آئیے اندر کے ’حیوان‘ کو ذبح کرتے ہیں
بے حس معاشرہ، ظلم نفرت سے بھرے ذہن، روحِ اسلام سے خالی بدن، فکر سے بے بہرہ دماغ، ڈنڈا لاٹھی اور میرا پاکستان۔
ہم لوگ کتنے فخر سے بتاتے ہیں نا کہ ہم ''اشرف المخلوقات'' ہیں اور دو جہانوں میں پائی جانے والی مخلوقات میں ہم جیسا کوئی نہیں ہے، مگر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ انسان کہلائے جانے کا اہل کون سی صفات بناتی ہیں؟ وہ کیا خصوصیات ہیں جو ہمیں سلیم الفطرت ہونے کا دعویدار بناتی ہیں؟ اور وہ کیا عوامل و ماحول ہیں جن پر اس کی پرکھ ہوسکے گی؟
سلیم الفطرت ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو جنس، عقل اور غصّے پر قابو ہو۔ معلوم ہو کہ کہاں استعمال کرنا ہے، کہاں رک جانا ہے۔ سیدھے سادھے الفاظ میں آپ کی طبیعت، مزاج اور عقل وحی کے تابع ہو۔ جذبات کے بہاؤ میں نہ بہہ جانے کی شعوری کوشش انسان ہونے کی کسوٹی ہے، اور شعور نام ہے باطن کے انتشار کو اخلاقِ صالحہ پر غالب نہ آنے دینے کا، بس اتنی سی بات ہے۔
انسان نام ہے ہمت اور محبت کا، بندہ ہمت کرے تو نبوت کے علاوہ کون سا مقام ہے جو نہ پاسکے؟ اور محبت تو حُب سے نکلی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے چھلک جانا۔ بطور انسان یہ گاہے بہ گاہے وقتاََ فوقتاََ چھلکتی ہی رہنی چاہئیے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر وہ اطاعت جو محبت کے بغیر ہو، جبر ہے، خواہ خدا کی ہی کیوں نہ ہو۔ آدمی کو چاہیئے کہ محبت کرتا رہے، اگر ہر شخص ہی کانٹے بچھاتا رہا تو جگہ چلنے کے قابل بھی نہ رہے گی۔
ہم میں سے ہر ایک شخص کے اندر ایک ''حیوان'' چھپا بیٹھا ہوتا ہے اور جوں ہی حالات سازگار ہوئے یہ اپنے بل سے باہر نکل آتا ہے اور آس پاس موجود لوگوں کو ڈس لیتا ہے۔ ہم میں سے بہت سارے 'انسان' اس لئے نہیں ہوتے کہ وہ درحقیقت 'انسان' یا 'اشرف المخلوقات' کہلائے جانے کے لائق ہوتے ہیں، بلکہ 'انسان' اس لئے ہوتے ہیں کہ اُن کے حالات، معاملات، غربت، کم مائیگی، کم نصیبی نے اُنہیں اِس قابل ہی نہیں چھوڑا ہوتا کہ وہ اپنی 'اصلیت' دِکھا سکیں۔ پتہ تو جب چلتا ہے جب اُن حالات کی ضد قائم ہوتی ہے تب نکلتے ہیں پَر پُرزے اور تب کُھلتی ہے حقیقت۔ آپ بلی کو کتنا ہی سُدھا لیں کہ وہ آپ کی بات مانے مگر جیسے ہی چوہا نظر آیا وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی جون و مستی میں پلٹے گی اور آپ کا سکھایا پڑھایا سب اکارت ہوجائے گا۔
اب آج کل کے نو آزمودہ کو کون سمجھائے جو انٹرنیٹ سے چند بلاگز پڑھ کر عالمِ دین بننا چاہتے ہیں۔ اِن اکل کھروں کو یہ کون بتائے کہ یہ جو اندر کا حیوان ہے اِس پر کام کرنا چاہئیے، ورنہ یہ گھس بیٹھیا آپ کو لے ڈوبے گا۔
حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس کوئی صاحب آئے اور مسلسل دنیا کی برائی کرتے رہے تو آپ نے اپنی خادمہ سے کہا کہ انہیں آئندہ آنے کی اجازت نہ دی جائے کہ کوئی تو دنیا سے رغبت ہوگی کہ اِس کی اتنی برائی کر رہے ہیں۔ یہی حال ہمارا ہے، ہر وقت اقتدار، امریکہ، مالدار اور تاجروں کی بُرائی۔ کوئی تو رغبت ہوگی؟
ذہنی، اخلاقی اور ایمانی خوش فہمیوں کا یہ کھیل تصور سے شروع ہوتا ہے، 'میرے ہاتھ میں اگر ہوتا تو میں، میری حکومت ہوتی تو میں، دل و دماغ کی یہ باتیں، منصوبے اور قصیدے، تصور سے نکل کر آدمی کا حال بن جاتے ہیں اور حال پر دوام آئے تو کبھی کبھی یہ ملکہ بن جاتا ہے۔ اب کوئی عمل آپ کا حال ہے یا ملکہ، اِس کا پتہ صرف اُس وقت لگتا ہے جب اِس کی ضد قائم ہو۔ ہمیں بلاوجہ نہ اپنی انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹنا چاہئیے نہ ہی اپنے اندر کے حیوان سے نظراندازی برتنی چاہئیے۔ آپ بس اسٹاپ پر اکیلے کھڑے ہیں اور آپ کے سامنے کوئی خوبصورت لڑکی کھڑی ہے۔ اب دیکھیں کہ آپ اُسے اپنی بیٹی یا بہن سمجھ کر آنکھیں نیچی کرلیتے ہیں یا جب تک وہ بس میں بیٹھ کر چلی نہیں جاتی، آپ کی نظریں اُس کا طواف کرتی رہیں گی؟ آپ کے پاس پیسے ہیں اور آپ کا کوئی ادنیٰ سا نوکر حکم عدولی کر دیتا ہے، آپ کو کوئی شخص ظلم، طعنہ و حسد کا نشانہ بنا لیتا ہے۔ آپ کی پیٹھ میں چُھرا وہ گھونپ دیتا ہے جسے آپ نے اپنے ہاتھوں سے سینچا تھا۔ اب پتہ لگے گا کہ آپ کو اپنے آپ پر کتنا کنٹرول ہے۔
جس اُمت کے لئے ہمارے آقا رسالت پناہ ﷺ نے رو رو کر، گڑگڑا کر دعائیں مانگیں آپ اُسی کو گالیاں دیں۔ جس کے لئے آپ راتوں کو اٹھ کر روئے، آپ اُسے ہی بد دعائیں دیں۔ ایسا نہ کریں۔ آپ کی محبت سر آنکھوں پر، مگر دنیا تھک چکی ہے اسلام کا نام سنتے سنتے۔ اب دیکھنا چاہتی ہے، عمل کرکے دکھائیں، کچھ تو محبت چھلکائیں جو انسانوں کا خاصہ ہے۔
سلمان رشدی کی Satanic Verses لکھے پورے 30 برس ہوئے، ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے کوئی تو مرد کا بچہ اُس کی زبان میں اُس کا جواب لکھے۔ خدارا، میرے نبی ﷺ کے اُٹھے ہاتھوں کی لاج رکھ لیں۔ یہ روش چھوڑ دیں۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں میری تحریر آج منتشر ہے۔ میں خود بھی متشر ہوں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، رحمت للعالمین ﷺ کے اُمتی، اُس کے نام پر ایک مسلمان کو مار دیں تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں، کیا سوچوں، کس کے پاس جا کے روؤں؟ بے حس معاشرہ، ظالم لوگ، نفرت کے بارود سے بھرے ذہن، روحِ اسلام سے خالی بدن، فکر سے بے بہرہ دماغ، ڈنڈا لاٹھی اور میرا پاکستان۔
چلیں ایک کام کریں، جان لے لیں اور وعدہ کریں کہ آئندہ قانون ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ خود سے نہیں ماریں گے، میں نے اپنا خون ملک پر معاف کیا، سارا غصّہ مجھ پر نکال لیں، پتھر ماریں، برہنہ کرکے ٹانگ دیں، کچھ نہیں، کوئی خطا، کوئی سزا، کوئی جرمانہ، کچھ بھی نہیں۔ سب معاف۔
اللہ کا واسطہ! میرے ملک، میرے لوگوں اور میرے نبی ﷺکی اُمت کو چھوڑ دو۔
آئیے، ہم سب مل کر اپنے اندر کے حیوان کو ذبح کر دیتے ہیں۔
سلیم الفطرت ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو جنس، عقل اور غصّے پر قابو ہو۔ معلوم ہو کہ کہاں استعمال کرنا ہے، کہاں رک جانا ہے۔ سیدھے سادھے الفاظ میں آپ کی طبیعت، مزاج اور عقل وحی کے تابع ہو۔ جذبات کے بہاؤ میں نہ بہہ جانے کی شعوری کوشش انسان ہونے کی کسوٹی ہے، اور شعور نام ہے باطن کے انتشار کو اخلاقِ صالحہ پر غالب نہ آنے دینے کا، بس اتنی سی بات ہے۔
انسان نام ہے ہمت اور محبت کا، بندہ ہمت کرے تو نبوت کے علاوہ کون سا مقام ہے جو نہ پاسکے؟ اور محبت تو حُب سے نکلی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے چھلک جانا۔ بطور انسان یہ گاہے بہ گاہے وقتاََ فوقتاََ چھلکتی ہی رہنی چاہئیے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر وہ اطاعت جو محبت کے بغیر ہو، جبر ہے، خواہ خدا کی ہی کیوں نہ ہو۔ آدمی کو چاہیئے کہ محبت کرتا رہے، اگر ہر شخص ہی کانٹے بچھاتا رہا تو جگہ چلنے کے قابل بھی نہ رہے گی۔
ہم میں سے ہر ایک شخص کے اندر ایک ''حیوان'' چھپا بیٹھا ہوتا ہے اور جوں ہی حالات سازگار ہوئے یہ اپنے بل سے باہر نکل آتا ہے اور آس پاس موجود لوگوں کو ڈس لیتا ہے۔ ہم میں سے بہت سارے 'انسان' اس لئے نہیں ہوتے کہ وہ درحقیقت 'انسان' یا 'اشرف المخلوقات' کہلائے جانے کے لائق ہوتے ہیں، بلکہ 'انسان' اس لئے ہوتے ہیں کہ اُن کے حالات، معاملات، غربت، کم مائیگی، کم نصیبی نے اُنہیں اِس قابل ہی نہیں چھوڑا ہوتا کہ وہ اپنی 'اصلیت' دِکھا سکیں۔ پتہ تو جب چلتا ہے جب اُن حالات کی ضد قائم ہوتی ہے تب نکلتے ہیں پَر پُرزے اور تب کُھلتی ہے حقیقت۔ آپ بلی کو کتنا ہی سُدھا لیں کہ وہ آپ کی بات مانے مگر جیسے ہی چوہا نظر آیا وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی جون و مستی میں پلٹے گی اور آپ کا سکھایا پڑھایا سب اکارت ہوجائے گا۔
اب آج کل کے نو آزمودہ کو کون سمجھائے جو انٹرنیٹ سے چند بلاگز پڑھ کر عالمِ دین بننا چاہتے ہیں۔ اِن اکل کھروں کو یہ کون بتائے کہ یہ جو اندر کا حیوان ہے اِس پر کام کرنا چاہئیے، ورنہ یہ گھس بیٹھیا آپ کو لے ڈوبے گا۔
حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس کوئی صاحب آئے اور مسلسل دنیا کی برائی کرتے رہے تو آپ نے اپنی خادمہ سے کہا کہ انہیں آئندہ آنے کی اجازت نہ دی جائے کہ کوئی تو دنیا سے رغبت ہوگی کہ اِس کی اتنی برائی کر رہے ہیں۔ یہی حال ہمارا ہے، ہر وقت اقتدار، امریکہ، مالدار اور تاجروں کی بُرائی۔ کوئی تو رغبت ہوگی؟
ذہنی، اخلاقی اور ایمانی خوش فہمیوں کا یہ کھیل تصور سے شروع ہوتا ہے، 'میرے ہاتھ میں اگر ہوتا تو میں، میری حکومت ہوتی تو میں، دل و دماغ کی یہ باتیں، منصوبے اور قصیدے، تصور سے نکل کر آدمی کا حال بن جاتے ہیں اور حال پر دوام آئے تو کبھی کبھی یہ ملکہ بن جاتا ہے۔ اب کوئی عمل آپ کا حال ہے یا ملکہ، اِس کا پتہ صرف اُس وقت لگتا ہے جب اِس کی ضد قائم ہو۔ ہمیں بلاوجہ نہ اپنی انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹنا چاہئیے نہ ہی اپنے اندر کے حیوان سے نظراندازی برتنی چاہئیے۔ آپ بس اسٹاپ پر اکیلے کھڑے ہیں اور آپ کے سامنے کوئی خوبصورت لڑکی کھڑی ہے۔ اب دیکھیں کہ آپ اُسے اپنی بیٹی یا بہن سمجھ کر آنکھیں نیچی کرلیتے ہیں یا جب تک وہ بس میں بیٹھ کر چلی نہیں جاتی، آپ کی نظریں اُس کا طواف کرتی رہیں گی؟ آپ کے پاس پیسے ہیں اور آپ کا کوئی ادنیٰ سا نوکر حکم عدولی کر دیتا ہے، آپ کو کوئی شخص ظلم، طعنہ و حسد کا نشانہ بنا لیتا ہے۔ آپ کی پیٹھ میں چُھرا وہ گھونپ دیتا ہے جسے آپ نے اپنے ہاتھوں سے سینچا تھا۔ اب پتہ لگے گا کہ آپ کو اپنے آپ پر کتنا کنٹرول ہے۔
جس اُمت کے لئے ہمارے آقا رسالت پناہ ﷺ نے رو رو کر، گڑگڑا کر دعائیں مانگیں آپ اُسی کو گالیاں دیں۔ جس کے لئے آپ راتوں کو اٹھ کر روئے، آپ اُسے ہی بد دعائیں دیں۔ ایسا نہ کریں۔ آپ کی محبت سر آنکھوں پر، مگر دنیا تھک چکی ہے اسلام کا نام سنتے سنتے۔ اب دیکھنا چاہتی ہے، عمل کرکے دکھائیں، کچھ تو محبت چھلکائیں جو انسانوں کا خاصہ ہے۔
سلمان رشدی کی Satanic Verses لکھے پورے 30 برس ہوئے، ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے کوئی تو مرد کا بچہ اُس کی زبان میں اُس کا جواب لکھے۔ خدارا، میرے نبی ﷺ کے اُٹھے ہاتھوں کی لاج رکھ لیں۔ یہ روش چھوڑ دیں۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں میری تحریر آج منتشر ہے۔ میں خود بھی متشر ہوں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، رحمت للعالمین ﷺ کے اُمتی، اُس کے نام پر ایک مسلمان کو مار دیں تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں، کیا سوچوں، کس کے پاس جا کے روؤں؟ بے حس معاشرہ، ظالم لوگ، نفرت کے بارود سے بھرے ذہن، روحِ اسلام سے خالی بدن، فکر سے بے بہرہ دماغ، ڈنڈا لاٹھی اور میرا پاکستان۔
چلیں ایک کام کریں، جان لے لیں اور وعدہ کریں کہ آئندہ قانون ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ خود سے نہیں ماریں گے، میں نے اپنا خون ملک پر معاف کیا، سارا غصّہ مجھ پر نکال لیں، پتھر ماریں، برہنہ کرکے ٹانگ دیں، کچھ نہیں، کوئی خطا، کوئی سزا، کوئی جرمانہ، کچھ بھی نہیں۔ سب معاف۔
اللہ کا واسطہ! میرے ملک، میرے لوگوں اور میرے نبی ﷺکی اُمت کو چھوڑ دو۔
آئیے، ہم سب مل کر اپنے اندر کے حیوان کو ذبح کر دیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔