’’۔۔۔۔۔ میں نہیں فون آپ کی اولاد ہے‘‘

سوشل میڈیا سے زیادہ اپنے جگرگوشوں کو وقت دیں۔

اسمارٹ فون کا حد سے زیادہ استعمال ماؤں اور بچوں کے درمیان دوریاں پیدا کررہا ہے۔ فوٹو: نیٹ

ISLAMABAD:
'' ممّی، ہوم ورک کروا دیجیے۔'' پانچ سالہ سارہ نے روبینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

سارہ فرش پر بچھے کارپٹ پر بستہ لیے بیٹھی تھی جب کہ اس کی ماں قریبی سوفے پر براجمان اور اسمارٹ فون کی اسکرین پر انگلیاں چلانے میں مصروف تھی۔ بیٹی کی آواز سن کر روبینہ نے نظریں اٹھائے بغیر کہا،'' بس بیٹا۔۔۔ ایک سیکنڈ!''۔ یہ ایک سیکنڈ جب کئی منٹ پر محیط ہواتو سارہ نے منھ بسورتے ہوئے ماں کو پھر یاد دلایا،'' ممّی ہوم ورک کروادیجیے۔۔۔۔ پلیز!'' انداز التجائیہ تھا۔ اس بار روبینہ سوفے سے اٹھ کر بیٹی کے پاس آبیٹھی، فون اس نے اپنے قریب ہی کارپٹ پر رکھ دیا تھا۔'' کیا ہوم ورک ملا ہے بیٹا۔۔۔۔۔ ڈائری دکھاؤ۔'' اس نے سارہ سے کہا۔ جواباً سارہ نے بستے میں سے ڈائری نکال کر روبینہ کو تھمادی۔

ڈائری کے صفحات الٹنے کے بعد وہ اپنی لخت جگر سے گویا ہوئی،''انگلش لٹریچر اور میتھ کی کاپیاں نکالیں۔'' اس دوران گاہے بگاہے اس کی نگاہیں موبائل فون کی اسکرین کاچکر لگا رہی تھیں۔ اچانک فون کی اسکرین روشن ہوئی اور پیغام وصول ہونے کی مخصوص آواز بھی سنائی دی۔ روبینہ نے اتنی تیزی سے فون کی طرف ہاتھ بڑھایا جیسے سیکنڈ کے ہزارویں حصے کی تاخیر ہوئی تو قیامت آجائے گی۔ اب ایک بار پھر روبینہ کی انگلیاں اسکرین پر پھسل رہی تھیں اور ننھی سارہ بے بسی کی تصویر بنی اپنی ماں کو دیکھے جارہی تھی۔

موبائل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ہمارے معاشرے بالخصوص شہری گھرانوں میں اس قسم کے مناظر عام ہوتے جارہے ہیں۔ تعلیم یافتہ ماؤںکے ہاتھ جب سے اسمارٹ فون آیا ہے، ان کی اکثریت بچوں پر کماحقہ توجہ نہیں دے پارہی۔ نتیجتاً یہ آلہ بچوں اور ماؤںکے درمیان دوری کی وجہ بن رہا ہے۔ موبائل فون کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ بالخصوص جب سے یہ آلہ ' اسمارٹ' ہوا ہے اس کے فوائد اور ضرورت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔

اسمارٹ فون کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی ممکن ہوجانے کے بعد یہ آلہ اب دوست احباب، اور عزیزواقارب سے رابطے میں رہنے اور سوشل میڈیا کے استعمال کا سب سے اہم وسیلہ بن چکا ہے۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ اسمارٹ فون کے صارفین کا زیادہ وقت اس آلے سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ ان صارفین میں بچوں کی مائیں بھی شامل ہیں۔ اسمارٹ فون بذات خود ایک مفید تخلیق ہے مگر اس کا حد سے بڑھتا ہوا استعمال ماں اور اولاد جیسے انتہائی قریبی رشتے میں بھی دوریاں پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔


موبائل فون ماؤں کی زندگی میں کتنا دخیل ہوچکا ہے، اس بات کا مشاہدہ کرنا ہو تو ایک دن کے لیے کسی بڑے اسکول کے باہر چھٹی کے وقت جا کر کھڑے ہوجائیں۔ بہت سی مائیں بچوں کو خود اسکول سے لینے آتی ہیں۔ کار میں بیٹھ کر بچوں کی آمد کا انتظار کرتے ہوئے ان کے ہاتھ مسلسل موبائل فون سے الجھ رہے ہوتے ہیں۔

کئی خواتین فون میں اتنی منہمک ہوجاتی ہیں کہ بچے کب گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئے، انھیں پتا ہی نہیں چلتا۔ بچوں کے آواز دینے پر وہ اپنے حواس میں آتی ہیں۔ راقم نے ایک بچے کو اپنی ماں سے خود یہ کہتے ہوئے سنا،'' امّی آپ ہر وقت فون میں لگی رہتی ہیں۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں نہیں، یہ آپ کی اولاد ہو۔'' ان الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فون کا بے جا استعمال ماں اور بچوں کے تعلقات پر کتنا اثرانداز ہوچکا ہے۔

مغربی ممالک میں اس موضوع پر کئی تحقیق کی گئی ہیں جن کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ موبائل فون کی وجہ سے والدین اور بچوں کے تعلقات متأثر ہورہے ہیں۔ ہمہ وقت سوشل میڈیا سے جُڑے رہنے کے جنون میں مبتلا ماں باپ بچوں کے لیے وقت نہیں نکال پاتے اور نہ ہی ان کی تربیت پر مناسب توجہ دے پاتے ہیں۔

شیرخوار بچوں کی ماؤں سے کی گئی ایک تحقیق میں پتا چلا کہ نصف سے زائد خواتین صبح بیدار ہونے پر بچے کو سنبھالنے سے پہلے اسمارٹ فون چیک کرتی ہیں۔ ان تحقیق کی روشنی میں برطانیہ کے کئی اسکولوں میں والدین کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ بچوں کو لینے کے لیے آئیں تو موبائل فون لے کر اسکول کی حدود میں داخل نہ ہوں۔ اسکولوں کی انتظامیہ کی جانب سے والدین کو رہنما ہدایت نامے بھی بھیجے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے وہ موبائل فون کے بجائے بچوں کو زیادہ وقت دیں۔

بچے، باپ کی نسبت ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ماں ہی وہ ہستی ہے جو ان کے کھانے پینے، لباس سمیت ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں وہ سب سے زیادہ وقت ماں کے ساتھ بِتاتے ہیں۔ اپنی ہر ضرورت، ہر مشکل، ہر مسئلے کے لیے ان کی نگاہیں ماں ہی کی طرف اٹھتی ہیں۔ ایسے میں اگر ماں بچوں کو نظرانداز کرے گی اور ان سے بے پروائی کا رویہ اختیار کرے گی تو بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نظرانداز ہونے کا احساس ان کے دل میں گھر کرنے لگتا ہے، ماں کی محبت گھٹنے لگتی ہے، اور ان کا اپنا رویہ بھی خراب ہوتا چلا جاتا ہے۔

اولاد، والدین کا سرمایۂ حیات ہوتی ہے۔ اس سرمائے کی حفاظت کرنا ازبس ضروری ہے۔ بچوں میں یہ احساس کبھی پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ماںکی ترجیح نہیں رہے۔ موبائل فون آپ کے لیے بچوں سے زیادہ اہم نہیں۔ بچے گھر میں ہوں تو پوری توجہ ان پر دیں۔ فون کو ایک طرف رکھ دیں۔ کوئی کال آئے تو وصول کرلیں اور ضروری بات چیت کے بعد منقطع کردیں۔ بچوں کی موجودگی میں سوشل میڈیا کے استعمال سے گریز کریں کیوں کہ یہ ایسی دنیا ہے جس میں داخل ہونے کے بعد انسان کو وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا اور وہ اپنے قرب و جوار سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے۔
Load Next Story