کیا بات ہے چین کی
امریکا میں نادیدہ ہاتھ بہت ہیں اور یہ سارے نادیدہ ہاتھ دنیا کے امن کا بیڑہ غرق کیے ہوئے ہیں
انسان جو ایک خاص مدت اپنی زندگی کی گزار چکا ہوتا ہے تو پھر پلٹ کر ماضی کی طرف دیکھتا ہے جو سفر طے کیا ہوتا ہے وہ بھی اور جہاں سے اس کے بزرگوں نے یہ صراط اس کے حوالے کی ہوتی ہے وہ بھی اسے نظر آتی ہے۔ دو طرح کے مناظر ہوتے ہیں یا تو وہ جو اس سے پہلے تھے وہ بہتر تھے یا یہ خود ان سے بہتر ہے۔ تیسرا سلسلہ کہ ایک جیسا ہو شاذ ہی ہوسکتا ہے تاوقتیکہ بندہ بنیا یا یہودی نہ ہو۔
یہ دو نام میں نے یوں لکھے کہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ''چمڑی جائے دمڑی نہ جائے'' اور یوں وہاں ارتکاز دولت یقینی امر ہے۔ ٹرمپ صاحب کو ہی دیکھ لیجیے، ابا تو جو تھے سو تھے اور مہاجرت کے بعد ابا نے جو کام امریکا میں کیا اس سے زیادہ کام ٹرمپ صاحب نے ''دکھایا'' دولت جمع کرنے میں۔
دکھایا یوںکہ یورپ میں کمایا کم جاتا ہے، کام دکھاکر حاصل بہت کچھ کیا جاتا ہے، کماتے بے چارے ایشیائی ہیں اور ان میں سے بھی جن کو ٹرمپ کی ہوا لگ جائے وہ بھی وہاں چوہدری بن جاتے ہیں۔
اب یہ صاحب پاکستان کے حکمرانوں کے مماثل قرار دیے جارہے ہیں، کس نے کس سے کیا سیکھا یہ الگ مضمون ہے۔ بہت سے مروجہ جرائم میں صدر امریکا رپورٹ ہوچکے ہیں مگر کچھ نہیں ہوگا کیونکہ امریکا میں نادیدہ ہاتھ بہت ہیں اور یہ سارے نادیدہ ہاتھ دنیا کے امن کا بیڑہ غرق کیے ہوئے ہیں۔ ساری دنیا سے امریکا سیاسی بھتہ، پٹرول اور معدنیات بلواسطہ دھونس دھمکی سے حاصل کررہاہے اور اس کے لیے اسرائیل کے دنیا بھر کے لیے تیار کردہ منصوبوں پر عمل کررہاہے۔
یہ منصوبے زیادہ تر مسلمان ملکوں کے خلاف ہیں اور کوئی مسلمان ملک اب ایسا نہیں چھوڑا ہے جو گھٹنوں کے بل نہ ہو یا نہ ہونے والا ہو مجھے معاف کردیجیے گا مگر اس میں سب ملک شامل ہیں اور طریقہ کار سب کے لیے الگ الگ ہے شام کے لیے الگ، یمن کے لیے، مصر، لیبیا کے لیے الگ۔ مگر اس سیاسی باورچی خانے میں دنیا بھر کے ملکوں کا بھرکس بنانے کا بہت معقول انتظام ہے۔
مسلمان ایک خطرہ تھے اور عرب اسرائیل جنگ کے بعد جو بہت تیاریوں کے ساتھ لڑی گئی تھی ایک لائحہ عمل طے کرلیا گیا تھا کہ تیل کے ہتھیار کو مشرق وسطیٰ میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا اس کے بعد کبھی عرب ملک اس کی نہ دھمکے دے سکے نہ عمل در آمد۔ انھیں شاہ فیصل شہید کا انجام یاد ہے۔
اور یہ سب اس وجہ سے ہے کہ مسلمان ملکوں کے سربراہان بیشتر لہو و لعب کا شکار ہیں، معصوم پرندوں کا شکار کھیلنا، دنیا بھر کے جوا خانوں میں اربوں ریال ہار جانا ان کے لیے معمولی بات ہے۔ ایک معمولی سی ریاست کے گندمی شہزادے کی ویڈیو ایک زمانے میں عام اور مشہور تھی جس میں وہ ایک درمیانے عمر کی خاتون گلوکارہ پر جو ان کی والدہ کی عمر کی ہوںگی ریال کے بنڈل کے بنڈل لٹارہے تھے اور چیک سائن کررہے تھے۔ ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم ان عیاش حکمرانوں کا احترام کریں تو ان کا احترام وہی کریں جو ان کے دوست ہیں اور جو ان کو پاکستان جیسے ملک میں بھی ہر قسم کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور اسے کہتے آدابِ ایمانداری ہیں۔ پاکستان کے معصوم اور خوبصورت پرندے ان کی شکاری ہوس کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ ہر سال ہوتا ہے اور اس کا ایک خاص موسم ہے اور پاکستان کے عوام ہر سال اپنے معصوم پرندوں کے لیے دبی دبی آوازیں بلند کرتے ہیں۔ مگر سننے والا کوئی نہیں۔ ہوس کار اور ان کے سہولت کار طاقتور ہیں اور عوام کمزور۔ یہ بھی ہم سب جانتے ہیں مانتے نہیں کہ مٹی کو مٹی ہوجانا ہے چاہے وہ اس سے پہلے ریشم و کمخواب میں ہو یا گدڑی میں۔ مگر کسی کو خوف نہیں ہے۔ موت شاید نہیں آئے گی یہ یقین ہے۔ ایک صاحب کینسر ساتھ لیے تقاریر میں مائیکرو فون توڑرہے ہیں ایک اسپیکر کی کرسی پر بیٹھے ہیں جو انصاف کی کرسی ہے ''پارلیمانی انصاف اور مساوات'' مگر سب کچھ نہیں ہے۔ شاید ان کے ذہن میں کل نہیں ہے یہ آج میں زندہ ہیں آج کو کل ہوتے اور کل کو آج ہوتے دیر کتنی لگتی ہے۔
عجیب بات ہے کسی طرح بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ آخر اس قدر بے خبر کیسے ہوسکتے ہیں۔ اس حکومت کا ہر وزیر یوں لگتا ہے کہ ہزار سال کی عمر کا ہے کہ اسے اپنے کسی عمل پر نہ شرمندگی ہے اور نہ افسوس اور ان سے پہلے والے بھی ان سے مختلف نہیں سب کا ایمان، دولت ہے اور وہ ناپائیدار چیز جو روح کی روانگی کے بعد کہیں کام نہ آئے گی۔
ملک کو معاشی دلدل میں پھنسادیا گیا ہے قرضوں کے بوجھ تلے اس ملک کا بچہ بچہ سسک رہا ہے اور آیندہ نصف صدی تک بھی شاید ان قرضوں سے آزادی نہیں مل سکے گی، پرویز مشرف نے ملک کو آزاد کروایا اور ان کے بعد دو سیاسی حکومتوں نے اس ملک کو قرضوں میں ڈبودیا پچھلے نے جو کاریگری دکھائی وہ تو صرف ٹریلر تھی اصل تو یہ قرضے ہیں 2010 سے اب تک لے کر ملک کو ایک بین الاقوامی ادارے کے پاس رہن رکھ دیا گیا ہے۔
اس دنیا میں سیکڑوں ملک ہیں، کھربوں انسان ہیں اور ہر طرح کے انسانوں کی سوچ بھی الگ الگ ہے ایک باپ اولاد کے لیے حرام جمع کرکے اپنی قبر میں آگ سلگنے کا بندوبست کرتا ہے اور کمال یہ ہے کہ اولادیں بھی جانتی ہیں کہ یہ حرام ہے اور کہاں سے آیا ہے کس طرح کمایا گیا ہے مگر وہ ''الحمدﷲ''کہہ کر اس حرام کو اپنا مال بتاتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے تمام بہن بھائی اس حرام کو بخوشی قبول کرتے ہیں اور اس پر نازاں ہیں کہ باپ نے دھوکے دہی سے یہ مال جمع کیا ہے۔ سچ ہے ''باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیا''۔
اورایک خبر پڑھی اور حیرت ہوئی کہ یا اﷲ یہ کس نے مشہور کردیا کہ ایمان صرف مسلمان کے پاس ہے ایمان کو ایمانداری کے معنوں میں سمجھیں تو بات اور اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ چین کے ایک شخص نے جب اپنی وراثت اپنے اکلوتے بیٹے کو دینا چاہی تو اس نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا، چین کے ڈالیان وانڈا گروپ کے بانی اور چیئرمین وانگ جیان لن نے اپنے 28 سالہ بیٹے وان سیکونگ کو کامیاب زندگی کا پلان بتایا اور اس سے اپنی جانشینی کے بارے میں پوچھا تو اس نے اس کے شاپنگ سینٹرز، ہوٹلز، پارک اور کھیل کلب لینے سے انکار کردیا اور کہاکہ میں آپ جیسی زندگی نہیں گزارنا چاہتا۔ مسٹر وانگ جیان لن نے وراثت کے لیے اب متبادل تلاش کرنا شروع کردیا ہے۔
مسٹر جیان لن آپ اتنے کیوں پریشان ہیں۔ اول تو آپ اپنے بیٹے کو کچھ عرصے پاکستانی حکمرانوں کی اولاد کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج دیجیے، ان کے انداز میں اور جو کچھ آپ نے جس انداز میں کیا ہے تجارت کرکے جو حلال ہوگا آپ کا مال بخوبی قبول کرلے گا۔ اور آپ کی پریشانی ختم ہوجائے گی بلکہ اور بڑھ جائے گی۔
پیسوں کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ فارمولا ہے ان لوگوں کا جس پر گزشتہ 25 سال سے وہ عمل کررہے ہیں اور کامیاب ہیں۔ الحمدﷲ لگتا تو نہیں ہے کہ ان کا کچھ بگڑے۔ عمران خان کی کچھ اور چپلیں ضرور ٹوٹ جائیںگی۔ یہ ہے نتیجہ چین میں ذاتی دولت رکھنے کی اجازت دینے کا کہ اب کوئی اس دولت کا وارث نہیں ہے۔ کیا بات ہے چین کی۔
یہ دو نام میں نے یوں لکھے کہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ''چمڑی جائے دمڑی نہ جائے'' اور یوں وہاں ارتکاز دولت یقینی امر ہے۔ ٹرمپ صاحب کو ہی دیکھ لیجیے، ابا تو جو تھے سو تھے اور مہاجرت کے بعد ابا نے جو کام امریکا میں کیا اس سے زیادہ کام ٹرمپ صاحب نے ''دکھایا'' دولت جمع کرنے میں۔
دکھایا یوںکہ یورپ میں کمایا کم جاتا ہے، کام دکھاکر حاصل بہت کچھ کیا جاتا ہے، کماتے بے چارے ایشیائی ہیں اور ان میں سے بھی جن کو ٹرمپ کی ہوا لگ جائے وہ بھی وہاں چوہدری بن جاتے ہیں۔
اب یہ صاحب پاکستان کے حکمرانوں کے مماثل قرار دیے جارہے ہیں، کس نے کس سے کیا سیکھا یہ الگ مضمون ہے۔ بہت سے مروجہ جرائم میں صدر امریکا رپورٹ ہوچکے ہیں مگر کچھ نہیں ہوگا کیونکہ امریکا میں نادیدہ ہاتھ بہت ہیں اور یہ سارے نادیدہ ہاتھ دنیا کے امن کا بیڑہ غرق کیے ہوئے ہیں۔ ساری دنیا سے امریکا سیاسی بھتہ، پٹرول اور معدنیات بلواسطہ دھونس دھمکی سے حاصل کررہاہے اور اس کے لیے اسرائیل کے دنیا بھر کے لیے تیار کردہ منصوبوں پر عمل کررہاہے۔
یہ منصوبے زیادہ تر مسلمان ملکوں کے خلاف ہیں اور کوئی مسلمان ملک اب ایسا نہیں چھوڑا ہے جو گھٹنوں کے بل نہ ہو یا نہ ہونے والا ہو مجھے معاف کردیجیے گا مگر اس میں سب ملک شامل ہیں اور طریقہ کار سب کے لیے الگ الگ ہے شام کے لیے الگ، یمن کے لیے، مصر، لیبیا کے لیے الگ۔ مگر اس سیاسی باورچی خانے میں دنیا بھر کے ملکوں کا بھرکس بنانے کا بہت معقول انتظام ہے۔
مسلمان ایک خطرہ تھے اور عرب اسرائیل جنگ کے بعد جو بہت تیاریوں کے ساتھ لڑی گئی تھی ایک لائحہ عمل طے کرلیا گیا تھا کہ تیل کے ہتھیار کو مشرق وسطیٰ میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا اس کے بعد کبھی عرب ملک اس کی نہ دھمکے دے سکے نہ عمل در آمد۔ انھیں شاہ فیصل شہید کا انجام یاد ہے۔
اور یہ سب اس وجہ سے ہے کہ مسلمان ملکوں کے سربراہان بیشتر لہو و لعب کا شکار ہیں، معصوم پرندوں کا شکار کھیلنا، دنیا بھر کے جوا خانوں میں اربوں ریال ہار جانا ان کے لیے معمولی بات ہے۔ ایک معمولی سی ریاست کے گندمی شہزادے کی ویڈیو ایک زمانے میں عام اور مشہور تھی جس میں وہ ایک درمیانے عمر کی خاتون گلوکارہ پر جو ان کی والدہ کی عمر کی ہوںگی ریال کے بنڈل کے بنڈل لٹارہے تھے اور چیک سائن کررہے تھے۔ ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم ان عیاش حکمرانوں کا احترام کریں تو ان کا احترام وہی کریں جو ان کے دوست ہیں اور جو ان کو پاکستان جیسے ملک میں بھی ہر قسم کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور اسے کہتے آدابِ ایمانداری ہیں۔ پاکستان کے معصوم اور خوبصورت پرندے ان کی شکاری ہوس کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ ہر سال ہوتا ہے اور اس کا ایک خاص موسم ہے اور پاکستان کے عوام ہر سال اپنے معصوم پرندوں کے لیے دبی دبی آوازیں بلند کرتے ہیں۔ مگر سننے والا کوئی نہیں۔ ہوس کار اور ان کے سہولت کار طاقتور ہیں اور عوام کمزور۔ یہ بھی ہم سب جانتے ہیں مانتے نہیں کہ مٹی کو مٹی ہوجانا ہے چاہے وہ اس سے پہلے ریشم و کمخواب میں ہو یا گدڑی میں۔ مگر کسی کو خوف نہیں ہے۔ موت شاید نہیں آئے گی یہ یقین ہے۔ ایک صاحب کینسر ساتھ لیے تقاریر میں مائیکرو فون توڑرہے ہیں ایک اسپیکر کی کرسی پر بیٹھے ہیں جو انصاف کی کرسی ہے ''پارلیمانی انصاف اور مساوات'' مگر سب کچھ نہیں ہے۔ شاید ان کے ذہن میں کل نہیں ہے یہ آج میں زندہ ہیں آج کو کل ہوتے اور کل کو آج ہوتے دیر کتنی لگتی ہے۔
عجیب بات ہے کسی طرح بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ آخر اس قدر بے خبر کیسے ہوسکتے ہیں۔ اس حکومت کا ہر وزیر یوں لگتا ہے کہ ہزار سال کی عمر کا ہے کہ اسے اپنے کسی عمل پر نہ شرمندگی ہے اور نہ افسوس اور ان سے پہلے والے بھی ان سے مختلف نہیں سب کا ایمان، دولت ہے اور وہ ناپائیدار چیز جو روح کی روانگی کے بعد کہیں کام نہ آئے گی۔
ملک کو معاشی دلدل میں پھنسادیا گیا ہے قرضوں کے بوجھ تلے اس ملک کا بچہ بچہ سسک رہا ہے اور آیندہ نصف صدی تک بھی شاید ان قرضوں سے آزادی نہیں مل سکے گی، پرویز مشرف نے ملک کو آزاد کروایا اور ان کے بعد دو سیاسی حکومتوں نے اس ملک کو قرضوں میں ڈبودیا پچھلے نے جو کاریگری دکھائی وہ تو صرف ٹریلر تھی اصل تو یہ قرضے ہیں 2010 سے اب تک لے کر ملک کو ایک بین الاقوامی ادارے کے پاس رہن رکھ دیا گیا ہے۔
اس دنیا میں سیکڑوں ملک ہیں، کھربوں انسان ہیں اور ہر طرح کے انسانوں کی سوچ بھی الگ الگ ہے ایک باپ اولاد کے لیے حرام جمع کرکے اپنی قبر میں آگ سلگنے کا بندوبست کرتا ہے اور کمال یہ ہے کہ اولادیں بھی جانتی ہیں کہ یہ حرام ہے اور کہاں سے آیا ہے کس طرح کمایا گیا ہے مگر وہ ''الحمدﷲ''کہہ کر اس حرام کو اپنا مال بتاتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے تمام بہن بھائی اس حرام کو بخوشی قبول کرتے ہیں اور اس پر نازاں ہیں کہ باپ نے دھوکے دہی سے یہ مال جمع کیا ہے۔ سچ ہے ''باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیا''۔
اورایک خبر پڑھی اور حیرت ہوئی کہ یا اﷲ یہ کس نے مشہور کردیا کہ ایمان صرف مسلمان کے پاس ہے ایمان کو ایمانداری کے معنوں میں سمجھیں تو بات اور اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ چین کے ایک شخص نے جب اپنی وراثت اپنے اکلوتے بیٹے کو دینا چاہی تو اس نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا، چین کے ڈالیان وانڈا گروپ کے بانی اور چیئرمین وانگ جیان لن نے اپنے 28 سالہ بیٹے وان سیکونگ کو کامیاب زندگی کا پلان بتایا اور اس سے اپنی جانشینی کے بارے میں پوچھا تو اس نے اس کے شاپنگ سینٹرز، ہوٹلز، پارک اور کھیل کلب لینے سے انکار کردیا اور کہاکہ میں آپ جیسی زندگی نہیں گزارنا چاہتا۔ مسٹر وانگ جیان لن نے وراثت کے لیے اب متبادل تلاش کرنا شروع کردیا ہے۔
مسٹر جیان لن آپ اتنے کیوں پریشان ہیں۔ اول تو آپ اپنے بیٹے کو کچھ عرصے پاکستانی حکمرانوں کی اولاد کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج دیجیے، ان کے انداز میں اور جو کچھ آپ نے جس انداز میں کیا ہے تجارت کرکے جو حلال ہوگا آپ کا مال بخوبی قبول کرلے گا۔ اور آپ کی پریشانی ختم ہوجائے گی بلکہ اور بڑھ جائے گی۔
پیسوں کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ فارمولا ہے ان لوگوں کا جس پر گزشتہ 25 سال سے وہ عمل کررہے ہیں اور کامیاب ہیں۔ الحمدﷲ لگتا تو نہیں ہے کہ ان کا کچھ بگڑے۔ عمران خان کی کچھ اور چپلیں ضرور ٹوٹ جائیںگی۔ یہ ہے نتیجہ چین میں ذاتی دولت رکھنے کی اجازت دینے کا کہ اب کوئی اس دولت کا وارث نہیں ہے۔ کیا بات ہے چین کی۔