عدلیہ کا فیصلہ… چیلنج ویک اپ کال

کسی کو کلین چٹ نہیں ملی، ابھی ایک اور شفاف تحقیقاتی چھلنی کے دریا سے گزرنے کا مرحلہ باقی ہے۔

کسی کو کلین چٹ نہیں ملی، ابھی ایک اور شفاف تحقیقاتی چھلنی کے دریا سے گزرنے کا مرحلہ باقی ہے۔ فوٹو؛ فائل

پاناما کیس کا عدالتی فیصلہ آنے کے بعد دو بنیادی باتوں پر اتفاق رائے کی ضرورت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو، اول سیاسی دانش ، رواداری ، جمہوری رویے پر مبنی اصولی سیاسی جدوجہد اور دوسرا عدلیہ کے فیصلہ کو متنازع بنانے سے گریز پر مشترکہ سیاسی میثاق کی رضاکارانہ توثیق ۔ تاکہ پاناما لیکس کیس کی قانونی جنگ کے بعد جو ابھی ختم نہیں ہوئی،کسی قسم کا سیاسی خلفشارجنم نہ لے ، کشیدگی ماضی کے دھرنوں ، ہڑتالوں اور شہر بند کرنے کی کارروائیوں تک نہ پہنچے، اس اضطراب ، برہمی ، محاذ آرائی اور شو ڈاؤن سے جمہوری عمل کو جتنا نقصان پہنچے گا جب کہ جمہوریت کے دونوں پہیے اپنا ذمے دارانہ سفر جاری رکھ سکیں گے۔

تاریخ کے اوراق قوموں کے دشوار ترین اور کامیاب و قابل تقلید سیاسی سفر کے اتار چڑھاؤ کی داستانوں سے بھرے ہوئے ہیں، ملکی سیاسی تاریخ کے کئی اہم سیاسی مقدمات بطور نظائر و حوالہ پیش کیے جاتے ہیں، لیکن دوسری طرف منظر نامہ مایوس کن نظر آیا، جمعہ کو اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں شدید ہنگامہ کرتے ہوئے وزیراعظم سے تحقیقات مکمل ہونے تک استعفیٰ دینے کا مطالبہ کردیا جب کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں سپریم کورٹ کی طرف سے اعلان کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو مسترد کیا گیا۔

عمران خان اور دیگر اپوزیشن ارکان نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شرکت کی۔ ہنگامہ آرائی کے بعد قائم مقام اسپیکر نے 22 منٹ تک چلنے والا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا جب کہ سینیٹ کا اجلاس چیئرمین رضا ربانی کی صدارت میں ہوا اس میں بھی اپوزیشن ارکان نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شرکت کی۔

نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کا استعفیٰ اپوزیشن کا مشترکہ مطالبہ ہے، اس موقع پر پختونخوا میپ، نیشنل پارٹی، ایم کیوایم اور فاٹا کے ارکان نے وزیراعظم کے خلاف احتجاج میں حصہ نہیں لیا ، سینٹ کا بھی اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا ۔ ادھر سندھ و بلوچستان اسمبلیوں میں وزیراعظم کے خلاف اور حق میں قراردادیں منظور ہوئیں۔ایک دوسرے کو شرم دلانے کا مقابلہ جاری ہے۔

آج ملکی سیاست اور ریاست ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے، مان لیا کہ ملک کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے لیے موجودہ صورتحال آئیڈیل نہیں، وہ شفاف طرز حکمرانی کے لیے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کے مجاز ہی نہیں بلکہ اس کا قانونی و جمہوری حق رکھتے ہیں لیکن سوال اس وقت ملکی سالمیت کے تحفظ، آزاد عدلیہ کے دییے گئے فیصلہ، اس کے وقار، قانون و سیاسی عمل کے تسلسل ، سیاسی اختلاف میں تحمل، جمہوریت کی بقا اور ملک میں رائج عدم برداشت کے خاتمہ کا ہے جس کی وجہ سے آج تک معاشرہ اپنی تہذیبی شناخت، مذہبی رواداری ، خرد افروزی سے متصف ہوا اور نہ روادارانہ، مصالحانہ کشادی نظری کبھی جمہوری رویوں سے بغلگیر ہوئی۔


کیا اس بات میں کسی کو کوئی شک ہے کہ سیاسی قائدین، ان کے لاکھوںکارکن ، دانشور طبقہ اور پوری سول سوسائٹی عدالت عظمیٰ کے تفصیلی فیصلہ کے اہم اور چشم کشا نکات سے رفتہ رفتہ آگہی کے مرحلہ سے گزر رہی ہے، پاناما کیس کا فیصلہ ہم سب کے لیے ایک چیلنج اور ویک اپ کال ہے ، جسے سنائے جانے سے پہلے عدلیہ کے اندر اور اس کی چاردیوری سے باہر جب کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے بطن سے یہ صدائیں بلند ہوتی رہیں کہ سب کو عدالت عظمیٰ کا ہر فیصلہ قبول ہے۔ تو اب جے آئی ٹی مسترد کیوں؟

کوشش ہونی چاہیے کہ عدلیہ کی ہدایت کے مطابق تحقیقاتی ٹیم اپنی ذمے داری سے عہدہ برآ ہو،کوئی ابہام یا شک ہو تو جے آئی ٹی کی کارروائی کو بھی سیاسی عقابی نظروں سے دور نہیں رکھا جاسکتا، تحقیقاتی ٹیم پر شفاف تفتیش کی نگرانی فاضل ججوں نے اپنے ذمے لی ہے، التجا صرف یہی ہے کہ سیاسی کشمکش سے کوئی پنڈورا باکس کھلنے کا خدشہ سر نہ اٹھائے اور نہ عدلیہ کے حکمنامہ کی تحقیر کا کوئی پہلو اجاگر ہو، جے آئی ٹی سے پہلے پاناما کیس کی تفتیش کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیے جانے کی تجویز سیاسی سطح پر رد کی گئی تھی۔

آج سیاسی جماعتوں کی قیادت آزاد ہے کہ گریٹر سیاسی اتحاد بنائے، مگر قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے، پاناما کیس کے فیصلہ نے کیس کے مدعیان اور مدعا علیہان کو جوابدہی ، خود احتسابی ، منطق ، دانش اور وژن سے رجوع کرنے پر مجبور کیا ہے، سیاسی موسم خشک اور گرم ہونے کے باوجود صاحبان سیاست و اقتدار سے افہام و تفہیم ، تدبر و حکمت کی فرمائش وقت کی ضرورت ہے، قانونی ماہرین کے مطابق وزیراعظم اور ان کے بچے بری نہیں ہوئے، کسی کو کلین چٹ نہیں ملی، ابھی ایک اور شفاف تحقیقاتی چھلنی کے دریا سے گزرنے کا مرحلہ باقی ہے۔

جے آئی ٹی بنانے کے لیے سپریم کورٹ نے نام مانگ لیے ہیں، اگرچہ فیصلہ کے بادی النظر میں ایک سیاسی ہلچل کی توقع یا امکانات بعید از قیاس نہیں ہوسکتے ، مگر قانونی اور سماجی حلقوں نے فیصلے کے مضمرات اور ان کے قانونی پہلوؤں پر صحت مند بحث ومباحثہ کی ضرورت سے انکار کبھی نہیں کیا ، اس لیے کہ جمہوریت تو نام ہی اختلاف رائے کے حسن کا ہے جب کہ وقت پندار جمہوریت کا بھرم رکھنے کا ہے۔

 
Load Next Story