پاناما لیکس کی تاریخ کہانی کہاں سے شروع ہوئی
پاناما دستاویزات ایک کروڑ پندرہ لاکھ فائلوں پر مشتمل ہیں۔
2014ء میں جان ڈو نامی ایک اجنبی نے جرمن اخبار ''زیتوشے زائتونگ'' کے صحافی بیستین اوبرمائر سے رابطہ کیا اور اسے بتایا کہ وہ پاناما کی لافرم مونساک فونسکا کی خفیہ دستاویزات اسے دینا چاہتا ہے۔ اس لافرم کے ذریعے دنیا میں کوئی بھی فرد یا ادارہ آف شور کمپنی یا شیل کمپنی کھلوا سکتا تھا۔
درحقیقت یہ ایسی کمپنیاں کھلوانے والی دنیا کی چوتھی بڑی لافرم تھی۔ جان ڈو نے جرمن صحافی کو بتایا کہ وہ دنیا میں بڑھتی معاشی ناہمواری دیکھ کر بہت رنجیدہ ہے۔ غریب، غریب تر ہو رہا ہے اور امیر امیر تر! جب کہ عالمی معیشت میں کرپشن کا جن بھی پھل پھول رہا ہے۔ جان ڈو کی اصلیت آج بھی سربستہ راز ہے۔ شاید وہ کوئی بااثر شخصیت ہے جس کا ضمیر جاگ اُٹھا، یا پھر کوئی طاقت ور خفیہ ایجنسی جو عالمی نظام میں ہلچل مچا دینا چاہتی تھی۔
خفیہ دستاویزات کا سائز 2.6 ٹیرابائٹ تھا۔ اتنے بڑے سائز کی وجہ سے جرمن اخبار نے ایک صحافتی تنظیم انٹرنیشنل کنسوریشم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس کو اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ پھر اگلے ایک سال تک 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے 400 صحافی ان دستاویزات کا مطالعہ و تحقیق کرتے رہے۔ جب انہیں مستند و مصدقہ پایا گیا تو دستاویزات 3اپریل2016ء کو جاری کر دی گئیں۔ انہیں ''پاناما پیپرز'' یا ''پاناما لیکس'' کا نام ملا۔
ان دستاویز میں دنیا بھر کے امرا کی کلاسیفائڈ مالیاتی معلومات درج تھیں۔ انہوں نے افشا کیا کہ بااثر، معزز اور امیر افراد کی کثیر تعداد نے ٹیکس چھپانے، کرپشن سے لوٹی گئی رقم پوشیدہ رکھنے یا کرپٹ لوگوں سے رقم وصول کرنے کی خاطر مونساک فونسکا کی وساطت سے مختلف ممالک میں چوری چھپے آف شور اور شیل کمپنیاں کھولیں اور یوں مجرم قرار پائے۔
آف شور کمپنی کھولنا قانونی و جائز کام ہے، لیکن کمپنی کی بابت حکومت اور ٹیکس اداروں کو بے خبر رکھا جائے، تو یہ غیرقانونی حرکت بن جاتی ہے۔ پاناما لیکس نے افشا ہوتے ہی دنیا بھر میں ہلچل مچا دی، کیوںکہ ان میں سترہ حاضر یا سابق سربراہان مملکت اور ایک ہزار سے زاید عالمی شہرت یافتہ سیاسی، حکومتی، کاروباری اور شوبز کی شخصیات کے نام بھی شامل تھے۔ ان پیپرز نے بہت سے بظاہر نیک نام مرد و زن کی عزت و شہرت داغ دار کرڈالی اور انہیں جھوٹا اور مادہ پرست بنا ڈالا۔
پاناما دستاویزات ایک کروڑ پندرہ لاکھ فائلوں پر مشتمل ہیں۔ ان کا تعلق 1977ء سے دسمبر2015ء تک کے عرصے سے ہے۔ ان میں 214,488 کمپنیوں ، ٹرسٹوں اور فاؤنڈیشنوں کا تذکرہ ہے۔ یہ کمپنیاں 14,153 گاہکوں سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا 204ممالک سے تعلق ہے۔ پانامی لافرم نے 511 بینکوں کے ذریعے بھی 15,579آف شور یا شل کمپنیاں کھلوائیں ۔ آدھی سے زاید کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈز، پاناما، سیشلیز، سموا، بہاماس، ہانگ کانگ اور برٹش اونگویلا میں کھولی گئیں۔
آئس لینڈ کے وزیراعظم سکیموندور کونلاگسون نے مئی 2013ء میں اقتدار سنبھالا تھا۔ مگر انہوں نے ٹیکس اداروں کو اپنی ایک آف شور کمپنی کے متعلق نہیں بتایا، جسے پاناما دستاویزات نے افشا کر دیا۔ چناںچہ وزیراعظم آئس لینڈ کو ذلت و خفت اٹھا کر استعفیٰ دینا پڑا۔ مالٹا، اسپین اور آرمینیا میں وزیر آف شور کمپنیوں سے وابستہ نکلے۔ انہوں نے بھی حیلے بہانے دینے کے بجائے مستعفیٰ ہونے کو ترجیح دی، تاکہ اپنی بچی کھچی عزت بحال رکھ سکیں۔ ارجنٹائن میں صدر مائسوریسیوماکری کے خلاف تفتیش کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے، جب کہ برازیل میں بھی سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ عہدے داروں کو چھان بین کا سامنا کرنا پڑا۔
پاناما لیکس سے افشا ہوا کہ کوئی لالچ وہوس کے ہاتھوں جرم کرکے خود کو جتنا بھی چھپالے، آخر قانون اس تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ پھر دنیا بھر کی رسوائی ایسے انسانوں کا مقدر بنتی ہے۔ ارسطو نے دو ہزار سال قبل بجا کہا تھا:''انسان تمام جان داروں میں سب سے زیادہ نیک و شریف ہے۔ مگر جونہی وہ قانون وانصاف سے جدا ہو، کرۂ ارض کا خطرناک ترین جانور بن جاتا ہے۔''
پاکستانی شخصیات
جن کا پاناما لیکس میں نام آ یا
3 اپریل کے بعد 9 مئی 2016ء کو پاناما لیکس کی دوسری قسط سامنے آئی۔ اب تک افشا کردہ دستاویزات کی رو سے تقریباً چار سو پاکستانیوں نے بیرون ملک 266آف شور یا شیل کمپنیاں کھلوائیں۔ ان پاکستانیوں میں وطن عزیز کی مشہور سیاسی، سماجی اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ ان میں سے ا ہم مرد و زن کے نام درج ذیل ہیں:
مرحوم وزیراعظم بے نظیر بھٹو، مریم نوازشریف، حسین نوازشریف، حسن نوازشریف، رحمان ملک (سینٹر پی پی پی)، انور سیف اللہ (سابق وزیر)، سلیم سیف اللہ (سابق وزیر)' صبا عبید (شرمین عبید چنائے کی والدہ)، ساجد محمود (سیٹھ عابد کا بیٹا)، احمد علی ریاض (ملک ریاض کا بیٹا)، صدر الدین ہاشوانی، ثمینہ درانی (میاں شہبازشریف کی بیگم) اور اظفر حسن (ایڈمرل (ر) مظفر حسن کا بیٹا)۔
اعداد و شمار کے مطابق کراچی کے باسیوں نے مونساک فونسکا سے سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں کھلوائیں، جن کی تعداد 153ہے، جب کہ لاہور میں ایسے 108مردوزن آباد ہیں۔ 153پاکستانیوں کی کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ، 43کمپنیاں پاناما اور 34 سیشیلیز میں رجسٹرڈ ہوئیں۔ بہاماس بھی اس ضمن میں پاکستانیوں کا من پسند مقام رہا۔ پاناما لیکس کی رو سے 34کمپنیاں سیف اللہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جو سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد سیٹھ عابد کا خاندان 30کمپنیوں کا مالک نکلا۔ اس کے بعد شریف خاندان (16کمپنیاں)' ذوالفقار بخاری (6کمپنیاں)' اعظم سلطان (5کمپنیاں) اور یوسف عبداللہ خاندان (5کمپنیاں) کا نمبر آتا ہے۔
عالمی سطح پر کاروبار اور تجارت کرنے کی غرض سے تاجر اور صنعت کار عموماً آف شور کمپنیاں کھولتے اور بند کرتے رہتے ہیں۔ یہ عالمی معاشی نظام میں ایک جائز عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں وہ کاروباری شخصیات اور صنعت کار تنقید کا کم ہی نشانہ بنے، جن کے نام پاناما پیپرز میں شامل تھے۔
میڈیا سے لے کر عوام تک نے لیکس میں شامل سیاست دانوں اور دیگر حکومتی عہدے داروں کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملکی وبین الاقوامی سطح پر وہی ملک و قوم کی نمائندگی کرتے اور نمایاں چہرہ ہوتے ہیں۔ اسی باعث انہیں ہی اپنے اپنے ملک میں عوامی غیظ و غضب اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اب ہر ملک میں کاروباری طبقے کی بھی کڑی نگرانی ہو رہی ہے، تاکہ وہ آف شور یا شیل کمپنی سے ناجائز وغیرقانونی فوائد حاصل نہ کرسکے۔
درحقیقت یہ ایسی کمپنیاں کھلوانے والی دنیا کی چوتھی بڑی لافرم تھی۔ جان ڈو نے جرمن صحافی کو بتایا کہ وہ دنیا میں بڑھتی معاشی ناہمواری دیکھ کر بہت رنجیدہ ہے۔ غریب، غریب تر ہو رہا ہے اور امیر امیر تر! جب کہ عالمی معیشت میں کرپشن کا جن بھی پھل پھول رہا ہے۔ جان ڈو کی اصلیت آج بھی سربستہ راز ہے۔ شاید وہ کوئی بااثر شخصیت ہے جس کا ضمیر جاگ اُٹھا، یا پھر کوئی طاقت ور خفیہ ایجنسی جو عالمی نظام میں ہلچل مچا دینا چاہتی تھی۔
خفیہ دستاویزات کا سائز 2.6 ٹیرابائٹ تھا۔ اتنے بڑے سائز کی وجہ سے جرمن اخبار نے ایک صحافتی تنظیم انٹرنیشنل کنسوریشم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس کو اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ پھر اگلے ایک سال تک 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے 400 صحافی ان دستاویزات کا مطالعہ و تحقیق کرتے رہے۔ جب انہیں مستند و مصدقہ پایا گیا تو دستاویزات 3اپریل2016ء کو جاری کر دی گئیں۔ انہیں ''پاناما پیپرز'' یا ''پاناما لیکس'' کا نام ملا۔
ان دستاویز میں دنیا بھر کے امرا کی کلاسیفائڈ مالیاتی معلومات درج تھیں۔ انہوں نے افشا کیا کہ بااثر، معزز اور امیر افراد کی کثیر تعداد نے ٹیکس چھپانے، کرپشن سے لوٹی گئی رقم پوشیدہ رکھنے یا کرپٹ لوگوں سے رقم وصول کرنے کی خاطر مونساک فونسکا کی وساطت سے مختلف ممالک میں چوری چھپے آف شور اور شیل کمپنیاں کھولیں اور یوں مجرم قرار پائے۔
آف شور کمپنی کھولنا قانونی و جائز کام ہے، لیکن کمپنی کی بابت حکومت اور ٹیکس اداروں کو بے خبر رکھا جائے، تو یہ غیرقانونی حرکت بن جاتی ہے۔ پاناما لیکس نے افشا ہوتے ہی دنیا بھر میں ہلچل مچا دی، کیوںکہ ان میں سترہ حاضر یا سابق سربراہان مملکت اور ایک ہزار سے زاید عالمی شہرت یافتہ سیاسی، حکومتی، کاروباری اور شوبز کی شخصیات کے نام بھی شامل تھے۔ ان پیپرز نے بہت سے بظاہر نیک نام مرد و زن کی عزت و شہرت داغ دار کرڈالی اور انہیں جھوٹا اور مادہ پرست بنا ڈالا۔
پاناما دستاویزات ایک کروڑ پندرہ لاکھ فائلوں پر مشتمل ہیں۔ ان کا تعلق 1977ء سے دسمبر2015ء تک کے عرصے سے ہے۔ ان میں 214,488 کمپنیوں ، ٹرسٹوں اور فاؤنڈیشنوں کا تذکرہ ہے۔ یہ کمپنیاں 14,153 گاہکوں سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا 204ممالک سے تعلق ہے۔ پانامی لافرم نے 511 بینکوں کے ذریعے بھی 15,579آف شور یا شل کمپنیاں کھلوائیں ۔ آدھی سے زاید کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈز، پاناما، سیشلیز، سموا، بہاماس، ہانگ کانگ اور برٹش اونگویلا میں کھولی گئیں۔
آئس لینڈ کے وزیراعظم سکیموندور کونلاگسون نے مئی 2013ء میں اقتدار سنبھالا تھا۔ مگر انہوں نے ٹیکس اداروں کو اپنی ایک آف شور کمپنی کے متعلق نہیں بتایا، جسے پاناما دستاویزات نے افشا کر دیا۔ چناںچہ وزیراعظم آئس لینڈ کو ذلت و خفت اٹھا کر استعفیٰ دینا پڑا۔ مالٹا، اسپین اور آرمینیا میں وزیر آف شور کمپنیوں سے وابستہ نکلے۔ انہوں نے بھی حیلے بہانے دینے کے بجائے مستعفیٰ ہونے کو ترجیح دی، تاکہ اپنی بچی کھچی عزت بحال رکھ سکیں۔ ارجنٹائن میں صدر مائسوریسیوماکری کے خلاف تفتیش کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے، جب کہ برازیل میں بھی سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ عہدے داروں کو چھان بین کا سامنا کرنا پڑا۔
پاناما لیکس سے افشا ہوا کہ کوئی لالچ وہوس کے ہاتھوں جرم کرکے خود کو جتنا بھی چھپالے، آخر قانون اس تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ پھر دنیا بھر کی رسوائی ایسے انسانوں کا مقدر بنتی ہے۔ ارسطو نے دو ہزار سال قبل بجا کہا تھا:''انسان تمام جان داروں میں سب سے زیادہ نیک و شریف ہے۔ مگر جونہی وہ قانون وانصاف سے جدا ہو، کرۂ ارض کا خطرناک ترین جانور بن جاتا ہے۔''
پاکستانی شخصیات
جن کا پاناما لیکس میں نام آ یا
3 اپریل کے بعد 9 مئی 2016ء کو پاناما لیکس کی دوسری قسط سامنے آئی۔ اب تک افشا کردہ دستاویزات کی رو سے تقریباً چار سو پاکستانیوں نے بیرون ملک 266آف شور یا شیل کمپنیاں کھلوائیں۔ ان پاکستانیوں میں وطن عزیز کی مشہور سیاسی، سماجی اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ ان میں سے ا ہم مرد و زن کے نام درج ذیل ہیں:
مرحوم وزیراعظم بے نظیر بھٹو، مریم نوازشریف، حسین نوازشریف، حسن نوازشریف، رحمان ملک (سینٹر پی پی پی)، انور سیف اللہ (سابق وزیر)، سلیم سیف اللہ (سابق وزیر)' صبا عبید (شرمین عبید چنائے کی والدہ)، ساجد محمود (سیٹھ عابد کا بیٹا)، احمد علی ریاض (ملک ریاض کا بیٹا)، صدر الدین ہاشوانی، ثمینہ درانی (میاں شہبازشریف کی بیگم) اور اظفر حسن (ایڈمرل (ر) مظفر حسن کا بیٹا)۔
اعداد و شمار کے مطابق کراچی کے باسیوں نے مونساک فونسکا سے سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں کھلوائیں، جن کی تعداد 153ہے، جب کہ لاہور میں ایسے 108مردوزن آباد ہیں۔ 153پاکستانیوں کی کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ، 43کمپنیاں پاناما اور 34 سیشیلیز میں رجسٹرڈ ہوئیں۔ بہاماس بھی اس ضمن میں پاکستانیوں کا من پسند مقام رہا۔ پاناما لیکس کی رو سے 34کمپنیاں سیف اللہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جو سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد سیٹھ عابد کا خاندان 30کمپنیوں کا مالک نکلا۔ اس کے بعد شریف خاندان (16کمپنیاں)' ذوالفقار بخاری (6کمپنیاں)' اعظم سلطان (5کمپنیاں) اور یوسف عبداللہ خاندان (5کمپنیاں) کا نمبر آتا ہے۔
عالمی سطح پر کاروبار اور تجارت کرنے کی غرض سے تاجر اور صنعت کار عموماً آف شور کمپنیاں کھولتے اور بند کرتے رہتے ہیں۔ یہ عالمی معاشی نظام میں ایک جائز عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں وہ کاروباری شخصیات اور صنعت کار تنقید کا کم ہی نشانہ بنے، جن کے نام پاناما پیپرز میں شامل تھے۔
میڈیا سے لے کر عوام تک نے لیکس میں شامل سیاست دانوں اور دیگر حکومتی عہدے داروں کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملکی وبین الاقوامی سطح پر وہی ملک و قوم کی نمائندگی کرتے اور نمایاں چہرہ ہوتے ہیں۔ اسی باعث انہیں ہی اپنے اپنے ملک میں عوامی غیظ و غضب اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اب ہر ملک میں کاروباری طبقے کی بھی کڑی نگرانی ہو رہی ہے، تاکہ وہ آف شور یا شیل کمپنی سے ناجائز وغیرقانونی فوائد حاصل نہ کرسکے۔