پاکستانی ائیرپورٹس پر جھگڑے کیوں ہوتے ہیں
پاکستانی ائیرپورٹس پر پہنچتے ہی بے ضابطگیوں کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوجاتا ہے کہ صورتحال کس قدر خراب ہے۔
GILGIT:
اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر نارویجئین پاکستانی اور اصل پاکستانی خواتین کے لڑائی جھگڑے کے مناظر تو آپ نے دیکھ رکھے ہوں گے۔ اِس لڑائی جھگڑے کی وجہ ایک سینئر صحافی یہ بتاتے ہیں کہ اُن نارویجئن خواتین نے صرف ٹشو پیپر نہ ملنے کی شکایت کی تھی، لیکن ایف آئی اے کی اہلکار نے بدتمیزی شروع کردی، معاملہ بڑھتا چلا گیا اور ایف آئی اے اہلکار شکایت کرنے والی خواتین کو اندر لے گئیں اور وہاں اُن کی پٹائی شروع کردی اور وہاں موجود لوگوں تماشائیوں کی طرح سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ اِس خبر کو ڈینمارک کے ایک بڑے اخبار نے بھی تقریباً اسی طرح رپورٹ کیا ہے۔
لیکن تصویر کا دوسرا رُخ اُس وقت بے نقاب ہوا جب اِس حوالے سے کچھ مزید ویڈیوز سامنے آئیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نارویجئن خواتین بھی طاقت یا مرتبے کے زعم میں دکھائی دیتی ہیں اور ایف آئی اے کے اہلکاروں کو خاطر میں لاتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اُن کا انداز خاصا جارحانہ ہے اور بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ اُن خواتین نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، اور اُن کے ساتھ جو ہوا وہ اُن کے اعمال کا نتیجہ تھا۔
چلیے اِس کیس کو تو یہیں چھوڑے دیتے ہیں، اگر عوام کی نظریں چند لمحوں کو پاکستانی ائیرپورٹس کی جانب اُٹھی ہیں تو چند حقائق جاننے میں کچھ ہرج نہیں، کیونکہ یہ سمجھے بغیر آپ ائیر پورٹس پر ہونے والی بے ضابطگیوں کو نہیں سمجھ سکتے۔
پاکستان کے ہوائی اڈوں پر اُترتے اور چڑھتے وقت ہی آپ کو پاکستان کی اصل تصویر نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جہاز سے اُتر کر آپ لاؤنج میں آئیں تو ایمیگریشن سے بھی پہلے کچھ لوگ ہاتھ میں کارڈ اُٹھائے آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہ عموماً زیادہ بڑی سفارشوں والے یا زیادہ طاقت والے لوگوں کو خوش آمدید کہنے والے ہوتے ہیں۔ اُن کا کام آپ کو ایمیگریشن کی قطار میں لگنے سے بچانا ہوتا ہے، یوں سمجھیئے کہ بے ضابطگی کا آغاز ائیر پورٹ پر اُترتے ہی ہوجاتا ہے۔
ایمیگریشن کے بعد ایف آئی اے اور آخر میں کسٹم کے افراد آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ مجھے آج تک اِن ڈیسکوں پر پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ میں ہمیشہ کم سامان ساتھ رکھنے کا عادی ہوں، صرف یہی نہیں بلکہ کسٹم ایبل اشیاء پاکستان لے جانے کا تردد کرتا ہوں، لیکن اکثر لوگوں سے بہرحال سنا یہی ہے کہ کسٹم کے لوگ بھاؤ تاؤ کئے بغیر مسافروں کو باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔
اب اگر بات کی جائے عازمِ سفر ہونے کی تو جب آپ ائیرپورٹ پر داخل ہوتے ہیں تو سامان چیک کرنے والے بڑے واضح الفاظ میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ روپے دو ورنہ سارا سامان کھول کر چیک کریں گے، اور پھر اگر آپ اُن کی مٹھی گرم نہ کریں تو وہ آپ کے بیگ کھول کر سب ترتیب سے رکھی ہوئی چیزوں کا ستیا ناس کردیں گے۔ پچھلے دس بار سفر کے تجربے میں دو مرتبہ انہی لوگوں نے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ رشوت کا مطالبہ کیا، اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ تو ایک صاحب نے اتنی محبت سے پیسے مانگے کے مجھ سے انکار ہی نہ ہوسکا۔ کہنے لگا،
اِس مرحلے کے بعد سامان جمع کروانے کی باری آتی ہے جہاں ٹاؤٹ سرِعام رشوت لے کر آپ کا سامان جلدی بھجواتے ہیں۔ 5 سو سے ہزار روپیہ اُن کو دیں تو وہ آپ کا سامان ایسے کاؤنٹر سے جمع کروادیں گے جہاں اور کسی مسافر کا سامان جمع ہی نہیں ہورہا ہوتا یا آپ اکانومی میں بھی ہیں تو سامان بزنس کلاس کے کاؤنٹر پر جمع ہوجائے گا۔ اِس پوری کارروائی میں سارا عملہ اور سامان ڈھونے والے ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر ساتھ چلتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے حصہ وصول کرتے ہیں، لوگوں سے پیسے بٹورنے کے چکر میں جان بوجھ کر مسافروں کو سامان جمع کروانے والی قطار میں کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ لوگ فلائٹ مِس ہونے کے ڈر سے رشوت دینے پر تیار ہوجائیں۔
اِس ایریا میں جتنی بدنظمی پاکستانی ائیرپورٹس پر پائی جاتی ہے میں نے آج تک کسی اور ائیرپورٹ پر نہیں دیکھی۔ اِس مرحلے سے گزر کر پاسپورٹ کنٹرول کی لائن، پھر ایف آئی اے کی لائن سے ہوتے ہوئے پھر آپ لاؤنج تک پہنچتے ہیں۔
جب آپ ائیرپورٹ پر آتے ہیں تو آپ کو لگنے لگتا ہے کہ یہاں ہر شخص بکاؤ مال ہے، کسی کی قیمت ٹکہ ہے اور کسی کی دو ٹکہ، کیونکہ وہاں لوگ بول بول کر بتلاتے ہیں کہ میری یہ قیمت ہے۔ اگر خدانخواستہ سامان کچھ ایک دو کلو بڑھ جائے تو پھر سامان تولنے والوں کی مسکراہٹیں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کا سودا ہوجائے اور مسافر کچھ دے دلا کر سامان ساتھ لے جائے۔
اِس ماحول میں جب آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ مجھ سے بعد میں آنے والا پہلے چلا گیا، میں قطار میں کھڑا ہوں اور کچھ لوگوں کو قطار میں کھڑے ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے تو دل پر ایک ضرب لگتی ہے۔ ائیرپورٹ کے عملے کی زیادتیوں پر سوشل میڈیا بلاگر علی ملک اپنا ذاتی تجربہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں،
غرضیکہ بہت سے لوگ جب یہ سمجھنے لگیں کہ ہمارے سرکاری اہلکاروں کی اوقات 5 سو روپے سے زیادہ کی نہیں ہے تو اُن کی قانونی اور جائز بات پر بھی لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہوائی اڈوں پر موجود اہلکار پاکستان کا چہرہ ہیں، اِس لئے وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ اِن کی تربیت کی جائے اور ائیر پورٹس پر موجود بے قاعدگیوں کو ختم کیا جائے۔
وہ لوگ یا سرکاری اہلکار جو مسافروں کی مشکلات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھتہ کماتے ہیں اُن کی اِس بدمعاشی کا سدِباب کیا جائے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گِلہ کیا بھی جائے تو کس سے؟ جب رشوت کی زنجیر میں جڑے سب لوگ اوپر سے نیچے تک بھائی بھائی ہیں تو پھر شکایت کرنے والے کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے علاوہ یہ لوگ کچھ اور نہ کرنا چاہیں گے۔
میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ائیرپورٹ پر اسٹاف کی بدتمیزی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، جتنی مرتبہ میں آیا ہوں ہر دفعہ اسٹاف نے کوئی نہ کوئی نیا چاند ہی چڑھایا ہوتا ہے، جب کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بیٹھ چکا ہے کہ یہ سب بکاؤ مال ہیں تو ایسی صورت میں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ وردی کی عزت و احترام بھلا کیونکر بحال ہوسکتی ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر نارویجئین پاکستانی اور اصل پاکستانی خواتین کے لڑائی جھگڑے کے مناظر تو آپ نے دیکھ رکھے ہوں گے۔ اِس لڑائی جھگڑے کی وجہ ایک سینئر صحافی یہ بتاتے ہیں کہ اُن نارویجئن خواتین نے صرف ٹشو پیپر نہ ملنے کی شکایت کی تھی، لیکن ایف آئی اے کی اہلکار نے بدتمیزی شروع کردی، معاملہ بڑھتا چلا گیا اور ایف آئی اے اہلکار شکایت کرنے والی خواتین کو اندر لے گئیں اور وہاں اُن کی پٹائی شروع کردی اور وہاں موجود لوگوں تماشائیوں کی طرح سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ اِس خبر کو ڈینمارک کے ایک بڑے اخبار نے بھی تقریباً اسی طرح رپورٹ کیا ہے۔
لیکن تصویر کا دوسرا رُخ اُس وقت بے نقاب ہوا جب اِس حوالے سے کچھ مزید ویڈیوز سامنے آئیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نارویجئن خواتین بھی طاقت یا مرتبے کے زعم میں دکھائی دیتی ہیں اور ایف آئی اے کے اہلکاروں کو خاطر میں لاتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اُن کا انداز خاصا جارحانہ ہے اور بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ اُن خواتین نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، اور اُن کے ساتھ جو ہوا وہ اُن کے اعمال کا نتیجہ تھا۔
چلیے اِس کیس کو تو یہیں چھوڑے دیتے ہیں، اگر عوام کی نظریں چند لمحوں کو پاکستانی ائیرپورٹس کی جانب اُٹھی ہیں تو چند حقائق جاننے میں کچھ ہرج نہیں، کیونکہ یہ سمجھے بغیر آپ ائیر پورٹس پر ہونے والی بے ضابطگیوں کو نہیں سمجھ سکتے۔
پاکستان کے ہوائی اڈوں پر اُترتے اور چڑھتے وقت ہی آپ کو پاکستان کی اصل تصویر نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جہاز سے اُتر کر آپ لاؤنج میں آئیں تو ایمیگریشن سے بھی پہلے کچھ لوگ ہاتھ میں کارڈ اُٹھائے آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہ عموماً زیادہ بڑی سفارشوں والے یا زیادہ طاقت والے لوگوں کو خوش آمدید کہنے والے ہوتے ہیں۔ اُن کا کام آپ کو ایمیگریشن کی قطار میں لگنے سے بچانا ہوتا ہے، یوں سمجھیئے کہ بے ضابطگی کا آغاز ائیر پورٹ پر اُترتے ہی ہوجاتا ہے۔
ایمیگریشن کے بعد ایف آئی اے اور آخر میں کسٹم کے افراد آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ مجھے آج تک اِن ڈیسکوں پر پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ میں ہمیشہ کم سامان ساتھ رکھنے کا عادی ہوں، صرف یہی نہیں بلکہ کسٹم ایبل اشیاء پاکستان لے جانے کا تردد کرتا ہوں، لیکن اکثر لوگوں سے بہرحال سنا یہی ہے کہ کسٹم کے لوگ بھاؤ تاؤ کئے بغیر مسافروں کو باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔
اب اگر بات کی جائے عازمِ سفر ہونے کی تو جب آپ ائیرپورٹ پر داخل ہوتے ہیں تو سامان چیک کرنے والے بڑے واضح الفاظ میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ روپے دو ورنہ سارا سامان کھول کر چیک کریں گے، اور پھر اگر آپ اُن کی مٹھی گرم نہ کریں تو وہ آپ کے بیگ کھول کر سب ترتیب سے رکھی ہوئی چیزوں کا ستیا ناس کردیں گے۔ پچھلے دس بار سفر کے تجربے میں دو مرتبہ انہی لوگوں نے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ رشوت کا مطالبہ کیا، اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ تو ایک صاحب نے اتنی محبت سے پیسے مانگے کے مجھ سے انکار ہی نہ ہوسکا۔ کہنے لگا،
باؤ جی سفر پر جا رہے ہیں، ہمارے بچے دعائیں دیں گے۔
اِس مرحلے کے بعد سامان جمع کروانے کی باری آتی ہے جہاں ٹاؤٹ سرِعام رشوت لے کر آپ کا سامان جلدی بھجواتے ہیں۔ 5 سو سے ہزار روپیہ اُن کو دیں تو وہ آپ کا سامان ایسے کاؤنٹر سے جمع کروادیں گے جہاں اور کسی مسافر کا سامان جمع ہی نہیں ہورہا ہوتا یا آپ اکانومی میں بھی ہیں تو سامان بزنس کلاس کے کاؤنٹر پر جمع ہوجائے گا۔ اِس پوری کارروائی میں سارا عملہ اور سامان ڈھونے والے ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر ساتھ چلتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے حصہ وصول کرتے ہیں، لوگوں سے پیسے بٹورنے کے چکر میں جان بوجھ کر مسافروں کو سامان جمع کروانے والی قطار میں کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ لوگ فلائٹ مِس ہونے کے ڈر سے رشوت دینے پر تیار ہوجائیں۔
اِس ایریا میں جتنی بدنظمی پاکستانی ائیرپورٹس پر پائی جاتی ہے میں نے آج تک کسی اور ائیرپورٹ پر نہیں دیکھی۔ اِس مرحلے سے گزر کر پاسپورٹ کنٹرول کی لائن، پھر ایف آئی اے کی لائن سے ہوتے ہوئے پھر آپ لاؤنج تک پہنچتے ہیں۔
جب آپ ائیرپورٹ پر آتے ہیں تو آپ کو لگنے لگتا ہے کہ یہاں ہر شخص بکاؤ مال ہے، کسی کی قیمت ٹکہ ہے اور کسی کی دو ٹکہ، کیونکہ وہاں لوگ بول بول کر بتلاتے ہیں کہ میری یہ قیمت ہے۔ اگر خدانخواستہ سامان کچھ ایک دو کلو بڑھ جائے تو پھر سامان تولنے والوں کی مسکراہٹیں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کا سودا ہوجائے اور مسافر کچھ دے دلا کر سامان ساتھ لے جائے۔
اِس ماحول میں جب آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ مجھ سے بعد میں آنے والا پہلے چلا گیا، میں قطار میں کھڑا ہوں اور کچھ لوگوں کو قطار میں کھڑے ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے تو دل پر ایک ضرب لگتی ہے۔ ائیرپورٹ کے عملے کی زیادتیوں پر سوشل میڈیا بلاگر علی ملک اپنا ذاتی تجربہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں،
اسلام آباد ائیرپورٹ پاکستان کا بدترین ائیرپورٹ ہے۔ یہ 2012ء کی بات ہے تب میں مولوی روکڑا نہیں تھا، اور میں سات سال بعد پاکستان گیا تھا، واپسی پر ائیرلائن کی خاتون گراؤنڈ اسٹاف مجھ سے بدتمیزی سے پیش آئی تھی، لیکن اُس نے غلط بندے سے بدتمیزی کی تھی، میں نے اُسے اِس قدر زور و شور سے مغلظات بکیں کہ اُس خاتون کے حامیوں سمیت پورے ائیر پورٹ نے وہ سُنی تھیں۔ اتنی گالیاں میں نے زندگی میں نہیں بکی ہونگی جتنی اُس دن۔ اُن کی اوقات 5 سو روپے سے زیادہ نہیں ہے، مسافروں کو لوٹنا اور بے وقوف بنانا اُن کا وطیرہ ہے، پہلے پوچھتے ہیں کہ کون سے علاقے سے ہو جیسے ہی کسی گاؤں یا دور دراز علاقے کا نام سنتے ہیں، ویسے ہی آپ پر چڑھ دوڑتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ آپ کے ٹکٹ میں ائیرپورٹ ٹیکس ایڈ نہیں ہوا تو کبھی کچھ بھی بتا کر پیسے بٹور لیتے ہیں، لیکن جب کوئی اُن کو اُن کی اوقات یاد دلاتا ہے تو تب اُن کے ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں۔ بات سیدھی سی یہ ہے کہ اسلام آباد ائیرپورٹ پر چور اور لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں، پاکستان سے آنے والے اور باہر جانے والوں کو بس للو پنجو سمجھتے ہیں۔
غرضیکہ بہت سے لوگ جب یہ سمجھنے لگیں کہ ہمارے سرکاری اہلکاروں کی اوقات 5 سو روپے سے زیادہ کی نہیں ہے تو اُن کی قانونی اور جائز بات پر بھی لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہوائی اڈوں پر موجود اہلکار پاکستان کا چہرہ ہیں، اِس لئے وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ اِن کی تربیت کی جائے اور ائیر پورٹس پر موجود بے قاعدگیوں کو ختم کیا جائے۔
وہ لوگ یا سرکاری اہلکار جو مسافروں کی مشکلات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھتہ کماتے ہیں اُن کی اِس بدمعاشی کا سدِباب کیا جائے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گِلہ کیا بھی جائے تو کس سے؟ جب رشوت کی زنجیر میں جڑے سب لوگ اوپر سے نیچے تک بھائی بھائی ہیں تو پھر شکایت کرنے والے کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے علاوہ یہ لوگ کچھ اور نہ کرنا چاہیں گے۔
میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ائیرپورٹ پر اسٹاف کی بدتمیزی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، جتنی مرتبہ میں آیا ہوں ہر دفعہ اسٹاف نے کوئی نہ کوئی نیا چاند ہی چڑھایا ہوتا ہے، جب کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بیٹھ چکا ہے کہ یہ سب بکاؤ مال ہیں تو ایسی صورت میں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ وردی کی عزت و احترام بھلا کیونکر بحال ہوسکتی ہے؟
[poll id="1361"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔