گزرے دنوں کی کہانی نثار عزیز بٹ کی زبانی پہلا حصہ
کون سوچ سکتا ہوگا کہ ایک پسماندہ علاقے کی رہنے والی لڑکی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اڑ جائے گی
لاہور:
ایک ایسی لڑکی کا تصور کیجیے جو پانچ برس کی عمر میں ماں سے محروم ہوئی اور جس نے شفیق مگر سخت گیر گھرانے میں ہوش سنبھالا۔ شاید ماں کی نرم اور گرم گود سے ابدی فراق، رات کو تنہائی کا خوف اور گھر کے بزرگوں کی سخت گیری نے اس کی شخصیت کو ایک مستحکم، منحرف مزاج، مشکل فیصلے کرنے اور اپنے نظریات پر اٹل رہنے والی شخصیت بنا دیا۔ یہ وہ لڑکی ہے جو عمر عزیز کے 90 برس ٹپ چکی اور جسے ہم نثار عزیز بٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ 4 اہم ناول اس کے قلم سے نکلے اور پھر اس نے اپنی خود نوشت ''گئے دنوں کا سراغ'' لکھی۔ کاکا خیل کی ایک شاندار لکھنے والی جسے ہمارے ناقدین نے اپنی بے اعتنائی کے تیر سے شکار کیا۔
ان کا نام میں نے پہلی مرتبہ ہاجرہ مسرور (اپی) سے سنا تھا۔ ایک گرم دوپہر جب میں 'اخبار خواتین' کے دفتر سے اٹھ کر ان کے گھر پہنچی تھی۔ ہم دونوں نے دنیائے ادب کے دریا میں تیرتے ہوئے دوپہر کا کھانا کھایا تھا اور پھر جب میں اپی کے بستر پر ان کے برابر دراز تھی تو انھوں نے اپنی ایک دوست اور ادیب نثار عزیز بٹ کا ذکر کیا تھا اور مجھے ان کا ناول ''نگری نگری پھرا مسافر'' پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ یہ بتایا تھا کہ وہ قرۃالعین حیدر کی بھی گہری دوست ہیں۔ سینی ٹوریم میں داخل رہی ہیں اور ایسی ہی بہت سی باتیں جو ان کی شخصیت کو رومانی دھند کا دوشالہ اڑھاتی تھیں۔
میں نے ان کا پہلا ناول 'اپی' کی وساطت سے پڑھا اور پھر دوسرا اور تیسرا۔ انھیں اپنی تاریخ اور تہذیب سے والہانہ وابستگی تھی اور برصغیر کی تقسیم کا قلق تھا۔ اپنی نسل کے اور اپنے بارے میں انھوں نے لکھا کہ:
''ہمارے والدین کی نسل سائنسی انقلاب کا عروج نہ دیکھ پائی۔ صرف آغاز دیکھا۔ ہمارے بعد کی نسل اس ولولہ انگیز امیدوں، آدرشوں اور خوابوں سے لبریز دور سے ناآشنا رہی جو جدوجہد آزادی کے دوران ہمیں میسر تھا۔ ہماری نسل انیسویں اور بیسویں صدی کے سنگم پر وجود میں آئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد انیسویں صدی کا انداز فکر بہت حد تک قصۂ ماضی بن چکا تھا۔ لیکن بیسویں صدی دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی اپنے مخصوص تشخص کے ساتھ جوبن پر آئی۔ یوں دو جنگوں کے درمیان ایک طرح کا فکری خلا تھا۔ اس خلا میں ہماری نسل نے جنم لیا۔ انیسویں صدی کی رجائیت اور ترقی پسندی اب تقریباً ختم تھی لیکن آدرش ابھی موجود تھے۔ لوگ باگ گہرے فلسفے کو بھول کر موٹر کاروں، بسوں اور ٹرینوں کی رفتار کے نشے میں تھے۔
گرامو فون ریکارڈ سنتے اور بچوں کی سی حیرت سے وائرلیس سے آتی آوازوں اور ہوا میں اڑتے جہازوں سے مسحور رہتے۔ یہ نسبتاً معصوم دن تھے اور اسی معصوم قدرے رومانوی فضا میں ہماری نسل پروان چڑھی۔ چنانچہ ہم لوگ رومان پرست تھے۔ بلکہ ابھی تک ہیں۔ دنیا کی خوبصورتی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ درختوں، پھولوں، دریاؤں، صحراؤں، سمندروں، چاند تاروں، بارش، بادل، سنہری دھوپ، سیاروں سبھی سے ہم کو عشق ہے، ہم اچھائیوں اور آدرشوں پر ابھی تک یقین رکھتے ہیں۔ رقیق القلب ہیں۔
تشدد کو پسند نہیں کرتے۔ اپنی اور نسل انسانی کی ناکامیوں سے بے حد آزردہ ہوجاتے ہیں۔ اکثر غم و غصے میں مبتلا رہتے ہیں۔ اپنی اور دوسروں کی چھوٹی کمینگیوں پر شرمندہ رہتے ہیں۔ یہی وہ حد فاصل ہے جو ہمیں بیسویں اور اب اکیسویں صدی کا خالص باسی بننے سے روک رہی ہے۔ ہم سے بعد کی نسل تشدد سے وہ نفرت اور کراہت نہیں محسوس کرتی جو ہم کرتے ہیں۔ ہمارے وقت کے ہیرو مرنجان مرنج، شریف النفس، حلیم لوگ ہوتے تھے جو مرتے ہوئے بھی کسی کو نہ مارتے۔ آج کے ہیرو وہ ہیں جو آنکھ جھپکے بغیر شہر کے شہر ویران کردیتے ہیں اور ولن سے کہیں زیادہ ظالم ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم بدنصیب ہیں کہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ یوں ہماری رومانیت میں اب کلبیت آگئی ہے، ہمارے عقیدے متزلزل ہیں۔ ہماری امیدیں سب مایوسی میں ڈھل چکی ہیں۔ ہماری اقدار تک اب ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔''
ان کی خود نوشت ''گئے دنوں کا سراغ'' میں نے چند دنوں پہلے پڑھی ہے۔ ایک سچی، کھری اور کڑوی تحریر جسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دور دراز علاقوں میں کیسے جواہر پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ حالات کی پتھریلی چٹانوں میں پوشیدہ رہتے ہیں اور کچھ سامنے آتے ہیں تو آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔
یہ وہ کہانی ہے جو ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سال بھر بڑی بہن نثار عزیز نے لکھی اور جسے لکھتے ہوئے انھوں نے کسی منافقت اور دنیا داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انھوں نے اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز اس چھوٹے سے مضمون سے کیا جو انھوں نے ایک رات مٹی کے تیل کے منے سے لیمپ کی روشنی میں اپنی کاپی میں نقل کیا اور جس کا عنوان 'غلام' تھا۔وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ دس گیارہ برس کی عمر میں جب ان کی مرحومہ ماں کی کتابیں ان کے ہاتھ لگیں تو انھوں نے نثار کی دنیا بدل دی۔
یہ 'اختر النسا بیگم' ''گودڑکا لعل'' 'قصص الانبیا' 'طلسم ہوشربا' اور آغا حشر کے ڈرامے تھے۔ یہ وہ کتابیں تھیں جو برصغیر کے تمام پڑھے لکھے خاندانوں کی لڑکیوں اور عورتوں میں مشترک تھیں اور ہندوستان کے اشراف کے گھروں کے طاقچے ان کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ لوگ گھروں میں فارسی، پشتو، پنجابی اور سرائیکی بولتے لیکن ان کے ذہنوں کی آبیاری اردو ادب سے ہوتی۔ یہ وہ زمانے تھے جب پٹھان لڑکیاں ساڑی باندھتیں اور ان پر کوئی انگشت نمائی نہیں کرتا تھا۔
'گئے دنوں کا سراغ' میں نثار عزیز پشاور چارسدہ، مردان، لاہور، دلی، ایبٹ آباد اور نہ جانے کتنے شہر اور قصبوں میں گھومتی نظر آتی ہیں۔ کہیں اداس اور غمزدہ کہیں نہالوں نہال۔ حجاب امتیاز علی، نذر سجاد حیدر کے ناولوں کے عشق میں گرفتار اور ٹیگور کی گیتان جلی کی سطروں کے سحر میں اسیر۔
712 صفحوں پر پھیلی ہوئی خود نوشت کو چند سطروں میں کیسے سمیٹوں؟ بس یوں سمجھیے کہ اس میں خاندان اور گھر کے و ہ لڑکے بالے ہیں جن پر ہندو دوستوں کا زیادہ اثر ہوجائے تو انھیں فوراً علی گڑھ روانہ کردیا جاتا ہے۔ جنگ عظیم کا زمانہ ہے جب کاکا خیلوں اور قزلباشوں کے خوبرو لڑکے برطانوی فوج میں کمیشن لے رہے ہیں اور اپنی وردیوں میں اتراتے پھر رہے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک یحییٰ خان ہیں جن کے قزلباش خاندان کا چرچا ہے، وہ بعد میں صدر پاکستان بنے اور ملک کو دولخت کرنے کی رسوائی ان کے حصے میں آئی۔
کون سوچ سکتا ہوگا کہ ایک پسماندہ علاقے کی رہنے والی لڑکی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اڑ جائے گی۔ ریاضی میں اتنی مہارت حاصل کرلے گی کہ خیبر پختونخوا کے صوبے میں اول آئے گی اور گولڈ میڈل لے گی۔ فلسفہ پڑھے گی اور ان کتابوں میں ڈوب جائے گی جن کے نام سے بہت سے پڑھے لکھے مرد بھی ناواقف ہیں۔ کیسی مہربان کرسچن اور ہندو استانیاں ہیں۔ ایک ایسا ماحول ہے جس میں سب شیر و شکر ہیں، پھر سیاست ان کے تعلقات میں تناؤ کی طنابیں کھینچنے لگتی ہے۔ نثار کے گھر والے اور ان کا اکلوتا بھائی سرتاج عزیز (جسے وہ آج تک پیار سے تاجی کہتی ہیں) الیکشن میں مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ ادھر نثار ہیں جو کانگریسی سیاست کو درست سمجھتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے لیکن کہاں ان کا خیال اور کہاں حقیقت حال۔ دونوں کے درمیان کسی نوعیت کا تعلق نہیں۔
نثار کی سیاسی خواہشات کو ضرور شکست ہوئی لیکن خوش نصیب تھیں کہ وہ خیبر پختونخوا میں پیدا ہوئی تھیں، اس لیے انھیں ترکِ وطن کا عذاب نہیں سہنا پڑا۔ اس کے باوجود وہ اس بات پر غمزدہ ہیں کہ پاکستان میں رہ جانے والے عیسائیوں سے ناروا سلوک ہوا۔ ان سے جو وعدے کیے گئے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے۔ مس ٹھاکرداس کو جو عیسائی تھیں اور اعلیٰ درجے کی استاد، پاکستان بننے کے بعد انجمن حمایت الاسلام نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا کہ پاکستان میں کسی مسلمان عورت کو اسلامیہ کالج کا پرنسپل ہونا چاہیے۔ نثار عزیز نے اس پر شدید احتجاج کیا، اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیوی سے مل آئیں۔ اخباروں میں انھوں نے اور دوسروں نے مراسلے لکھے لیکن کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔
ادھر اخباروں کے ذریعے یہ خبر ہندوستان پہنچی تو وہاں سے فوراً مس ٹھاکر داس کو پیش کش ہوئی کہ وہ دلی آجائیں اور میرنڈا ہاؤس کی پرنسپل کا عہدہ قبول کریں۔ مس ٹھاکر داس لاہور سے دلی گئیں، وہاںعہدہ قبول کیا اور پھر لاہور آئیں۔ ان کے بھائی نو لکھا چرچ کے پادری تھے، چند دن اپنے بھائی، نثار اور دوسری طالبات کے ساتھ گزار کر دلی چلی گئیں اور میرنڈا ہاؤس کو ایک ایسا کالج بنا دیا جس میں پڑھنے والیاں اپنے نصیبوں پر رشک کرتیں۔
(جاری ہے)
ایک ایسی لڑکی کا تصور کیجیے جو پانچ برس کی عمر میں ماں سے محروم ہوئی اور جس نے شفیق مگر سخت گیر گھرانے میں ہوش سنبھالا۔ شاید ماں کی نرم اور گرم گود سے ابدی فراق، رات کو تنہائی کا خوف اور گھر کے بزرگوں کی سخت گیری نے اس کی شخصیت کو ایک مستحکم، منحرف مزاج، مشکل فیصلے کرنے اور اپنے نظریات پر اٹل رہنے والی شخصیت بنا دیا۔ یہ وہ لڑکی ہے جو عمر عزیز کے 90 برس ٹپ چکی اور جسے ہم نثار عزیز بٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ 4 اہم ناول اس کے قلم سے نکلے اور پھر اس نے اپنی خود نوشت ''گئے دنوں کا سراغ'' لکھی۔ کاکا خیل کی ایک شاندار لکھنے والی جسے ہمارے ناقدین نے اپنی بے اعتنائی کے تیر سے شکار کیا۔
ان کا نام میں نے پہلی مرتبہ ہاجرہ مسرور (اپی) سے سنا تھا۔ ایک گرم دوپہر جب میں 'اخبار خواتین' کے دفتر سے اٹھ کر ان کے گھر پہنچی تھی۔ ہم دونوں نے دنیائے ادب کے دریا میں تیرتے ہوئے دوپہر کا کھانا کھایا تھا اور پھر جب میں اپی کے بستر پر ان کے برابر دراز تھی تو انھوں نے اپنی ایک دوست اور ادیب نثار عزیز بٹ کا ذکر کیا تھا اور مجھے ان کا ناول ''نگری نگری پھرا مسافر'' پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ یہ بتایا تھا کہ وہ قرۃالعین حیدر کی بھی گہری دوست ہیں۔ سینی ٹوریم میں داخل رہی ہیں اور ایسی ہی بہت سی باتیں جو ان کی شخصیت کو رومانی دھند کا دوشالہ اڑھاتی تھیں۔
میں نے ان کا پہلا ناول 'اپی' کی وساطت سے پڑھا اور پھر دوسرا اور تیسرا۔ انھیں اپنی تاریخ اور تہذیب سے والہانہ وابستگی تھی اور برصغیر کی تقسیم کا قلق تھا۔ اپنی نسل کے اور اپنے بارے میں انھوں نے لکھا کہ:
''ہمارے والدین کی نسل سائنسی انقلاب کا عروج نہ دیکھ پائی۔ صرف آغاز دیکھا۔ ہمارے بعد کی نسل اس ولولہ انگیز امیدوں، آدرشوں اور خوابوں سے لبریز دور سے ناآشنا رہی جو جدوجہد آزادی کے دوران ہمیں میسر تھا۔ ہماری نسل انیسویں اور بیسویں صدی کے سنگم پر وجود میں آئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد انیسویں صدی کا انداز فکر بہت حد تک قصۂ ماضی بن چکا تھا۔ لیکن بیسویں صدی دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی اپنے مخصوص تشخص کے ساتھ جوبن پر آئی۔ یوں دو جنگوں کے درمیان ایک طرح کا فکری خلا تھا۔ اس خلا میں ہماری نسل نے جنم لیا۔ انیسویں صدی کی رجائیت اور ترقی پسندی اب تقریباً ختم تھی لیکن آدرش ابھی موجود تھے۔ لوگ باگ گہرے فلسفے کو بھول کر موٹر کاروں، بسوں اور ٹرینوں کی رفتار کے نشے میں تھے۔
گرامو فون ریکارڈ سنتے اور بچوں کی سی حیرت سے وائرلیس سے آتی آوازوں اور ہوا میں اڑتے جہازوں سے مسحور رہتے۔ یہ نسبتاً معصوم دن تھے اور اسی معصوم قدرے رومانوی فضا میں ہماری نسل پروان چڑھی۔ چنانچہ ہم لوگ رومان پرست تھے۔ بلکہ ابھی تک ہیں۔ دنیا کی خوبصورتی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ درختوں، پھولوں، دریاؤں، صحراؤں، سمندروں، چاند تاروں، بارش، بادل، سنہری دھوپ، سیاروں سبھی سے ہم کو عشق ہے، ہم اچھائیوں اور آدرشوں پر ابھی تک یقین رکھتے ہیں۔ رقیق القلب ہیں۔
تشدد کو پسند نہیں کرتے۔ اپنی اور نسل انسانی کی ناکامیوں سے بے حد آزردہ ہوجاتے ہیں۔ اکثر غم و غصے میں مبتلا رہتے ہیں۔ اپنی اور دوسروں کی چھوٹی کمینگیوں پر شرمندہ رہتے ہیں۔ یہی وہ حد فاصل ہے جو ہمیں بیسویں اور اب اکیسویں صدی کا خالص باسی بننے سے روک رہی ہے۔ ہم سے بعد کی نسل تشدد سے وہ نفرت اور کراہت نہیں محسوس کرتی جو ہم کرتے ہیں۔ ہمارے وقت کے ہیرو مرنجان مرنج، شریف النفس، حلیم لوگ ہوتے تھے جو مرتے ہوئے بھی کسی کو نہ مارتے۔ آج کے ہیرو وہ ہیں جو آنکھ جھپکے بغیر شہر کے شہر ویران کردیتے ہیں اور ولن سے کہیں زیادہ ظالم ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم بدنصیب ہیں کہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ یوں ہماری رومانیت میں اب کلبیت آگئی ہے، ہمارے عقیدے متزلزل ہیں۔ ہماری امیدیں سب مایوسی میں ڈھل چکی ہیں۔ ہماری اقدار تک اب ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔''
ان کی خود نوشت ''گئے دنوں کا سراغ'' میں نے چند دنوں پہلے پڑھی ہے۔ ایک سچی، کھری اور کڑوی تحریر جسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دور دراز علاقوں میں کیسے جواہر پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ حالات کی پتھریلی چٹانوں میں پوشیدہ رہتے ہیں اور کچھ سامنے آتے ہیں تو آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔
یہ وہ کہانی ہے جو ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سال بھر بڑی بہن نثار عزیز نے لکھی اور جسے لکھتے ہوئے انھوں نے کسی منافقت اور دنیا داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انھوں نے اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز اس چھوٹے سے مضمون سے کیا جو انھوں نے ایک رات مٹی کے تیل کے منے سے لیمپ کی روشنی میں اپنی کاپی میں نقل کیا اور جس کا عنوان 'غلام' تھا۔وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ دس گیارہ برس کی عمر میں جب ان کی مرحومہ ماں کی کتابیں ان کے ہاتھ لگیں تو انھوں نے نثار کی دنیا بدل دی۔
یہ 'اختر النسا بیگم' ''گودڑکا لعل'' 'قصص الانبیا' 'طلسم ہوشربا' اور آغا حشر کے ڈرامے تھے۔ یہ وہ کتابیں تھیں جو برصغیر کے تمام پڑھے لکھے خاندانوں کی لڑکیوں اور عورتوں میں مشترک تھیں اور ہندوستان کے اشراف کے گھروں کے طاقچے ان کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ لوگ گھروں میں فارسی، پشتو، پنجابی اور سرائیکی بولتے لیکن ان کے ذہنوں کی آبیاری اردو ادب سے ہوتی۔ یہ وہ زمانے تھے جب پٹھان لڑکیاں ساڑی باندھتیں اور ان پر کوئی انگشت نمائی نہیں کرتا تھا۔
'گئے دنوں کا سراغ' میں نثار عزیز پشاور چارسدہ، مردان، لاہور، دلی، ایبٹ آباد اور نہ جانے کتنے شہر اور قصبوں میں گھومتی نظر آتی ہیں۔ کہیں اداس اور غمزدہ کہیں نہالوں نہال۔ حجاب امتیاز علی، نذر سجاد حیدر کے ناولوں کے عشق میں گرفتار اور ٹیگور کی گیتان جلی کی سطروں کے سحر میں اسیر۔
712 صفحوں پر پھیلی ہوئی خود نوشت کو چند سطروں میں کیسے سمیٹوں؟ بس یوں سمجھیے کہ اس میں خاندان اور گھر کے و ہ لڑکے بالے ہیں جن پر ہندو دوستوں کا زیادہ اثر ہوجائے تو انھیں فوراً علی گڑھ روانہ کردیا جاتا ہے۔ جنگ عظیم کا زمانہ ہے جب کاکا خیلوں اور قزلباشوں کے خوبرو لڑکے برطانوی فوج میں کمیشن لے رہے ہیں اور اپنی وردیوں میں اتراتے پھر رہے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک یحییٰ خان ہیں جن کے قزلباش خاندان کا چرچا ہے، وہ بعد میں صدر پاکستان بنے اور ملک کو دولخت کرنے کی رسوائی ان کے حصے میں آئی۔
کون سوچ سکتا ہوگا کہ ایک پسماندہ علاقے کی رہنے والی لڑکی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اڑ جائے گی۔ ریاضی میں اتنی مہارت حاصل کرلے گی کہ خیبر پختونخوا کے صوبے میں اول آئے گی اور گولڈ میڈل لے گی۔ فلسفہ پڑھے گی اور ان کتابوں میں ڈوب جائے گی جن کے نام سے بہت سے پڑھے لکھے مرد بھی ناواقف ہیں۔ کیسی مہربان کرسچن اور ہندو استانیاں ہیں۔ ایک ایسا ماحول ہے جس میں سب شیر و شکر ہیں، پھر سیاست ان کے تعلقات میں تناؤ کی طنابیں کھینچنے لگتی ہے۔ نثار کے گھر والے اور ان کا اکلوتا بھائی سرتاج عزیز (جسے وہ آج تک پیار سے تاجی کہتی ہیں) الیکشن میں مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ ادھر نثار ہیں جو کانگریسی سیاست کو درست سمجھتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے لیکن کہاں ان کا خیال اور کہاں حقیقت حال۔ دونوں کے درمیان کسی نوعیت کا تعلق نہیں۔
نثار کی سیاسی خواہشات کو ضرور شکست ہوئی لیکن خوش نصیب تھیں کہ وہ خیبر پختونخوا میں پیدا ہوئی تھیں، اس لیے انھیں ترکِ وطن کا عذاب نہیں سہنا پڑا۔ اس کے باوجود وہ اس بات پر غمزدہ ہیں کہ پاکستان میں رہ جانے والے عیسائیوں سے ناروا سلوک ہوا۔ ان سے جو وعدے کیے گئے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے۔ مس ٹھاکرداس کو جو عیسائی تھیں اور اعلیٰ درجے کی استاد، پاکستان بننے کے بعد انجمن حمایت الاسلام نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا کہ پاکستان میں کسی مسلمان عورت کو اسلامیہ کالج کا پرنسپل ہونا چاہیے۔ نثار عزیز نے اس پر شدید احتجاج کیا، اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیوی سے مل آئیں۔ اخباروں میں انھوں نے اور دوسروں نے مراسلے لکھے لیکن کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔
ادھر اخباروں کے ذریعے یہ خبر ہندوستان پہنچی تو وہاں سے فوراً مس ٹھاکر داس کو پیش کش ہوئی کہ وہ دلی آجائیں اور میرنڈا ہاؤس کی پرنسپل کا عہدہ قبول کریں۔ مس ٹھاکر داس لاہور سے دلی گئیں، وہاںعہدہ قبول کیا اور پھر لاہور آئیں۔ ان کے بھائی نو لکھا چرچ کے پادری تھے، چند دن اپنے بھائی، نثار اور دوسری طالبات کے ساتھ گزار کر دلی چلی گئیں اور میرنڈا ہاؤس کو ایک ایسا کالج بنا دیا جس میں پڑھنے والیاں اپنے نصیبوں پر رشک کرتیں۔
(جاری ہے)