سیاسی جماعتوں کی بصیرت
بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے قومی مصالحتی آرڈیننس NRO کے ذریعے مفاہمت کی۔
جمہوریت پھر خطرے میں تھی مگر سیاسی جماعتوں کی بصیرت سے خطرہ ٹل گیا۔ صدر آصف زرداری نے 2008ء میں وسیع تر حکومت کا جو فلسفہ پیش کیا تھا، اس فلسفے کی بنا پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے 5 سال مکمل کر لیے مگر سماجی جمہوریت نہ ہونے کی بنا پر طالع آزما قوتیں جمہوری نظام کو تلپٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جب پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو نے جلا وطنی اختیار کی، مسلم لیگ کے رہنما نواز شریف اقتدار سے محروم ہو کر اٹک اور لانڈھی سینٹرل جیل میں مقید ہوئے۔
لانڈھی جیل میں میاں نواز شریف اور آصف زرداری میں طویل تبادلہ خیال ہوا تو سیاسی رہنما اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاسی جماعتیں اتفاق کر کے جمہوری نظام قائم کر سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری پاکستانی جیلوں میں 9 سال گزارنے کے بعد لندن پہنچے۔ میاں نواز شریف کو سعودی عرب میں پناہ ملی، پھر لندن گئے تو ان رہنمائوں میں جمہوریت کے مستقبل پر بحث مباحثہ ہوا، بے نظیر اور نوازشریف میں 2005ء میں لندن میں میثاق جمہوریت پر اتفاق ہوا۔ اس تاریخی میثاق میں 1973ء کے آئین کی مکمل بحالی، بنیادی انسانی حقوق کو آئین میں شامل کرنے، صوبائی خود مختاری، ججوں کے تقرر اور آمروں کے اقتدار کو قانونی تحفظ دینے والے ججوں کے بارے میں لائحہ عمل کے بارے میں جامع نکات شامل ہوئے۔
بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے قومی مصالحتی آرڈیننس NRO کے ذریعے مفاہمت کی۔ بے نظیر بھٹو 2007ء میں پاکستان آئیں، اس طرح نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور دوسری جماعتیں عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں شامل ہوئیں۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو دہشت گردی کا شکار ہو کر شہید ہو گئیں۔ میاں نواز شریف نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا مگر پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف زرداری کے مشورے پر مسلم لیگ نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، صدر زرداری کے مفاہمت کے نظریے کے تحت نیا جمہوری ڈھانچہ مرتب ہوا، پہلی دفعہ منتخب جماعتوں نے وفاق اور صوبوں میں ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کیا مگر نادیدہ قوتوں کی کوششوں سے چیف جسٹس کی بحالی پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ میں اختلافات ہوئے، جمہوری قوتوں میں ایسی خلیج پیدا ہوئی کہ اب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کے حکم پر مسلم لیگ ن کو بھی تشویش پیدا ہوئی۔
بلوچستان میں پیپلزپارٹی ہمیشہ کمزور رہی، ہمیشہ چند بلوچ سردار پیپلزپارٹی کی حمایت کرتے رہے، بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حقیقی مقبولیت ہزارہ کمیونٹی اور کوئٹہ میں رہنے والے غیر مقامی افراد اور پختون علاقے کے مخصوص علاقوں پٹ فیڈر نصیر آباد میں رہی۔ 2008ء کے عام انتخابات میں ہزارہ برادری کی حمایت سے پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ملی تھیں۔ سردار اسلم رئیسانی قوم پرستوں میں اختلافات کی بنا پر پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے سردار رئیسانی کی حمایت کے لیے کئی صوبائی اراکین کو آمادہ کیا تھا۔ سندھ کے بعد بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے وزیر اعلیٰ اقتدار میں آئے۔
صدر زرداری نے بلوچ قوم پرستوں کو سیاسی دھارے میں لانے کے لیے ابتدائی دور میں کچھ اقدامات کیے، جس کے مثبت نتائج نکلے مگر پھر اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات نے بالادستی حاصل کر لی، دوسرے صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے لوگوں کو قتل کیا گیا اور بلوچ سیاسی کارکنوں کے اغوا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ تیز ہوا، اس کے ساتھ کوئٹہ میں ہزارہ منگول برادری کے لوگوں کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گونج بین الاقوامی برادری تک پہنچ گئی۔
اقوام متحدہ نے لاپتہ افراد کے معاملے میں حقائق جمع کرنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیج دیا۔ سیاسی جماعتوں، غیر سرکاری تنظیموں نے ایف سی کو شہریوں کے اغوا اور قتل کا ذمے دار قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں اس صورتحال کا ذکر کیا، اس کے ساتھ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا۔
ملک کے باقی علاقوں میں مہنگائی، گیس، بجلی کی قلت نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری کر کے یہ فرض کر لیا کہ وہ عوام کے حالات کو بہتر بنا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نے سستی روٹی اسکیم، لاہور میں سڑکیں بنا کر اور نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کر کے اور پیلی ٹیکسیوں کی اسکیمیں پیش کر کے یہ جانا کہ وہ عوام کے تمام مسائل حل کر رہی ہے، اس طرح خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی نے دہشت گردی کی جنگ میں قربانیاں دے کر یہ سمجھ لیا کہ عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ اس دوران پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتون نے 1973ء کے آئین کو مکمل طور پر وفاقی شکل دینے، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کرانے کے لیے جامع ترمیمات کیں، جس سے طالع آزما قوتوں کی لاپتہ ریشہ دوانی کے امکانات محدود ہوئے مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے جھگڑوں کی بنا پر سپریم کورٹ کو تمام اداروں پر بالادستی حاصل کرنے کا موقع ملا۔
ان پانچ برسوں میں سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت Good Governance کی اہمیت کو فراموش کر گئی، میرٹ کا اصول پامال ہوا، حکومت کو اقتدار کو بچانے کے لیے غیر جمہوری قوتوں پر زیادہ انحصار کرنا پڑا۔ پھر یہ برا وقت آیا کہ ہزارہ برادری کو نسل کشی سے بچانے کے لیے پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ کی برطرفی اور فوج کو بلانے کے مطالبے پر مجبور ہوئی۔ اسی طرح سندھ میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہوئی، خاص طور پر کراچی میں ریاست کی رٹ ختم ہو گئی، عام آدمی کو موجودہ اتحادی حکومت اور فوجی حکومتوں کے کردار میں کوئی فرق محسوس نہیں ہونے لگا، ایسی ہی صورتحال پنجاب میں اور خیبر پختونخوا میں عمومی طور پر ہوئی۔ اس مجموعی صورتحال میں حقیقی مقتدرہ کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان اور بھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات پر متفق ہیں۔
2008ء میں ممبئی دہشت گردی کے اثرات زرداری حکومت کی کوششوں سے ختم ہوئے، دونوں ممالک آزاد ویزہ پالیسی پر متفق ہوئے۔گزشتہ سال کے وسط میں آزاد کشمیر میں وادی نیلم کے باشندوں نے اپنے علاقے میں غیر ریاستی کرداروں کی سرگرمیوں کے خلاف ہڑتال کی۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے بھارتی پارلیمنٹ کے حملے کے بعد جہادیوں کے کیمپوں پر پابندی لگائی تھی تو بھارتی فوج نے اس علاقے میں بمباری ختم کی تھی۔ اگر ان کی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو گئیں تو پھر یہ علاقہ بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گا۔گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے سے کنٹرول لائن کے واقعات پھر ان کے حقائق بیان کر رہے ہیں۔ بھارت نے آزاد ویزے کی پالیسی کی بعض شقوں پر عملدرآمد معطل کر دیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے کروڑوں روپے خرچ کر کے ہزاروں افراد اسلام آباد میں جمع کر لیے۔ آئین کی پامالی اور وقت پر انتخابات کے معاملے کو چیلنج کیا گیا ۔ بعض سیاسی مبصرین یہ پیش گوئی کرتے رہے کہ اگلا حملہ صدر زرداری پر ہو گا۔ اس صورتحال میں ایک اہم بات یہ تھی کہ جمہوری قوتیں اور سول سوسائٹی جمہوریت کو درپیش چیلنج کے خطرے کو محسوس کر رہی تھیں۔ میاں نواز شریف، حاصل بزنجو، محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمٰن اور دوسری سیاسی جماعتوں نے ایک اجلاس میں جمہوریت کے لیے آواز اٹھا کر سیاسی شعور اور دور اندیشی کا ثبوت دیا ہے، ڈاکٹر قادری سے معاہدہ کے بعد بظاہر جمہوری نظام کے استحکام کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
اس صورتحال میں ایک واضح حل آئین کے تحت فوری انتخابات کا ہے مگر پائیدار حل یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کو اولین ترجیح دیں، اچھی طرز حکومت، میرٹ اور شفافیت پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ صدر زرداری اور ان کے ساتھیوں کو اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ شفافیت کو حقیقی طور پر یقینی بناتے تو سپریم کورٹ کو بالادستی کا موقع نہیں ملتا، مگر جمہوری نظام برقرار رہا تو یہ نظام بہتر ہو سکتا ہے۔ دنیا میں انتخابات کے ذریعے احتساب کے علاوہ جمہوری نظام کو بہتر بنانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
لانڈھی جیل میں میاں نواز شریف اور آصف زرداری میں طویل تبادلہ خیال ہوا تو سیاسی رہنما اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاسی جماعتیں اتفاق کر کے جمہوری نظام قائم کر سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری پاکستانی جیلوں میں 9 سال گزارنے کے بعد لندن پہنچے۔ میاں نواز شریف کو سعودی عرب میں پناہ ملی، پھر لندن گئے تو ان رہنمائوں میں جمہوریت کے مستقبل پر بحث مباحثہ ہوا، بے نظیر اور نوازشریف میں 2005ء میں لندن میں میثاق جمہوریت پر اتفاق ہوا۔ اس تاریخی میثاق میں 1973ء کے آئین کی مکمل بحالی، بنیادی انسانی حقوق کو آئین میں شامل کرنے، صوبائی خود مختاری، ججوں کے تقرر اور آمروں کے اقتدار کو قانونی تحفظ دینے والے ججوں کے بارے میں لائحہ عمل کے بارے میں جامع نکات شامل ہوئے۔
بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے قومی مصالحتی آرڈیننس NRO کے ذریعے مفاہمت کی۔ بے نظیر بھٹو 2007ء میں پاکستان آئیں، اس طرح نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور دوسری جماعتیں عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں شامل ہوئیں۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو دہشت گردی کا شکار ہو کر شہید ہو گئیں۔ میاں نواز شریف نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا مگر پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف زرداری کے مشورے پر مسلم لیگ نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، صدر زرداری کے مفاہمت کے نظریے کے تحت نیا جمہوری ڈھانچہ مرتب ہوا، پہلی دفعہ منتخب جماعتوں نے وفاق اور صوبوں میں ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کیا مگر نادیدہ قوتوں کی کوششوں سے چیف جسٹس کی بحالی پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ میں اختلافات ہوئے، جمہوری قوتوں میں ایسی خلیج پیدا ہوئی کہ اب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کے حکم پر مسلم لیگ ن کو بھی تشویش پیدا ہوئی۔
بلوچستان میں پیپلزپارٹی ہمیشہ کمزور رہی، ہمیشہ چند بلوچ سردار پیپلزپارٹی کی حمایت کرتے رہے، بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حقیقی مقبولیت ہزارہ کمیونٹی اور کوئٹہ میں رہنے والے غیر مقامی افراد اور پختون علاقے کے مخصوص علاقوں پٹ فیڈر نصیر آباد میں رہی۔ 2008ء کے عام انتخابات میں ہزارہ برادری کی حمایت سے پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ملی تھیں۔ سردار اسلم رئیسانی قوم پرستوں میں اختلافات کی بنا پر پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے سردار رئیسانی کی حمایت کے لیے کئی صوبائی اراکین کو آمادہ کیا تھا۔ سندھ کے بعد بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے وزیر اعلیٰ اقتدار میں آئے۔
صدر زرداری نے بلوچ قوم پرستوں کو سیاسی دھارے میں لانے کے لیے ابتدائی دور میں کچھ اقدامات کیے، جس کے مثبت نتائج نکلے مگر پھر اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات نے بالادستی حاصل کر لی، دوسرے صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے لوگوں کو قتل کیا گیا اور بلوچ سیاسی کارکنوں کے اغوا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ تیز ہوا، اس کے ساتھ کوئٹہ میں ہزارہ منگول برادری کے لوگوں کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گونج بین الاقوامی برادری تک پہنچ گئی۔
اقوام متحدہ نے لاپتہ افراد کے معاملے میں حقائق جمع کرنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیج دیا۔ سیاسی جماعتوں، غیر سرکاری تنظیموں نے ایف سی کو شہریوں کے اغوا اور قتل کا ذمے دار قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں اس صورتحال کا ذکر کیا، اس کے ساتھ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا۔
ملک کے باقی علاقوں میں مہنگائی، گیس، بجلی کی قلت نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری کر کے یہ فرض کر لیا کہ وہ عوام کے حالات کو بہتر بنا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نے سستی روٹی اسکیم، لاہور میں سڑکیں بنا کر اور نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کر کے اور پیلی ٹیکسیوں کی اسکیمیں پیش کر کے یہ جانا کہ وہ عوام کے تمام مسائل حل کر رہی ہے، اس طرح خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی نے دہشت گردی کی جنگ میں قربانیاں دے کر یہ سمجھ لیا کہ عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ اس دوران پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتون نے 1973ء کے آئین کو مکمل طور پر وفاقی شکل دینے، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کرانے کے لیے جامع ترمیمات کیں، جس سے طالع آزما قوتوں کی لاپتہ ریشہ دوانی کے امکانات محدود ہوئے مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے جھگڑوں کی بنا پر سپریم کورٹ کو تمام اداروں پر بالادستی حاصل کرنے کا موقع ملا۔
ان پانچ برسوں میں سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت Good Governance کی اہمیت کو فراموش کر گئی، میرٹ کا اصول پامال ہوا، حکومت کو اقتدار کو بچانے کے لیے غیر جمہوری قوتوں پر زیادہ انحصار کرنا پڑا۔ پھر یہ برا وقت آیا کہ ہزارہ برادری کو نسل کشی سے بچانے کے لیے پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ کی برطرفی اور فوج کو بلانے کے مطالبے پر مجبور ہوئی۔ اسی طرح سندھ میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہوئی، خاص طور پر کراچی میں ریاست کی رٹ ختم ہو گئی، عام آدمی کو موجودہ اتحادی حکومت اور فوجی حکومتوں کے کردار میں کوئی فرق محسوس نہیں ہونے لگا، ایسی ہی صورتحال پنجاب میں اور خیبر پختونخوا میں عمومی طور پر ہوئی۔ اس مجموعی صورتحال میں حقیقی مقتدرہ کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان اور بھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات پر متفق ہیں۔
2008ء میں ممبئی دہشت گردی کے اثرات زرداری حکومت کی کوششوں سے ختم ہوئے، دونوں ممالک آزاد ویزہ پالیسی پر متفق ہوئے۔گزشتہ سال کے وسط میں آزاد کشمیر میں وادی نیلم کے باشندوں نے اپنے علاقے میں غیر ریاستی کرداروں کی سرگرمیوں کے خلاف ہڑتال کی۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے بھارتی پارلیمنٹ کے حملے کے بعد جہادیوں کے کیمپوں پر پابندی لگائی تھی تو بھارتی فوج نے اس علاقے میں بمباری ختم کی تھی۔ اگر ان کی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو گئیں تو پھر یہ علاقہ بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گا۔گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے سے کنٹرول لائن کے واقعات پھر ان کے حقائق بیان کر رہے ہیں۔ بھارت نے آزاد ویزے کی پالیسی کی بعض شقوں پر عملدرآمد معطل کر دیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے کروڑوں روپے خرچ کر کے ہزاروں افراد اسلام آباد میں جمع کر لیے۔ آئین کی پامالی اور وقت پر انتخابات کے معاملے کو چیلنج کیا گیا ۔ بعض سیاسی مبصرین یہ پیش گوئی کرتے رہے کہ اگلا حملہ صدر زرداری پر ہو گا۔ اس صورتحال میں ایک اہم بات یہ تھی کہ جمہوری قوتیں اور سول سوسائٹی جمہوریت کو درپیش چیلنج کے خطرے کو محسوس کر رہی تھیں۔ میاں نواز شریف، حاصل بزنجو، محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمٰن اور دوسری سیاسی جماعتوں نے ایک اجلاس میں جمہوریت کے لیے آواز اٹھا کر سیاسی شعور اور دور اندیشی کا ثبوت دیا ہے، ڈاکٹر قادری سے معاہدہ کے بعد بظاہر جمہوری نظام کے استحکام کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
اس صورتحال میں ایک واضح حل آئین کے تحت فوری انتخابات کا ہے مگر پائیدار حل یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کو اولین ترجیح دیں، اچھی طرز حکومت، میرٹ اور شفافیت پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ صدر زرداری اور ان کے ساتھیوں کو اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ شفافیت کو حقیقی طور پر یقینی بناتے تو سپریم کورٹ کو بالادستی کا موقع نہیں ملتا، مگر جمہوری نظام برقرار رہا تو یہ نظام بہتر ہو سکتا ہے۔ دنیا میں انتخابات کے ذریعے احتساب کے علاوہ جمہوری نظام کو بہتر بنانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔