سوال کریں اپنے آپ سے
محبت دل سے ابھرتی ہے جہاں اگر منفی خیالات کو پنپنے کی جگہ ملے گی وہاں نفرتیں جنم لینے لگتی ہیں
RAWALPINDI/ISLAMABAD:
نوجوان مشال خان کے قتل سے لے کر نورین لغاری کی گرفتاری تک کتنے اور ایسے نوجوان ہیں جنھوں نے اتنے عرصے میں اپنے آپ کو موت کے حوالے کیا۔ گھر سے فرار ہوئے، سڑکوں پر عوام سے پِٹے، پولیس والوں سے جوتے کھائے، بے غیرتی کے طعنے سنے، نکمے و نا اہلیت کی پکار سنی، بیروزگاری کے غم سہے اور محبت میں ناکامی میں آہیں بھریں۔ ابھی ان میں سیاسی نکتہ نظر سے بہت سے عوامل غیر حاضر ہیں لیکن بہر حال ابھی جتنے بھی حاضر ہیں وہ سب توجہ طلب ہیں۔ آخر ایسا کیا ہے جو ہماری نوجوان نسل ایسے راستوں پر نکل جاتی ہے جہاں سے واپسی کا سفر یا تو ناممکن ہوتا ہے یا اس قدر دشوار نظر آتا ہے کہ وہ خاردار کانٹوں بھری راہ کو ہی اپنا مستقبل سمجھ کر دلدل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے کہ بوڑھے والدین اپنی جوان، عقل مند، پڑھی لکھی اولاد کی اعلیٰ درجے کی نامعقولیت پر معاشرے بھر کے سامنے ذلیل و رسوا ہوتے ہیں آخر ایسا کیا زہر ہے جو ہماری نئی نسل کے خون میں پُر اسراریت سے سرائیت کرتا جا رہا ہے کہ وہ اپنوں سے بیگانگی میں سرور محسوس کرنے لگے ہیں۔ جہاں تک ہمارا نکتہ نظر یہ ہے کہ سرور یا تو نشے میں ملتا ہے یا محبت میں۔ اب اس نشے اور محبت میں بہت حد تک فرق ہے ۔ کیا ہماری نسل اس میں تمیز کر پائی ہے ظاہر ہے کہ انجانی خاردار راہوں پر چلنے والے نوجوان اس فرق کی تفریق کیے بغیر چل پڑتے ہیں۔ حالانکہ ان کے درمیان واضح خط ہے۔
ابھی جاپانیوں کے بارے میں کچھ پڑھا تھا، پتہ چلا کہ جاپانی قوم نہایت حب الوطن ہوتی ہے۔ یہ لوگ خودکشی کو گناہ نہیں سمجھتے، وہاں خودکشیاں بہت ہوتی ہیں اور محض اس لیے ہوتی ہیں کہ کسی نے اپنے ملک کے لیے فرض پورا نہیں کیا۔ جاپانیوں کی نظر میں زندگی اور موت کی اہمیت کیا ہو گی اس کا اندازہ جرنیل نوگی کے اس رویے سے لگایا جا سکتا ہے۔
جرنیل نوگی کو روس اور جاپان کے درمیان جنگ میں بڑا نام ملا، لوگوں نے اس کا استقبال پرجوش طریقے سے کیا لیکن دوسری صبح جرنیل صاحب نے اور ان کی بیگم صاحبہ نے خودکشی کر لی اس خودکشی کی وجہ کیا تھی؟ مسئلہ یہ تھا کہ پورٹ آرتھر کی جنگ تو جاپان نے جیت لی لیکن جرنیل صاحب کا خیال تھا کہ اگر وہ پوری دانائی سے رہبری کرتا تو جتنے سپاہیوں کا خون اب ہوا ہے اس سے بہت کم مرتے، اور تو اور بوائلی مائیں اس لیے خودکشی کر لیتی ہیں کہ ان کی اولادوں کو ان کا خیال نہ رکھنا پڑے۔ ہو سکتا ہے کہ اس پر اسی کتاب میں جاپانیوں کی عادات و اطوار کے بارے میں جو کچھ تحریر تھا اب کچھ تھوڑا مختلف ہو لیکن اس میں ایک بات نہایت دلچسپ تھی کہ یہ کہہ دینا کہ ''تم جاپانی نہیں ہو'' ایک بہت بڑی گالی سمجھا جاتا ہے اس سے ان کی قومی غیرت کو چوٹ لگتی ہے اور وہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل سائنس دانوں نے ریسرچ کی تھی جس کے مطابق جاپانی بچے دنیا کی دوسری اقوام کے بچوں کے مقابلے میں بہت کم روتے ہیں۔ شاید اسی لیے انھیں ایک ہنستی حکمرانی قوم کہا جاتا ہے ایک ایسی قوم جسے اپنے ملک سے، شہر سے، پیار ہے جو سخت محنت کش ہے لیکن انھیں پھولوں سے بھی پیار ہے۔ پھولوں کی سجاوٹ کے سلسلے میں دنیا بھر میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ بہترین ڈسپلے کے عادی ہیں ان کے اخلاق نہایت اچھے ہیں اور اس اخلاق کا بہترین مظاہرہ ذاتی طور پر بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔
ہمارے ایک سابقہ فوجی جرنیل نے بہت خوب کہا تھا کہ جو لوگ محب وطن ہوتے ہیں جنھیں اپنے ملک و قوم سے پیار ہوتا ہے وہی لوگ خدا کے بھی قریب ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے رب سے بھی اسی قدر پیار ہوتا ہے۔ اس بات میں اب کتنی سچائی ہے اس کو کریدنے، کھوجنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اس بات کی گواہ ہے۔ وہ اپنے رب کے حکم اور محبت کے لیے کس طرح تبلیغ کے میدان میں اترے، ان کی حب الوطنی ساری دنیا پر عیاں ہے اور یہ ہم مسلمانوں کے لیے قدرتی طور پر ایک عندیہ ہے کہ ہم جس دھرتی پر رہتے ہیں جس سے رزق کھاتے ہیں اس سے کس قدر محبت کریں اور عملی طور پر اس کے اس طرح اپنی زندگی کو اختیار کریں کہ جس سے ہماری ملت اور رب کی محبت نصیب ہو۔
اب آتے ہیں اپنے پاکستانی نوجوانوں کی جانب کہ جب مشال کا کیس پہلی بار سنا تو یقین نہ آیا اگر اس بات میں سچائی کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اس سے خطا ہوئی لیکن اس کی سزا کے طور پر جو عمل اختیار کیا گیا کیا وہ میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم سے از حد محبت ہی تھا یا کچھ اور بھی اس کے پس پشت تھا۔ اسی طرح نورین لغاری کے کیس میں دیکھا گیا تو عملی طور پر اگر ہم اپنے بچوں یعنی اولاد کے اندر بچپن سے ہی وطن سے محبت کے جذبے کو اُجاگر کریں اس کے لیے ایسا ہرگز نہیں ہے کہ قسم قسم کے گلوکاروں کے ملی نغمے سنواکر جھوم جھوم کر گانے سے محبت اجاگر ہوتی ہے۔
محض قائد اعظم اور علامہ اقبال اور ہمارے پیار عظیم لیڈران کی سوانح عمری زبردستی پڑھوائی جائے یا زبردستی کہا جائے کہ پڑھو ملک سے محبت اجاگر ہوگی بلکہ ہمیں خود اپنے عمل سے یہ ظاہر کرنا ہے کہ ہمارے لیے ہمارا رب اور ہمارا ملک کس قدر اہم ہیں کہ جنھیں چھوڑنے کا تصور بھی ہمارے لیے ممکن نہیں اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے آپ کو ایک نئے سرے سے منوانا ہوگا، پوری سچائی کے ساتھ بار بار یہ کہہ کر جتا کر کہ پاکستان میں تو سب جائز ہے یا ہر جگہ قائد اعظم یعنی نوٹ چلتا ہے اسی طرح کی منفی باتیں ہمارے بچوں میں اپنے ملک سے دوری پیدا کرتی ہیں اور جب اپنے ملک و قوم سے دوری پیدا ہونے لگے تو سمجھ لیں کہ اپنے رب سے بھی ہمارا تعلق کمزور ہوتا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ محبت دل سے ابھرتی ہے جہاں اگر منفی خیالات کو پنپنے کی جگہ ملے گی وہاں نفرتیں جنم لینے لگتی ہیں، تشدد اور شدت پسندی سے اسلام چھلکتا نظر آنے لگتا ہے، تکبر صرف اپنے آپ کو اچھا اور سچا مسلمان ہونے کا درس دینے لگے گا۔ اپنوں سے دوری چاہے رشتوں میں ہو یا عزیز و اقارب اور پڑوسیوں سے، تلخیوں اور شکوک کو جنم دیتی ہے اور پھر چھوٹی چھوٹی باتیں دنگا فساد اور قتل و غارت گری کا سبب بن جاتی ہیں۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے لیکن اتنا ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ رب العزت ایسے لوگوں کے گناہ کو معاف نہیں کرتے جو گناہ کرنے کے بعد اس پر اترائیں، ہر جگہ ہر ملک میں اچھائیاں بھی ہیں خامیاں بھی ہیں۔ کیا وہ بھی آپ سے یا سب سے اسی طرح گلہ کرتے ہیں کہ وہ اس قدر بڑے ہیں کہ جائز ناجائز سب چلتا ہے ان کے یہاں ذرا سوچیے ہم اپنے بچوں میں کیا منتقل کر رہے ہیں، خرابی تو ہمارے اپنے گھر سے ہی شروع ہو رہی ہے۔ برا بننے اور بنانے کا عمل تو یہی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ کہیں 'رب سے دوری میں تو کہیں رب سے قربت کے تکبر میں آپ' کس زمرے میں آتے ہیں۔ ذرا سوچیے؟
نوجوان مشال خان کے قتل سے لے کر نورین لغاری کی گرفتاری تک کتنے اور ایسے نوجوان ہیں جنھوں نے اتنے عرصے میں اپنے آپ کو موت کے حوالے کیا۔ گھر سے فرار ہوئے، سڑکوں پر عوام سے پِٹے، پولیس والوں سے جوتے کھائے، بے غیرتی کے طعنے سنے، نکمے و نا اہلیت کی پکار سنی، بیروزگاری کے غم سہے اور محبت میں ناکامی میں آہیں بھریں۔ ابھی ان میں سیاسی نکتہ نظر سے بہت سے عوامل غیر حاضر ہیں لیکن بہر حال ابھی جتنے بھی حاضر ہیں وہ سب توجہ طلب ہیں۔ آخر ایسا کیا ہے جو ہماری نوجوان نسل ایسے راستوں پر نکل جاتی ہے جہاں سے واپسی کا سفر یا تو ناممکن ہوتا ہے یا اس قدر دشوار نظر آتا ہے کہ وہ خاردار کانٹوں بھری راہ کو ہی اپنا مستقبل سمجھ کر دلدل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے کہ بوڑھے والدین اپنی جوان، عقل مند، پڑھی لکھی اولاد کی اعلیٰ درجے کی نامعقولیت پر معاشرے بھر کے سامنے ذلیل و رسوا ہوتے ہیں آخر ایسا کیا زہر ہے جو ہماری نئی نسل کے خون میں پُر اسراریت سے سرائیت کرتا جا رہا ہے کہ وہ اپنوں سے بیگانگی میں سرور محسوس کرنے لگے ہیں۔ جہاں تک ہمارا نکتہ نظر یہ ہے کہ سرور یا تو نشے میں ملتا ہے یا محبت میں۔ اب اس نشے اور محبت میں بہت حد تک فرق ہے ۔ کیا ہماری نسل اس میں تمیز کر پائی ہے ظاہر ہے کہ انجانی خاردار راہوں پر چلنے والے نوجوان اس فرق کی تفریق کیے بغیر چل پڑتے ہیں۔ حالانکہ ان کے درمیان واضح خط ہے۔
ابھی جاپانیوں کے بارے میں کچھ پڑھا تھا، پتہ چلا کہ جاپانی قوم نہایت حب الوطن ہوتی ہے۔ یہ لوگ خودکشی کو گناہ نہیں سمجھتے، وہاں خودکشیاں بہت ہوتی ہیں اور محض اس لیے ہوتی ہیں کہ کسی نے اپنے ملک کے لیے فرض پورا نہیں کیا۔ جاپانیوں کی نظر میں زندگی اور موت کی اہمیت کیا ہو گی اس کا اندازہ جرنیل نوگی کے اس رویے سے لگایا جا سکتا ہے۔
جرنیل نوگی کو روس اور جاپان کے درمیان جنگ میں بڑا نام ملا، لوگوں نے اس کا استقبال پرجوش طریقے سے کیا لیکن دوسری صبح جرنیل صاحب نے اور ان کی بیگم صاحبہ نے خودکشی کر لی اس خودکشی کی وجہ کیا تھی؟ مسئلہ یہ تھا کہ پورٹ آرتھر کی جنگ تو جاپان نے جیت لی لیکن جرنیل صاحب کا خیال تھا کہ اگر وہ پوری دانائی سے رہبری کرتا تو جتنے سپاہیوں کا خون اب ہوا ہے اس سے بہت کم مرتے، اور تو اور بوائلی مائیں اس لیے خودکشی کر لیتی ہیں کہ ان کی اولادوں کو ان کا خیال نہ رکھنا پڑے۔ ہو سکتا ہے کہ اس پر اسی کتاب میں جاپانیوں کی عادات و اطوار کے بارے میں جو کچھ تحریر تھا اب کچھ تھوڑا مختلف ہو لیکن اس میں ایک بات نہایت دلچسپ تھی کہ یہ کہہ دینا کہ ''تم جاپانی نہیں ہو'' ایک بہت بڑی گالی سمجھا جاتا ہے اس سے ان کی قومی غیرت کو چوٹ لگتی ہے اور وہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل سائنس دانوں نے ریسرچ کی تھی جس کے مطابق جاپانی بچے دنیا کی دوسری اقوام کے بچوں کے مقابلے میں بہت کم روتے ہیں۔ شاید اسی لیے انھیں ایک ہنستی حکمرانی قوم کہا جاتا ہے ایک ایسی قوم جسے اپنے ملک سے، شہر سے، پیار ہے جو سخت محنت کش ہے لیکن انھیں پھولوں سے بھی پیار ہے۔ پھولوں کی سجاوٹ کے سلسلے میں دنیا بھر میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ بہترین ڈسپلے کے عادی ہیں ان کے اخلاق نہایت اچھے ہیں اور اس اخلاق کا بہترین مظاہرہ ذاتی طور پر بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔
ہمارے ایک سابقہ فوجی جرنیل نے بہت خوب کہا تھا کہ جو لوگ محب وطن ہوتے ہیں جنھیں اپنے ملک و قوم سے پیار ہوتا ہے وہی لوگ خدا کے بھی قریب ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے رب سے بھی اسی قدر پیار ہوتا ہے۔ اس بات میں اب کتنی سچائی ہے اس کو کریدنے، کھوجنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اس بات کی گواہ ہے۔ وہ اپنے رب کے حکم اور محبت کے لیے کس طرح تبلیغ کے میدان میں اترے، ان کی حب الوطنی ساری دنیا پر عیاں ہے اور یہ ہم مسلمانوں کے لیے قدرتی طور پر ایک عندیہ ہے کہ ہم جس دھرتی پر رہتے ہیں جس سے رزق کھاتے ہیں اس سے کس قدر محبت کریں اور عملی طور پر اس کے اس طرح اپنی زندگی کو اختیار کریں کہ جس سے ہماری ملت اور رب کی محبت نصیب ہو۔
اب آتے ہیں اپنے پاکستانی نوجوانوں کی جانب کہ جب مشال کا کیس پہلی بار سنا تو یقین نہ آیا اگر اس بات میں سچائی کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اس سے خطا ہوئی لیکن اس کی سزا کے طور پر جو عمل اختیار کیا گیا کیا وہ میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم سے از حد محبت ہی تھا یا کچھ اور بھی اس کے پس پشت تھا۔ اسی طرح نورین لغاری کے کیس میں دیکھا گیا تو عملی طور پر اگر ہم اپنے بچوں یعنی اولاد کے اندر بچپن سے ہی وطن سے محبت کے جذبے کو اُجاگر کریں اس کے لیے ایسا ہرگز نہیں ہے کہ قسم قسم کے گلوکاروں کے ملی نغمے سنواکر جھوم جھوم کر گانے سے محبت اجاگر ہوتی ہے۔
محض قائد اعظم اور علامہ اقبال اور ہمارے پیار عظیم لیڈران کی سوانح عمری زبردستی پڑھوائی جائے یا زبردستی کہا جائے کہ پڑھو ملک سے محبت اجاگر ہوگی بلکہ ہمیں خود اپنے عمل سے یہ ظاہر کرنا ہے کہ ہمارے لیے ہمارا رب اور ہمارا ملک کس قدر اہم ہیں کہ جنھیں چھوڑنے کا تصور بھی ہمارے لیے ممکن نہیں اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے آپ کو ایک نئے سرے سے منوانا ہوگا، پوری سچائی کے ساتھ بار بار یہ کہہ کر جتا کر کہ پاکستان میں تو سب جائز ہے یا ہر جگہ قائد اعظم یعنی نوٹ چلتا ہے اسی طرح کی منفی باتیں ہمارے بچوں میں اپنے ملک سے دوری پیدا کرتی ہیں اور جب اپنے ملک و قوم سے دوری پیدا ہونے لگے تو سمجھ لیں کہ اپنے رب سے بھی ہمارا تعلق کمزور ہوتا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ محبت دل سے ابھرتی ہے جہاں اگر منفی خیالات کو پنپنے کی جگہ ملے گی وہاں نفرتیں جنم لینے لگتی ہیں، تشدد اور شدت پسندی سے اسلام چھلکتا نظر آنے لگتا ہے، تکبر صرف اپنے آپ کو اچھا اور سچا مسلمان ہونے کا درس دینے لگے گا۔ اپنوں سے دوری چاہے رشتوں میں ہو یا عزیز و اقارب اور پڑوسیوں سے، تلخیوں اور شکوک کو جنم دیتی ہے اور پھر چھوٹی چھوٹی باتیں دنگا فساد اور قتل و غارت گری کا سبب بن جاتی ہیں۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے لیکن اتنا ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ رب العزت ایسے لوگوں کے گناہ کو معاف نہیں کرتے جو گناہ کرنے کے بعد اس پر اترائیں، ہر جگہ ہر ملک میں اچھائیاں بھی ہیں خامیاں بھی ہیں۔ کیا وہ بھی آپ سے یا سب سے اسی طرح گلہ کرتے ہیں کہ وہ اس قدر بڑے ہیں کہ جائز ناجائز سب چلتا ہے ان کے یہاں ذرا سوچیے ہم اپنے بچوں میں کیا منتقل کر رہے ہیں، خرابی تو ہمارے اپنے گھر سے ہی شروع ہو رہی ہے۔ برا بننے اور بنانے کا عمل تو یہی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ کہیں 'رب سے دوری میں تو کہیں رب سے قربت کے تکبر میں آپ' کس زمرے میں آتے ہیں۔ ذرا سوچیے؟