دورۂ جنوبی افریقہ تیز پچز پاکستانی بیٹسمینوں کے اعصاب پر سوار
بھارتی ٹورکے بعد ملک میں فلیٹ وکٹ پر ڈومیسٹک میچ کھیلنے والے پلیئرزکیلیے سیریزسخت امتحان ثابت ہوگی۔
دورئہ جنوبی افریقہ سے قبل تیز پچز پاکستانی بیٹسمینوں کے اعصاب پر سوار ہو گئیں۔
بھارتی ٹور کے بعد ملک میں فلیٹ وکٹ پر ڈومیسٹک میچ کھیلنے والے پلیئرز کیلیے سیریز سخت امتحان ثابت ہو گی، خود کپتان مصباح الحق اسے اپنے تین سالہ دور کا سب سے بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں، انکے مطابق حریف ٹیم کو ہرانے کی صلاحیت موجود تاہم نتائج کا انحصار بیٹسمینوں کی کارکردگی پر ہو گا۔ تفصیلات کے مطابق روایتی حریف بھارت کو ہرانے کے بعد اب پاکستان کا اگلا امتحان جنوبی افریقہ کیخلاف سیریز ہے، دونوں ممالک کی پچز میں زمین آسمان کا فرق ہے، تیز اور بائونسی ٹریکس پر پروٹیز بولرز نے کیویز کا جو حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے، فاسٹ افریقی پچز پاکستانی بیٹسمینوں کے اعصاب پر بھی سوار نظر آتی ہیں، انھیں پہلے ٹیسٹ سے قبل واحد ٹور میچ کے ذریعے کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔
اس حوالے سے کراچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کپتان مصباح الحق نے کہا کہ میرے تین سالہ دور کپتانی میں یہ ٹور سب سے بڑا چیلنج ہے، ہم ہار یا جیت کا تصور لے کر نہیں جا رہے، تیز وکٹوں پر عالمی نمبر ون سے مقابلہ ایک بڑا چیلنج ہوگا، میزبان کا شمار مضبوط ٹیموں میں ہوتا ہے لیکن میں پُراعتماد ہوں کہ اسے زیر کرلینگے، ہماری کارکردگی کا انحصار بیٹسمینوں پر ہو گا جنھیں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دینا ہوں گی، اگر انھوں نے اچھا اسکور کیا تو بولرز پر بھی دبائو کم اور حریف ٹیم کو جلد آئوٹ کرنے میں آسانی ہو جائیگی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیم میں جنوبی افریقہ کی تیز وکٹوں پر قیام کی صلاحیت کے حامل چندکھلاڑی موجود ہیں، عمر گل اور جنید خان جیسے پیسرز سے بھی بہتر کارکردگی کی توقعات ہیں، انھیں ورلڈ کلاس اسپنر سعید اجمل کی مدد بھی حاصل ہوگی، کوئی مخصوص بیٹسمین ہمارے بولرز کا ہدف نہیں ہوگا،مصباح الحق نے کہا کہ یہ ٹیم گیم ہے اور ہم اپنے حریف کے خلاف ہمیشہ متحد ہو کر کھیلتے ہیں، بہتر صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور جنوبی افریقہ کیخلاف بھی یہی کرینگے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی حالیہ کامیابیوں کا راز ٹیم اسپرٹ اور اعتماد میں مضمر ہے جس کے نتیجے میں اب ہم ایک حقیقی سائیڈکا روپ دھار چکے۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کو گزشتہ عرصہ میں انٹرنیشنل کرکٹ کے مواقع کم ملے لیکن 2010 میں پروٹیزسے سیریز کے بعد ٹیم کو تقویت حاصل ہوئی ہے اور وہ مضبوط سے مضبوط تر ہورہی ہے۔
احسان عادل کی شمولیت کے حوالے سے سوال پر قومی ٹیسٹ کپتان نے کہا کہ میں سلیکشن کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، سلیکشن کمیٹی نے کچھ دیکھ کر ہی اس کا انتخاب کیا ہوگا، یہ میرا دائرہ اختیار نہیں۔
بھارتی ٹور کے بعد ملک میں فلیٹ وکٹ پر ڈومیسٹک میچ کھیلنے والے پلیئرز کیلیے سیریز سخت امتحان ثابت ہو گی، خود کپتان مصباح الحق اسے اپنے تین سالہ دور کا سب سے بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں، انکے مطابق حریف ٹیم کو ہرانے کی صلاحیت موجود تاہم نتائج کا انحصار بیٹسمینوں کی کارکردگی پر ہو گا۔ تفصیلات کے مطابق روایتی حریف بھارت کو ہرانے کے بعد اب پاکستان کا اگلا امتحان جنوبی افریقہ کیخلاف سیریز ہے، دونوں ممالک کی پچز میں زمین آسمان کا فرق ہے، تیز اور بائونسی ٹریکس پر پروٹیز بولرز نے کیویز کا جو حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے، فاسٹ افریقی پچز پاکستانی بیٹسمینوں کے اعصاب پر بھی سوار نظر آتی ہیں، انھیں پہلے ٹیسٹ سے قبل واحد ٹور میچ کے ذریعے کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔
اس حوالے سے کراچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کپتان مصباح الحق نے کہا کہ میرے تین سالہ دور کپتانی میں یہ ٹور سب سے بڑا چیلنج ہے، ہم ہار یا جیت کا تصور لے کر نہیں جا رہے، تیز وکٹوں پر عالمی نمبر ون سے مقابلہ ایک بڑا چیلنج ہوگا، میزبان کا شمار مضبوط ٹیموں میں ہوتا ہے لیکن میں پُراعتماد ہوں کہ اسے زیر کرلینگے، ہماری کارکردگی کا انحصار بیٹسمینوں پر ہو گا جنھیں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دینا ہوں گی، اگر انھوں نے اچھا اسکور کیا تو بولرز پر بھی دبائو کم اور حریف ٹیم کو جلد آئوٹ کرنے میں آسانی ہو جائیگی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیم میں جنوبی افریقہ کی تیز وکٹوں پر قیام کی صلاحیت کے حامل چندکھلاڑی موجود ہیں، عمر گل اور جنید خان جیسے پیسرز سے بھی بہتر کارکردگی کی توقعات ہیں، انھیں ورلڈ کلاس اسپنر سعید اجمل کی مدد بھی حاصل ہوگی، کوئی مخصوص بیٹسمین ہمارے بولرز کا ہدف نہیں ہوگا،مصباح الحق نے کہا کہ یہ ٹیم گیم ہے اور ہم اپنے حریف کے خلاف ہمیشہ متحد ہو کر کھیلتے ہیں، بہتر صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور جنوبی افریقہ کیخلاف بھی یہی کرینگے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی حالیہ کامیابیوں کا راز ٹیم اسپرٹ اور اعتماد میں مضمر ہے جس کے نتیجے میں اب ہم ایک حقیقی سائیڈکا روپ دھار چکے۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کو گزشتہ عرصہ میں انٹرنیشنل کرکٹ کے مواقع کم ملے لیکن 2010 میں پروٹیزسے سیریز کے بعد ٹیم کو تقویت حاصل ہوئی ہے اور وہ مضبوط سے مضبوط تر ہورہی ہے۔
احسان عادل کی شمولیت کے حوالے سے سوال پر قومی ٹیسٹ کپتان نے کہا کہ میں سلیکشن کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، سلیکشن کمیٹی نے کچھ دیکھ کر ہی اس کا انتخاب کیا ہوگا، یہ میرا دائرہ اختیار نہیں۔