ہی بیس سے پچیس لوگوں کا مارا جانا معمول بن چکا تھا۔اب اس وقت کراچی کا سب سے گمبھیر مسئلہ شہر کا کچرا کنڈی میں تبدیل ہونا ہے۔ کراچی کی چھوٹی بڑی سڑکوں پر عوام کوکچرے کے ڈھیروں کے ساتھ ساتھ گٹر کے گندے پانی کا بھی سامنا ہے۔ دیکھنے میں آرہا ہے کہ شہر کے تمام بڑے چوراہوں پر اکثرگٹر کا پانی سیلاب کی طرح بہہ رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ سڑکوں گلیوں سے کچرا اٹھانا بلدیہ کی ذمے داری ہے اور گندے پانی کی نکاسی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ذمے داری ہے مگر دونوں ہی اپنے فرائض سے غافل چلے آرہے ہیں۔
بلدیہ کا چارج کراچی کے میئر کے پاس ہے اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا محکمہ حکومت سندھ کی تحویل میں ہے۔ دونوں کی بے حسی کی وجہ سے اب تو شہری یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ دونوں کی ملی بھگت سے ان کو ناجائز تنگ کیا جا رہا ہے اور شہر کی فضا خراب کی جا رہی ہے۔ ماضی میں کبھی کراچی کی یہ حالت زار نہ تھی۔
کراچی دس سال پہلے تک صفائی ستھرائی کے حوالے سے پاکستان کے دوسرے شہروں سے بہتر تھا۔ اس سے بھی پہلے یعنی قیام پاکستان سے قبل تو کراچی کو پورے برصغیر کے تمام شہروں میں سب سے زیادہ صاف ستھرا شہر مانا جاتا تھا۔ 1933 میں مدراس میں منعقد ہونے والی میئرز کانفرنس میں جس میں اس وقت تک قائم ہونے والی کلکتہ، ممبئی، دہلی، مدراس اورکراچی کی میونسپل کارپوریشنز کے میئرز شریک تھے کراچی کو برصغیر کے تمام شہروں میں سب سے زیادہ صاف ستھرا شہر قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت کراچی کے میئر جمشید نسروان جی مہتہ تھے جن کے دور میں کراچی کی سڑکوں کو صابن اور پانی سے دھویا جاتا تھا۔ وہ کراچی کے ایک مثالی میئر تھے۔
کراچی کے موجودہ میئر کا کہنا ہے کہ وہ بے اختیار ہیں چنانچہ کچرا اٹھوانے سے قاصر ہیں۔ حکومت سندھ نے ان کے اختیارات غصب کر رکھے ہیں۔ حکومت سندھ اس کے جواب میں کہتی ہے کہ میئر صاحب کام کرنا نہیں چاہتے اس لیے وہ اختیارات کا رونا رو رہے ہیں۔ ان دونوں کی جنگ میں کراچی کے عوام پس کر رہ گئے ہیں ۔ جب دونوں ہی ذمے داران اپنا پلّو جھاڑ رہے ہیں تو وہ پھرکس کے آگے جاکر اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں فریاد کریں؟ عوام کی بے چینی، متعلقہ اداروں کی ہٹ دھرمی اور شہرکے بڑھتے ہوئے مسائل کو دیکھتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی نے عوامی مسائل کو حل کرانے کے لیے حکومت اور بلدیہ کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔
پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال اورصدر انیس قائم خانی نے اپنی پارٹی کے دیگر عہدیداران کے ساتھ کراچی کے عوامی مسائل کے عملی طور پر حل ہونے تک دھرنا دینا شروع کردیا ہے۔ وہ کراچی پریس کلب کے باہرکئی روز سے دھرنا دے رہے ہیں۔ ان کے احتجاجی دھرنے کے سولہ مطالبات ہیں ان میں شہر سے کچرا صاف کرنے کو اولیت دی گئی ہے۔ شہر کی تمام مذہبی سماجی تنظیمیں، تاجر برادری اور سیاسی پارٹیوں کے وفود ان سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے یہاں جوق در جوق آرہے ہیں۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے عہدیداران کا اپنی پارٹیوں کو خیرباد کہہ کر پی ایس پی میں شمولیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
سندھ حکومت کے وزیر ٹرانسپورٹ کی سربراہی میں ایک وفد نے مصطفیٰ کمال سے ملاقات کی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس وفد نے پی ایس پی کے مطالبات پر غورکرنے کا وعدہ کیا ہے۔ پی ایس پی والوں کا کہنا ہے کہ وہ وعدوں پر نہیں عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ جب شہرکے مسائل عملی طور پر حل ہونا شروع ہوں گے وہ اپنا دھرنا ختم کردیں گے۔
مصطفیٰ کمال کے اس دھرنے میں شہری بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔ جب دھرنے میں شریک ایک شخص سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں اتنا پرجوش ہے تو اس نے کہا کہ کراچی کو لاوارث سمجھ لیا گیا ہے ہم حکومت اور میئر کراچی کی اس شہر کے مسائل کے حل کے سلسلے میں بے حسی دیکھ کر مصطفیٰ کمال کے جذبے کو سلام کرنے یہاں آئے ہیں۔ وہ پہلے بھی اس شہر کے مسائل کو حل کرچکے ہیں اور انھوں نے اپنی میئری کے زمانے میں اس شہرکو بہت کچھ دیا جس کا احسان ہم کبھی بھی نہیں بھول سکتے اور ہمیں امید ہے کہ اگر عوام نے انھیں پھر موقعہ دیا تو وہ اس شہر کے تمام مسائل حل کردیں گے اور کراچی کو گل گلزار بنادیں گے۔
اس دھرنے کی خاص بات یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی اپنے رفقا کے ساتھ یہاں چوبیس گھنٹے موجود ہوتے ہیں وہ رات کو بھی یہاں فٹ پاتھ پر سو رہے ہیں۔ جب کہ عمران خان کے دھرنے میں ہم نے یہ مخلصی نہیں دیکھی تھی وہ رات کے وقت اپنے مداحوں کو چھوڑ کر اپنی رہائش گاہ پر جاکر سوتے تھے اسی طرح مولانا طاہر القادری اپنے پُرآسائش کیبن میں رات گزارتے تھے۔ یہ پارٹی ابھی صرف ایک سال قبل ہی وجود میں آئی ہے۔
مبصرین کے مطابق اس نے اس مختصر سی مدت میں نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں عوامی توجہ حاصل کرلی ہے۔ آئندہ الیکشن میں اس نے اپنے امیدوار دراصل کراچی پر کئی سال غالب رہنے والی پارٹی کی طرح خود کو ملک کے صرف ایک طبقے تک محدود نہیں رکھا ہے اس طرح اس نے نفرت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کرکے نہ صرف پاکستانیت اور وطن پرستی کو اپنی سیاست کا محور قرار دیا ہے بلکہ ملک کے تمام صوبوں کے عوام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے قدم بڑھایا ہے۔
اس پارٹی کے رہنماؤں کی بدولت کراچی کے عوام تیس سال سے یہاں مسلط شخصی، مطلق العنانی اور سیاسی گھٹن سے ضرور آزاد ہوگئے ہیں مگر اب کراچی کے عوام کو درپیش بنیادی شہری مسائل سے نجات دلانا اس کے رہنماؤں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ اب یہ اپنی احتجاجی تحریک کے ذریعے شہر کے سلگتے مسائل کو کس حد تک حل کرا پاتے ہیں اس کا دار و مدار حکومت اور بلدیاتی اداروں کے ان سے تعاون پر منحصر ہے مگر یہ بات ضرور ہے کہ عوامی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں حکومت سمیت شہر کی تمام سیاسی پارٹیوں کو آگے آنا ہوگا۔ کیونکہ اس میں ان کا آئندہ الیکشن میں کامیابی کا راز پنہا ہے۔ اب گرمی کے موسم کے شروع ہوتے ہی کراچی میں پانی کی قلت اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی صورت حال دن بہ دن خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی کو مزید پانی سپلائی کے لیے حکومت سندھ عوام کو ڈھارس دے رہی ہے کہ K-4 منصوبے کی تکمیل کے بعد شہر کو اس کی ضرورت کے مطابق پانی میسر آنے لگے گا مگر اس سے پہلے K-3 منصوبے کے سلسلے میں بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ اس کی تکمیل کے بعد پانی کی کمی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ جہاں تک بجلی کا معاملہ ہے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ شہریوں کو یہ پریشانی تو اپنی جگہ ہے بجلی کے بلوں میں اوور بلنگ نے شہریوں کی پریشانی کو مزید بڑھادیا ہے اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے کارکنان نے کے الیکٹرک کے خلاف شہر میں دھرنوں کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔
پی ایس پی سمیت شہر کی دیگر سیاسی پارٹیاں بھی کے الیکٹرک سے اوور بلنگ کی مد میں دو ارب روپے سے زیادہ وصول کی گئی رقم کو شہریوں کو واپس کرنے کا پرزور مطالبہ کر رہی ہیں۔ کاش کہ کے الیکٹرک کے ارباب اختیار عوام پر ترس کھا کر ان کا حق انھیں لوٹا دیں اور لوڈ شیڈنگ کم کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار معاہدے کے تحت بڑھادیں۔