چیئرمین سینیٹ مان گئے

چیئرمین سینیٹ کے اس انتہائی اقدام پر اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی

۔ فوٹو؛ فائل

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سینیٹ کے اجلاسوں میں حکومتی وزراء کی عدم دلچسپی اور ان کی مسلسل غیر حاضری کا کئی مرتبہ نوٹس لیا اور انھیں تنبیہ بھی کی کہ سینیٹ میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات کے لیے متعلقہ وزیر کا اجلاس میں موجود ہونا لازمی ہوتا ہے مگر ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان سوالات کا جواب نہیں مِل پاتا ایسی صورت میں چیئرمین سینیٹ اپنے تئیں بے بس محسوس کرتے تھے یہاں تک کہ جمعہ کو انھوں نے احتجاجاً سینیٹ کا اجلاس ملتوی کر کے خود ایوان سے یہ کہہ کر واک آوٹ کر دیا کہ ایسی صورت میں اس بے معنی مشق کو جاری رکھنے کی آخر کیا ضرورت ہے۔

چیئرمین سینیٹ کے اس انتہائی اقدام پر اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی اور جناب رضا ربانی کو منانے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کو منانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور انھیں ایوان بالا میں وزراء کی حاضری یقینی بنانے کی یقین دہانی کرا دی ہے چنانچہ چیئرمین سینیٹ نے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنیوالا اجلاس آج (پیر کو) شام چار بجے طلب کر لیا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق ہفتہ کو تیسری بار رضا ربانی کی رہائشگاہ پر گئے اور انھیں وزیراعظم کی جانب سے سینیٹ میں وزراء کی حاضری یقینی بنانے کا پیغام پہنچایا جس پر میاں رضا ربانی نے مستعفی ہونے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اسحاق ڈار نے کہا چیئرمین سینیٹ کو ایوان بالا میں وزراء کی حاضری یقینی بنانے کی یقین دہانی کرائی ہے، تمام وزراء سینیٹ سمیت دونوں ایوانوں کی کارروائی کو وقت دیں گے۔

ملک میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے مگر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ تو درکنار دیگر وزراء کا بھی جانا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے جب کہ ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کی بڑی تعداد بھی ایوان کی کارروائی میں شریک نہیں ہوتی حالانکہ جمہور کا نمایندہ ہونے کے حوالے سے وزراء کی اسمبلیوں میں حاضری یقینی ہونی چاہیے بالخصوص سوالات کے سیشن میں وزراء اور متعلقہ سیکریٹریوں کا ایوان میں موجود ہونا بہت لازمی ہوتا ہے تا کہ سوالات کے معتبر جوابات مل سکیں بصورت دیگر یہ صورت حال اسپیکر اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کے لیے خجالت کا باعث بنتی ہے۔


اب جب کہ چیئرمین سینیٹ کو منا لیا گیا ہے اور وہ آج سے سینیٹ کے اجلاس میں جانا شروع کریں گے لیکن کیا وزراء حضرات ایک دم سے اپنی سابقہ روش ترک کر کے اجلاسوں میں حاضری کو باقاعدہ بنا دیں گے یا ان کو کسی تادیبی کارروائی کی بھی ضرورت ہو گی۔ اس حوالے سے بھی پارلیمنٹ کو کوئی ضابطہ بنانا چاہیے تاکہ پارلیمنٹیرینز کو پتہ ہو کہ اگر وہ ایوان میں حاضر نہ ہوئے تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ہمارے پارلیمنٹیرین کو یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جمہوری کلچر انھی کے رویوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

پارلیمنٹرینز جتنے زیادہ پارلیمانی ایوان میں آئیں گے، جمہوری رویے اتنے زیادہ مضبوط ہوں گے۔ موجودہ پارلیمنٹ جب سے وجود میں آئی ہے ، وزیراعظم چند ایک مواقع پر ہی ایوان میں آئے ہیں جب کہ تحریک انصاف کے چیئرمین بھی شاید ایک دو بار ہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے ہیں۔ ایوان میں اکثر کورم پورا نہیں ہوتا، سینیٹ کے اجلاس میں تو وزراء حضرات جاتے ہی نہیں حالانکہ پارلیمانی نظام میں سینیٹ ایسا ادارہ ہے جو صحیح معنوں میں وفاق کی نمایندگی کرتا ہے کیونکہ یہاں پاکستان کی تمام اکائیوں کو برابر نشستیں حاصل ہیں، اس قدر اہم ایوان کو نظرانداز کرنے سے ہمارے وزراء کی دلچسپی کا بخوبی اندازہ ہوجاتاہے۔

ہمارے پارلیمنٹیرینز کو اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ سینیٹ کو نظرانداز کرنا جمہوریت نظام کو نقصان پہنچانے کے مترداف ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے اختیارات میں اضافہ بھی کیا جانا چاہیے۔ ہمارے سیاسی کلچر میں ایم این اے اور ایم پی اے کو زیادہ اہمیت حاصل ہے جب کہ سینیٹر کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر سینیٹ کے اختیارات میں اضافہ کر دیا جائے گا تو اس سے اس ایوان کی اہمیت میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

بہرحال حکومت نے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کو منا کر درست سمت میں قدم اٹھا یا ہے اور چیئرمین سینیٹ نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کراکے ارباب اقتدار کو درست انداز میں تنبیہ کی ہے کہ جمہوریت کا مطلب محض وزارتیں لینا ہی نہیں ہے بلکہ پارلیمان میں آکر جواندہی کے عمل سے گزرنا بھی جمہوریت کے لیے لازم ہے۔

 
Load Next Story