بیٹے کے ہاتھ کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں

خداکی کتاب میں تو توازن، اعتدال، معاف کرنا، انصاف اورمحبت کاپیغام ہے

raomanzarhayat@gmail.com

کچھ عرصہ سے زبردست خواہش ہے۔ شائد زندگی کی سب سے بڑی، خداکی آخری کتاب کوحفظ کرنا چاہتا ہوں۔ جس سے بھی بات کی، عمردیکھ کرسوالیہ نظروں سے دیکھا۔ مجھے اس رویہ کی کوئی پروا نہیں۔ قرآن مجیدکوبچپن میں حفظ کرنے کی ہمت کی تھی، تھوڑاساحصہ یادکرپایا۔ خیراب اس دھن میں لگاہواہوں کہ عظیم کتاب کو سینے میں محفوظ کرلوں۔ خواہش کی وجہ بالکل سادہ سی ہے۔

خدا کے کلام کو روز ترجمہ کے ساتھ پڑھتا ہوں مگراس نور کو اپنی روح میں سمونے کے بعد عرض کرناچاہتا ہوں کہ خداکی کتاب میں تو توازن، اعتدال، معاف کرنا، انصاف اورمحبت کاپیغام ہے۔مشال خان کے بیہمانہ قتل کے بعداپنی خواہش پر جلد از جلدعمل کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ ہمارے عظیم دین میں کہیں بھی خدا نے ناحق خون کی اجازت نہیں دی۔ طالبعلم کی حیثیت سے اسلام جیسے عظیم مذہب کوسمجھنے کی معمولی سی استطاعت رکھتا ہوں۔

ہرگز ہرگز عالم دین نہیں کیونکہ وہ توایک ایسی منزل بلکہ درجہ ہے،جس کے متعلق میرے جیسے گناہ گارسوچ بھی نہیں سکتے۔کیسے کہوں کیسے لکھوں کہ ہمارے مذہبی طبقے کی ایک اقلیت،خدا اورآقاؐ کے احکامات سے رو گردانی کررہی ہے۔اس اقلیت نے ہمارے خطے میں دین کے نام پر بھیانک تجاوز کیا ہے۔ تشدد، فرقہ پرستی اور عدم برداشت اسی ذہنیت کی عملی شکل ہے۔

یہ توفوج ہے جواس عفریت سے مسلسل لڑرہی ہے۔ورنہ یہ لوگ تو پورے ملک پرقبضہ کرنے کاخواب دیکھ رہے تھے۔ مردان کی ایک درسگاہ میں جوکچھ ہوا،اس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ ڈالاہے۔ خیر درسگاہ کالفظ تواب متروک ہوناچاہیے کیونکہ وہاں توشائدجہالت کادرس دیاجارہاتھا۔یاشائدکوئی بھی سبق نہیں دیاجارہاتھا۔

مشال خان ایک عام طالبعلم تھا۔تیئس برس کاوجیہہ نوجوان، جس کی زندگی میں اُمیدتھی،خواب تھے۔ہماری تمام درسگاہوں میں ایسے طالبعلم لاکھوں کی تعدادمیں ہیں۔ متوسط طبقے کے خاندان سے تعلق رکھنے والایہ شخص صرف ایک جرم کامرتکب تھا۔وہ سوچتاتھا۔ناانصافی کوروزدیکھ دیکھ کر کُڑھتاتھا۔اس کادل جلتاتھاجب اردگردبلکہ ہرطرف معاشرتی طورپرزیادتی کودیکھتا تھااوربے بسی سے خاموش ہوجاتا تھا۔

جرنلزم کے شعبے میں زیرِتعلیم یہ نوجوان باغی تو قطعاً نہیں تھا مگرمستقبل کوبہترکرنے کاخواب ضرور دیکھتا تھا۔ خواب کاانجام کیاہوا۔یہ اب پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیاجانتی ہے۔مشال خان یونیورسٹی میں ٹیوشن فیس کے آئے دن اضافے پر بھی آواز بلند کرتا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے رویے کے خلاف بھی آوازاُٹھاتاتھا۔

مشال کی زندگی ختم کرنے سے کئی دن پہلے سب بھانپ چکے تھے کہ کوئی سانحہ ہونے والاہے۔مگرکسی نے بھی بروقت قدم اُٹھانے کی کوشش نہیں کی۔مشال خان کو کمرے سے نکال کرجس ظالمانہ طریقے سے قتل کیاگیا،ان سنگین حالات کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ مجرمانہ طورپرخاموش رہی۔جس جرم کی سزااس نوجوان کودی گئی،معلوم ہواکہ وہ تو سر زد ہی نہیں ہوا ۔سوال یہ ہے کہ طالبعلموں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی ملازمین کس حیثیت میں مشال پرحملہ آورہوئے۔ درجنوں سرکاری ملازم کس کے کہنے پر طالبعلم کوقتل کرنے کے جرم میں شامل ہوگئے۔یہ سوالات ہیں،جس کاجواب جوڈیشنل کمیشن ضرورتلاش کرے گا اور کرنے بھی چاہییں۔

بے حسی کی انتہادیکھیے کہ مشال خان کومارنے کے دوران اوربعدمیں سیکڑوں لوگ اس کی ویڈیوبناتے رہے۔ لاش پرلکڑی کے ڈنڈے مارتے ہوئے لوگوں کوکسی نے روکنے کی کوشش نہیںکی۔لاش کے کپڑے اُتارتے وقت بھی کسی کوکوئی تکلیف نہیں ہوئی۔یہ تمام مسلمان طالبعلم اور ملازمین،آقاؐکے اس فرمان کوبھول گئے کہ لاش کی کسی قیمت پربے حرمتی نہیں ہونی چاہیے۔ظالم یہ بھی فراموش کربیٹھے کہ میرے آقاؐنے تواپنے عزیزچچاحضرت حمزہ کو شہید کرنے والے لوگوں کوبھی امان دیدی۔

یہ کون لوگ ہیں جوآقاؐکے احکامات کونہ مانتے ہوئے ہرانسانی حد پھلانگنے کے لیے بے قرار تھے۔ ان کی پشت پناہی کون کررہاتھا۔اب تک تو چند دینی مدارس کے بار ے میں کہا جاتا تھا کہ وہاں انتہا پسندی کو پروان چڑھایا جاتا ہے مگر یہ عذاب یونیورسٹی کی سطح پرکیسے پہنچ گیا۔عدم برداشت نام نہادپڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں میں کیسے گھرکرگئی۔اس کامطلب توصاف ہے کہ مدارس توبہت پیچھے رہ گئے ہیں، اب توبلندسطح کی تعلیمی درسگاہیں بھی اس رنگ میں رنگی جاچکی ہیں۔ کیا کہیں، کیا سوچیں۔

وزیراعظم نے بہت سنجیدہ بات کی ہے کہ''کوئی نہیں چاہتاکہ اس کا لختِ جگریونیورسٹی میں پڑھنے جائے اورپھرکفن پہن کرواپس آئے''۔مگرحقیقت یہی ہے کہ ایک خاص طبقہ اپنے سوا ہرایک کوکفن میں ملبوس کرواکے فناکے راستے پرگامزن کرناچاہتاہے۔تدفین کے بعدمشال خان کے والدنے جوکچھ میڈیاکے سامنے کہا،اس کے لیے تعریف کا لفظ بہت کم ہے۔ بہت کم لوگوں میں اس درجہ حوصلہ اورضبط ہوتا ہے کہ اتنے بڑے غم کوسینے سے لگاکر ریاست کی ذمے داری کی بات کریں۔

مشال خان کے والدکانام نہیں معلوم۔ بوڑھے باپ نے کہا،''کہ میرابیٹاتوگھرمیں آقاؐکی سیرت کی بات کرتاتھا۔سیدناحضرت عمرفاروق اعظمؓکے نظام انصاف کی باتیں سناتاتھا۔ مشال تواس دنیاسے چلا گیا مگر یونیورسٹی میں توحکومت کی رَٹ پرحملہ ہواہے۔یہ اب ریاست کی ذمے داری ہے کہ اپنی رَٹ کی حفاظت کرے اس لیے کہ کسی اورکے بچے کے ساتھ یہ ظلم نہ ہوپائے''۔ والد نے یہ بھی کہاکہ''ہم غریب لوگ ہیں۔ہمیں انصاف کون دلائیگا۔

آج تک اس ملک میں انصاف صرف امراء کے لیے ہی مخصوص ہے۔ہم تومعمولی لوگ ہیں۔ہمیں انصاف ملنے کی کوئی توقع نہیں۔اب یہ میراذاتی مسئلہ نہیں بلکہ حکومت وقت کامسئلہ ہے کہ وہ انصاف کیسے دلواتی ہے''۔ یہ فقرے جگرکوچیرنے والے ہیں۔ایک بوڑھے اورغریب باپ کانوحہ۔ اس مظلوم باپ کی اشک شوئی ریاست کاکام ہے۔ صرف ریاست کا۔

کسی نے مشال خان کی لکھی ہوئی ایک نظم بھجوائی ہے۔وثوق سے عرض نہیں کرسکتاکہ یہ واقعی اس بدقسمت نوجوان نے زیرِقلم کی تھی۔مگربھیجنے والے نے یہی لکھاہے کہ یہ نظم اس نے مرنے سے بہت تھوڑاعرصہ پہلے لکھی تھی۔ بہرحال جس کی بھی ہے، نذر قارئین ہے۔

میں لاپتاہوگیاہوں

کئی ہفتے ہوئے

پولیس کورپورٹ لکھوائے

تب سے روزتھانے جاتاہوں

حوالدارسے پوچھتاہوں

میراکچھ پتہ چلا؟

ہمدردپولیس افسرمایوسی سے سرہلاتاہے

پھنسی پھنسی آوازمیں کہتاہے


ابھی توتمہاراکچھ سراغ نہیں ملا

پھروہ تسلی دیتاہے

کسی نہ کسی دن

تم مل ہی جاؤگے

بے ہوش

کسی سڑک کے کنارے

یابری طرح زخمی

کسی اسپتال میں

یالاش کی صورت

کسی ندی میں

میری آنکھوں میں آنسوآجاتے ہیں

میں بازارچلاجاتاہوں

اپنااستقبال کرنے کے لیے

گل فروش سے پھول خریدتاہوں

اپنے زخموں کے لیے

کیمیسٹ سے

مرہم پٹی کاسامان

کچھ لوگ کہتے ہیں،کسی کے مرنے پر،موم بتی نہیں جلانی چاہیے

لیکن وہ یہ نہیں بتاتے،جوآنکھ کاتارالاپتہ ہوجائے، تو روشنی کہاں سے لائیں

گھرکاچراغ بجھ جائے

توپھرکیاجلائیں؟

سوال یہ ہے کہ اگرمشال خان نے کوئی جرم کیابھی تھا، تو اس کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے تھی۔کس ضابطہ اورقانون کے تحت لاتعدادافرادنے اسے گولیاں ماریں۔ پھردوسری منزل سے نیچے فرش پرپھینک دیا۔کس کی اجازت سے یہ لوگ خودہی مدعی بن گئے،خودہی جج اورخود ہی جلاد۔ غیرمہذب معاشرہ کی تعریف اورکیاہوتی ہے۔مردان کی یونیورسٹی اگریہ سب کچھ تعلیم دے رہی ہے تواسے فی الفوربندکردیناچاہیے۔یہ نہ ہوکہ کچھ عرصے کے بعداسی طرح کے ظالم لوگ پھرکسی پرالزام لگاکراسے بھی قتل کر ڈالیں۔ مشال خان کے والدنے جس ضبط سے بات کی وہ قابل ستائش ہے۔جس طرح وزیراعظم،عمران خان اور بلاول بھٹو نے اس واقعہ پربیانات دیے،وہ بھی انتہائی سنجیدہ ہیں مگر مشال خان کی بدنصیب ماں کی باتوں کا کیا کریں، جو کہتی ہے،کہ میں نے اپنے مردہ بیٹے کے ہاتھ چومنے کی کوشش کی،تومعلوم ہواکہ ان ظالموں نے تواس کے ہاتھ کی ہڈیاں تک توڑدی ہیں۔میرے پاس اس نوحہ کاکوئی جواب نہیں ہے۔شائدسپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس بات کا جواب دے پائیں!
Load Next Story