فروغ تعلیم کی جدوجہد

آج کل پاکستان میں اکثر صنعتکار اور کاروباری حضرات کساد بازاری کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں

KARACHI:
آج کل پاکستان میں اکثر صنعتکار اور کاروباری حضرات کساد بازاری کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس وقت تعلیم کا شعبہ، جو اب منافع بخش تجارت میں تبدیل ہو چکا ہے اور گلی محلوں میں اسکول کھل چکے ہیں۔ بہت سے کاروباری افراد جن کی تعلیم تو واجبی لیکن سرمایہ وافر ہے اپنا ایکسپورٹ، امپورٹ، تھوک، یا کسی اور نوعیت کا کاروبار ترک کر کے یا اس کے ہمراہ بھی ''تعلیمی کاروبار'' کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہ تعلیم کو منافع بخش تجارت میں تبدیل کر دینے کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔

آج تعلیم ہمارے ملک میں چند ہاتھوں میں سمٹ چکی ہے۔ اب اس پر بالادست طبقے کی اجارہ داری ہے۔ طبقاتی فروغ عروج پر ہے۔ اسی فرق کے باعث غریب اور لوئر مڈل کلاس طبقے کا بچہ ایک ایسے سرکاری اسکول میں ہی پڑھ سکتا ہے جہاں تعلیم کا معیار انتہائی ناقص ہوتا ہے جب کہ نصاب کا جدید تقاضوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اکثر پنکھوں، کھڑکیوں اور دروازوں تک سے محروم یہ کالے پیلے اسکول، جن کی دیواریں کسی آسیب زدہ عمارت کا منظر پیش کرتی ہیں۔ جس میں اکثر اساتذہ اور طالب علم صرف ''وقت پاس'' کرنے آتے ہیں یہ ''وقت پاس'' ہو جائے اور اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پھر سرکاری کالجوں میں داخلہ مل جائے تو بڑی بات ہے۔

ہماری یونیورسٹیوں میں طلبا کی بے چینی فی الحقیقت اس بنیادی بے اطمینانی کی ایک علامت ہے جو عام اور بے رسوخ طلبا اس وقت محسوس کرتے ہیں کہ روزگار کی منڈی میں داخلے کا انحصار مہارتوں، موضوع کے علم یا سخت محنت پر نہیں ہے بلکہ اس امر پر ہے ''تم کس کو جانتے ہو؟'' ملک کے ارباب اختیار اور تمام صاحب فہم لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ تعلیمی شعبے کو پرائیویٹ شعبے کے سپرد کر دینے سے تعلیم کے لیے مخلص و ذہین طلبا و طالبات کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہو سکتی ہے اور صرف ایسے نوجوان تعلیم حاصل کر سکیں گے جو ایک بزنس مین کی طرح سرمایہ لگا کر دگنا تگنا منافع حاصل کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ اکثر ایسے لوگ جب عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو اجتماعی مفاد میں فیصلے کرنے سے قاصر رہتے ہیں، اس لیے کہ ان کی نظریں ذاتی مفاد سے بلند نہیں ہو پاتیں۔ اکثر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا مطمع نظر صرف اور صرف منافع حاصل کرنا نظر آتا ہے۔


اس لیے انھیں اس بات کی قطعی پرواہ نہیں ہوتی کہ کسی مستحق ذہین طالب علم کی حق تلفی ہو رہی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں ہونے والی تمام تر سرگرمیاں ''تعلیم'' کے زمرے میں بھی نہیں لائی جا سکتیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں قدریں اور معیارات تبدیل ہو رہے ہیں۔ ہر فرد معیار زندگی کی دوڑ میں لگا ہوا ہے یا معیشت کی الجھنوں میں مبتلا ہے۔ اپر مڈل کلاس غربت کی دہلیز تک اور لوئر مڈل کلاس طبقے کے افراد اور غربت کی لکیر سے نیچے جا پہنچے ہیں ہمارے ہاں بیشتر مذہبی و سیاسی رہنماؤں نے بھی متوسط طبقے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا بلکہ اکثر مذہبی اکابر تو اپنے اردگرد غیر تعلیم یافتہ، روایتی ذہن رکھنے والے شدت پسند اور پسماندہ طبقے کے افراد کی بھیڑ دیکھ کر بعض مرتبہ انقلاب کی پیش گوئیاں بھی کرنے لگ جاتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد یہ بھیڑ چھٹ جاتی ہے اور نتیجے میں قوم مزید پیچھے چلی جاتی ہے۔

یہ بات ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کو عجیب معلوم ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان پڑھ جاہل اور بے شعور افراد کا ہجوم انقلاب برپا نہیں کر سکتا۔کیونکہ ان کی اکثریت فیصلہ کرنے کی قوت اور فہم سے محروم ہے۔ انقلاب وہی لوگ برپا کر سکتے ہیں جو معاشی طور پر مستحکم ہوں۔ اور ان کے اندر اخلاقی قدریں تندرست و توانا صورت میں موجود ہوں۔ متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے تعلیم کے بند ہوتے ہوئے دروازے کھول دینے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں اس لیے کہ سرکاری اداروں میں بھی فیسوں میں بے تحاشا اضافے کے بعد تعلیم اب متوسط طبقے سے بھی دور ہوتی جا رہی ہے مزید ستم یہ کہ بعض مقتدر افراد کا خیال ہے کہ تعلیم کو مکمل طور پر پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ بہت سے ممالک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہاں تعلیمی شعبہ مکمل طور پر پرائیویٹ شعبے کے پاس ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک پر ایک نظر ڈالی جائے تو واضح ہو جائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ چنانچہ تعلیم تک عام افراد کی رسائی کو آسان اور ارزاں بنانے کے لیے ضروری ہے ارباب اختیار اس شعبے کو پیداواری شعبے میں شمار کریں اور اچھی ذہنی سوچ کو اس شعبے میں خدمت و مشنری جذبے کے تحت کام کیا جائے۔ آج ملکی نظام تعلیم کی اساس ہمیں تو یہی دکھائی دیتی ہے کہ طلبا و طالبات کے حافظے کو جانچا اور پرکھا جائے۔ شاید اسی بنا پر اکثر ذہین لیکن حافظے میں کمزور طالب علم پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بعض اوقات معاشرے میں اپنی ذہنی صلاحیتوں کے استعمال ہونے لگتی ہے ۔

مذہبی مدارس یا اعلیٰ تعلیمی ادارے ذہانت کو ابھارنے ان میں نکھار پیدا کرنے اور ذہنی صلاحیتوں کی رفتار میں اضافہ کرنے کے لیے اکثر کوئی اہتمام نظر نہیں آتا ایک جگہ سے مذہبی کتابوں کے حافظ تیار ہوتے ہیں تو دوسری جگہ سے مختلف تھیوریز اور فارمولوں کے حفاظ۔ ہمارے نظام تعلیم میں موجودہ ساری باتوں کی وجہ سے اکثر تجسس، دریافت، انکشافات اور تفکر کا ذہن پیدا ہی نہیں ہوتا یوں لکیر کو پکڑ کر آگے بڑھنے والے روایتی اذہان کی کھیپ تیار ہوتی ہے۔ کیا یہی وجہ تو نہیں جو ہمارا معاشرہ برسوں سے ایک ہی ڈگر پر چلا جا رہا ہے۔
Load Next Story