اب وقت آگیا ہے
بعض عناصر توہین مذہب کے معاملے کوکس طرح سفاکانہ انداز اپنے مذموم مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں
مردان کی ولی خان یونیورسٹی کے خوبرو نوجوان مشال خان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی اصل کہانی اب منظرعام پر آچکی ہے۔ ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ بعض عناصر توہین مذہب کے معاملے کوکس طرح سفاکانہ انداز اپنے مذموم مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اس سانحے نے یہ بھی واضح کردیا کہ ریاستی منتظمہ میں عقیدے کے نام پر ہونے والی سفاکیت اور بربریت کو روکنے کی نہ صلاحیت ہے اور نہ ہی استعداد ۔ ساتھ ہی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے چہرے پر پڑی منافقت کی نقاب کو نوچ پھینکا ہے۔ ذرایع ابلاغ کے منافقانہ رویوں کا بھی ایک بار پھر پردہ چاک ہوگیا ہے۔ جو ریٹنگ کے چکر میں پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے مبرا ہوچکا ہے۔ اس سانحے نے اسلامی نظریاتی کونسل کی حقیقت بھی آشکار کردی ہے، جو تحفظ نسواں بل اور DNAکے خلاف تو فوری رد عمل دیتی ہے، مگر ایسے سانحات پر اسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔
ملک میں عقیدے کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر ہر بار ٹسوئے بہانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے واقعات میں تیزی اور شدت کیوں آرہی ہے؟ ان کے روکنے میں ریاستی منتظمہ کی ناکامی کے کیا اسباب ہیں؟ جب ہم ریاستی منتظمہ کہتے ہیں تو اس کا مقصد صرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں نہیں ہوتیں، بلکہ وہ تمام ریاستی ادارے بھی ہوتے ہیں، جن کے ذمے قومی سلامتی اور قانون کا نفاذ ہے۔ اس کے علاوہ ذرایع ابلاغ اور سول سوسائٹی (بالخصوص وکلا اور علما) کیا کردار ادا کررہی ہے؟ متوشش شہریوں کے کیا جذبات و احساسات ہیں؟
اگر ملک میں مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور سفاکانہ رد عمل کا جائزہ لیں، تو دو طرح کے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے نظر آئیں گے۔ اول، توہین مذہب کے الزام میں افراد کا انفرادی قتل یا پھر پوری بستیوں کا نذر آتش کیا جانا ہے۔ دوئم، مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان متشدد آویزش۔
اول الذکر صورتحال کا شکار زیادہ تر غیر مسلم پاکستانی بالخصوص مسیحی برادری بن رہی ہے۔ یہاں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ 1986سے قبل تک توہین مذہب کے صرف 26مقدمات درج ہوئے تھے۔ جب کہ 1986کے بعد سے2014تک13سو مقدمات درج کیے گئے۔ ان میں سے90 فیصد جھوٹے ثابت ہوئے۔ بعض واقعات میں مقدمات درج ہونے سے قبل ہی محض چند افراد کی گواہی پر لوگوں نے مشتعل ہوکر ملزم کو تشدد کرکے ہلاک کر دیا۔ یہ بھی ہوا کہ عدالت نے مقدمہ جھوٹا ثابت ہونے پر ملزم کو بری کردیا، مگر مشتعل افراد نے احاطہ عدالت ہی میں ملزم کو قتل کردیا۔
مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے شک میں غیر مسلموں کی بستیوں کو بھی نذرآتش کرنے سے گریز نہیں کیا۔ جس کی حالیہ برسوں میں کئی مثالیں ہیں۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ وکلا کی اکثریت توہین مذہب کے ملزمان کا مقدمہ لینے سے کتراتی ہے، کیونکہ انھیں اپنی جان کا خطرہ ہوتا ہے۔ ملتان کے وکیل راشد رحمان مرحوم کو دو برس قبل بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرر جنید حفیظ کا مقدمہ لڑنے پر قتل کیا گیا۔ صورتحال اس حد تک نازک ہوچکی ہے کہ ایک وکیل ڈاکوؤں، قاتلوں اور چور اچکوں کا مقدمہ تو لڑسکتا،مگر کسی ایسے شخص کا مقدمہ لڑنے سے اسے جبراً روکا جاتا ہے، جس پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام ہو۔
دوسری قسم کی قتل غارت گری میں فرقہ وارانہ اور مسلکی مسابقت یا تناؤ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اس قسم کے واقعات میں عموماً عبادت گاہوں، درگاہوں اور مزارات پر خود کش حملے کیے جاتے ہیں۔ مخالف عقائد اور مسلک کے علما اور متحرک و فعال اراکین کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعہ راستے سے ہٹایا جاتا ہے۔ مختلف فقہوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے کئی جید علما اس قسم کی شدت پسندی کا شکار ہوئے۔ جامعہ کراچی کے کلیہ معارف اسلامیہ کے ڈین پروفیسر (ڈاکٹر) شکیل اوج، جو ایک جید عالم اور بڑے مذہبی اسکالرتھے، 18ستمبر2014کو محض مسلکی اختلاف کا نشانہ بنے ۔
وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ توہین مذہب کا جھوٹا الزام عائد کر کے لوگوں کو قتل کرایا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ لوگ اس قانون کے تحت کارروائی نہیں کررہے بلکہ توہین مذہب کے الزام کا سنتے ہی بغیر سوچے سمجھے اس قدر اشتعال میں آجاتے ہیں کہ سفاکی اور بربریت کی تمام حدود پار ہوجاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا ہمارے منصوبہ ساز ہر چند مہینوں بعد اس قسم کے بہیمانہ قتل ہوتے دیکھتے رہیں گے؟ کیا وہ ہر سانحے کے بعد رسمی مذمت اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے کرکے بری الذمہ ہوتے رہیں گے؟
اب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ جب جامعات میں اس قسم کے واقعات ہونے لگیں تو پھرکہنے کوکچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ یہ صورتحال قومی سلامتی اور وحدت کے لیے نازک مسئلہ بن چکی ہے۔ اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ مختلف شراکت داروں کے ساتھ بامقصد ڈائیلاگ کے ذریعے کسی ٹھوس اور پائیدار فیصلہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ لیکن کیے گئے فیصلوں پر سیاسی عزم و بصیرت کے ساتھ عمل بھی کیا جائے ، کیونکہ اگر ان فیصلوں کا حشر نیشنل ایکشن پلان جیسا ہوا، تو پھر اس معاشرے کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ایسے قوانین وقت کی ضرورت بن گئے کہ جھوٹے الزامات عائد کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی ہو سکے۔ اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل مختلف مکاتب فکر کے مسلمان علما اور اسکالرز کی ایک گول میز کانفرنس بلا کر قابل قبول تجاویز مرتب کرنا ہوں گی۔ وکلا تنظیموں کو بھی تجاویز مرتب کرکے پارلیمان کو بھیجنا چاہئیں۔ تاکہ پارلیمان ان تجاویز کی روشنی میں ملکی سالمیت اور وحدت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی عزم و بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون سازی کر سکے۔
جہاں تک ذرایع ابلاغ کا تعلق ہے، تو اس کا رویہ بھی خاصا غیر ذمے دارانہ ہے۔ مشال خان کے قتل پر بھی بعض چینلوں اور اخبارات کا رویہ خاصا غیر ذمے دارانہ تھا۔ اس وقت عقیدے اور نسلی و لسانی بنیادوں پر جتنا فتنہ و فساد غلط ابلاغ کی وجہ سے پھیل رہا ہے، شاید دو دہائی قبل یہ صورتحال نہیں تھی۔ اس لیے ذرایع ابلاغ کو اس حوالے سے محتاط روش اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ ریاستی منتظمہ سمیت سیاسی و مذہبی جماعتیں اور دیگر ریاستی شراکت دار ان متشددانہ اور جنونیت پر مبنی رویوں کے فروغ پانے کے ذمے دار ہیں۔ ریاستی منصوبہ ساز اقتدار و اختیار پر اپنی بالادستی اور گرفت کو برقرار رکھنے کی خاطر معاشرے میں خرد افروزی، روشن خیالی اور فکری آزادی جیسے تصورات کے فروغ کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں، لیکن انھیں اندازہ نہیں کہ مذہبی جنونیت کا بڑھتا ہوا رجحان ان کے اقتدار سمیت پورے سماجی Fabric کو بہا کرلے جائے گا۔ اس کے بعد کچھ باقی نہیں بچ سکے گا۔
لہٰذا ملک و معاشرے کو فکری انتشار اور عقیدے، نظریے اور قومیتی و لسانی عصبیتوں اور متشدد رویوں سے بچانے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ ملک کی منتظمہ، سیاسی جماعتوں، ذرایع ابلاغ، علما ، سول سوسائٹی اور پیشہ ور تنظیموں (بالخصوص وکلا تنظیموں)کو سرجوڑ کر بیٹھیں اور کرمنل جسٹس سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے کسی قومی ایجنڈے پر متحد ہونا پڑے گا۔
ملک میں عقیدے کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر ہر بار ٹسوئے بہانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے واقعات میں تیزی اور شدت کیوں آرہی ہے؟ ان کے روکنے میں ریاستی منتظمہ کی ناکامی کے کیا اسباب ہیں؟ جب ہم ریاستی منتظمہ کہتے ہیں تو اس کا مقصد صرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں نہیں ہوتیں، بلکہ وہ تمام ریاستی ادارے بھی ہوتے ہیں، جن کے ذمے قومی سلامتی اور قانون کا نفاذ ہے۔ اس کے علاوہ ذرایع ابلاغ اور سول سوسائٹی (بالخصوص وکلا اور علما) کیا کردار ادا کررہی ہے؟ متوشش شہریوں کے کیا جذبات و احساسات ہیں؟
اگر ملک میں مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور سفاکانہ رد عمل کا جائزہ لیں، تو دو طرح کے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے نظر آئیں گے۔ اول، توہین مذہب کے الزام میں افراد کا انفرادی قتل یا پھر پوری بستیوں کا نذر آتش کیا جانا ہے۔ دوئم، مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان متشدد آویزش۔
اول الذکر صورتحال کا شکار زیادہ تر غیر مسلم پاکستانی بالخصوص مسیحی برادری بن رہی ہے۔ یہاں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ 1986سے قبل تک توہین مذہب کے صرف 26مقدمات درج ہوئے تھے۔ جب کہ 1986کے بعد سے2014تک13سو مقدمات درج کیے گئے۔ ان میں سے90 فیصد جھوٹے ثابت ہوئے۔ بعض واقعات میں مقدمات درج ہونے سے قبل ہی محض چند افراد کی گواہی پر لوگوں نے مشتعل ہوکر ملزم کو تشدد کرکے ہلاک کر دیا۔ یہ بھی ہوا کہ عدالت نے مقدمہ جھوٹا ثابت ہونے پر ملزم کو بری کردیا، مگر مشتعل افراد نے احاطہ عدالت ہی میں ملزم کو قتل کردیا۔
مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے شک میں غیر مسلموں کی بستیوں کو بھی نذرآتش کرنے سے گریز نہیں کیا۔ جس کی حالیہ برسوں میں کئی مثالیں ہیں۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ وکلا کی اکثریت توہین مذہب کے ملزمان کا مقدمہ لینے سے کتراتی ہے، کیونکہ انھیں اپنی جان کا خطرہ ہوتا ہے۔ ملتان کے وکیل راشد رحمان مرحوم کو دو برس قبل بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرر جنید حفیظ کا مقدمہ لڑنے پر قتل کیا گیا۔ صورتحال اس حد تک نازک ہوچکی ہے کہ ایک وکیل ڈاکوؤں، قاتلوں اور چور اچکوں کا مقدمہ تو لڑسکتا،مگر کسی ایسے شخص کا مقدمہ لڑنے سے اسے جبراً روکا جاتا ہے، جس پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام ہو۔
دوسری قسم کی قتل غارت گری میں فرقہ وارانہ اور مسلکی مسابقت یا تناؤ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اس قسم کے واقعات میں عموماً عبادت گاہوں، درگاہوں اور مزارات پر خود کش حملے کیے جاتے ہیں۔ مخالف عقائد اور مسلک کے علما اور متحرک و فعال اراکین کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعہ راستے سے ہٹایا جاتا ہے۔ مختلف فقہوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے کئی جید علما اس قسم کی شدت پسندی کا شکار ہوئے۔ جامعہ کراچی کے کلیہ معارف اسلامیہ کے ڈین پروفیسر (ڈاکٹر) شکیل اوج، جو ایک جید عالم اور بڑے مذہبی اسکالرتھے، 18ستمبر2014کو محض مسلکی اختلاف کا نشانہ بنے ۔
وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ توہین مذہب کا جھوٹا الزام عائد کر کے لوگوں کو قتل کرایا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ لوگ اس قانون کے تحت کارروائی نہیں کررہے بلکہ توہین مذہب کے الزام کا سنتے ہی بغیر سوچے سمجھے اس قدر اشتعال میں آجاتے ہیں کہ سفاکی اور بربریت کی تمام حدود پار ہوجاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا ہمارے منصوبہ ساز ہر چند مہینوں بعد اس قسم کے بہیمانہ قتل ہوتے دیکھتے رہیں گے؟ کیا وہ ہر سانحے کے بعد رسمی مذمت اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے کرکے بری الذمہ ہوتے رہیں گے؟
اب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ جب جامعات میں اس قسم کے واقعات ہونے لگیں تو پھرکہنے کوکچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ یہ صورتحال قومی سلامتی اور وحدت کے لیے نازک مسئلہ بن چکی ہے۔ اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ مختلف شراکت داروں کے ساتھ بامقصد ڈائیلاگ کے ذریعے کسی ٹھوس اور پائیدار فیصلہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ لیکن کیے گئے فیصلوں پر سیاسی عزم و بصیرت کے ساتھ عمل بھی کیا جائے ، کیونکہ اگر ان فیصلوں کا حشر نیشنل ایکشن پلان جیسا ہوا، تو پھر اس معاشرے کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ایسے قوانین وقت کی ضرورت بن گئے کہ جھوٹے الزامات عائد کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی ہو سکے۔ اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل مختلف مکاتب فکر کے مسلمان علما اور اسکالرز کی ایک گول میز کانفرنس بلا کر قابل قبول تجاویز مرتب کرنا ہوں گی۔ وکلا تنظیموں کو بھی تجاویز مرتب کرکے پارلیمان کو بھیجنا چاہئیں۔ تاکہ پارلیمان ان تجاویز کی روشنی میں ملکی سالمیت اور وحدت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی عزم و بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون سازی کر سکے۔
جہاں تک ذرایع ابلاغ کا تعلق ہے، تو اس کا رویہ بھی خاصا غیر ذمے دارانہ ہے۔ مشال خان کے قتل پر بھی بعض چینلوں اور اخبارات کا رویہ خاصا غیر ذمے دارانہ تھا۔ اس وقت عقیدے اور نسلی و لسانی بنیادوں پر جتنا فتنہ و فساد غلط ابلاغ کی وجہ سے پھیل رہا ہے، شاید دو دہائی قبل یہ صورتحال نہیں تھی۔ اس لیے ذرایع ابلاغ کو اس حوالے سے محتاط روش اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ ریاستی منتظمہ سمیت سیاسی و مذہبی جماعتیں اور دیگر ریاستی شراکت دار ان متشددانہ اور جنونیت پر مبنی رویوں کے فروغ پانے کے ذمے دار ہیں۔ ریاستی منصوبہ ساز اقتدار و اختیار پر اپنی بالادستی اور گرفت کو برقرار رکھنے کی خاطر معاشرے میں خرد افروزی، روشن خیالی اور فکری آزادی جیسے تصورات کے فروغ کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں، لیکن انھیں اندازہ نہیں کہ مذہبی جنونیت کا بڑھتا ہوا رجحان ان کے اقتدار سمیت پورے سماجی Fabric کو بہا کرلے جائے گا۔ اس کے بعد کچھ باقی نہیں بچ سکے گا۔
لہٰذا ملک و معاشرے کو فکری انتشار اور عقیدے، نظریے اور قومیتی و لسانی عصبیتوں اور متشدد رویوں سے بچانے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ ملک کی منتظمہ، سیاسی جماعتوں، ذرایع ابلاغ، علما ، سول سوسائٹی اور پیشہ ور تنظیموں (بالخصوص وکلا تنظیموں)کو سرجوڑ کر بیٹھیں اور کرمنل جسٹس سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے کسی قومی ایجنڈے پر متحد ہونا پڑے گا۔