آغاز2013
کل مقابلہ غیروں سے تھا آج ملک آزاد کرانے کے لیے اپنوں ہی سے سامنا ہے۔
KARACHI:
'' تیرہ'' کے ہندسے کو توہم پرست لوگوں کی نظر میں اچھے معنوں میں ہرگز نہیں لیا جاتا ،اسلامی حوالے سے کوئی دن اور تاریخ بری نہیں ہے،اس کے لغوی معنی پریشانی اوردکھ کے ہیں، اس سال کی ابتداء کچھ اسی طرح ہوئی ہے، بڑے بڑے سانحات اور واقعات منظرعام پر آئے ہیں،پاکستان کی قسمت کا فیصلہ بھی ہونے جا رہا ہے، دیکھیں ہوتا کیا ہے؟
دسمبر گزرگیا اور ماہ جنوری شروع ہی ہوا تھا اور پہلا عشرہ اختتام پذیر ہواجاتا تھا، جنوری کی 10 تاریخ تھی، سردی کے دن تھے، سورج غروب ہونے میں ابھی وقت باقی تھا کہ زندگیوں کے چراغوں کو گل کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے کئی دھماکے ہوئے اور پھر چند گھنٹوں بعد رات 9 بجے کے قریب ایئر پورٹ کو جانے والے علمدار روڈ پر دو دھماکے مزید کیے گئے، جس کے نتیجے میں کوئٹہ اور مینگورہ خون میں نہا گیا۔
120 سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے اور تین سو کے قریب زخمی، ان دو دھماکوں میں ایس پی، ڈی ایس پی، 5 اہلکار، ٹی وی کیمرہ مین سمیت بہت سی قیمتی جانوں کا زیاں ہوا، پھر یہ دردناک کہانی ادھر ہی انجام کو نہیں پہنچی بلکہ اس وقت اس کہانی نے ایک ایسا رخ اختیار کیا جسے سن کر اور دیکھ کر ہر صاحب دل، صاحب اولاد خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجائے۔ مرنے والوں کے ورثاء نے احتجاج کا انوکھا طریقہ نکالا گوکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات جنم لیتے رہے ہیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اپنے پیاروں کی میتوں کے ساتھ دھرنا دیا گیا ہے۔ یہاں پر بھی مرنے والوں کے لواحقین نے ایک ساتھ 86 لاشوں کے ساتھ احتجاج کیا۔
کوئٹہ کے بعد پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی دھرنے دیے گئے،علمدار روڈ پر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں نے علمدار روڈ سے آئی جی پولیس کے دفتر تک مارچ کیا اور تین دن گزر جانے کے باوجود لاشوں کی تدفین عمل میں نہیں آئی۔ لواحقین فوج کا مطالبہ کرتے رہے، فوج تو نہیں آئی البتہ گورنر راج ضرور نافذ کردیا گیا۔ اس طرح 13 جنوری کو تدفین عمل میں آسکی، اتنا المناک واقعہ، سردی اور برف باری کا زمانہ، معصوم بچے اور مرد و خواتین بلا تعصب و مذہب شامل ہوتے سڑکوں پر دھرنے کی شکل میں بیٹھے رہے اور مختلف عقیدے سے تعلق رکھنے والے بھی حکومت وقت کو بالکل بھی رحم نہیں آیا کہ وہ بروقت جائیں لواحقین کو تسلی دیں اور آیندہ ایسا خونی واقعہ نہ ہونے کی یقین دہانی کراتے تو شاید لاشوں کی اتنی بے حرمتی ہرگز نہ ہوتی چونکہ بحیثیت مسلمان ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ غسل اور تجہیزوتکفین کے بعد جس قدر ممکن ہو جلد سے جلد دفنا دیا جائے۔
اس طرح ورثاء کو بھی کچھ صبر آجاتا ہے، لیکن یہ کیسا جان لیوا امتحان تھا، کبھی ختم نہ ہونے والے صدموں کا بوجھ اٹھائے موسم سرما کی سرد ہواؤں میں بیٹھنے پر مجبور کردیئے گئے۔ مولانا طاہر القادری نے غلط تو نہیں کہا کہ یزیدیت کا تختہ الٹ دیں گے۔ دوسرا بڑا اور قومی واقعہ کچھ اس طرح تھا کہ 13 تاریخ کو لانگ مارچ کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں اور لانگ مارچ کے شرکاء اپنے قائد طاہر القادری کی قیادت میں وعدے کے مطابق لاہور سے روانہ ہوگئے۔ ایک طرف قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا تو دوسری طرف سانحہ کوئٹہ کے بارے میں اسلم رئیسانی کے بیانات نے مزید پریشانی پیدا کی۔
انھوں نے کہا کہ کروڑوں کی آبادی میں اگر اتنے لوگ مرگئے تو کیا ہوا؟ میں ٹرک بھر کر ٹشو پیپر بھیج دوں گا۔ واہ! طاقت کا بھی کیا نشہ ہے، انسان کو ہوش نہیں رہتا ہے اور وہ دو گز کی قبر بھی بھول جاتا ہے۔ وقت گزر جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ ہزاروں تلخ یادیں اور خونی داستانیں الفاظ کی شکل میں چھوڑ جاتا ہے۔ ایک طرف سانحہ کوئٹہ کا غم ، تو دوسری طرف پاکستان میں تبدیلی آنے کے امکانات نظر آرہے تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی پرجوش تقریر کے دوران وزیر اعظم کی گرفتاری کی خبر آگئی۔ رینٹل پاور کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت 16 ملزمان کو گرفتار کرکے عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔ یقیناً یہ جماعت منہاج القرآن کی بہت بڑی کامیابی تھی لہٰذا اسی موقعے پر جناب طاہر القادری نے اپنی تقریر کو ختم کیا اور دوسرے دن کے لیے بقیہ نکات اٹھاکر رکھ دیئے۔ طاہر القادری نے دوسری جماعتوں کی طرح تحریک انصاف کو بھی دعوت دی۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان لانگ مارچ میں شریک ہوجائیں، عمران خان نے ملک کی بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں صدر کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوری انتخابات اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔ عمران خان نے حکومت کو 7 نکاتی ایجنڈا بھی پیش کردیا، ساتھ میں اپنے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مارچ کی تیاری کریں، انھوں نے کہا کہ وہ طاہرالقادری کی باتوں کی مکمل سپورٹ کرتے ہیں اور تبدیلی عوام کے ووٹوں سے آنی چاہیے۔ انھوں نے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا بھی فیصلہ سنا دیا۔ پھر خدا خدا کرکے دھرنا ختم ہوا۔
تاہم ایک طرف ملک کے حالات بے حد نازک دور میں داخل ہوچکے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نئے سرے سے پاکستان کی تعمیر ہو رہی ہے، کل مقابلہ غیروں سے تھا آج ملک آزاد کرانے کے لیے اپنوں ہی سے سامنا ہے۔ یہ یقینا ایک بہت بڑا قومی المیہ ہے اور دوسری طرف ہمارا پڑوسی ملک جو کبھی ہمارا دوست نہیں تھا حملے بھی کر رہا ہے اور بڑے پیمانے پر جنگ کرنے کی بات بڑی بے باکی سے کر رہا ہے۔ ان لوگوں میں مروت ڈھونڈنا حماقت کے سوا کچھ نہیں، فوراً نگاہ بدل لیتے ہیں ۔ آج کل کی ہی خبر کے مطابق بھارتی اپوزیشن ایل اوسی پر کشیدگی کے بعد جنگ کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ایل کے ایڈوانی نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ پاکستان کئی بار سرحدی دراندازی کا مرتکب ہوچکا ہے اس کے ساتھ لین دین یا معاہدے نہ کیے جائیں۔
آئے دن ہندوستان کی سرحد سے پاکستانی افواج اور نہتے شہریوں پر فائرنگ کی جاتی ہے اور اگر جواباً فائرنگ کی جائے تب وہ مزید خودسر ہوجاتے ہیں، ان کا معاملہ تو ہے ہی یہ کہ ''آبیل مجھے مار''۔ ہندوستان پاکستان کو کمزور کرنے، اس کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے کمربستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کنٹرول لائن پر جب چوکی نشانہ بنی تب بھارت نے پاکستان کے کہنے پر اقوام متحدہ سے تحقیقات کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنا اس کا شیوہ ہے۔
موجودہ دور حکومت میں ملک مکمل طور پر انارکی میں مبتلا ہوگیا ہے، جس کا جو دل چاہا اس نے کیا۔ حکمرانوں کو نہ اپنے ملک سے کبھی محبت تھی اور نہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیرملکی طاقتیں سر اٹھاتی رہتی ہیں، کبھی ہمارے فوجیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اورکبھی عام شہریوں کو مارا جاتا ہے۔ ان تمام معاملات میں پاک فوج کا کردار شاندار رہا ہے۔ لیکن افسوس ان کی خدمات سے وہ فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے جو اٹھانا چاہیے۔ پاکستانی اہل اقتدار کی اپنے ملک سے غفلت کی انتہا ہوچکی ہے۔ اس حوالے سے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ حالیہ ڈرون حملوں میں تیزی پر اب پاکستانی حکومت عوامی سطح پر احتجاج نہیں کرتی ہے۔ ڈرون حملوں میں سویلین ہلاکتیں 2012 کی مجموعی شہری ہلاکتوں سے زیادہ ہیں۔ ہماری حکومت اور اعلیٰ حضرات کی بے حسی کا یہ عالم ہے ، اب صورتحال یہ ہے کہ صاحب اقتدار حقیقی معنوں میں پریشان نظر آتے ہیں۔
عوام کو جو اصل مسئلہ درپیش ہے وہ ہے انفرادی و اجتماعی تحفظ کا، معاشی مسائل اپنی جگہ ہیں، گیس و بجلی کی عدم فراہمی، بے روزگاری و ناانصافی نے تو ویسے ہی انسان کو جیتے جی مار دیا تھا۔ ادھ موئے انسانوں کو پورا مارنے کا ٹھیکا دہشت گردوں نے اٹھا لیا ہے۔ اب ان حالات میں ایک ہی آخری حل بچا تھا کہ دھرنے دے کر حکومت کی توجہ عوام کی موت و زندگی کی طرف مبذول کرائی جائے۔
آفرین تھی ان معصوم بچوں، مرد و خواتین اور بزرگ شہریوں پر جو پانچ روز سے ملک کے استحکام کے لیے ہر طرح سے قربانی دینے کے لیے تیار رہے۔ اسلام آباد کی سرد ہواؤں میں وہ خیموں میں رہنے پر مجبور تھیں، معاملہ ایک دو کا نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں کا تھا ۔ تاحد نگاہ انسان ہی انسان تھے ، حکمراں ان واقعات کے حوالے سے آئین اور جمہوریت کی باتیں کرتے رہے ، تو عرض یہ ہے کہ اس ملک میں سالہا سال سے نہ آئین کی بالادستی ہے اور نہ جمہوریت کی۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں ہر روز ہلاکتیں ہوتی ہیں،اب ایک رکن اسمبلی قتل ہوئے ۔حالات کچھ بھی ہوں مگر ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری اپنی جگہ ہے، بے شمار جرائم خوب پھل پھول چکے ہیں، اگر قانون اور جمہوریت ہوتی تو اس قدر سنگین حالات ملک میں ہرگز نہ ہوتے۔ اب بھی لوگ اپنے ضمیر کی عدالت میں اپنا احتساب کرسکتے ہیں، اگر مثبت سوچ پیدا ہوجائے تو یقینا بہتری کی سبیل نکل آئے گی اور پاکستان کی بقا اور عوام کی بہبود کے لیے سر جوڑ کر بیٹھا جا سکتا ہے کہ یہ وقت کا تقاضا ہے۔ اس طرح تیرہ کی نحوست میں آنے سے بچا جاسکتا ہے، یہ سال پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا سال بن سکتا ہے۔
'' تیرہ'' کے ہندسے کو توہم پرست لوگوں کی نظر میں اچھے معنوں میں ہرگز نہیں لیا جاتا ،اسلامی حوالے سے کوئی دن اور تاریخ بری نہیں ہے،اس کے لغوی معنی پریشانی اوردکھ کے ہیں، اس سال کی ابتداء کچھ اسی طرح ہوئی ہے، بڑے بڑے سانحات اور واقعات منظرعام پر آئے ہیں،پاکستان کی قسمت کا فیصلہ بھی ہونے جا رہا ہے، دیکھیں ہوتا کیا ہے؟
دسمبر گزرگیا اور ماہ جنوری شروع ہی ہوا تھا اور پہلا عشرہ اختتام پذیر ہواجاتا تھا، جنوری کی 10 تاریخ تھی، سردی کے دن تھے، سورج غروب ہونے میں ابھی وقت باقی تھا کہ زندگیوں کے چراغوں کو گل کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے کئی دھماکے ہوئے اور پھر چند گھنٹوں بعد رات 9 بجے کے قریب ایئر پورٹ کو جانے والے علمدار روڈ پر دو دھماکے مزید کیے گئے، جس کے نتیجے میں کوئٹہ اور مینگورہ خون میں نہا گیا۔
120 سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے اور تین سو کے قریب زخمی، ان دو دھماکوں میں ایس پی، ڈی ایس پی، 5 اہلکار، ٹی وی کیمرہ مین سمیت بہت سی قیمتی جانوں کا زیاں ہوا، پھر یہ دردناک کہانی ادھر ہی انجام کو نہیں پہنچی بلکہ اس وقت اس کہانی نے ایک ایسا رخ اختیار کیا جسے سن کر اور دیکھ کر ہر صاحب دل، صاحب اولاد خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجائے۔ مرنے والوں کے ورثاء نے احتجاج کا انوکھا طریقہ نکالا گوکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات جنم لیتے رہے ہیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اپنے پیاروں کی میتوں کے ساتھ دھرنا دیا گیا ہے۔ یہاں پر بھی مرنے والوں کے لواحقین نے ایک ساتھ 86 لاشوں کے ساتھ احتجاج کیا۔
کوئٹہ کے بعد پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی دھرنے دیے گئے،علمدار روڈ پر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں نے علمدار روڈ سے آئی جی پولیس کے دفتر تک مارچ کیا اور تین دن گزر جانے کے باوجود لاشوں کی تدفین عمل میں نہیں آئی۔ لواحقین فوج کا مطالبہ کرتے رہے، فوج تو نہیں آئی البتہ گورنر راج ضرور نافذ کردیا گیا۔ اس طرح 13 جنوری کو تدفین عمل میں آسکی، اتنا المناک واقعہ، سردی اور برف باری کا زمانہ، معصوم بچے اور مرد و خواتین بلا تعصب و مذہب شامل ہوتے سڑکوں پر دھرنے کی شکل میں بیٹھے رہے اور مختلف عقیدے سے تعلق رکھنے والے بھی حکومت وقت کو بالکل بھی رحم نہیں آیا کہ وہ بروقت جائیں لواحقین کو تسلی دیں اور آیندہ ایسا خونی واقعہ نہ ہونے کی یقین دہانی کراتے تو شاید لاشوں کی اتنی بے حرمتی ہرگز نہ ہوتی چونکہ بحیثیت مسلمان ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ غسل اور تجہیزوتکفین کے بعد جس قدر ممکن ہو جلد سے جلد دفنا دیا جائے۔
اس طرح ورثاء کو بھی کچھ صبر آجاتا ہے، لیکن یہ کیسا جان لیوا امتحان تھا، کبھی ختم نہ ہونے والے صدموں کا بوجھ اٹھائے موسم سرما کی سرد ہواؤں میں بیٹھنے پر مجبور کردیئے گئے۔ مولانا طاہر القادری نے غلط تو نہیں کہا کہ یزیدیت کا تختہ الٹ دیں گے۔ دوسرا بڑا اور قومی واقعہ کچھ اس طرح تھا کہ 13 تاریخ کو لانگ مارچ کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں اور لانگ مارچ کے شرکاء اپنے قائد طاہر القادری کی قیادت میں وعدے کے مطابق لاہور سے روانہ ہوگئے۔ ایک طرف قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا تو دوسری طرف سانحہ کوئٹہ کے بارے میں اسلم رئیسانی کے بیانات نے مزید پریشانی پیدا کی۔
انھوں نے کہا کہ کروڑوں کی آبادی میں اگر اتنے لوگ مرگئے تو کیا ہوا؟ میں ٹرک بھر کر ٹشو پیپر بھیج دوں گا۔ واہ! طاقت کا بھی کیا نشہ ہے، انسان کو ہوش نہیں رہتا ہے اور وہ دو گز کی قبر بھی بھول جاتا ہے۔ وقت گزر جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ ہزاروں تلخ یادیں اور خونی داستانیں الفاظ کی شکل میں چھوڑ جاتا ہے۔ ایک طرف سانحہ کوئٹہ کا غم ، تو دوسری طرف پاکستان میں تبدیلی آنے کے امکانات نظر آرہے تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی پرجوش تقریر کے دوران وزیر اعظم کی گرفتاری کی خبر آگئی۔ رینٹل پاور کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت 16 ملزمان کو گرفتار کرکے عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔ یقیناً یہ جماعت منہاج القرآن کی بہت بڑی کامیابی تھی لہٰذا اسی موقعے پر جناب طاہر القادری نے اپنی تقریر کو ختم کیا اور دوسرے دن کے لیے بقیہ نکات اٹھاکر رکھ دیئے۔ طاہر القادری نے دوسری جماعتوں کی طرح تحریک انصاف کو بھی دعوت دی۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان لانگ مارچ میں شریک ہوجائیں، عمران خان نے ملک کی بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں صدر کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوری انتخابات اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔ عمران خان نے حکومت کو 7 نکاتی ایجنڈا بھی پیش کردیا، ساتھ میں اپنے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مارچ کی تیاری کریں، انھوں نے کہا کہ وہ طاہرالقادری کی باتوں کی مکمل سپورٹ کرتے ہیں اور تبدیلی عوام کے ووٹوں سے آنی چاہیے۔ انھوں نے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا بھی فیصلہ سنا دیا۔ پھر خدا خدا کرکے دھرنا ختم ہوا۔
تاہم ایک طرف ملک کے حالات بے حد نازک دور میں داخل ہوچکے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نئے سرے سے پاکستان کی تعمیر ہو رہی ہے، کل مقابلہ غیروں سے تھا آج ملک آزاد کرانے کے لیے اپنوں ہی سے سامنا ہے۔ یہ یقینا ایک بہت بڑا قومی المیہ ہے اور دوسری طرف ہمارا پڑوسی ملک جو کبھی ہمارا دوست نہیں تھا حملے بھی کر رہا ہے اور بڑے پیمانے پر جنگ کرنے کی بات بڑی بے باکی سے کر رہا ہے۔ ان لوگوں میں مروت ڈھونڈنا حماقت کے سوا کچھ نہیں، فوراً نگاہ بدل لیتے ہیں ۔ آج کل کی ہی خبر کے مطابق بھارتی اپوزیشن ایل اوسی پر کشیدگی کے بعد جنگ کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ایل کے ایڈوانی نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ پاکستان کئی بار سرحدی دراندازی کا مرتکب ہوچکا ہے اس کے ساتھ لین دین یا معاہدے نہ کیے جائیں۔
آئے دن ہندوستان کی سرحد سے پاکستانی افواج اور نہتے شہریوں پر فائرنگ کی جاتی ہے اور اگر جواباً فائرنگ کی جائے تب وہ مزید خودسر ہوجاتے ہیں، ان کا معاملہ تو ہے ہی یہ کہ ''آبیل مجھے مار''۔ ہندوستان پاکستان کو کمزور کرنے، اس کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے کمربستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کنٹرول لائن پر جب چوکی نشانہ بنی تب بھارت نے پاکستان کے کہنے پر اقوام متحدہ سے تحقیقات کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنا اس کا شیوہ ہے۔
موجودہ دور حکومت میں ملک مکمل طور پر انارکی میں مبتلا ہوگیا ہے، جس کا جو دل چاہا اس نے کیا۔ حکمرانوں کو نہ اپنے ملک سے کبھی محبت تھی اور نہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیرملکی طاقتیں سر اٹھاتی رہتی ہیں، کبھی ہمارے فوجیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اورکبھی عام شہریوں کو مارا جاتا ہے۔ ان تمام معاملات میں پاک فوج کا کردار شاندار رہا ہے۔ لیکن افسوس ان کی خدمات سے وہ فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے جو اٹھانا چاہیے۔ پاکستانی اہل اقتدار کی اپنے ملک سے غفلت کی انتہا ہوچکی ہے۔ اس حوالے سے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ حالیہ ڈرون حملوں میں تیزی پر اب پاکستانی حکومت عوامی سطح پر احتجاج نہیں کرتی ہے۔ ڈرون حملوں میں سویلین ہلاکتیں 2012 کی مجموعی شہری ہلاکتوں سے زیادہ ہیں۔ ہماری حکومت اور اعلیٰ حضرات کی بے حسی کا یہ عالم ہے ، اب صورتحال یہ ہے کہ صاحب اقتدار حقیقی معنوں میں پریشان نظر آتے ہیں۔
عوام کو جو اصل مسئلہ درپیش ہے وہ ہے انفرادی و اجتماعی تحفظ کا، معاشی مسائل اپنی جگہ ہیں، گیس و بجلی کی عدم فراہمی، بے روزگاری و ناانصافی نے تو ویسے ہی انسان کو جیتے جی مار دیا تھا۔ ادھ موئے انسانوں کو پورا مارنے کا ٹھیکا دہشت گردوں نے اٹھا لیا ہے۔ اب ان حالات میں ایک ہی آخری حل بچا تھا کہ دھرنے دے کر حکومت کی توجہ عوام کی موت و زندگی کی طرف مبذول کرائی جائے۔
آفرین تھی ان معصوم بچوں، مرد و خواتین اور بزرگ شہریوں پر جو پانچ روز سے ملک کے استحکام کے لیے ہر طرح سے قربانی دینے کے لیے تیار رہے۔ اسلام آباد کی سرد ہواؤں میں وہ خیموں میں رہنے پر مجبور تھیں، معاملہ ایک دو کا نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں کا تھا ۔ تاحد نگاہ انسان ہی انسان تھے ، حکمراں ان واقعات کے حوالے سے آئین اور جمہوریت کی باتیں کرتے رہے ، تو عرض یہ ہے کہ اس ملک میں سالہا سال سے نہ آئین کی بالادستی ہے اور نہ جمہوریت کی۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں ہر روز ہلاکتیں ہوتی ہیں،اب ایک رکن اسمبلی قتل ہوئے ۔حالات کچھ بھی ہوں مگر ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری اپنی جگہ ہے، بے شمار جرائم خوب پھل پھول چکے ہیں، اگر قانون اور جمہوریت ہوتی تو اس قدر سنگین حالات ملک میں ہرگز نہ ہوتے۔ اب بھی لوگ اپنے ضمیر کی عدالت میں اپنا احتساب کرسکتے ہیں، اگر مثبت سوچ پیدا ہوجائے تو یقینا بہتری کی سبیل نکل آئے گی اور پاکستان کی بقا اور عوام کی بہبود کے لیے سر جوڑ کر بیٹھا جا سکتا ہے کہ یہ وقت کا تقاضا ہے۔ اس طرح تیرہ کی نحوست میں آنے سے بچا جاسکتا ہے، یہ سال پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا سال بن سکتا ہے۔