پاکستان اور قومی سلامتی کے لوازمات
جدید ملکوں کی قومی یا ریاستی سلامتی کا ایک انسانی پہلو ہے
پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق بہت سے خطرات میں انتہا پسندی کے بیانیے کے تحت انفرادی تکفیری عمل اور قتل و غارت گری سب سے اہم ہے' اس کے بارے میں جنرل کیانی کا یہ کہنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ ملک کی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ اندر سے ہے نہ کہ باہر سے' مردان میں طالبعلم مشال خان کے سفاکانہ قتل پر آیندہ لکھنے کا ارادہ ہے۔
اب اصل موضوع۔ریاست کی تعریف میں مخصوص علاقہ'آبادی اورحکومت کے علاوہ سب سے اہم کردار خود مختاری کا ہوتا ہے'آج کی سامراجی' گلوبلائزیشن اور فری مارکیٹ کے دور میں بعض الفاظ کے معنی بدل گئے ہیں' خودمختاری (sovereignty) کے معنی ہیں ایک ریاست کا اپنے نظام حکومت' پالیسیوں اور ملکی معاملات چلانے پر مکمل اختیار۔ آج کی دنیا کو بین الاقوامی اداروں مثلاً اقوام متحدہ'IAEA'عالمی بینک'IMFاور WTOکے قوانین کے تحت چلایا جا رہا ہے 'ان اداروں پر بڑی طاقتوں کی بالا دستی ہے' کیا ایران اور شمالی کوریا اپنی ضرورت اور مرضی کے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کر سکتے ہیں؟کیا پاکستان اور دیگر غریب ممالک اپنی مرضی کی خارجہ' داخلہ حتی کہ مالی پالیسیاں اختیار کرنے میں آزاد ہیں؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب خود مختاری کے روایتی معنی بدلنے ہوں گے' اسی طرح موجودہ دور میں کسی ریاست کی سلامتی کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں'پہلے ایک موثر فوج' منظم باصلاحیت جاسوسی کا نظام اور سیکیورٹی کے ادارے'مضبوط بیوروکریسی'ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری انفرا سٹرکچر قائم رکھناکسی ریاست کے روایتی قومی سلامتی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے لازمی تصور کیے جاتے تھے'بیشک یہ روایتی لوازمات قومی یا ریاستی سلامتی کے لیے لازمی ہوتے ہیں لیکن اب جدید ریاستوں میں کچھ اور لوازمات کا اضافہ بھی ہو گیا ہے۔
جدید ملکوں کی قومی یا ریاستی سلامتی کا ایک انسانی پہلو ہے' کسی ریاست کا وجود اس وقت ہی ممکن ہے جب اس میں بسنے والے انسانوں کی سلامتی کے تقاضے پورے ہوں گے تو ریاست محفوظ رہے گی'اس لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ریاست کی قومی سلامتی کے لیے وہاں پر مقیم انسانوں کی سلامتی بھی لازمی ہے۔
اقوام متحدہ کا چارٹر بھی قومی سلامتی کے انسانی پہلو پر زیادہ زور دیتا ہے' پاکستان میں بھی اس کی آبادی کی سلامتی کے لوازمات میں اقتصادی استحکام اور روزگار'خوراک'صاف ماحول'صحت اور تعلیم'جان ومال کی سلامتی'توانائی کی فراہمی کی ضمانت شامل ہیں'اب ذرا اس بات کا جائزہ لیں گے کہ پاکستان کے عوام کو سلامتی کی یہ ضمانتیں حاصل ہیں کہ نہیں۔
پاکستان کا اقتصادی نظام نیم سرمایہ دارانہ اور نیم جاگیردارانہ ہے'ایک طبقہ بہت زیادہ مالدار اور ہر قسم کے وسائل پر قابض ہے'دوسرا طبقہ غربت کی لکیر کے نیچے گہرائیوں میں زندگی گزار رہا ہے'اس کے ساتھ خوراک کی اشیاء کی قیمتوں میں بے انتہا اضافے نے عوام کو فاقوں پر مجبور کر دیا ہے' غربت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے'صنعتی اور کاروباری میدانوں میں خراب کارکردگی'بجلی کے بحران' دہشتگردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصاد ی بحران نے بھی حالات کو بد تر کر دیا ہے'حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے پر تیار نہیں اور بیرونی قرضوں پر ملک کو چلایا جا رہا ہے'اس طرح ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے 'عوام کو اقتصادی سیکیورٹی اور روزگار کی ضمانت میسر نہیں ہے۔
آج کی دنیا میں بجلی کے بغیر ترقی اور روزگار کا خواب دیکھنا عبث ہے' پاکستان مسلسل بجلی کی کمی اور اس کے نتیجے میں طویل لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتا ہے'حکمرانوں نے آبی وسائل سے فائدہ اٹھانے میں مسلسل غفلت برتی ہے'واپڈا چیئرمین کے مطابق ملک میں پانی سے 100,000میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے جس کا صرف 15 فی صد استعمال ہو رہا ہے'جس پر حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے 'اس کے علاوہ بجلی کی ترسیل کے ذمے دار محکمے کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کا انحصار دریائے سندھ کے طاس پر ہے'یہ دریا ملک کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی ہے'اس پر دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام قائم ہے'اس کے ذریعے ملک کا 90فی صد خوراک اور 25فی صد GDPحاصل ہوتا ہے'پاکستان کے پانی کا ایک بڑا حصہ سمندر میں جاکر ضایع ہو رہا ہے'آبپاشی کا سسٹم دن بدن مختلف مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔
صوبوں کے درمیان پانی کے تنازعات بڑھ رہے ہیں'ان مسائل کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے'ورنہ یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان بہت جلد پانی کی کمی والے ممالک میں شامل ہو جائے گا'ان وجوہات کی بنا پر ہندوستان کی بلیک میلنگ بھی جاری ہے، نہ جانے کتنے ڈیم حکمرانوں کی غفلت کا شکار ہیں۔
سیاسی استحکام'معاشی ترقی'انسانی صحت اور پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لیے لازمی ہے کہ خوراک کی فراہمی ہر شہری کو باقاعدگی سے ہوتی رہے'پاکستان میں خوراک کی اشیاء کی مستقل عدم فراہمی اور عوام کی قوت خرید میں کمی اہم ترین مسائل ہیں'شرم کا مقام ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم سبزیاں ہندوستان سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں'اس کے لیے سب سے اہم قدم زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہے۔
خوراک کی سیکیورٹی کے بارے میں حکومت کی قائم کردہ ٹاسک فورس نے اپنی رپورٹ میں مختلف اقدامات کی سفارشات کی ہیں'ان میں سب سے اہم اگلے دس سال کے دوران زرعی پیداوار میں سالانہ 4 فی صد اضافہ لازمی قرار دیا گیاہے'اس کے ساتھ خوراک کی اشیاء کی محفوظ ترسیل 'اسٹوریج اور تقسیم کا بہترین نظام ہونا چاہیے 'زراعت اور اس کے اجناس کی تجارت کے لیے آسان قرضے'زرعی ریسرچ پر توجہ دینا ہوگی۔حکومت کو ماحولیاتی تبدیلیوں مثلاً پانی کی کمی'صحراء اور سیم و تھور میں اضافے'جنگلات کے خاتمے'زمین کی دریا بردگیerosion'فصلوں کی کسان کو مناسب قیمت اور زرعی بیجوں و دوائیوں کی قیمتوں میں کمی جیسے مسائل پر بھی توجہ دینی ہوگی۔
اپنے باشندوں کو صحت اور تعلیم کی ضمانت دینا کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے'ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی ریاست نے ان فرائض کی ادائیگی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے'سرکاری اسپتالوں کی حالت سے ہر پاکستانی شہری آگاہ ہے۔
ڈاکٹر تنخواہ سرکاری اسپتالوں سے لیتے ہیں لیکن مریضوں کا علاج اپنے پرائیویٹ کلینک میں کرنا پسند کرتے ہیں'جس کا خرچہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں' سرکاری اسپتالوں میں علاج صرف وہ لوگ کراتے ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا' نہ دوائیاں میسر ہوتی ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر' عمارت اور کمروں کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے' صنعتی فضلہ اور پلاسٹک کے شاپنگ بیگ وغیرہ بھی عوام کی صحت اور ماحولیات کو تباہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی نظام بھی کسمپرسی کا شکار ہے۔
تباہی کا اس سے بہتر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ محکمہ تعلیم کے وزیر اور سیکرٹری سے لے کر ایک عام استاد اور چپڑاسی تک کے بچے ان اسکولوں میں پڑھنا پسند نہیں کرتے' یہ پرائیویٹ اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں' کروڑوں روپے تعلیم کی بہتری کے لیے سرکار سے وصول کرنے والے اگر ان اداروں پر اتنا بھی اعتماد نہیں کرتے تو تعلیم کا معیار کیا خاک بہتر ہوگا'پاکستان میں تعلیم طبقاتی اور فرقہ وارانہ مسائل پیدا کر رہی ہے'یہ نظام تعلیم معاشرے کو مزید عمودی اور افقی طور پر تقسیم کر رہا ہے۔
پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی میں اضافے کی شرح بہت زیادہ ہے'آبادی میں اس بے ہنگم اضافے کو ماہرین ''آبادی کا بم''(Population Bomb) کہتے ہیں'خطرہ ہے کہ یہ بم ایک دن پھٹ کر پورے ریاستی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر دے گا'وسائل کم اور آبادی زیادہ ہونے سے ہر چیز پر دباؤ ہے'سرمایہ داری اور جاگیر داری نظام نے پہلے سے ملک کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے'عوام کے فائدے کی منصوبہ سازی نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ چند وہ مسائل ہیں جن کا تحفظ اور گارنٹی پاکستان کی ریاست کو دینی ہوگی'ریاست کی بقاء کا انحصار مضبوط اور بڑی فوج کی بجائے ملک میں رہنے والے عوام کی خوشحالی پر ہوتا ہے'اگر ریاست عوام کو یہ گارنٹیاں دینے میں ناکام رہی تو فوج اور جدید اسلحہ ملک کا تحفظ نہیں کر سکے گا۔کیا ہزاروں ایٹم بم اور دوسرا مہلک اسلحہ امریکہ کو ویٹ نام میں شکست اور سوویت یونین کو ٹوٹنے سے بچا سکا؟ اس لیے ملک کی بقاء کے لیے سیکیورٹی ریاست کی بجائے ایک فلاحی ریاست کا قیام لازمی ہے۔
اب اصل موضوع۔ریاست کی تعریف میں مخصوص علاقہ'آبادی اورحکومت کے علاوہ سب سے اہم کردار خود مختاری کا ہوتا ہے'آج کی سامراجی' گلوبلائزیشن اور فری مارکیٹ کے دور میں بعض الفاظ کے معنی بدل گئے ہیں' خودمختاری (sovereignty) کے معنی ہیں ایک ریاست کا اپنے نظام حکومت' پالیسیوں اور ملکی معاملات چلانے پر مکمل اختیار۔ آج کی دنیا کو بین الاقوامی اداروں مثلاً اقوام متحدہ'IAEA'عالمی بینک'IMFاور WTOکے قوانین کے تحت چلایا جا رہا ہے 'ان اداروں پر بڑی طاقتوں کی بالا دستی ہے' کیا ایران اور شمالی کوریا اپنی ضرورت اور مرضی کے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کر سکتے ہیں؟کیا پاکستان اور دیگر غریب ممالک اپنی مرضی کی خارجہ' داخلہ حتی کہ مالی پالیسیاں اختیار کرنے میں آزاد ہیں؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب خود مختاری کے روایتی معنی بدلنے ہوں گے' اسی طرح موجودہ دور میں کسی ریاست کی سلامتی کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں'پہلے ایک موثر فوج' منظم باصلاحیت جاسوسی کا نظام اور سیکیورٹی کے ادارے'مضبوط بیوروکریسی'ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری انفرا سٹرکچر قائم رکھناکسی ریاست کے روایتی قومی سلامتی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے لازمی تصور کیے جاتے تھے'بیشک یہ روایتی لوازمات قومی یا ریاستی سلامتی کے لیے لازمی ہوتے ہیں لیکن اب جدید ریاستوں میں کچھ اور لوازمات کا اضافہ بھی ہو گیا ہے۔
جدید ملکوں کی قومی یا ریاستی سلامتی کا ایک انسانی پہلو ہے' کسی ریاست کا وجود اس وقت ہی ممکن ہے جب اس میں بسنے والے انسانوں کی سلامتی کے تقاضے پورے ہوں گے تو ریاست محفوظ رہے گی'اس لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ریاست کی قومی سلامتی کے لیے وہاں پر مقیم انسانوں کی سلامتی بھی لازمی ہے۔
اقوام متحدہ کا چارٹر بھی قومی سلامتی کے انسانی پہلو پر زیادہ زور دیتا ہے' پاکستان میں بھی اس کی آبادی کی سلامتی کے لوازمات میں اقتصادی استحکام اور روزگار'خوراک'صاف ماحول'صحت اور تعلیم'جان ومال کی سلامتی'توانائی کی فراہمی کی ضمانت شامل ہیں'اب ذرا اس بات کا جائزہ لیں گے کہ پاکستان کے عوام کو سلامتی کی یہ ضمانتیں حاصل ہیں کہ نہیں۔
پاکستان کا اقتصادی نظام نیم سرمایہ دارانہ اور نیم جاگیردارانہ ہے'ایک طبقہ بہت زیادہ مالدار اور ہر قسم کے وسائل پر قابض ہے'دوسرا طبقہ غربت کی لکیر کے نیچے گہرائیوں میں زندگی گزار رہا ہے'اس کے ساتھ خوراک کی اشیاء کی قیمتوں میں بے انتہا اضافے نے عوام کو فاقوں پر مجبور کر دیا ہے' غربت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے'صنعتی اور کاروباری میدانوں میں خراب کارکردگی'بجلی کے بحران' دہشتگردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصاد ی بحران نے بھی حالات کو بد تر کر دیا ہے'حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے پر تیار نہیں اور بیرونی قرضوں پر ملک کو چلایا جا رہا ہے'اس طرح ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے 'عوام کو اقتصادی سیکیورٹی اور روزگار کی ضمانت میسر نہیں ہے۔
آج کی دنیا میں بجلی کے بغیر ترقی اور روزگار کا خواب دیکھنا عبث ہے' پاکستان مسلسل بجلی کی کمی اور اس کے نتیجے میں طویل لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتا ہے'حکمرانوں نے آبی وسائل سے فائدہ اٹھانے میں مسلسل غفلت برتی ہے'واپڈا چیئرمین کے مطابق ملک میں پانی سے 100,000میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے جس کا صرف 15 فی صد استعمال ہو رہا ہے'جس پر حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے 'اس کے علاوہ بجلی کی ترسیل کے ذمے دار محکمے کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کا انحصار دریائے سندھ کے طاس پر ہے'یہ دریا ملک کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی ہے'اس پر دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام قائم ہے'اس کے ذریعے ملک کا 90فی صد خوراک اور 25فی صد GDPحاصل ہوتا ہے'پاکستان کے پانی کا ایک بڑا حصہ سمندر میں جاکر ضایع ہو رہا ہے'آبپاشی کا سسٹم دن بدن مختلف مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔
صوبوں کے درمیان پانی کے تنازعات بڑھ رہے ہیں'ان مسائل کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے'ورنہ یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان بہت جلد پانی کی کمی والے ممالک میں شامل ہو جائے گا'ان وجوہات کی بنا پر ہندوستان کی بلیک میلنگ بھی جاری ہے، نہ جانے کتنے ڈیم حکمرانوں کی غفلت کا شکار ہیں۔
سیاسی استحکام'معاشی ترقی'انسانی صحت اور پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لیے لازمی ہے کہ خوراک کی فراہمی ہر شہری کو باقاعدگی سے ہوتی رہے'پاکستان میں خوراک کی اشیاء کی مستقل عدم فراہمی اور عوام کی قوت خرید میں کمی اہم ترین مسائل ہیں'شرم کا مقام ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم سبزیاں ہندوستان سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں'اس کے لیے سب سے اہم قدم زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہے۔
خوراک کی سیکیورٹی کے بارے میں حکومت کی قائم کردہ ٹاسک فورس نے اپنی رپورٹ میں مختلف اقدامات کی سفارشات کی ہیں'ان میں سب سے اہم اگلے دس سال کے دوران زرعی پیداوار میں سالانہ 4 فی صد اضافہ لازمی قرار دیا گیاہے'اس کے ساتھ خوراک کی اشیاء کی محفوظ ترسیل 'اسٹوریج اور تقسیم کا بہترین نظام ہونا چاہیے 'زراعت اور اس کے اجناس کی تجارت کے لیے آسان قرضے'زرعی ریسرچ پر توجہ دینا ہوگی۔حکومت کو ماحولیاتی تبدیلیوں مثلاً پانی کی کمی'صحراء اور سیم و تھور میں اضافے'جنگلات کے خاتمے'زمین کی دریا بردگیerosion'فصلوں کی کسان کو مناسب قیمت اور زرعی بیجوں و دوائیوں کی قیمتوں میں کمی جیسے مسائل پر بھی توجہ دینی ہوگی۔
اپنے باشندوں کو صحت اور تعلیم کی ضمانت دینا کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے'ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی ریاست نے ان فرائض کی ادائیگی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے'سرکاری اسپتالوں کی حالت سے ہر پاکستانی شہری آگاہ ہے۔
ڈاکٹر تنخواہ سرکاری اسپتالوں سے لیتے ہیں لیکن مریضوں کا علاج اپنے پرائیویٹ کلینک میں کرنا پسند کرتے ہیں'جس کا خرچہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں' سرکاری اسپتالوں میں علاج صرف وہ لوگ کراتے ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا' نہ دوائیاں میسر ہوتی ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر' عمارت اور کمروں کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے' صنعتی فضلہ اور پلاسٹک کے شاپنگ بیگ وغیرہ بھی عوام کی صحت اور ماحولیات کو تباہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی نظام بھی کسمپرسی کا شکار ہے۔
تباہی کا اس سے بہتر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ محکمہ تعلیم کے وزیر اور سیکرٹری سے لے کر ایک عام استاد اور چپڑاسی تک کے بچے ان اسکولوں میں پڑھنا پسند نہیں کرتے' یہ پرائیویٹ اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں' کروڑوں روپے تعلیم کی بہتری کے لیے سرکار سے وصول کرنے والے اگر ان اداروں پر اتنا بھی اعتماد نہیں کرتے تو تعلیم کا معیار کیا خاک بہتر ہوگا'پاکستان میں تعلیم طبقاتی اور فرقہ وارانہ مسائل پیدا کر رہی ہے'یہ نظام تعلیم معاشرے کو مزید عمودی اور افقی طور پر تقسیم کر رہا ہے۔
پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی میں اضافے کی شرح بہت زیادہ ہے'آبادی میں اس بے ہنگم اضافے کو ماہرین ''آبادی کا بم''(Population Bomb) کہتے ہیں'خطرہ ہے کہ یہ بم ایک دن پھٹ کر پورے ریاستی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر دے گا'وسائل کم اور آبادی زیادہ ہونے سے ہر چیز پر دباؤ ہے'سرمایہ داری اور جاگیر داری نظام نے پہلے سے ملک کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے'عوام کے فائدے کی منصوبہ سازی نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ چند وہ مسائل ہیں جن کا تحفظ اور گارنٹی پاکستان کی ریاست کو دینی ہوگی'ریاست کی بقاء کا انحصار مضبوط اور بڑی فوج کی بجائے ملک میں رہنے والے عوام کی خوشحالی پر ہوتا ہے'اگر ریاست عوام کو یہ گارنٹیاں دینے میں ناکام رہی تو فوج اور جدید اسلحہ ملک کا تحفظ نہیں کر سکے گا۔کیا ہزاروں ایٹم بم اور دوسرا مہلک اسلحہ امریکہ کو ویٹ نام میں شکست اور سوویت یونین کو ٹوٹنے سے بچا سکا؟ اس لیے ملک کی بقاء کے لیے سیکیورٹی ریاست کی بجائے ایک فلاحی ریاست کا قیام لازمی ہے۔