کیا قوم ہیں ہم آخری حصہ
وہ یورپی قومیتیں جو بیٹھکی نظام چلاتی تھیں، وہ بالآخر خود امریکی بیٹھک بن گئیں
نیا مقدس آئین: موجودہ جدید دور کی ابتدا کو یورپی نشاۃ ثانیہ کا اختتامیہ اور عالم انسانیت کا مشترکہ ارتقائی مرحلہ کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ یورپی ریاستیں اپنی قومی برتری کی مقامی وعالمی جنگوں میں اپنا سب کچھ ہار بیٹھی تھیں۔
وہ یورپی قومیتیں جو بیٹھکی نظام چلاتی تھیں، وہ بالآخر خود امریکی بیٹھک بن گئیں۔ ان کے تمام تر ذرایع پیداوار فیکٹریوں اور مشنریوں پر مرتکز اور ان کے وسائل عالمی استعمار کے تخلیق کردہ قوانین (یا بینکوں) کے زیر تصرف ہوچکے تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں یورپین قومی حکمرانی کا سورج غروب ہوچکا تھا اور یورپ کی دریافت وآباد شدہ امریکی قومیت نے یوم ہیروشیما وناگاساکی کے پرمسرت تہوار پر اقوام عالم کی قیادت کا خود ساختہ تاج پہن لیا تھا، جو کہ تاریخ میں قدیم استبداد کے جدید استعماری ارتقائی مرحلے میں داخل ہونے کا اعلان ثابت ہوا۔
چونکہ لیگ آف نیشنز کے ڈی این اے سے اقوام متحدہ نے جنم لیا اور گہوارے میں سے کلام کرتے ہوئے اپنے عہد شیر خواری میں ہی امریکی استعمار کی اطاعت و فرمانبرداری کا حلف لیا۔ امریکا اور اس کی جدید استعمار مخالف قوتوں پر تعزیرات عائد کیں۔ مسئلہ کشمیر پر استصواب رائے کرایا گیا اور نہ ''استعمار کی لاڈلی سیکولر ہندو قومی'' جارحیت کو رکوانے کی کوشش کی گئی۔ ہاں البتہ اعلان بالفور کا اس نے اس طرح دفاع کیا جیسے کہ یہ ''اقوام عالم کا نیا مقدس آئین'' ہو۔ جس کی روشنی میں آئین کا طالب علم یہ برملا طور پر کہہ سکتا ہے کہ اقوام عالم میں عالمی اداروں کی سفارشات سے مرتب ومروج تمام تر آئین اسی ''مقدس آئین'' کی تعظیم وتکریم کے سوا کچھ نہیں رہ جاتے۔
جدید جارحیت: اگر ٹھوس مادی بنیادوں پر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو عالم انسانیت کے تمام ارتقائی مراحل کو یکجا کرنے کے ساتھ اس جدید ارتقائی مرحلے پر تمام گروہوں کو ایک دوسرے سے واقف کرانے اور کائنات کی وسعتوں کو سمٹانے کی ابتدا یورپی نشاۃ ثانیہ کے نام سے ملتی ہے، جس نے انسانی تاریخ میں پنپنے والے تمام تر نظریات کا لگ بھگ خاتمہ کردیا ہے۔ اور اقوام عالم کو انسانی خون پینے اور ان کی ہڈیاں تک چباکر کھانے والے سرمایہ دارانہ نظام پر منتج جمہوریت، سوشلزم، سیکولرزم، لبرلزم، کمیونزم، جارحانہ قسم کی ترقی پسندی، تاریخی نظریات اور تاریخ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہنے کی وسیع النظری کو نئے جہاں عطا کیے ہیں، اور انھی کے دم پر اقوام عالم اپنے اپنے نظام تمدن کی جدید صف بندی میں نہ صرف مصروف ہیں، بلکہ ان کا ایک پیر آج چاند پر ہے تو دوسرا بلیک ہولز سے بھی آگے کہیں نامعلوم مقام پر رکھنے کے ارادے ہیں۔
اور اقوام عالم میں بٹا انسان اس دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جارحانہ دیوانگی میں مبتلا ہے، یعنی یورپی نشاۃ ثانیہ میں دیگر خطوں پر ہونے والی قومی جارحانہ کارروائیوں کا رخ اب فلکی اجسام کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ حالانکہ جدید استعماری موجدین و محققین اس دوڑ میں سرمایہ کاری کو رد کرچکے ہیں۔ لیکن نشاۃ ثانیہ کی پیروی میں دیگر قوموں کے لیے تو یہ بھی ضروری ہے نا کہ وہ اس قسم کے اصراف میں مبتلا ہوکر استعماری امداد سے اپنے قومیت اور قومی ریاست کو اور زیادہ مقروض و کمزور کرنے جیسا مقدس فریضہ انجام دیں۔
دو قومی نظریہ: چونکہ اقوام عالم کو یہ سبق رٹایا جاچکا ہے کہ یورپی نشاۃ ثانیہ کی تاریخ کو اس کے جدید تقاضوں کے ساتھ دہرانا اور ان کے جیسے ترقی یافتہ بن جانا ان کے ہر ایک خواتین و مرد پر فرض ہے۔ جس کی روشنی میں تاریخ کا طالب علم یہ سمجھ سکتا ہے کہ اقوام کو اعلان بالفور کے بطن سے بغیر ''باپ'' کے جنم لینے والی قوم کی سی ترقی حاصل کرنے اور ان کے سے طرز حیات کو اپنانے کا نیا نظریہ دیا جاچکا ہے، یعنی موجودہ دور میں Survive کرنے کے لیے اقوام پر یہ ضروری بن چکا ہے کہ زندگی کے نجی و ریاستی شعبہ جات کے تمام مرحلوں میں ایجاداتی تعلیم اور ان ایجادات کی جارحانہ مارکیٹ بنانے کے لیے مرد کے ساتھ عورت بھی برابری کی بنیاد پر اپنی صلاحیتیں استعمال کر کے سرمائے کے حصول کو یقینی بنائیں۔ مزیدار بات ہے نا کہ تمام ترقی یافتہ اقوام عورت ومرد کی مادی طور پر فطری تفریق کے باوجود اس کی عملی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں۔
پھر چاہے گھروں میں Babysitter بننے کا سوال ہو یا ہیوی ویٹ ریسلر کا میدان ہی کیوں نہ ہو۔ PizzaDelivery سے لے کر Diplomacy تک ان کے ہر ایک شعبہ حیات میں اس کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ فیکٹریاتی مصنوعات کی برکات کے باعث ان کی آسودگی کا یہ عالم ہے کہ وہ گھروں میں کھانا پکانے، برتن دھونے اور جھاڑو پوچا لگانے سے آزاد اپنی دفتری وسماجی ذمے داریوں کے باعث اپنی قومی ترقی میں عملی طور شریک ہیں۔ اسی لیے وہ جانتی ہیں کہ قومی وریاستی ترقی کے لیے دو بچے ہی اچھے ہیں۔ لیکن ترقی پذیر ریاستوں میں ان کے برعکس محکمہ ہائے بہبود آبادی کے قلمدان عالمی اداروں کی بے جا امداد کی وجہ سے ریاستوں کو مقروض کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں، جب کہ عملی طور پر ان کے متعارف کردہ دیگر جدید ریاستی اداروں کی کارکردگی کا بھی یہی عالم دیکھنے کوملتا ہے۔
پھر تو لازمی سی بات ہے کہ ترقی پذیر ریاستیں اپنے محدود ہوتے ذرایع پیداوار اور وسائل کے باعث عالمی استعمار کے ہر اول دستوں جیسے مالیاتی اداروں کے دست نگر و محکوم بنتے جائیں گے۔ اس لیے ان سے جان چھڑانے کے لیے ترقی پذیر ریاستوں کو چاہیے کہ وہ جغرافیائی سرحدوں کے اندر اپنی آبادی پر ضابطہ لانے کے ساتھ دیگر اداروں کو بھی فعال بنائیں۔ چونکہ اقوام عالم کے وسیع النظر دانشوران کرام اعلان بالفور سے پیداشدہ قوم کے بعد اس ہندوستانی قوم کو اپنا ماڈل بنائے ہوئے ہیں، جس قوم نے بھی وہی چلن اختیارکیا اور اپنی ہزاروں برس کی تاریخ سے روگردانی کرتے ہوئے اپنی تمام تر مقدس ہستیوں کے نظریات کو رد کیا اور نشاۃ ثانیہ کا عطا کردہ نیا سیکولر تشخص اپنا لیا تھا۔ شاید اسی لیے ہندوستانی سیکولر قوم استعمار کی آنکھ کا تارا بنا ہوا ہے۔ کیونکہ قوموں کی صف میں سیکولر ہندوستانی قومی تشخص استعمار کا سب سے زیادہ اطاعت و فرمانبردار ہے۔
جس میں ان کی دیوتائی مرعوبیت کی فطرتی خاصیت بھی اپنا کام کرتی ہوئی ملتی ہے۔ اور اسی اطاعت وتابعداری کے اظہار کے لیے دیگر اقدامات کے سمیت ہندوستانی ریاست آسام میں بی جے پی کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو نہ تو سرکاری نوکری دی جائے گی اور نہ ہی ان کو انتخابات لڑنے کا حق ہوگا۔ اب اس فیصلے کو مثال بناکر عمومی طور پر دیگر اقوام خصوصی طور پاکستانی قوم کے ترقی پسند دانشوران کرام اپنی جگر سوزیوں اور گوہر افشانیوں میں مصروف دیکھنے کو ملیں گے۔ فرض کرلیں کہ ترقی پذیر ریاستیں جب تک اپنی بڑھتی آبادی پر ضابطہ لاکر دو بچے ہی اچھے کی عملی تصویر بنیں گی، تب تک ان کی قومیں رائج مرحلے کے موجودہ معیارات کے مطابق ضرور ترقی یافتہ بن جائیں گی۔
لیکن وہ کہ جو اعلان بالفور سے جنم لینے والی استعماری قوم ہے اس مرحلے کو طے کرچکی ہے، وہ تو پھر زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی یافتگی کے صدیوں پر مشتمل جدید اور اگلے ارتقائی مرحلے میں داخل ہوچکی ہوگی۔ اس قسم کے سیاق وسباق میں تحقیقات نظریہ پاکستان اقوام عالم کو بہت بڑی دعوت فکر ہے۔ جس کی روشنی میں عالم انسانیت واضح طور پر ایک طرف آئین ابراہیمؑ کی پیروی کرنے والی قوم اور دوسری طرف اعلان بالفور نامی جدیدآئین اور اس کے اجزائے ترکیبی سے مرکب قوم میں تقسیم نظر آئے گی۔ کیا خوبصورت نظارہ ہوگا کہ اس وقت دو قومی نظریہ کی جدید تشریح اور عالم انسانیت کو یکساں طور لاحق استعماری بھیانک مسائل کا قابل عمل حل بیان کرتی تحقیقات نظریہ پاکستان کی افادیت کھل کر سامنے آجائے گی۔ شاید اس وقت ہماری جمہوریت پسندی اور وسیع النظری ہمیں دکھا دے کہ ''کیا قوم ہیں ہم؟''۔
وہ یورپی قومیتیں جو بیٹھکی نظام چلاتی تھیں، وہ بالآخر خود امریکی بیٹھک بن گئیں۔ ان کے تمام تر ذرایع پیداوار فیکٹریوں اور مشنریوں پر مرتکز اور ان کے وسائل عالمی استعمار کے تخلیق کردہ قوانین (یا بینکوں) کے زیر تصرف ہوچکے تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں یورپین قومی حکمرانی کا سورج غروب ہوچکا تھا اور یورپ کی دریافت وآباد شدہ امریکی قومیت نے یوم ہیروشیما وناگاساکی کے پرمسرت تہوار پر اقوام عالم کی قیادت کا خود ساختہ تاج پہن لیا تھا، جو کہ تاریخ میں قدیم استبداد کے جدید استعماری ارتقائی مرحلے میں داخل ہونے کا اعلان ثابت ہوا۔
چونکہ لیگ آف نیشنز کے ڈی این اے سے اقوام متحدہ نے جنم لیا اور گہوارے میں سے کلام کرتے ہوئے اپنے عہد شیر خواری میں ہی امریکی استعمار کی اطاعت و فرمانبرداری کا حلف لیا۔ امریکا اور اس کی جدید استعمار مخالف قوتوں پر تعزیرات عائد کیں۔ مسئلہ کشمیر پر استصواب رائے کرایا گیا اور نہ ''استعمار کی لاڈلی سیکولر ہندو قومی'' جارحیت کو رکوانے کی کوشش کی گئی۔ ہاں البتہ اعلان بالفور کا اس نے اس طرح دفاع کیا جیسے کہ یہ ''اقوام عالم کا نیا مقدس آئین'' ہو۔ جس کی روشنی میں آئین کا طالب علم یہ برملا طور پر کہہ سکتا ہے کہ اقوام عالم میں عالمی اداروں کی سفارشات سے مرتب ومروج تمام تر آئین اسی ''مقدس آئین'' کی تعظیم وتکریم کے سوا کچھ نہیں رہ جاتے۔
جدید جارحیت: اگر ٹھوس مادی بنیادوں پر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو عالم انسانیت کے تمام ارتقائی مراحل کو یکجا کرنے کے ساتھ اس جدید ارتقائی مرحلے پر تمام گروہوں کو ایک دوسرے سے واقف کرانے اور کائنات کی وسعتوں کو سمٹانے کی ابتدا یورپی نشاۃ ثانیہ کے نام سے ملتی ہے، جس نے انسانی تاریخ میں پنپنے والے تمام تر نظریات کا لگ بھگ خاتمہ کردیا ہے۔ اور اقوام عالم کو انسانی خون پینے اور ان کی ہڈیاں تک چباکر کھانے والے سرمایہ دارانہ نظام پر منتج جمہوریت، سوشلزم، سیکولرزم، لبرلزم، کمیونزم، جارحانہ قسم کی ترقی پسندی، تاریخی نظریات اور تاریخ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہنے کی وسیع النظری کو نئے جہاں عطا کیے ہیں، اور انھی کے دم پر اقوام عالم اپنے اپنے نظام تمدن کی جدید صف بندی میں نہ صرف مصروف ہیں، بلکہ ان کا ایک پیر آج چاند پر ہے تو دوسرا بلیک ہولز سے بھی آگے کہیں نامعلوم مقام پر رکھنے کے ارادے ہیں۔
اور اقوام عالم میں بٹا انسان اس دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جارحانہ دیوانگی میں مبتلا ہے، یعنی یورپی نشاۃ ثانیہ میں دیگر خطوں پر ہونے والی قومی جارحانہ کارروائیوں کا رخ اب فلکی اجسام کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ حالانکہ جدید استعماری موجدین و محققین اس دوڑ میں سرمایہ کاری کو رد کرچکے ہیں۔ لیکن نشاۃ ثانیہ کی پیروی میں دیگر قوموں کے لیے تو یہ بھی ضروری ہے نا کہ وہ اس قسم کے اصراف میں مبتلا ہوکر استعماری امداد سے اپنے قومیت اور قومی ریاست کو اور زیادہ مقروض و کمزور کرنے جیسا مقدس فریضہ انجام دیں۔
دو قومی نظریہ: چونکہ اقوام عالم کو یہ سبق رٹایا جاچکا ہے کہ یورپی نشاۃ ثانیہ کی تاریخ کو اس کے جدید تقاضوں کے ساتھ دہرانا اور ان کے جیسے ترقی یافتہ بن جانا ان کے ہر ایک خواتین و مرد پر فرض ہے۔ جس کی روشنی میں تاریخ کا طالب علم یہ سمجھ سکتا ہے کہ اقوام کو اعلان بالفور کے بطن سے بغیر ''باپ'' کے جنم لینے والی قوم کی سی ترقی حاصل کرنے اور ان کے سے طرز حیات کو اپنانے کا نیا نظریہ دیا جاچکا ہے، یعنی موجودہ دور میں Survive کرنے کے لیے اقوام پر یہ ضروری بن چکا ہے کہ زندگی کے نجی و ریاستی شعبہ جات کے تمام مرحلوں میں ایجاداتی تعلیم اور ان ایجادات کی جارحانہ مارکیٹ بنانے کے لیے مرد کے ساتھ عورت بھی برابری کی بنیاد پر اپنی صلاحیتیں استعمال کر کے سرمائے کے حصول کو یقینی بنائیں۔ مزیدار بات ہے نا کہ تمام ترقی یافتہ اقوام عورت ومرد کی مادی طور پر فطری تفریق کے باوجود اس کی عملی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں۔
پھر چاہے گھروں میں Babysitter بننے کا سوال ہو یا ہیوی ویٹ ریسلر کا میدان ہی کیوں نہ ہو۔ PizzaDelivery سے لے کر Diplomacy تک ان کے ہر ایک شعبہ حیات میں اس کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ فیکٹریاتی مصنوعات کی برکات کے باعث ان کی آسودگی کا یہ عالم ہے کہ وہ گھروں میں کھانا پکانے، برتن دھونے اور جھاڑو پوچا لگانے سے آزاد اپنی دفتری وسماجی ذمے داریوں کے باعث اپنی قومی ترقی میں عملی طور شریک ہیں۔ اسی لیے وہ جانتی ہیں کہ قومی وریاستی ترقی کے لیے دو بچے ہی اچھے ہیں۔ لیکن ترقی پذیر ریاستوں میں ان کے برعکس محکمہ ہائے بہبود آبادی کے قلمدان عالمی اداروں کی بے جا امداد کی وجہ سے ریاستوں کو مقروض کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں، جب کہ عملی طور پر ان کے متعارف کردہ دیگر جدید ریاستی اداروں کی کارکردگی کا بھی یہی عالم دیکھنے کوملتا ہے۔
پھر تو لازمی سی بات ہے کہ ترقی پذیر ریاستیں اپنے محدود ہوتے ذرایع پیداوار اور وسائل کے باعث عالمی استعمار کے ہر اول دستوں جیسے مالیاتی اداروں کے دست نگر و محکوم بنتے جائیں گے۔ اس لیے ان سے جان چھڑانے کے لیے ترقی پذیر ریاستوں کو چاہیے کہ وہ جغرافیائی سرحدوں کے اندر اپنی آبادی پر ضابطہ لانے کے ساتھ دیگر اداروں کو بھی فعال بنائیں۔ چونکہ اقوام عالم کے وسیع النظر دانشوران کرام اعلان بالفور سے پیداشدہ قوم کے بعد اس ہندوستانی قوم کو اپنا ماڈل بنائے ہوئے ہیں، جس قوم نے بھی وہی چلن اختیارکیا اور اپنی ہزاروں برس کی تاریخ سے روگردانی کرتے ہوئے اپنی تمام تر مقدس ہستیوں کے نظریات کو رد کیا اور نشاۃ ثانیہ کا عطا کردہ نیا سیکولر تشخص اپنا لیا تھا۔ شاید اسی لیے ہندوستانی سیکولر قوم استعمار کی آنکھ کا تارا بنا ہوا ہے۔ کیونکہ قوموں کی صف میں سیکولر ہندوستانی قومی تشخص استعمار کا سب سے زیادہ اطاعت و فرمانبردار ہے۔
جس میں ان کی دیوتائی مرعوبیت کی فطرتی خاصیت بھی اپنا کام کرتی ہوئی ملتی ہے۔ اور اسی اطاعت وتابعداری کے اظہار کے لیے دیگر اقدامات کے سمیت ہندوستانی ریاست آسام میں بی جے پی کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو نہ تو سرکاری نوکری دی جائے گی اور نہ ہی ان کو انتخابات لڑنے کا حق ہوگا۔ اب اس فیصلے کو مثال بناکر عمومی طور پر دیگر اقوام خصوصی طور پاکستانی قوم کے ترقی پسند دانشوران کرام اپنی جگر سوزیوں اور گوہر افشانیوں میں مصروف دیکھنے کو ملیں گے۔ فرض کرلیں کہ ترقی پذیر ریاستیں جب تک اپنی بڑھتی آبادی پر ضابطہ لاکر دو بچے ہی اچھے کی عملی تصویر بنیں گی، تب تک ان کی قومیں رائج مرحلے کے موجودہ معیارات کے مطابق ضرور ترقی یافتہ بن جائیں گی۔
لیکن وہ کہ جو اعلان بالفور سے جنم لینے والی استعماری قوم ہے اس مرحلے کو طے کرچکی ہے، وہ تو پھر زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی یافتگی کے صدیوں پر مشتمل جدید اور اگلے ارتقائی مرحلے میں داخل ہوچکی ہوگی۔ اس قسم کے سیاق وسباق میں تحقیقات نظریہ پاکستان اقوام عالم کو بہت بڑی دعوت فکر ہے۔ جس کی روشنی میں عالم انسانیت واضح طور پر ایک طرف آئین ابراہیمؑ کی پیروی کرنے والی قوم اور دوسری طرف اعلان بالفور نامی جدیدآئین اور اس کے اجزائے ترکیبی سے مرکب قوم میں تقسیم نظر آئے گی۔ کیا خوبصورت نظارہ ہوگا کہ اس وقت دو قومی نظریہ کی جدید تشریح اور عالم انسانیت کو یکساں طور لاحق استعماری بھیانک مسائل کا قابل عمل حل بیان کرتی تحقیقات نظریہ پاکستان کی افادیت کھل کر سامنے آجائے گی۔ شاید اس وقت ہماری جمہوریت پسندی اور وسیع النظری ہمیں دکھا دے کہ ''کیا قوم ہیں ہم؟''۔