کرو مہربانی تم اہل زمیں پر مگر
دین اسلام حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے
CALIFORNIA:
دین اسلام حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے، جو اﷲ پاک کی عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ اﷲ کے بندوں کے ساتھ صلح رحمی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا بھی حکم دیتا ہے، خاص طور پر محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں اور بے سہارا لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و بہبود کی ہدایت کرتا ہے۔ اسوۂ رسولﷺ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود بالخصوص دکھی، مصیبت زدہ، مفلوک الحال اور مفلس و محتاج لوگوں کو باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنانا آپﷺ کی بعثت کے اعلیٰ مقاصد میں شامل تھا۔
بخاری اور مسلم کی متفقہ روایت کے مطابق آنحضرتﷺ نے فرمایا ''بیواؤں اور مسکینوں کی مصیبتوں کو دور کرنے میں کوشاں شخص اجر و ثواب میں اس شخص کے برابر ہے، جو ہمیشہ نماز میں مصروف رہتا ہے اور اس میں کوئی وقفہ نہیں کرتا اور ہمیشہ روزہ رکھتا ہے اور کبھی افطار نہیں کرتا''۔ ''میں اور یتیم و بے کس کی کفالت کرنے والا جنت میں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ہوں گے، جس طرح انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی ایک دوسرے کے ساتھ ہیں''۔
اعزہ و اقارب سے نیک سلوک کرنا، انسانی تعلقات استوار کرنا، بے کس و ناتواں کے مسائل و مصائب خود اپنے سر لینا، محروم و معدوم کو خود کما کر دینا، مہمان نوازی کرنا، حادثات و مقدمات میں حقدار کو حق دلانے میں مدد دینا، عالمگیر اصول ہیں، انسانیت کی فلاح و معاشرت و تمدن کی بہبود کا انحصار انھی پر ہے۔ اس سلسلے میں آپﷺ کے لائحہ عمل اور سیرت و کردار کی جو مستند ترین روایت ہم تک پہنچی ہے، اگر مسلمان اسے اپنی انفرادی زندگی میں اپنا لیں تو نہ صرف اسلامی دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے بلکہ پوری دنیا آنحضرت ﷺ کو صحیح معنوں میں رحمت دو عالمﷺ ماننے پر مجبور ہوسکتی ہے۔
گزشتہ دنوں سماجی ادارے کی جانب سے کالم نگاروں کے لیے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کا عنوان تھا Media Interaction of Safe Charity Giving Practices.۔ یہ ایک معلوماتی ورکشاپ تھی، جس کا مقصد میڈیا کے توسط سے لوگوں میں عطیات کے بارے میں شعور و آگہی بیدار کرنا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ کرو تم مہربانی اہل زمین پر، مگر! کیا آپ کو معلوم ہے؟ آپ کے عطیات، خیرات اور صدقات کی مد میں دی گئی رقم دہشت گردی کے کاموں میں بھی استعمال ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ بظاہر وہ فلاحی ادارے جو عطیات، خیرات اور زکٰوۃ اکٹھی کرتے ہیں وہ ملک دشمن بھی ہوسکتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق عطیات دینے والے لوگوں میں محض دو فیصد لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کے بغیر تصدیق کے دیے گئے عطیات دہشت گردی کے کاموں میں استعمال ہوسکتے ہیں۔
عطیات کی مد میں تقریباً 554 بلین روپے سالانہ اکٹھے ہوتے ہیں، لیکن عطیات دینے والوں میں سے 26 فیصد لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ ان کے دیے گئے روپے کن مقاصد میں استعمال ہورہے ہیں۔ لوگ پیسے کی صورت میں عطیات دیتے ہیں ان میں سے اکثر مساجد اور مدارس، بے گھر افراد اور تیسرے نمبر پر رشتے داروں کو دیتے ہیں۔ لوگ جو عطیات دیتے ہیں ان میں سے زیادہ تر رمضان المبارک میں، اور ناگہانی آفات کے مواقعے پر دیتے ہیں۔ سماجی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق چندہ اکٹھا کرنے کے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں، ان میں ٭موبائل فون کے ذریعے پیسے بھیجنا ٭چندے کے ڈبے میں پیسے ڈالنا ٭آن لائن عطیات دینا ٭بینک اکاؤنٹ میں رقم بھیجنا ٭صدقہ، فطرانہ، خیرات، زکٰوۃ اور عطیات کے علاوہ کھالیں وغیرہ عطیات کی صورت میں دینا ٭مختلف مقامات پر لگے کیمپ میں کسی بھی خاص مقصد کے لیے دینا ٭پمفلٹ اور اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے شامل ہیں۔
ایسے میں لوگوں کا قانونی اور معاشرتی حق بنتا ہے کہ وہ عطیات دینے سے پہلے ادارے کے بارے میں معلومات حاصل کریں، کسی ادارے یا شخص پر شک ہو تو اس کے بارے میں حکومتی اداروں کو اطلاع دیں، اگر کوئی شک ہوتو رہنمائی طلب کریں، اگر کوئی زبردستی عطیات اکٹھے کر رہا ہے تو اس کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ ہوسکتا ہے، عطیات پہلے اپنے رشتے داروں کو دیں یا ان لوگوں کو جن کے بارے میں آپ کو مکمل معلومات ہو۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری محنت کی کمائی کہیں کوئی ہمارے خلاف ہی تو استعمال نہیں کررہا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ کالعدم تنظیموں کی فہرست حکومتی اداروں کو ویب سائٹ پر شایع کرنی چاہیے، مقامی انتظامیہ کو کالعدم تنظیموں کے بارے میں آگاہی ہو تاکہ کسی بھی علاقے میں کیمپ ہٹایا جاسکے، موبائل کے ذریعے پیسے بھیجنے پر تمام ریکارڈ رجسٹر کروانے پر زور دیا جائے، کالعدم تنظیموں کے مختلف ونگ کو بھی بے نقاب کیا جائے، خاص طور پر شعبان، رمضان، عیدکے دنوں اور بیرون ملک سے آنے والے عطیات پر کڑی نظر رکھی جائے، خیراتی اداروں کے افعال پر موجود پاکستانی قوانین کا اطلاق سختی سے کیا جائے۔
''زمین میں فساد پیدا نہ کرو، کیوں کہ اﷲ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا''۔ اسلام دنیا میں امن کا پیغامبر بن کر آیا۔ اس نے دنیا کو امن و آشتی کے نور سے منور کیا، تکمیل انسانیت کی منزل میں سب سے بڑا سنگ راہ، بدامنی اور دہشت گردی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو عالمی چارٹر پیش کیا اس میں اسی بات کو فرمایا ''اے لوگو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو تاقیامت اس طرح محترم ہے، جس طرح یہ دن، اس مہینے اور اس شہر میں حرام ہے''۔ مژدہ امن سنانے کا وقت ہے۔
دنیا میں تین چیزیں ہیں، یعنی جان، مال اور آبرو، اگر معاشرے میں ان تین چیزوں کی ضمانت مل جائے تو حقیقی امن کا قیام یقینی ہے۔ جب ظلم بڑھ جاتا ہے تو اﷲ کا عذاب آتا ہے۔ انسانیت کی معراج یہ ہے کہ دنیا کی تمام قومیں امن و سکون کے ساتھ رہیں اور انسانی مفادات و حقوق کی حفاظت کریں۔ یہی زندگی کی عنایت ہے۔ اسلام اسی عنایت کی طرف بلاتا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اپنے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ کرنے کا عہد کریں۔ سب سے پہلے اپنے آپ سے عہد کریں کہ ہماری ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچے گا اور پھر دوسرے درجے میں ہوسکے، ہاتھ سے یا زبان سے یا پھر دل سے برائی کا خاتمہ کریں۔ اس طریقے سے ہم اپنے معاشرے کو امن و آشتی کا گہوارہ بناسکتے ہیں۔ ہم سب مل کر من حیث القوم اس کے لیے اجتماعی جدوجہد کریں تو انشاء اﷲ ہم ارض پاک کو ان برائیوں سے پاک کردیں گے۔ اتحاد و یکجہتی، اخوت و اجتماعیت ہی میں امن کا قیام اور ہماری بقا پوشیدہ ہے۔
دین اسلام حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے، جو اﷲ پاک کی عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ اﷲ کے بندوں کے ساتھ صلح رحمی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا بھی حکم دیتا ہے، خاص طور پر محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں اور بے سہارا لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و بہبود کی ہدایت کرتا ہے۔ اسوۂ رسولﷺ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود بالخصوص دکھی، مصیبت زدہ، مفلوک الحال اور مفلس و محتاج لوگوں کو باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنانا آپﷺ کی بعثت کے اعلیٰ مقاصد میں شامل تھا۔
بخاری اور مسلم کی متفقہ روایت کے مطابق آنحضرتﷺ نے فرمایا ''بیواؤں اور مسکینوں کی مصیبتوں کو دور کرنے میں کوشاں شخص اجر و ثواب میں اس شخص کے برابر ہے، جو ہمیشہ نماز میں مصروف رہتا ہے اور اس میں کوئی وقفہ نہیں کرتا اور ہمیشہ روزہ رکھتا ہے اور کبھی افطار نہیں کرتا''۔ ''میں اور یتیم و بے کس کی کفالت کرنے والا جنت میں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ہوں گے، جس طرح انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی ایک دوسرے کے ساتھ ہیں''۔
اعزہ و اقارب سے نیک سلوک کرنا، انسانی تعلقات استوار کرنا، بے کس و ناتواں کے مسائل و مصائب خود اپنے سر لینا، محروم و معدوم کو خود کما کر دینا، مہمان نوازی کرنا، حادثات و مقدمات میں حقدار کو حق دلانے میں مدد دینا، عالمگیر اصول ہیں، انسانیت کی فلاح و معاشرت و تمدن کی بہبود کا انحصار انھی پر ہے۔ اس سلسلے میں آپﷺ کے لائحہ عمل اور سیرت و کردار کی جو مستند ترین روایت ہم تک پہنچی ہے، اگر مسلمان اسے اپنی انفرادی زندگی میں اپنا لیں تو نہ صرف اسلامی دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے بلکہ پوری دنیا آنحضرت ﷺ کو صحیح معنوں میں رحمت دو عالمﷺ ماننے پر مجبور ہوسکتی ہے۔
گزشتہ دنوں سماجی ادارے کی جانب سے کالم نگاروں کے لیے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کا عنوان تھا Media Interaction of Safe Charity Giving Practices.۔ یہ ایک معلوماتی ورکشاپ تھی، جس کا مقصد میڈیا کے توسط سے لوگوں میں عطیات کے بارے میں شعور و آگہی بیدار کرنا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ کرو تم مہربانی اہل زمین پر، مگر! کیا آپ کو معلوم ہے؟ آپ کے عطیات، خیرات اور صدقات کی مد میں دی گئی رقم دہشت گردی کے کاموں میں بھی استعمال ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ بظاہر وہ فلاحی ادارے جو عطیات، خیرات اور زکٰوۃ اکٹھی کرتے ہیں وہ ملک دشمن بھی ہوسکتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق عطیات دینے والے لوگوں میں محض دو فیصد لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کے بغیر تصدیق کے دیے گئے عطیات دہشت گردی کے کاموں میں استعمال ہوسکتے ہیں۔
عطیات کی مد میں تقریباً 554 بلین روپے سالانہ اکٹھے ہوتے ہیں، لیکن عطیات دینے والوں میں سے 26 فیصد لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ ان کے دیے گئے روپے کن مقاصد میں استعمال ہورہے ہیں۔ لوگ پیسے کی صورت میں عطیات دیتے ہیں ان میں سے اکثر مساجد اور مدارس، بے گھر افراد اور تیسرے نمبر پر رشتے داروں کو دیتے ہیں۔ لوگ جو عطیات دیتے ہیں ان میں سے زیادہ تر رمضان المبارک میں، اور ناگہانی آفات کے مواقعے پر دیتے ہیں۔ سماجی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق چندہ اکٹھا کرنے کے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں، ان میں ٭موبائل فون کے ذریعے پیسے بھیجنا ٭چندے کے ڈبے میں پیسے ڈالنا ٭آن لائن عطیات دینا ٭بینک اکاؤنٹ میں رقم بھیجنا ٭صدقہ، فطرانہ، خیرات، زکٰوۃ اور عطیات کے علاوہ کھالیں وغیرہ عطیات کی صورت میں دینا ٭مختلف مقامات پر لگے کیمپ میں کسی بھی خاص مقصد کے لیے دینا ٭پمفلٹ اور اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے شامل ہیں۔
ایسے میں لوگوں کا قانونی اور معاشرتی حق بنتا ہے کہ وہ عطیات دینے سے پہلے ادارے کے بارے میں معلومات حاصل کریں، کسی ادارے یا شخص پر شک ہو تو اس کے بارے میں حکومتی اداروں کو اطلاع دیں، اگر کوئی شک ہوتو رہنمائی طلب کریں، اگر کوئی زبردستی عطیات اکٹھے کر رہا ہے تو اس کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ ہوسکتا ہے، عطیات پہلے اپنے رشتے داروں کو دیں یا ان لوگوں کو جن کے بارے میں آپ کو مکمل معلومات ہو۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری محنت کی کمائی کہیں کوئی ہمارے خلاف ہی تو استعمال نہیں کررہا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ کالعدم تنظیموں کی فہرست حکومتی اداروں کو ویب سائٹ پر شایع کرنی چاہیے، مقامی انتظامیہ کو کالعدم تنظیموں کے بارے میں آگاہی ہو تاکہ کسی بھی علاقے میں کیمپ ہٹایا جاسکے، موبائل کے ذریعے پیسے بھیجنے پر تمام ریکارڈ رجسٹر کروانے پر زور دیا جائے، کالعدم تنظیموں کے مختلف ونگ کو بھی بے نقاب کیا جائے، خاص طور پر شعبان، رمضان، عیدکے دنوں اور بیرون ملک سے آنے والے عطیات پر کڑی نظر رکھی جائے، خیراتی اداروں کے افعال پر موجود پاکستانی قوانین کا اطلاق سختی سے کیا جائے۔
''زمین میں فساد پیدا نہ کرو، کیوں کہ اﷲ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا''۔ اسلام دنیا میں امن کا پیغامبر بن کر آیا۔ اس نے دنیا کو امن و آشتی کے نور سے منور کیا، تکمیل انسانیت کی منزل میں سب سے بڑا سنگ راہ، بدامنی اور دہشت گردی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو عالمی چارٹر پیش کیا اس میں اسی بات کو فرمایا ''اے لوگو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو تاقیامت اس طرح محترم ہے، جس طرح یہ دن، اس مہینے اور اس شہر میں حرام ہے''۔ مژدہ امن سنانے کا وقت ہے۔
دنیا میں تین چیزیں ہیں، یعنی جان، مال اور آبرو، اگر معاشرے میں ان تین چیزوں کی ضمانت مل جائے تو حقیقی امن کا قیام یقینی ہے۔ جب ظلم بڑھ جاتا ہے تو اﷲ کا عذاب آتا ہے۔ انسانیت کی معراج یہ ہے کہ دنیا کی تمام قومیں امن و سکون کے ساتھ رہیں اور انسانی مفادات و حقوق کی حفاظت کریں۔ یہی زندگی کی عنایت ہے۔ اسلام اسی عنایت کی طرف بلاتا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اپنے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ کرنے کا عہد کریں۔ سب سے پہلے اپنے آپ سے عہد کریں کہ ہماری ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچے گا اور پھر دوسرے درجے میں ہوسکے، ہاتھ سے یا زبان سے یا پھر دل سے برائی کا خاتمہ کریں۔ اس طریقے سے ہم اپنے معاشرے کو امن و آشتی کا گہوارہ بناسکتے ہیں۔ ہم سب مل کر من حیث القوم اس کے لیے اجتماعی جدوجہد کریں تو انشاء اﷲ ہم ارض پاک کو ان برائیوں سے پاک کردیں گے۔ اتحاد و یکجہتی، اخوت و اجتماعیت ہی میں امن کا قیام اور ہماری بقا پوشیدہ ہے۔