معین اختر بڑے فنکار بڑے انسان
انتقال پر زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد ہمیشہ شک و شبہ سے بالاتر زندگی کی شروعات ہوتی ہے
انتقال پر زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد ہمیشہ شک و شبہ سے بالاتر زندگی کی شروعات ہوتی ہے اور اس دنیا میں وہ اپنے اعمال کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ زندگی کا چراغ بجھنے کے بعد سفر آخرت بحیثیت مسلمان ہمارے نیک اعمال پر مبنی ہے۔ ماہ اپریل جب بھی آتا ہے تو معین اختر مرحوم کی یادیں ان کے چاہنے والوں کو ستاتی ہیں۔ معین اختر بڑے فنکار تھے، اتنے بڑے فنکار کہ ان کے لیے قلم اٹھاتے ہوئے اسے تحریری شکل دینے کے لیے کئی مرتبہ سوچنا پڑا۔ معین اختر مرحوم سے ہمارا بڑا قریبی رشتہ رہا۔
''نگار'' کے بانی الیاس رشیدی مرحوم ہمارے استادوں کی جگہ تھے۔ 1996 کی بات ہے، معین اختر کا بائی پاس آپریشن جناح اسپتال میں ہوا تھا، رشیدی مرحوم نے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ ہمیں ان کے پاس بھیجا کہ میری طرف سے انھیں دعائے صحت کا پیغام دیجیے گا۔ ہم جناح اسپتال پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ موصوف بیٹھے سگریٹ پی رہے ہیں، جب کہ ان کے آپریشن کو تیسرا دن تھا۔ ہم نے حیرت سے پوچھا معین بھائی یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ حسب معمول زندہ دلی سے کہا، یار اب تو ہر لحاظ سے دل زیرو میٹر ہوگیا ہے، اب کیا فکر ہے۔
معین اختر 24 دسمبر 1950 میں پیدا ہوئے، ان کے والد ابراہیم کا تعلق بھارت کے شہر مراد آباد سے تھا۔ ہجرت کے بعد وہ اور ان کے اہل خانہ ناظم آباد، ویسٹ وہارف، جیکب لائن اور بزنس روڈ کے علاقوں میں کرائے پر رہے۔ معین اختر کے دو بھائی اور ایک ہمشیرہ ہیں، معین ان میں بڑے تھے۔ 1966 میں ریڈیو سے انھوں نے مزاحیہ اداکاری کا آغاز کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معین بڑے فنکاروں کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ فنی زندگی کے 45 سال میں انھیں ستارۂ امتیاز، تمغہ حسن کارکردگی کے علاوہ کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔
ہولی فیملی اسپتال کے ڈاکٹر عرفان احمد مرحوم جو ان کے دوست تھے، نے پہلا اسٹیج ڈرامہ ''بات بن جائے'' ڈاؤ میڈیکل کالج میں کروایا۔ اداکار جمشید انصاری مرحوم ہمارے کزن کے سالے تھے، اس حوالے سے ان سے اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں اور وہی معین اختر سے دوستی کا سبب بنیں۔ فلم اسٹار سنتوش رسل پی ٹی وی کے پروڈیوسر امیر امام کے پاس معین کو لے گئے۔ انھوں نے ڈرامے ''سچ مچ'' میں انھیں کاسٹ کیا اور اپنے پہلے ہی پروگرام میں انھوں نے خود کو منوالیا۔ معین امیرامام مرحوم کو اپنا استاد کہتے تھے۔
پی ٹی وی کی سابق پروڈیوسر ساحرہ کاظمی نے انھیں مزاحیہ ڈرامہ ''روزی'' میں مس روزی کا کردار دیا۔ اس کامیڈی کھیل کے حوالے سے ہم نے ایک روزنامے کے پی ٹی وی تبصرے میں پروگرام پر تنقید کردی تھی، اس بات کا انھوں نے بہت برا منایا اور تاج محل ہوٹل میں منعقد ہونے والے پروگرام ''بے بیاں معین اختر'' میں خطاب کرتے ہوئے ہمارا نام لے کر ناراضگی کا اظہار کیا۔ جب کہ ہم نے بحیثیت صحافی معین اختر پر نہیں پروگرام کے کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی۔
اس محفل میں بحیثیت مقرر میں نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ معین بھائی آپ پر تنقید نہیں لکھی بلکہ پروگرام پر کی۔ یوں کچھ عرصے انھوں نے ہم سے بات نہیں کی، پھر فلم اسٹار اظہار قاضی مرحوم نے اپنی فلم ''غنڈہ'' کے سیٹ پر ہماری ان سے دوستی کروا دی اور وہ آخر دم تک قائم رہی۔
معین بہت بڑے فنکار تھے، ایسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ معین اختر بڑے انسان بھی تھے۔ ان کی پہلی فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' تھی۔ یہ ان کی پہلی فلم تھی جو ریلیز نہ ہوسکی۔ فلم ساز عقاد دانہ والا مرحوم کی فلم ''راز'' اور فرقان حیدر کی فلم ''کے ٹو'' میں کام کیا۔ 1970 میں انھوں نے اسٹیج پر انتھونی کوئن، جان ایف کینڈی، دلیپ کمار، محمد علی، وحید مراد کی پیروڈی کرکے خوب نام کمایا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسٹیج ڈرامے میں اگر معین نہ ہوتے تو شائقین اسٹیج ڈرامہ نہیں دیکھتے تھے۔
این ٹی ایم میں راقم بحیثیت نیوز ایڈیٹر کے کام کرتا تھا اور این ٹی ایم کے ہر پروگرام میں معین اختر کو ضرور مدعو کیا جاتا تھا۔ ''لوزٹاک'' جس کے مصنف انور مقصود تھے، ایک مقبول پروگرام تھا، آخری دم تک اس سے وابستہ رہے۔ نگار ایوارڈز کی تقریب پہلی مرتبہ پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین اطہر جاوید صوفی نے این ٹی ایم سے آن ایئر کروائی، اس میں بھی معین اختر کی کاوشیں شامل تھیں۔ پشتو فلموں کے دلیپ کمار، بدر منیر مرحوم نے ہمیں بتایا تھا کہ جب میری پہلی فلم ''یوسف خان شیربانو'' ریلیز ہونے والی تھی تو میں نے ایک فنکشن کا اہتمام کیا اور معین سے کہاکہ آپ اس کے کمپیئر ہوں گے۔
پروگرام معین اختر نے بہت خوبصورت کیا۔ جب میں نے ان سے معاوضے کی بات کی تو انھوں نے کہاکہ چھوٹے بھائی سے کون پیسے لیتا ہے، بس تمہاری فلم سپر ہٹ ہوجائے گی، یہی میرا معاوضہ ہے۔ اور یوسف خان شیر بانو پاکستان کی پہلی پشتو سپرہٹ فلم تھی۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ سلطان راہی مرحوم اور معین اختر مرحوم میں دل لگی بہت تھی۔ یہ بات سلطان راہی مرحوم نے ایک ملاقات میں بتائی تھی۔ انھوں نے کئی مرتبہ معین اختر سے کہاکہ تم پنجابی فلم میں اور کام کرلو تاکہ فن میں کوئی گنجائش نہ رہ جائے اور انھوں نے ایک دفعہ انھیں مولا جٹ کے ہدایت کار یونس ملک مرحوم سے بھی ملوایا تھا۔ مگر انھوں نے کام نہیں کیا۔
اداکار محمد علی مرحوم معین اختر سے بہت محبت کرتے تھے، علی بھائی نے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایاکہ جب میری فلم ''آس'' سپر ہٹ ہوئی تو ایورنیو اسٹوڈیو میں فلم کے مصنف معروف کہانی نویس اور مقبول صحافی علی سفیان آفاقی نے ایک تقریب ''آس'' کی کامیابی پر شباب اسٹوڈیو میں رکھی۔ تقریب کے کمپیئر معین اختر تھے۔ میں اسٹیج پر بیٹھا تھا، میں نے سفیان بھائی سے کہاکہ معین سے کہیں کہ سب سے پہلے میری پیروڈی کرے۔ اس بات پر معین کو پرزور تالیوں کی گونج میں مدعو کیا گیا اور سلام سے لے کر ''آس'' کی مختصر کہانی تک میرے لہجے میں کمپیئرنگ کرکے خوب داد سمیٹی۔
معین بڑا آرٹسٹ ہے، معین اختر بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اپنی اولاد کے لیے ساری عمر محنت کی، تمام بچوں کو امریکا میں سیٹ کیا۔ وہ مجھے کہتے تھے کہ پہلے اپنے اہل خانہ پر توجہ دو۔ قناعت پسند انسان تھے، اتنا کچھ ہونے کے باوجود ان کی اہلیہ سٹی گورنمنٹ KMC کے ایک اسکول میں ٹیچر تھیں۔ علامہ اقبال ٹاؤن جو ناظم آباد بلاک W میں واقع تھا، دولت کی ریل پیل ہونے کے باوجود اہلیہ کی نوکری کو اپنے لیے باعث عزت سمجھتے تھے کہ اس ملک نے انھیں بہت نوازا۔ وہ ملک کے وفادار تھے، اپنے ساتھیوں کا بہت خیال رکھا کرتے تھے، اپنے محسنوں کی بہت عزت کرتے تھے۔ انور مقصود، حاجی عبدالرؤف سے بہت محبت کرتے تھے۔
آخری ایام میں بہت بیمار تھے تو کہتے تھے کہ انور مقصود اور حاجی عبدالرؤف نے میرا بہت ساتھ دیا ہے میں ان دونوں کا احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔ واقعی معین اختر اپنی مثال آپ تھے۔ صحت کی وجہ سے آخری ایام میں ڈاکٹروں نے انھیں ہوائی سفر سے منع کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ صرف کراچی تک محدود ہوگئے تھے۔ معین اختر اپنے فن کا خود اعلیٰ سرٹیفکیٹ تھے۔
''نگار'' کے بانی الیاس رشیدی مرحوم ہمارے استادوں کی جگہ تھے۔ 1996 کی بات ہے، معین اختر کا بائی پاس آپریشن جناح اسپتال میں ہوا تھا، رشیدی مرحوم نے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ ہمیں ان کے پاس بھیجا کہ میری طرف سے انھیں دعائے صحت کا پیغام دیجیے گا۔ ہم جناح اسپتال پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ موصوف بیٹھے سگریٹ پی رہے ہیں، جب کہ ان کے آپریشن کو تیسرا دن تھا۔ ہم نے حیرت سے پوچھا معین بھائی یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ حسب معمول زندہ دلی سے کہا، یار اب تو ہر لحاظ سے دل زیرو میٹر ہوگیا ہے، اب کیا فکر ہے۔
معین اختر 24 دسمبر 1950 میں پیدا ہوئے، ان کے والد ابراہیم کا تعلق بھارت کے شہر مراد آباد سے تھا۔ ہجرت کے بعد وہ اور ان کے اہل خانہ ناظم آباد، ویسٹ وہارف، جیکب لائن اور بزنس روڈ کے علاقوں میں کرائے پر رہے۔ معین اختر کے دو بھائی اور ایک ہمشیرہ ہیں، معین ان میں بڑے تھے۔ 1966 میں ریڈیو سے انھوں نے مزاحیہ اداکاری کا آغاز کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معین بڑے فنکاروں کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ فنی زندگی کے 45 سال میں انھیں ستارۂ امتیاز، تمغہ حسن کارکردگی کے علاوہ کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔
ہولی فیملی اسپتال کے ڈاکٹر عرفان احمد مرحوم جو ان کے دوست تھے، نے پہلا اسٹیج ڈرامہ ''بات بن جائے'' ڈاؤ میڈیکل کالج میں کروایا۔ اداکار جمشید انصاری مرحوم ہمارے کزن کے سالے تھے، اس حوالے سے ان سے اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں اور وہی معین اختر سے دوستی کا سبب بنیں۔ فلم اسٹار سنتوش رسل پی ٹی وی کے پروڈیوسر امیر امام کے پاس معین کو لے گئے۔ انھوں نے ڈرامے ''سچ مچ'' میں انھیں کاسٹ کیا اور اپنے پہلے ہی پروگرام میں انھوں نے خود کو منوالیا۔ معین امیرامام مرحوم کو اپنا استاد کہتے تھے۔
پی ٹی وی کی سابق پروڈیوسر ساحرہ کاظمی نے انھیں مزاحیہ ڈرامہ ''روزی'' میں مس روزی کا کردار دیا۔ اس کامیڈی کھیل کے حوالے سے ہم نے ایک روزنامے کے پی ٹی وی تبصرے میں پروگرام پر تنقید کردی تھی، اس بات کا انھوں نے بہت برا منایا اور تاج محل ہوٹل میں منعقد ہونے والے پروگرام ''بے بیاں معین اختر'' میں خطاب کرتے ہوئے ہمارا نام لے کر ناراضگی کا اظہار کیا۔ جب کہ ہم نے بحیثیت صحافی معین اختر پر نہیں پروگرام کے کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی۔
اس محفل میں بحیثیت مقرر میں نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ معین بھائی آپ پر تنقید نہیں لکھی بلکہ پروگرام پر کی۔ یوں کچھ عرصے انھوں نے ہم سے بات نہیں کی، پھر فلم اسٹار اظہار قاضی مرحوم نے اپنی فلم ''غنڈہ'' کے سیٹ پر ہماری ان سے دوستی کروا دی اور وہ آخر دم تک قائم رہی۔
معین بہت بڑے فنکار تھے، ایسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ معین اختر بڑے انسان بھی تھے۔ ان کی پہلی فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' تھی۔ یہ ان کی پہلی فلم تھی جو ریلیز نہ ہوسکی۔ فلم ساز عقاد دانہ والا مرحوم کی فلم ''راز'' اور فرقان حیدر کی فلم ''کے ٹو'' میں کام کیا۔ 1970 میں انھوں نے اسٹیج پر انتھونی کوئن، جان ایف کینڈی، دلیپ کمار، محمد علی، وحید مراد کی پیروڈی کرکے خوب نام کمایا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسٹیج ڈرامے میں اگر معین نہ ہوتے تو شائقین اسٹیج ڈرامہ نہیں دیکھتے تھے۔
این ٹی ایم میں راقم بحیثیت نیوز ایڈیٹر کے کام کرتا تھا اور این ٹی ایم کے ہر پروگرام میں معین اختر کو ضرور مدعو کیا جاتا تھا۔ ''لوزٹاک'' جس کے مصنف انور مقصود تھے، ایک مقبول پروگرام تھا، آخری دم تک اس سے وابستہ رہے۔ نگار ایوارڈز کی تقریب پہلی مرتبہ پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین اطہر جاوید صوفی نے این ٹی ایم سے آن ایئر کروائی، اس میں بھی معین اختر کی کاوشیں شامل تھیں۔ پشتو فلموں کے دلیپ کمار، بدر منیر مرحوم نے ہمیں بتایا تھا کہ جب میری پہلی فلم ''یوسف خان شیربانو'' ریلیز ہونے والی تھی تو میں نے ایک فنکشن کا اہتمام کیا اور معین سے کہاکہ آپ اس کے کمپیئر ہوں گے۔
پروگرام معین اختر نے بہت خوبصورت کیا۔ جب میں نے ان سے معاوضے کی بات کی تو انھوں نے کہاکہ چھوٹے بھائی سے کون پیسے لیتا ہے، بس تمہاری فلم سپر ہٹ ہوجائے گی، یہی میرا معاوضہ ہے۔ اور یوسف خان شیر بانو پاکستان کی پہلی پشتو سپرہٹ فلم تھی۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ سلطان راہی مرحوم اور معین اختر مرحوم میں دل لگی بہت تھی۔ یہ بات سلطان راہی مرحوم نے ایک ملاقات میں بتائی تھی۔ انھوں نے کئی مرتبہ معین اختر سے کہاکہ تم پنجابی فلم میں اور کام کرلو تاکہ فن میں کوئی گنجائش نہ رہ جائے اور انھوں نے ایک دفعہ انھیں مولا جٹ کے ہدایت کار یونس ملک مرحوم سے بھی ملوایا تھا۔ مگر انھوں نے کام نہیں کیا۔
اداکار محمد علی مرحوم معین اختر سے بہت محبت کرتے تھے، علی بھائی نے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایاکہ جب میری فلم ''آس'' سپر ہٹ ہوئی تو ایورنیو اسٹوڈیو میں فلم کے مصنف معروف کہانی نویس اور مقبول صحافی علی سفیان آفاقی نے ایک تقریب ''آس'' کی کامیابی پر شباب اسٹوڈیو میں رکھی۔ تقریب کے کمپیئر معین اختر تھے۔ میں اسٹیج پر بیٹھا تھا، میں نے سفیان بھائی سے کہاکہ معین سے کہیں کہ سب سے پہلے میری پیروڈی کرے۔ اس بات پر معین کو پرزور تالیوں کی گونج میں مدعو کیا گیا اور سلام سے لے کر ''آس'' کی مختصر کہانی تک میرے لہجے میں کمپیئرنگ کرکے خوب داد سمیٹی۔
معین بڑا آرٹسٹ ہے، معین اختر بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اپنی اولاد کے لیے ساری عمر محنت کی، تمام بچوں کو امریکا میں سیٹ کیا۔ وہ مجھے کہتے تھے کہ پہلے اپنے اہل خانہ پر توجہ دو۔ قناعت پسند انسان تھے، اتنا کچھ ہونے کے باوجود ان کی اہلیہ سٹی گورنمنٹ KMC کے ایک اسکول میں ٹیچر تھیں۔ علامہ اقبال ٹاؤن جو ناظم آباد بلاک W میں واقع تھا، دولت کی ریل پیل ہونے کے باوجود اہلیہ کی نوکری کو اپنے لیے باعث عزت سمجھتے تھے کہ اس ملک نے انھیں بہت نوازا۔ وہ ملک کے وفادار تھے، اپنے ساتھیوں کا بہت خیال رکھا کرتے تھے، اپنے محسنوں کی بہت عزت کرتے تھے۔ انور مقصود، حاجی عبدالرؤف سے بہت محبت کرتے تھے۔
آخری ایام میں بہت بیمار تھے تو کہتے تھے کہ انور مقصود اور حاجی عبدالرؤف نے میرا بہت ساتھ دیا ہے میں ان دونوں کا احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔ واقعی معین اختر اپنی مثال آپ تھے۔ صحت کی وجہ سے آخری ایام میں ڈاکٹروں نے انھیں ہوائی سفر سے منع کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ صرف کراچی تک محدود ہوگئے تھے۔ معین اختر اپنے فن کا خود اعلیٰ سرٹیفکیٹ تھے۔