قادری انقلاب‘ انقلاب کی ریہرسل
م قادری انقلاب کو اصل انقلاب کی ریہرسل اور حقیقی انقلاب، حقیقی جمہوریت کی طرف پہلا قدم سمجھتے ہیں۔
ISLAMABAD:
23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان سے شروع ہونے والا ''قادری انقلاب'' 17 جنوری 2013 کو ڈی چوک اسلام آباد پرکھڑے ایک کنٹینر میں اختتام پذیر ہوگیا۔ اس ''انقلاب'' نے تقریباً 3 ہفتوں تک پاکستان میں ایک ایسی سنسنی، ایسا اضطراب برپا کردیا تھا جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ 65 سال سے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام جس فراڈ جمہوریت اور فوجی آمریت کے پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں وہ بڑی امید بھری نظروں سے اس قادری انقلاب کو دیکھ رہے تھے کہ شاید یہ انقلاب اس نظام استحصال سے انھیں نجات دلا دے، جس نے ان کی زندگی کو جہنم بناکر رکھ دیا ہے لیکن ''اے بسا آرزو کہ خاک شد'' ایسا ہی ایک بھٹو انقلاب بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں پاکستان کے عوام کو زیروزبر کرگیا تھا جو روٹی، کپڑا اور مکان کی دھن پر رقص کرتا ہوا، مزدور، کسان، راج کی تھاپ کے ساتھ عوام کو گلیوں، بازاروں میں لاکھڑا کیا تھا،انقلاب کی آرزو میں سرشار کروڑوں عوام بھٹو کے اس انقلاب میں بہہ رہے تھے اور 23 دسمبر سے شروع ہونے والے اس قادری انقلاب کو بھی اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام امید اور حسرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے جو چینج اور نظام کی تبدیلی کے نعروں کے ساتھ لاہور سے نکل کر اسلام آباد کے ڈی چوک میں 5 روز تک فروکش رہنے کے بعد پرامن طریقے سے اختتام کو پہنچ گیا۔
بھٹو ایک بڑے جاگیردار خاندان کے چشم و چراغ تھے اور قادری کا تعلق مڈل کلاس سے ہے، دونوں کے انقلاب میں ایک یہ بنیادی فرق تھا، دونوں انقلاب اسلام آباد میں ہی اپنے انجام کو پہنچے، دونوں انقلابوں میں یہی مماثلت تھی قادری انقلاب کی ایک منفرد شناخت یہ تھی کہ 14 جنوری کو لاہور سے شروع ہونے والے اس لانگ مارچی انقلاب میں غریب عوام کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی اور 6 مہینے سے 10-8 سال کے بچے بھی ان کی گودوں میں اور انگلیاں تھامے چل رہے تھے جن کی توتلی زبانوں سے Change کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اسلام آباد کی نقطہ انجماد سے بڑھی ہوئی سردی میں ایک لاکھ سے زیادہ مرد، عورتیں، جوان، بوڑھے اور معصوم بچے جس عزم اور حوصلے سے بیٹھے تھے اگر اس عزم اور حوصلے کو ایک منصوبے ایک جامع پالیسی اور ایک واضح ہدف کے ساتھ چلایا جاتا تو شاید اس کا وہ انجام نہ ہوتا جو ہوا۔ لیکن اس انقلاب کا ایک مثبت فائدہ یہ ہوا کہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ مفلس و مظلوم عوام میں یہ احساس اجاگر ہوا کہ اس فراڈ جمہوریت سے انھیں کچھ نہیں ملے گا، اس کے پیچھے بھاگنا بے سود اور وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو یہ احساس ہوا کہ انھیں اپنی اذیت ناک زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے ایک منصوبہ بند منظم اور متعین اہداف کے ساتھ ایک نظریاتی قیادت کی رہنمائی میں گھروں سے نکلنا ہوگا، کوئی ڈانواڈول نظریاتی قیادت انھیں انقلاب کی حقیقی منزل تک نہیں پہنچا سکتی۔ اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ وہ سیاسی وڈیرے اور مذہبی اوتار جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ تھے جو ایک دوسرے کے گناہوں کو بازار میں لارہے تھے جو اپنی گندی سیاست کے پوتڑے جمہوریت کی میلی چادر میں چھپائے پھر رہے تھے۔ وہ سب رائے ونڈ میں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملائے بیٹھے عوام کو بتا رہے تھے کہ اس قادری طوفان سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ زرداری ایک منٹ ضایع کیے بغیر انتخابی شیڈول کا اعلان کردیں، وہ زرداری کو انتباہ دے رہے تھے کہ جلدی کرو، کہیں وقت ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ان تعلیم یافتہ مڈل کلاسوں کا کردار عوام کے سامنے آگیا جو سیاسی وڈیروں کی ہم زبان بن کر انتخابات اور فراڈ جمہوریت ہی کو پاکستانی عوام کے مسائل کا واحد حل بتا رہی تھیں اور قادری کو تضحیک اور طنز کا نشانہ اس لیے بنا رہی تھیں کہ وہ خاندانی حکمرانی کے خلاف آواز اٹھا رہا تھا اور انھیں چور، ڈاکو اور لٹیرے کہہ رہا تھا۔اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ بچے بچے کی زبان پر نظام کی تبدیلی کا نعرہ انگڑائی لینے لگا۔ اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ خواندہ اور ناخواندہ خواتین گھروں سے باہر نکل آئیں اور نظام بدلو کے نعرے لگانے لگیں۔ اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ عوام کو یہ پتہ چلا کہ ان کی انقلابی کمزوریاں کیا تھیں اور ان کمزوریوں کو دور کرنا کتنا ضروری ہے۔
لانگ مارچ کے حوالے سے مولانا طاہر القادری سے یہ پوچھا جارہا ہے کہ تم دہری شہریت رکھنے والے کینیڈین شہری کون ہوتے ہو جو انقلاب کا پرچم لہراتے ہوئے ہماری جمہوریت کو تباہ کرنے آئے ہو؟ اس سوال کے ساتھ قادری صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کیا جارہا ہے کہ قادری صاحب جو مطالبات کر رہے ہیں وہ سب درست ہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ قادری صاحب کو یہ حق کس نے دیا ہے؟ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ کسی ایسے شخص کو جو برسوں سے کینیڈا میں رہ رہا ہے کینیڈا کی شہریت بھی رکھتا ہے جس کا پاکستان میں کوئی نمایاں سیاسی ماضی بھی نہیں، یہ حق نہیں ہوسکتا کہ وہ انقلاب کا جھنڈا لہراتا ہوا آکر پاکستان کی جمی جمائی جمہوریت کو درہم برہم کردے۔
یہ حق صرف ان لوگوں، ان سیاستدانوں کو حاصل ہے جو پاکستان کی سیاسی فیلڈ میں 35 برسوں سے اس طرح کھیل رہے ہیں کہ یہ کھیل اب فتح و شکست کے جھنجھٹوں سے نکل کر ''باری باری کے کھیل'' تک آگیا ہے۔ لیکن پھر سوال یہی اٹھتا ہے کہ جب آپ طاہر القادری کے مطالبات کو برحق مانتے ہیں تو اب تک ان مطالبوں کو اپنے منشور کا حصہ بناکر عوام کی زندگی اور 65 سال سے عوام کے سروں پر مسلط اس فراڈ نظام کو بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟اگر آپ یہ کام خود کرتے اور یہ آپ کا فرض بھی تھا تو طاہر القادری کو کیسے ہمت ہوتی کہ وہ یہ مطالبات لہراتا ہوا پاکستان آتا اور یہ کیوں کر ہوتا کہ لاکھوں انسانوں کا سمندر مینار پاکستان پر قادری کے گرد جمع ہوجاتا؟
اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اس نظام، اس جمہوریت سے اس قدر بیزار ہیں، اس قدر متنفر ہیں کہ اگر اس نظام استحصال کو پرامن طریقے سے نہ بدلا گیا تو یہ مشتعل اور بپھرے ہوئے عوام انقلاب فرانس کی طرف چلے جائیں گے پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اس پس منظر میں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ طاہر القادری ان خاندانی حکمرانوں کے لیے نعمت بن کر آیا ہے۔ ہم یہ بھی شک کرسکتے ہیں کہ قادری کسی اور کا نہیں، کسی سی آئی اے، کسی اسٹیبلشمنٹ، کسی را، کسی موساد کا ایجنٹ بن کر نہیں بلکہ ان خاندانی سیاستدانوں، ان سیاسی حکمرانوں کا ایجنٹ بن کر ان کی جانیں بچانے آیا ہے۔
قادری انقلاب سے ہمارے سیاسی وڈیروں، خاندانی حکمرانوں اور مذہبی اوتاروں کو جو خطرہ لاحق تھا وہ فی الوقت ٹل گیا ہے، اور انھوں نے سکھ کا سانس لیا اور ملک کے مسائل کے واحد حل ''انتخابات'' کی تیاروں میں جٹ گئے ہیں لیکن قادری انقلاب کے جس خوف نے انھیں رائیونڈ کے محلات میں سر سے سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیاتھا، اب اس خوف سے نجات کے بعد انتخابی میدان میں باریاں لینے کی جنگ میں یہ اوتار اس قدر جت جائیں گے کہ یہ وقتی یکجہتی، جلسوں جلوسوں، اتحادوں اور جوابی اتحادوں میں پارہ پارہ اور ننگی کھڑی نظر آئے گی اور عوام جمہوریت کی اس جنگ اور اس کے نتائج کو ایک بار پھر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
قادری صاحب اگرچہ یہ جنگ ہار گئے ہیں لیکن قادری صاحب کی اس نامکمل اور ادھوری جنگ نے عوام میں امید کی جو لہر پیدا کی ہے وہ لہر ایک طاقتور طوفان میں اس وقت بدل سکتی ہے جب قادری صاحب اور ان کے شریک کارواں اپنی غلطیوں، اپنی کمزوریوں اور انقلاب دشمنوں کی طاقت ان کے ہتھکنڈوں، ان کے ہتھیاروں کا ادراک کریں۔ اور ان تمام طاقتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کریں جو اس ملک کو وڈیرہ شاہی جمہوریت، سیاسی اور اقتداری مافیاؤں سے نجات دلانے میں مخلص ہیں خواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، خواہ وہ کتنے ہی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے کیوں نہ ہوں جب یہ سارے ندی نالے ایک سمندر میں بدل جائیں گے تو 14 جنوری کا لانگ مارچ بامعنی ہوجائے گا اور عوام 35 سالہ فراڈ جمہوریت اور 30 سالہ فوجی جبر سے آزاد ہوجائیں گے۔ ہم قادری انقلاب کو اصل انقلاب کی ریہرسل اور حقیقی انقلاب، حقیقی جمہوریت کی طرف پہلا قدم سمجھتے ہیں۔ انقلاب کے حقیقی داعیوں کو اب نظریاتی جھمیلوں سے نکل کر آگے آنا ہوگا، قادری کی ایمانداری یا بے ایمانی پر سر کھپانے کے بجائے 18 کروڑ عوام کی خواہشوں کو سامنے رکھنا ہوگا جو نجات کے ہر نعرے کی طرف ہجوم کر رہے ہیں۔
23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان سے شروع ہونے والا ''قادری انقلاب'' 17 جنوری 2013 کو ڈی چوک اسلام آباد پرکھڑے ایک کنٹینر میں اختتام پذیر ہوگیا۔ اس ''انقلاب'' نے تقریباً 3 ہفتوں تک پاکستان میں ایک ایسی سنسنی، ایسا اضطراب برپا کردیا تھا جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ 65 سال سے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام جس فراڈ جمہوریت اور فوجی آمریت کے پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں وہ بڑی امید بھری نظروں سے اس قادری انقلاب کو دیکھ رہے تھے کہ شاید یہ انقلاب اس نظام استحصال سے انھیں نجات دلا دے، جس نے ان کی زندگی کو جہنم بناکر رکھ دیا ہے لیکن ''اے بسا آرزو کہ خاک شد'' ایسا ہی ایک بھٹو انقلاب بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں پاکستان کے عوام کو زیروزبر کرگیا تھا جو روٹی، کپڑا اور مکان کی دھن پر رقص کرتا ہوا، مزدور، کسان، راج کی تھاپ کے ساتھ عوام کو گلیوں، بازاروں میں لاکھڑا کیا تھا،انقلاب کی آرزو میں سرشار کروڑوں عوام بھٹو کے اس انقلاب میں بہہ رہے تھے اور 23 دسمبر سے شروع ہونے والے اس قادری انقلاب کو بھی اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام امید اور حسرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے جو چینج اور نظام کی تبدیلی کے نعروں کے ساتھ لاہور سے نکل کر اسلام آباد کے ڈی چوک میں 5 روز تک فروکش رہنے کے بعد پرامن طریقے سے اختتام کو پہنچ گیا۔
بھٹو ایک بڑے جاگیردار خاندان کے چشم و چراغ تھے اور قادری کا تعلق مڈل کلاس سے ہے، دونوں کے انقلاب میں ایک یہ بنیادی فرق تھا، دونوں انقلاب اسلام آباد میں ہی اپنے انجام کو پہنچے، دونوں انقلابوں میں یہی مماثلت تھی قادری انقلاب کی ایک منفرد شناخت یہ تھی کہ 14 جنوری کو لاہور سے شروع ہونے والے اس لانگ مارچی انقلاب میں غریب عوام کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی اور 6 مہینے سے 10-8 سال کے بچے بھی ان کی گودوں میں اور انگلیاں تھامے چل رہے تھے جن کی توتلی زبانوں سے Change کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اسلام آباد کی نقطہ انجماد سے بڑھی ہوئی سردی میں ایک لاکھ سے زیادہ مرد، عورتیں، جوان، بوڑھے اور معصوم بچے جس عزم اور حوصلے سے بیٹھے تھے اگر اس عزم اور حوصلے کو ایک منصوبے ایک جامع پالیسی اور ایک واضح ہدف کے ساتھ چلایا جاتا تو شاید اس کا وہ انجام نہ ہوتا جو ہوا۔ لیکن اس انقلاب کا ایک مثبت فائدہ یہ ہوا کہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ مفلس و مظلوم عوام میں یہ احساس اجاگر ہوا کہ اس فراڈ جمہوریت سے انھیں کچھ نہیں ملے گا، اس کے پیچھے بھاگنا بے سود اور وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو یہ احساس ہوا کہ انھیں اپنی اذیت ناک زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے ایک منصوبہ بند منظم اور متعین اہداف کے ساتھ ایک نظریاتی قیادت کی رہنمائی میں گھروں سے نکلنا ہوگا، کوئی ڈانواڈول نظریاتی قیادت انھیں انقلاب کی حقیقی منزل تک نہیں پہنچا سکتی۔ اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ وہ سیاسی وڈیرے اور مذہبی اوتار جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ تھے جو ایک دوسرے کے گناہوں کو بازار میں لارہے تھے جو اپنی گندی سیاست کے پوتڑے جمہوریت کی میلی چادر میں چھپائے پھر رہے تھے۔ وہ سب رائے ونڈ میں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملائے بیٹھے عوام کو بتا رہے تھے کہ اس قادری طوفان سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ زرداری ایک منٹ ضایع کیے بغیر انتخابی شیڈول کا اعلان کردیں، وہ زرداری کو انتباہ دے رہے تھے کہ جلدی کرو، کہیں وقت ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ان تعلیم یافتہ مڈل کلاسوں کا کردار عوام کے سامنے آگیا جو سیاسی وڈیروں کی ہم زبان بن کر انتخابات اور فراڈ جمہوریت ہی کو پاکستانی عوام کے مسائل کا واحد حل بتا رہی تھیں اور قادری کو تضحیک اور طنز کا نشانہ اس لیے بنا رہی تھیں کہ وہ خاندانی حکمرانی کے خلاف آواز اٹھا رہا تھا اور انھیں چور، ڈاکو اور لٹیرے کہہ رہا تھا۔اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ بچے بچے کی زبان پر نظام کی تبدیلی کا نعرہ انگڑائی لینے لگا۔ اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ خواندہ اور ناخواندہ خواتین گھروں سے باہر نکل آئیں اور نظام بدلو کے نعرے لگانے لگیں۔ اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ عوام کو یہ پتہ چلا کہ ان کی انقلابی کمزوریاں کیا تھیں اور ان کمزوریوں کو دور کرنا کتنا ضروری ہے۔
لانگ مارچ کے حوالے سے مولانا طاہر القادری سے یہ پوچھا جارہا ہے کہ تم دہری شہریت رکھنے والے کینیڈین شہری کون ہوتے ہو جو انقلاب کا پرچم لہراتے ہوئے ہماری جمہوریت کو تباہ کرنے آئے ہو؟ اس سوال کے ساتھ قادری صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کیا جارہا ہے کہ قادری صاحب جو مطالبات کر رہے ہیں وہ سب درست ہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ قادری صاحب کو یہ حق کس نے دیا ہے؟ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ کسی ایسے شخص کو جو برسوں سے کینیڈا میں رہ رہا ہے کینیڈا کی شہریت بھی رکھتا ہے جس کا پاکستان میں کوئی نمایاں سیاسی ماضی بھی نہیں، یہ حق نہیں ہوسکتا کہ وہ انقلاب کا جھنڈا لہراتا ہوا آکر پاکستان کی جمی جمائی جمہوریت کو درہم برہم کردے۔
یہ حق صرف ان لوگوں، ان سیاستدانوں کو حاصل ہے جو پاکستان کی سیاسی فیلڈ میں 35 برسوں سے اس طرح کھیل رہے ہیں کہ یہ کھیل اب فتح و شکست کے جھنجھٹوں سے نکل کر ''باری باری کے کھیل'' تک آگیا ہے۔ لیکن پھر سوال یہی اٹھتا ہے کہ جب آپ طاہر القادری کے مطالبات کو برحق مانتے ہیں تو اب تک ان مطالبوں کو اپنے منشور کا حصہ بناکر عوام کی زندگی اور 65 سال سے عوام کے سروں پر مسلط اس فراڈ نظام کو بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟اگر آپ یہ کام خود کرتے اور یہ آپ کا فرض بھی تھا تو طاہر القادری کو کیسے ہمت ہوتی کہ وہ یہ مطالبات لہراتا ہوا پاکستان آتا اور یہ کیوں کر ہوتا کہ لاکھوں انسانوں کا سمندر مینار پاکستان پر قادری کے گرد جمع ہوجاتا؟
اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اس نظام، اس جمہوریت سے اس قدر بیزار ہیں، اس قدر متنفر ہیں کہ اگر اس نظام استحصال کو پرامن طریقے سے نہ بدلا گیا تو یہ مشتعل اور بپھرے ہوئے عوام انقلاب فرانس کی طرف چلے جائیں گے پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اس پس منظر میں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ طاہر القادری ان خاندانی حکمرانوں کے لیے نعمت بن کر آیا ہے۔ ہم یہ بھی شک کرسکتے ہیں کہ قادری کسی اور کا نہیں، کسی سی آئی اے، کسی اسٹیبلشمنٹ، کسی را، کسی موساد کا ایجنٹ بن کر نہیں بلکہ ان خاندانی سیاستدانوں، ان سیاسی حکمرانوں کا ایجنٹ بن کر ان کی جانیں بچانے آیا ہے۔
قادری انقلاب سے ہمارے سیاسی وڈیروں، خاندانی حکمرانوں اور مذہبی اوتاروں کو جو خطرہ لاحق تھا وہ فی الوقت ٹل گیا ہے، اور انھوں نے سکھ کا سانس لیا اور ملک کے مسائل کے واحد حل ''انتخابات'' کی تیاروں میں جٹ گئے ہیں لیکن قادری انقلاب کے جس خوف نے انھیں رائیونڈ کے محلات میں سر سے سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیاتھا، اب اس خوف سے نجات کے بعد انتخابی میدان میں باریاں لینے کی جنگ میں یہ اوتار اس قدر جت جائیں گے کہ یہ وقتی یکجہتی، جلسوں جلوسوں، اتحادوں اور جوابی اتحادوں میں پارہ پارہ اور ننگی کھڑی نظر آئے گی اور عوام جمہوریت کی اس جنگ اور اس کے نتائج کو ایک بار پھر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
قادری صاحب اگرچہ یہ جنگ ہار گئے ہیں لیکن قادری صاحب کی اس نامکمل اور ادھوری جنگ نے عوام میں امید کی جو لہر پیدا کی ہے وہ لہر ایک طاقتور طوفان میں اس وقت بدل سکتی ہے جب قادری صاحب اور ان کے شریک کارواں اپنی غلطیوں، اپنی کمزوریوں اور انقلاب دشمنوں کی طاقت ان کے ہتھکنڈوں، ان کے ہتھیاروں کا ادراک کریں۔ اور ان تمام طاقتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کریں جو اس ملک کو وڈیرہ شاہی جمہوریت، سیاسی اور اقتداری مافیاؤں سے نجات دلانے میں مخلص ہیں خواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، خواہ وہ کتنے ہی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے کیوں نہ ہوں جب یہ سارے ندی نالے ایک سمندر میں بدل جائیں گے تو 14 جنوری کا لانگ مارچ بامعنی ہوجائے گا اور عوام 35 سالہ فراڈ جمہوریت اور 30 سالہ فوجی جبر سے آزاد ہوجائیں گے۔ ہم قادری انقلاب کو اصل انقلاب کی ریہرسل اور حقیقی انقلاب، حقیقی جمہوریت کی طرف پہلا قدم سمجھتے ہیں۔ انقلاب کے حقیقی داعیوں کو اب نظریاتی جھمیلوں سے نکل کر آگے آنا ہوگا، قادری کی ایمانداری یا بے ایمانی پر سر کھپانے کے بجائے 18 کروڑ عوام کی خواہشوں کو سامنے رکھنا ہوگا جو نجات کے ہر نعرے کی طرف ہجوم کر رہے ہیں۔