تیری آواز مکے اور مدینے

رضا ربانی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایوان بالا کا مقصد وفاقی اکائیوں کی نمایندگی ہے

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ سول ملٹری تعلقات پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، راولپنڈی سے اختیارات اسلام آباد منتقل ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ وفاقی دارالحکومت میں سینیٹ اور دولت مشترکہ تنظیم کے تعاون سے ارتقائی مراحل سے گزرنے والی جمہوریتوں کے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آئین کی حکمرانی، قانون کی عملداری اور سیاستدانوں کی کچھ باتوں کو مسلح افواج کے خلاف سمجھا جاتا ہے جب کہ صرف سیاستدان کو سزا دینا اور مقدس گائے کو چھوڑ دینا غلط ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ سول اور ملٹری بیورو کریسی نے ملک کو سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کے بجائے سوشل سیکیورٹی اسٹیٹ بنا کر رکھ دیا ہے، دونوں میں سے کوئی بھی اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں، انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اب بھی جمہوریت عبوری دور سے گزر رہی ہے، اس وقت ملک میں کوئی مثالی جمہوریت نہیں ہے لیکن یہ پھر بھی آمریت سے بہتر ہے، ہمیں گورننس اور کرپشن جیسے مسائل کا سامنا ہے، کرپشن معاشرے میں نچلی سطح تک سرائیت کر چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ عدلیہ، فوج اور بیوروکریسی میں احتساب اور سزا کا اپنا نظام ہے، صرف سیاستدانوں کے لیے خصوصی قانون اور عدالتیں بنائی گئی ہیں۔

چیئرمین سینیٹ نے مزید کہا کہ یہاں ہر دس سال بعد آئین توڑ دیا جاتا ہے، جمہوریت کوئی بجلی کا سوئچ نہیں جو بٹن دبانے سے آن آف ہو، یہ ایک پراسیس اور نظام کے تسلسل سے آتی ہے، یہاں جمہوریت کو سول ملٹری تعلقات، حکومت عدلیہ تعلقات اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اختیارات میں عدم توازن جیسے چیلنجز اور مسائل کا سامنا ہے۔ رضا ربانی نے کھل کر کہا کہ پاکستان میں حکمراں اشرافیہ نے ایسی روش اختیار کر رکھی ہے کہ اگر کوئی شخص آئینی اداروں اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتا ہے تو اسے فوج کے خلاف تصور کیا جاتا ہے۔

ایک منظم پروپیگنڈے کے تحت قیام پاکستان سے لے کر اب تک پارلیمان اور سیاستدانوں کی کردار کشی کی گئی ہے جب کہ ڈکٹیٹروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، سیاستدانوں کو نااہل اور کرپٹ قرار دیا جاتا ہے جب کہ وہ کبھی بھی فوج کے خلاف نہیں رہے۔ انھوں نے کہا کہ آئین کے تحت ہر ادارے کا اپنا کردار ہے لیکن بدقسمتی سے طالع آزماؤں نے جب بھی اقتدار پر قبضہ کیا تو آئین کو معطل کر دیا گیا، تاہم عوام قانون کی حکمرانی کے لیے پر عزم تھے اور اب بھی ہیں، عوام نے آمریتوں کا مقابلہ کیا اور سزائیں کاٹیں، آخر میں فتح بھی عوام ہی کی ہوئی۔

رضا ربانی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایوان بالا کا مقصد وفاقی اکائیوں کی نمایندگی ہے، ایک ایسا فارمولا بنانے کی اشد ضرورت ہے جس کے تحت دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے دوران ووٹنگ میں دونوں ایوانوں کی حیثیت برابر ہو۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جمہوریت چاہے جیسی بھی ہو آمریت سے بہتر ہے، ہر سیاستدان کرپٹ نہیں ہے، تمام ادارے اپنا احتساب خود کرتے ہیں، سیاستدانوں کا احتساب بھی پارلیمان کو کرنا چاہیے نہ کہ خصوصی عدالتوں کو۔ انھوں نے کہا کہ حکمراں طبقے نے ہمیشہ پارلیمان کو بائی پاس کرنے کی کوشش کی ہے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ پارلیمان اپنے اختیارات کے لیے خود اٹھ کھڑی ہو، سینیٹ نے وفاقی اکائیوں کے حقوق اور محروم طبقات کے لیے قانون سازی کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ ایوان کے کام کے طریقہ کار میں کافی تبدیلی آئی ہے۔


دولت مشترکہ تنظیم کے سیکریٹری جنرل اور دیگر پارلیامینٹیرنز نے بھی سیمینار سے خطاب کیا۔ اکبر خان نے کہا کہ پارلیمان ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو قومی سطح پر بنائی جانے والی حکمت عملیوں میں عوام کی آواز کو شامل کرتا ہے اور بحث مباحثے کے ذریعے معاشرتی انتشار کا خاتمہ کرتا ہے۔ راجہ محمد ظفر الحق نے کہا کہ تاریک دور گزر گیا ہے اور جمہوری دور ایک نئے روشن دور میں داخل ہونے جا رہا ہے۔ اعتزاز احسن بولے کہ ارتقائی مراحل سے گزرنے والی جمہوریتوں کے لیے انصاف تک رسائی اور قانون کے سامنے برابری کو ترجیحی بنیادوں پر رکھنا ہوگا کیونکہ انصاف کے بغیر کوئی بھی جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔

سنا ہے پہلے زمانے میں لوگ جب کسی کو حق کی بات کرتے، کھری کھری سناتے اور لگی لپٹی رکھے بغیر صاف گوئی سے اپنا مدعا بیان کرتے دیکھتے اور سنتے تھے تو ان کے منہ سے بے اختیار نکلتا تھا تیری آواز مکے اور مدینے۔ یہ گویا بات کرنے والے کو داد دینے بلکہ خراج تحسین پیش کرنے کا ایک انداز ہوا کرتا تھا۔ ہم نے ایک طویل مدت کے بعد اس روز جب چیئر مین سینیٹ جناب رضا ربانی کو یوں حق گوئی و بے باکی کا مظاہرہ کرتے سنا تو ہمارے منہ سے بھی بے اختیار یہی نکلا کہ تیری آواز مکے اور مدینے، کہ آخر ہمارا شمار بھی اب اگلے وقتوں کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہم ربانی صاحب کی کہی ہوئی باتوں پر کوئی تبصرہ بھی نہیں کرنا چاہتے کہ یہ اس کی محتاج نہیں ہیں۔

رہا طویل مدت کے بعد کوئی حق بات سننے کے ذکر کا تو لگے ہاتھوں وہ بھی سن لیجیے، 70ء کے عشرے میں جب ملک بھٹو صاحب اور ان کی پیپلز پارٹی کے سحر میں جکڑا ہوا تھا، ڈاکٹر مبشر حسن قارئین کے پوچھے ہوئے سوالات کے جوابات پر مشتمل ایک ہفتہ وار کالم لکھا کرتے تھے جو ہمیں لاہور سے بذریعہ ڈاک موصول ہوتا اور پارٹی کے ترجمان دونوں اخبارات مساوات اور ہلال پاکستان میں چھپا کرتا تھا۔ ایک بار اپنے کالم میں ڈاکٹر صاحب نے پارٹی کے نعرے روٹی، کپڑا اور مکان کے حوالے سے کوئی ایسی بات کہی جو واضح نہیں تھی، کالم چونکہ اردو میں لکھا ہوتا تھا اس لیے ہمارے ایڈیٹر سراج صاحب نے مجھے مساوات کے دفتر ابراہیم جلیس صاحب کے پاس وہ مبہم بات سمجھنے کے لیے بھیجا۔

ایک صاحب جن کا نام تو اب بھول گیا ہوں البتہ یہ یاد ہے کہ وہ کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، ان کے پاس پہلے سے بیٹھے تھے۔ کوئی مضمون لکھ کر لائے تھے جو جلیس صاحب دیکھ رہے تھے، پڑھ چکے تو اپنے مخصوص انداز میں ان صاحب سے پوچھا آپ کی سروس باقی کتنی رہ گئی ہے، انھوں نے بتایا تین سال، پھر پوچھا گھر اپنا ہے، انھوں نے کہا نہیں، بولے پھر کیوں بیروزگار ہو کر اپنے بچوں کو بھوکا مارنا اور بے گھر ہونا چاہتے ہیں۔ مضمون کا مسودہ لوٹاتے ہوئے جلیس صاحب نے انھیں کہا ہر بات منطق سے نہیں کی جاتی، منطق سے اوپر ایک اور چیز بھی ہوتی ہے جسے ہیئت کہتے ہیں۔ منطق کی رو سے یہ درست ہے کہ زردی کے بغیر انڈے کا تصور نہیں کیا جا سکتا، لیکن ہیئت کہتی ہے کہ انڈا اور وہ (ہیئت) دو الگ الگ چیزیں ہیں، اگر کوئی آپ کے سامنے رکھا ہوا انڈا اٹھاکر کھا جائے تو کیا ہیئت سے آپ کا پیٹ بھرے گا۔

میں نے دیکھا ان صاحب کے پلے کچھ نہیں پڑا، مجبوراً جلیس صاحب کو انھیں سلیس اردو میں بتانا پڑا کہ ابھی آپ کی یہ منطق پیش کرنے کا وقت نہیں آیا کہ ملک آدھا رہ گیا ہے تو فوج بھی آدھی ہونی چاہیے۔ وہ وقت تو خیر ابھی تک نہیں آ سکا ہے، ورنہ پاکستان کے فاضل چیف جسٹس یہ ریمارکس دینے کے بجائے کہ جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر باہر جانے والا ڈانس کرتا پھرتا ہے اور ہاتھ لہرا کر کہتا ہے میں بیمار ویمار نہیں بالکل فٹ ہوں، جعلی سرٹیفکیٹس دینے اور دلوانے والوں کو بلا کر کٹہرے میں کھڑا کرتے اور پوچھتے کہ وہ اپنے بیمار جیسا ڈانس کر سکتے ہیں؟
Load Next Story