نتیجہ کسی حکمران کے پاس نہیں
آپ یوں کہیں کہ کسی نے سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی اور کوشش بھی کون کرتا
کچھ پہلے کی بات ہے کہ پاکستان کے ایک مستند دانشور جو اس ملک کے ایک بہت ہی بڑے دانشور حضرت مولانا صلاح الدین احمد کے صاحبزادے ہیں اور ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں چند دنوں کے لیے لاہو تشریف لائے تھے اور انھوں نے پاکستان کے حالات کا حکیمانہ جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں ایک بہت بڑا بحران آنے والا ہے جس کو روکنا اب شاید کسی کے بس میں بھی نہیں ہے کہ اس پر قابو پایا جا سکے۔
وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ ہماری انتظامیہ اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اس کی اصلاح کا اب کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی اس بات نے مجھے اس قدر چکرا دیا کہ میں اب تک بحال نہیں ہو سکا، یہ ایک سچے پاکستانی کی رائے اور مشاہدہ تھا جسے سنجیدگی سے نہ لینا ملک اور پاکستانی قوم کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ اس مستند اور محب وطن دانشور نے یہ بات کہنے یا وارننگ دینے کے لیے چند صحافیوں کو خصوصی دعوت دی تھی اور ان کے سامنے ایک جہاندیدہ پاکستانی نے اپنے مشاہدات کو بیان کیا ۔ ان کی یہ بات اور مشاہدہ اتنا واضح تھا کہ ہم ان کی بات سننے والے چپ رہ گئے ۔
اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور جو وہ بیان کر رہے تھے وہ سب ہم اپنی زندگی میں دن رات دیکھ رہے ہیں۔ ہماری انتظامیہ جو ملک چلاتی ہے ہم اس کی نا اہلی اور غفلت کو دیکھ رہے ہیں ۔ اگرچہ پرانا محاورہ نقل کر رہا ہوں کہ ہماری کوئی کل بھی سیدھی نہیں تو غلط نہ ہو گا۔ یہ سب ہم دن رات دیکھ رہے ہیں بلکہ بھگت رہے ہیں ۔ایسا کیوں ہوا اور ہم اس قدر زوال میں کیوں چلے گئے اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں جن میں کرپشن سر فہرست قرار دی جاسکتی ہے اور ایسے اور اسباب بھی پس منظر میں کار فرما رہے ہیں لیکن یہ ایک طویل گفتگو ہے اور ایک نہ ختم ہونے والی بحث ہے جو کہ ملک کے دردمند اور سلیقہ مند حلقوں میں جاری ہے لیکن فی الحال اس کا حل نہیں نکالا جا سکتا ۔
آپ یوں کہیں کہ کسی نے سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی اور کوشش بھی کون کرتا، کیا وہ لوگ اس کا حل تلاش کرتے جو خود اس کا ایک سبب تھے اس لیے جانتے بوجھتے ہوئے ہر ایک خاموش رہا اور اپنا وقت گزار گیا۔
چلیے وقت تو جوں توں کر کے گزر گیا مگر ملک جس ہولناک بد انتظامی کا شکار ہو گیا وہ بدستور قائم رہی اور ملک کو ایک معمول کی حالت پر نہیں آنے دیا گیا۔ کوئی بھی ملک کسی اچھی اور فرض شناس انتظامیہ کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور آج پاکستانی اپنے ملکی حالات کے ہر پہلوکا جو شکوہ کرتے ہیں وہ غلط نہیں ہے۔
کسی بھی دفتر میں کام کسی قاعدہ کے تحت نہیں ہو رہا اور اس کے باقاعدہ ہونے کا امکان بھی نہیں ہے ۔ اس دوران تین مارشل لاء لگے اور توقع کی گئی کہ یہ سخت حکومتیں حالات کو ڈنڈے کے زور پر بھی درست کر دیں گی لیکن تعجب ہوا کہ جن سے ہم ایسی توقعات وابستہ کر رہے تھے وہ ایسے تھے ہی نہیں اور یہ سب ہماری سمجھ کی خرابی اور کوتاہی تھی ۔مارشل لاء آئے اور مزید خرابیاں پیدا کر کے چلے گئے وہ لوگ جو ان غیر سیاسی حکومتوں سے توقعات لگائے بیٹھے تھے وہ شرمندہ ہوگئے اور اپنی امیدوں کی ناکامی کا رونا روتے رہے۔
فوجی حکومتیں جی بھر کر دیکھ لیں اور سیاسی حکومتیں تو ہم شروع دن سے ہی دیکھتے چلے آرہے ہیں لیکن امید کا غنچہ کسی بھی گلزار میں نہ کھِلا اور ہم اپنی امیدوں کے مرقد پر بیٹھے ہوئے سب دیکھتے رہ گئے ۔ جو حکمران بھی آیا اس نے کئی خوشگواراور پُر امید باتیں کیں اور قوم کو امیدیں دلائیں، قوم نے ہر بات پر لبیک کہا اور اس نئے حکمران سے امید باندھ لی لیکن جیسے ہی وردی کی سلوٹیں ماند پڑیں یا سوٹ کی استری بگڑی تو حکومت پھر سے اپنی پرانی ڈگر پرآگئی جس پر وہ اور اس کی پیشرو حکومتیں چل رہی تھیں، حکومتیں جو لوگ چلاتے ہیں وہ بدلتے نہیں حکومت کرنے والے نئے آجاتے ہیں جو شروع میں تو اپنی انتظامی صلاحیتوں کے متعلق بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن جلد ہی ان کے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے ۔
پٹواری سے لے کر تھانیدار تک اقتدار پر قابض لوگ کسی نئے حکمران کو صبرکے ساتھ دیکھتے ہیں اور وہ حکمران جلد ہی ان کی پسند پر پورا اترنا شروع ہو جاتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ برسہا برس کی تربیت یافتہ انتظامیہ کا نگران بن جاتا ہے ۔ پرانے تجربہ کار ملازمین ذرا سے صبر کے ساتھ نئے حکمران کو دیکھتے ہیں اس کی بعض نئی باتیں بھی سنتے ہیں اور صبرو تحمل کے ہتھیار کے ساتھ اس کے اقتدار کی جوانی کو دیکھتے ہیں جس پر جلد ہی بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے کیونکہ ہر حکمران کی سپاہ تھکی ماندی ہوتی ہے اور ہاتھ منہ دھو کر اور کپڑے بدل کر اپنے پرانے ہتھکنڈوں پر اتر آتی ہے اور نئے حکمران کو بھی اس کی امیدوں کے ساتھ بہا لے جاتی ہے ۔
ایک پٹواری نے ایک بار مجھ سے کہا کہ حکومت تو ہم چلاتے ہیں آپ کا جوجی چاہے اپنی تسلی کے لیے لکھتے رہیں لیکن سب کا نتیجہ ہمارے پاس ہوتا ہے اور وہ مناسب وقت پر ہم ہی اس نتیجے کو ظاہر کرتے ہیں اور سب کچھ بھاڑ میں چلا جاتا ہے اس لیے حکمران جو چاہیں کر لیں۔
وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ ہماری انتظامیہ اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اس کی اصلاح کا اب کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی اس بات نے مجھے اس قدر چکرا دیا کہ میں اب تک بحال نہیں ہو سکا، یہ ایک سچے پاکستانی کی رائے اور مشاہدہ تھا جسے سنجیدگی سے نہ لینا ملک اور پاکستانی قوم کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ اس مستند اور محب وطن دانشور نے یہ بات کہنے یا وارننگ دینے کے لیے چند صحافیوں کو خصوصی دعوت دی تھی اور ان کے سامنے ایک جہاندیدہ پاکستانی نے اپنے مشاہدات کو بیان کیا ۔ ان کی یہ بات اور مشاہدہ اتنا واضح تھا کہ ہم ان کی بات سننے والے چپ رہ گئے ۔
اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور جو وہ بیان کر رہے تھے وہ سب ہم اپنی زندگی میں دن رات دیکھ رہے ہیں۔ ہماری انتظامیہ جو ملک چلاتی ہے ہم اس کی نا اہلی اور غفلت کو دیکھ رہے ہیں ۔ اگرچہ پرانا محاورہ نقل کر رہا ہوں کہ ہماری کوئی کل بھی سیدھی نہیں تو غلط نہ ہو گا۔ یہ سب ہم دن رات دیکھ رہے ہیں بلکہ بھگت رہے ہیں ۔ایسا کیوں ہوا اور ہم اس قدر زوال میں کیوں چلے گئے اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں جن میں کرپشن سر فہرست قرار دی جاسکتی ہے اور ایسے اور اسباب بھی پس منظر میں کار فرما رہے ہیں لیکن یہ ایک طویل گفتگو ہے اور ایک نہ ختم ہونے والی بحث ہے جو کہ ملک کے دردمند اور سلیقہ مند حلقوں میں جاری ہے لیکن فی الحال اس کا حل نہیں نکالا جا سکتا ۔
آپ یوں کہیں کہ کسی نے سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی اور کوشش بھی کون کرتا، کیا وہ لوگ اس کا حل تلاش کرتے جو خود اس کا ایک سبب تھے اس لیے جانتے بوجھتے ہوئے ہر ایک خاموش رہا اور اپنا وقت گزار گیا۔
چلیے وقت تو جوں توں کر کے گزر گیا مگر ملک جس ہولناک بد انتظامی کا شکار ہو گیا وہ بدستور قائم رہی اور ملک کو ایک معمول کی حالت پر نہیں آنے دیا گیا۔ کوئی بھی ملک کسی اچھی اور فرض شناس انتظامیہ کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور آج پاکستانی اپنے ملکی حالات کے ہر پہلوکا جو شکوہ کرتے ہیں وہ غلط نہیں ہے۔
کسی بھی دفتر میں کام کسی قاعدہ کے تحت نہیں ہو رہا اور اس کے باقاعدہ ہونے کا امکان بھی نہیں ہے ۔ اس دوران تین مارشل لاء لگے اور توقع کی گئی کہ یہ سخت حکومتیں حالات کو ڈنڈے کے زور پر بھی درست کر دیں گی لیکن تعجب ہوا کہ جن سے ہم ایسی توقعات وابستہ کر رہے تھے وہ ایسے تھے ہی نہیں اور یہ سب ہماری سمجھ کی خرابی اور کوتاہی تھی ۔مارشل لاء آئے اور مزید خرابیاں پیدا کر کے چلے گئے وہ لوگ جو ان غیر سیاسی حکومتوں سے توقعات لگائے بیٹھے تھے وہ شرمندہ ہوگئے اور اپنی امیدوں کی ناکامی کا رونا روتے رہے۔
فوجی حکومتیں جی بھر کر دیکھ لیں اور سیاسی حکومتیں تو ہم شروع دن سے ہی دیکھتے چلے آرہے ہیں لیکن امید کا غنچہ کسی بھی گلزار میں نہ کھِلا اور ہم اپنی امیدوں کے مرقد پر بیٹھے ہوئے سب دیکھتے رہ گئے ۔ جو حکمران بھی آیا اس نے کئی خوشگواراور پُر امید باتیں کیں اور قوم کو امیدیں دلائیں، قوم نے ہر بات پر لبیک کہا اور اس نئے حکمران سے امید باندھ لی لیکن جیسے ہی وردی کی سلوٹیں ماند پڑیں یا سوٹ کی استری بگڑی تو حکومت پھر سے اپنی پرانی ڈگر پرآگئی جس پر وہ اور اس کی پیشرو حکومتیں چل رہی تھیں، حکومتیں جو لوگ چلاتے ہیں وہ بدلتے نہیں حکومت کرنے والے نئے آجاتے ہیں جو شروع میں تو اپنی انتظامی صلاحیتوں کے متعلق بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن جلد ہی ان کے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے ۔
پٹواری سے لے کر تھانیدار تک اقتدار پر قابض لوگ کسی نئے حکمران کو صبرکے ساتھ دیکھتے ہیں اور وہ حکمران جلد ہی ان کی پسند پر پورا اترنا شروع ہو جاتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ برسہا برس کی تربیت یافتہ انتظامیہ کا نگران بن جاتا ہے ۔ پرانے تجربہ کار ملازمین ذرا سے صبر کے ساتھ نئے حکمران کو دیکھتے ہیں اس کی بعض نئی باتیں بھی سنتے ہیں اور صبرو تحمل کے ہتھیار کے ساتھ اس کے اقتدار کی جوانی کو دیکھتے ہیں جس پر جلد ہی بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے کیونکہ ہر حکمران کی سپاہ تھکی ماندی ہوتی ہے اور ہاتھ منہ دھو کر اور کپڑے بدل کر اپنے پرانے ہتھکنڈوں پر اتر آتی ہے اور نئے حکمران کو بھی اس کی امیدوں کے ساتھ بہا لے جاتی ہے ۔
ایک پٹواری نے ایک بار مجھ سے کہا کہ حکومت تو ہم چلاتے ہیں آپ کا جوجی چاہے اپنی تسلی کے لیے لکھتے رہیں لیکن سب کا نتیجہ ہمارے پاس ہوتا ہے اور وہ مناسب وقت پر ہم ہی اس نتیجے کو ظاہر کرتے ہیں اور سب کچھ بھاڑ میں چلا جاتا ہے اس لیے حکمران جو چاہیں کر لیں۔