پاناما کا بھوت اور میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ
پاناما کیس کا فیصلہ آچکا ہے‘ میں تو یہی کہوں گا ’’تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا‘‘۔
ISLAMABAD:
پاناما کیس کا فیصلہ آچکا ہے' میں تو یہی کہوں گا ''تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا''۔ پانچ معزز جج صاحبان میں سے تین نے وزیراعظم صاحب کو نااہل قرار نہیں دیا تاہم دو کی نظر میں وہ صادق اور امین نہیں رہے لہٰذا وہ اپنے عہدے پر رہنے کا حق کھو چکے ہیں' دوسرے لفظوں میں میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ پاناما کیس میں بال بال بچی ہے۔ صرف ایک جج صاحب لائن کی دوسری جانب چلے جاتے تو دھڑن تختہ ہو جانا تھا۔ بندوق سے چلی ہوئی گولی اگر کسی شخص کے کان کو چھو کر گزر جائے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے' وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی بھی شاید ایسے ہی احساس کے ساتھ اظہار تشکر میں مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ معزز ججز نے مالی بے ضابطگیوں' کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے فوجداری الزامات سے وزیراعظم اور ان کے صاحبزادوں کو کلین چٹ نہیں دی اور ان الزامات کی تحقیق و تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ ماضی گزیدہ دانشور کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں پہلے بھی کئی جے آئی ٹیز بن چکی ہیں' ان کا کیا بنا ' یہ جے آئی ٹی بھی ماضی کا تسلسل ہے لہٰذا میاں صاحب اس بحران سے بھی نکل جائیں گے۔ یہ استدلال اور جواز خاصی حد تک درست ہے۔ واقعی پاکستان کی تاریخ میں آج تک جو بھی کمیشن اور جے آئی ٹی بنیں' وہ طاقتوروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں ویسے بھی سرکاری افسروں پر مشتمل ٹیم وزیراعظم کو کیسے طلب کر سکتی ہے' یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی درباری کو کہا جائے کہ وہ بادشاہ سے تفتیش کرے۔ درباری بیچارہ تو بادشاہ سلامت کو دیکھ کر کورنش بجا لائے گا کجا کہ ان سے یہ پوچھے کہ حضور آپ نے یہ دولت کیسے کمائی ہے۔
میاں نواز شریف قسمت کے دھنی رہے ہیں' پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حصول سے لے کر محمد خان جونیجو کی جگہ مسلم لیگ کی صدارت اور وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن تک قسمت ان پر مہربان رہی ہے۔ انھوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ مخدوم حسن محمود جیسے قد آور سیاستدان کو شکست دے کر حاصل کی' مخدوم حسن محمود اور میاں صاحب کے سیاسی قد کاٹھ میں زمین آسمان کا فرق تھا لیکن میاں صاحب جیت گئے' وہ جب پہلی بار وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہوئے تو اس وقت خیال یہی تھا کہ غلام مصطفی جتوئی وزیراعظم بنیں گے' وہ اس وقت نگران وزیراعظم بھی تھے لیکن میاں صاحب سندھ کے جاگیردار اور پیپلز پارٹی کے غدار کو کارنر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف اقتدار کی جنگ میں بھی ان کا پلڑا بھاری رہا۔صدر غلام اسحاق کے ساتھ چپقلش میں بھی وہ سرخرو رہے اور جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ان کی حکومت اور اسمبلیاں بحال کر دیں۔ جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا، انھیں جلا وطن کر دیا گیا یا وہ خود چلے گئے' اس وقت لگتا یہ تھا کہ نواز شریف اور شریف خاندان کے اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا لیکن ان کی قسمت نے ایک بار پھر پلٹا کھایا' اس بار قسمت محترمہ بینظیر بھٹو کو ان کی مدد کے لیے لے آئی اور 2007ء میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہو گئی' 27دسمبر2007 میں محترمہ بینظیر دہشت گردی کا نشانہ بنیں۔عام انتخابات ملتوی ہو گئے' میاں نواز شریف نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا' اس موقع پر آصف زرداری میاں صاحب کی مدد کے لیے آئے' انھوں نے میاں صاحب سے عام انتخابات کا بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل کی اور ایک طے شدہ ڈیل کے تحت میاں صاحب نے یہ اپیل منظور کر لی' یوں 2008ء کے الیکشن میں میاں صاحب اقتدار کی گیم کا حصہ بن گئے۔
پنجاب میں میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ بن گئے جب کہ مرکز میں پیپلز پارٹی کا اقتدار قائم ہو گیا لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ مرکز میں اقتدار نہ ملنے کے باوجود میاں نواز شریف کی قسمت کا سورج نصف النہار پر رہا' انھوں نے جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے کے لیے لانگ مارچ کیا اور بلاآخر مطالبہ منظورکرالیا' اسے کہتے ہیں گردن پر انگوٹھا رکھ کر اپنی بات منوانا۔ انھوں نے آصف زرداری کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر افتخار چوہدری اور ساتھی ججوں کو بحال کرا لیا۔
پھر جسٹس افتخار چوہدری نے آصف زرداری اور ان کی حکومت کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مئی 2013ء کے الیکشن میں میاں نواز شریف اس ملک کے وزیراعظم بن گئے ۔ مئی 2013ء سے لے کر 20اپریل 2017ء تک کا عرصہ میاں نواز شریف کے لیے بہت کٹھن گزرا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد کا دھرنا' ان کے لیے آج بھی ڈراؤنا خواب ہے اور آخر میں پاناما کا طوق ان کے گلے میں پڑ گیا۔ 20 اپریل کو وہ بچ تو گئے ہیں لیکن پاناما کا طوق اب بھی ان کے گلے میں ہار بن کر لٹکا ہوا ہے۔
مسلم لیگ ن والے اپنی جیت کے ڈونگرے برسا تو رہے ہیں لیکن مجھے یہ جیت ایسے ہی لگ رہی ہے جیسی جھارا پہلوان نے جاپان کے انوکی پہلوان کے ساتھ مقابلے میں حاصل کی تھی۔ اس جیت کا بھی کسی کو یقین نہیں آیا تھا اور اب پاناما کیس میں میاں صاحب کی جیت بھی کچھ ایسا ہی پہلو لیے ہوئے ہے۔ سندھ اسمبلی نے میاں صاحب سے استعفیٰ طلب کر لیا ہے اور اس سلسلے میں قرار داد منظور کر لی گئی ہے۔ آصف زرداری نے گہری چال چلی ہے' یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ وفاق کی ایک اکائی نے اکثریتی قرارداد کے ذریعے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
لگتا یہ ہے کہ آصف زرداری بھی اپنا حساب بے باک کرنے کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں۔ عمران خان نے خیبرپختونخوا میں سندھ اسمبلی جیسی قرارداد لانے کے لیے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو ہدایت کر دی ہے ' اگر وہاں بھی یہ قرار داد منظور ہو جاتی ہے تو پھر وزیراعظم کے لیے بہت مشکلات پیدا ہوں گی۔ سینیٹ میں بھی اپوزیشن کی اکثریت ہے' وہاں بھی اگر ایسی ہی قرارداد منظور ہو جاتی ہے تو میاں صاحب کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔
جب یہ کالم لکھ رہا تھا تو میاں صاحب کے ایک ہمدرد کا فون آ گیا' وہ فرمانے لگے کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے' اگر سندھ اسمبلی میں وزیراعظم سے استعفے کی قرارداد منظور ہوئی ہے تو قومی اسمبلی' پنجاب اسمبلی' گلگت بلتستان اسمبلی' بلوچستان اسمبلی اور آزاد کشمیر اسمبلی وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کر دیں گی۔ خیبرپختونخوا میں وزیراعظم کے خلاف قرارداد رکوانے کے لیے تحریک انصاف کے اتحادیوں کو توڑا جائے گا۔ حکومت کی کوشش ہو گی کہ یہاں وزیراعظم سے استعفے کی قرارداد منظور نہ ہو سکے۔ اسی دھینگا مشتی میںآٹھ نو ماہ کا عرصہ گزر جائے گا اور الیکشن کا مرحلہ آ جائے گا۔اسی دوران یہ اطلاع بھی آ گئی کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس پیر کو طلب کر لیا گیا ہے۔ اس میں سندھ اسمبلی کا جواب آ جائے گا۔
قارئین! یہ منظرنامہ آنکھوں کے سامنے رکھیں اور پھر دماغ پر زور ڈال کر سوچیں کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں کیا کیا گل کھلیں گے۔ ذرا سوچیں کہ پانچ اسمبلیاں وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کر رہی ہوں گی جب کہ دو اسمبلیاں ان سے استعفیٰ طلب کر رہی ہوں گی۔ آصف زرداری' بلاول بھٹو' عمران خان' سراج الحق جلسے پہ جلسہ کر کے چور چور' کرپٹ کرپٹ کے نعرے بلند کرتے ہوئے وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کر رہے ہوں گے جب کہ وزیراعظم اور ان کے ساتھی سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہوں گے' آپ خود ہی بتائیں یہ منظرنامہ میاں نواز شریف کے حق میں ہو گا یا خلاف ۔ میں تو اس معاملے میں خاموش ہوں۔
پاناما کیس کا فیصلہ آچکا ہے' میں تو یہی کہوں گا ''تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا''۔ پانچ معزز جج صاحبان میں سے تین نے وزیراعظم صاحب کو نااہل قرار نہیں دیا تاہم دو کی نظر میں وہ صادق اور امین نہیں رہے لہٰذا وہ اپنے عہدے پر رہنے کا حق کھو چکے ہیں' دوسرے لفظوں میں میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ پاناما کیس میں بال بال بچی ہے۔ صرف ایک جج صاحب لائن کی دوسری جانب چلے جاتے تو دھڑن تختہ ہو جانا تھا۔ بندوق سے چلی ہوئی گولی اگر کسی شخص کے کان کو چھو کر گزر جائے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے' وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی بھی شاید ایسے ہی احساس کے ساتھ اظہار تشکر میں مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ معزز ججز نے مالی بے ضابطگیوں' کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے فوجداری الزامات سے وزیراعظم اور ان کے صاحبزادوں کو کلین چٹ نہیں دی اور ان الزامات کی تحقیق و تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ ماضی گزیدہ دانشور کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں پہلے بھی کئی جے آئی ٹیز بن چکی ہیں' ان کا کیا بنا ' یہ جے آئی ٹی بھی ماضی کا تسلسل ہے لہٰذا میاں صاحب اس بحران سے بھی نکل جائیں گے۔ یہ استدلال اور جواز خاصی حد تک درست ہے۔ واقعی پاکستان کی تاریخ میں آج تک جو بھی کمیشن اور جے آئی ٹی بنیں' وہ طاقتوروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں ویسے بھی سرکاری افسروں پر مشتمل ٹیم وزیراعظم کو کیسے طلب کر سکتی ہے' یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی درباری کو کہا جائے کہ وہ بادشاہ سے تفتیش کرے۔ درباری بیچارہ تو بادشاہ سلامت کو دیکھ کر کورنش بجا لائے گا کجا کہ ان سے یہ پوچھے کہ حضور آپ نے یہ دولت کیسے کمائی ہے۔
میاں نواز شریف قسمت کے دھنی رہے ہیں' پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حصول سے لے کر محمد خان جونیجو کی جگہ مسلم لیگ کی صدارت اور وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن تک قسمت ان پر مہربان رہی ہے۔ انھوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ مخدوم حسن محمود جیسے قد آور سیاستدان کو شکست دے کر حاصل کی' مخدوم حسن محمود اور میاں صاحب کے سیاسی قد کاٹھ میں زمین آسمان کا فرق تھا لیکن میاں صاحب جیت گئے' وہ جب پہلی بار وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہوئے تو اس وقت خیال یہی تھا کہ غلام مصطفی جتوئی وزیراعظم بنیں گے' وہ اس وقت نگران وزیراعظم بھی تھے لیکن میاں صاحب سندھ کے جاگیردار اور پیپلز پارٹی کے غدار کو کارنر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف اقتدار کی جنگ میں بھی ان کا پلڑا بھاری رہا۔صدر غلام اسحاق کے ساتھ چپقلش میں بھی وہ سرخرو رہے اور جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ان کی حکومت اور اسمبلیاں بحال کر دیں۔ جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا، انھیں جلا وطن کر دیا گیا یا وہ خود چلے گئے' اس وقت لگتا یہ تھا کہ نواز شریف اور شریف خاندان کے اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا لیکن ان کی قسمت نے ایک بار پھر پلٹا کھایا' اس بار قسمت محترمہ بینظیر بھٹو کو ان کی مدد کے لیے لے آئی اور 2007ء میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہو گئی' 27دسمبر2007 میں محترمہ بینظیر دہشت گردی کا نشانہ بنیں۔عام انتخابات ملتوی ہو گئے' میاں نواز شریف نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا' اس موقع پر آصف زرداری میاں صاحب کی مدد کے لیے آئے' انھوں نے میاں صاحب سے عام انتخابات کا بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل کی اور ایک طے شدہ ڈیل کے تحت میاں صاحب نے یہ اپیل منظور کر لی' یوں 2008ء کے الیکشن میں میاں صاحب اقتدار کی گیم کا حصہ بن گئے۔
پنجاب میں میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ بن گئے جب کہ مرکز میں پیپلز پارٹی کا اقتدار قائم ہو گیا لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ مرکز میں اقتدار نہ ملنے کے باوجود میاں نواز شریف کی قسمت کا سورج نصف النہار پر رہا' انھوں نے جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے کے لیے لانگ مارچ کیا اور بلاآخر مطالبہ منظورکرالیا' اسے کہتے ہیں گردن پر انگوٹھا رکھ کر اپنی بات منوانا۔ انھوں نے آصف زرداری کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر افتخار چوہدری اور ساتھی ججوں کو بحال کرا لیا۔
پھر جسٹس افتخار چوہدری نے آصف زرداری اور ان کی حکومت کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مئی 2013ء کے الیکشن میں میاں نواز شریف اس ملک کے وزیراعظم بن گئے ۔ مئی 2013ء سے لے کر 20اپریل 2017ء تک کا عرصہ میاں نواز شریف کے لیے بہت کٹھن گزرا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد کا دھرنا' ان کے لیے آج بھی ڈراؤنا خواب ہے اور آخر میں پاناما کا طوق ان کے گلے میں پڑ گیا۔ 20 اپریل کو وہ بچ تو گئے ہیں لیکن پاناما کا طوق اب بھی ان کے گلے میں ہار بن کر لٹکا ہوا ہے۔
مسلم لیگ ن والے اپنی جیت کے ڈونگرے برسا تو رہے ہیں لیکن مجھے یہ جیت ایسے ہی لگ رہی ہے جیسی جھارا پہلوان نے جاپان کے انوکی پہلوان کے ساتھ مقابلے میں حاصل کی تھی۔ اس جیت کا بھی کسی کو یقین نہیں آیا تھا اور اب پاناما کیس میں میاں صاحب کی جیت بھی کچھ ایسا ہی پہلو لیے ہوئے ہے۔ سندھ اسمبلی نے میاں صاحب سے استعفیٰ طلب کر لیا ہے اور اس سلسلے میں قرار داد منظور کر لی گئی ہے۔ آصف زرداری نے گہری چال چلی ہے' یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ وفاق کی ایک اکائی نے اکثریتی قرارداد کے ذریعے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
لگتا یہ ہے کہ آصف زرداری بھی اپنا حساب بے باک کرنے کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں۔ عمران خان نے خیبرپختونخوا میں سندھ اسمبلی جیسی قرارداد لانے کے لیے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو ہدایت کر دی ہے ' اگر وہاں بھی یہ قرار داد منظور ہو جاتی ہے تو پھر وزیراعظم کے لیے بہت مشکلات پیدا ہوں گی۔ سینیٹ میں بھی اپوزیشن کی اکثریت ہے' وہاں بھی اگر ایسی ہی قرارداد منظور ہو جاتی ہے تو میاں صاحب کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔
جب یہ کالم لکھ رہا تھا تو میاں صاحب کے ایک ہمدرد کا فون آ گیا' وہ فرمانے لگے کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے' اگر سندھ اسمبلی میں وزیراعظم سے استعفے کی قرارداد منظور ہوئی ہے تو قومی اسمبلی' پنجاب اسمبلی' گلگت بلتستان اسمبلی' بلوچستان اسمبلی اور آزاد کشمیر اسمبلی وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کر دیں گی۔ خیبرپختونخوا میں وزیراعظم کے خلاف قرارداد رکوانے کے لیے تحریک انصاف کے اتحادیوں کو توڑا جائے گا۔ حکومت کی کوشش ہو گی کہ یہاں وزیراعظم سے استعفے کی قرارداد منظور نہ ہو سکے۔ اسی دھینگا مشتی میںآٹھ نو ماہ کا عرصہ گزر جائے گا اور الیکشن کا مرحلہ آ جائے گا۔اسی دوران یہ اطلاع بھی آ گئی کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس پیر کو طلب کر لیا گیا ہے۔ اس میں سندھ اسمبلی کا جواب آ جائے گا۔
قارئین! یہ منظرنامہ آنکھوں کے سامنے رکھیں اور پھر دماغ پر زور ڈال کر سوچیں کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں کیا کیا گل کھلیں گے۔ ذرا سوچیں کہ پانچ اسمبلیاں وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کر رہی ہوں گی جب کہ دو اسمبلیاں ان سے استعفیٰ طلب کر رہی ہوں گی۔ آصف زرداری' بلاول بھٹو' عمران خان' سراج الحق جلسے پہ جلسہ کر کے چور چور' کرپٹ کرپٹ کے نعرے بلند کرتے ہوئے وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کر رہے ہوں گے جب کہ وزیراعظم اور ان کے ساتھی سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہوں گے' آپ خود ہی بتائیں یہ منظرنامہ میاں نواز شریف کے حق میں ہو گا یا خلاف ۔ میں تو اس معاملے میں خاموش ہوں۔