ایران اور فرانس میں صدارتی انتخابی مہم کا آغاز
فرانس کے موجودہ صدر ہولینڈے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے۔
ایک طرف ایران اور دوسری طرف فرانس میں صدارتی انتخابات کے لیے انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے۔ یہ دونوں ملک پاکستان کی خارجہ پالیسی میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایرانی انتخاب کی نمایاں بات یہ ہے کہ وہاں سابق صدر احمدی نژاد کو بطور امیدوار شمولیت کی اجازت نہیں دی گئی۔
بہرحال یہ ایران کا اپنا معاملہ ہے کہ کس کو صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ملتی ہے اور کس کو نہیں ملتی، میڈیا کے مطابق ایران کے صدارتی انتخابات میں چھ امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں مصطفیٰ میر سلیم، حامد باغائی، اسحاق جہانگیری، ابراہیم رئیسی اور حسن روحانی شامل ہیں۔ 56 سالہ ابراہیم رئیسی سابق جج ہیں جن کے بارے میں توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ملک میں عدلیہ کے نظام میں اہم اصلاحات کر سکیں گے۔ ادھر فرانس میں بھی صدارتی انتخابی مہم شروع ہو رہی ہے۔
فرانس کے موجودہ صدر ہولینڈے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے۔ فرانس کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ برسراقتدار صدر الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا۔ فرانس کی صدارت کی دوڑ میں فرانکوئس فلن، عمانویل میکرون، مارین لی پن، بینٹ ہامون اور جان لک میلینچ شامل ہیں۔ فرانسی الیکشن میں دہشت گردی کے خطرات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے صدارتی امیدواروں کی حفاظت کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ وہاں جمعرا ت کے دن ایک شخص کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا جس سے ملک بھر میں سراسیمگی پھیل گئی۔
فائرنگ کا واقعہ دارالحکومت پیرس کے سب سے بارونق مقام شانزے لیزے میں پیش آیا تاہم پولیس وین نے تعاقب کر کے حملہ آور کو بھی ہلاک کر دیا۔ حکام کا خیال ہے کہ انتخابات کے دوران دہشت گردی کے مزید واقعات پیش آ سکتے ہیں لہٰذا حفاظتی انتظامات کو مزید سخت کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ ان دونوں غیرملکی انتخابات کا حوالہ دینے کی ضرورت اس بناء پر پیش آئی کہ پاکستان کو اس امر کا پیشگی دھیان رکھنا چاہیے کہ وہاں پر بننے والی نئی حکومت میں کون لوگ شامل ہوں گے اور ان کے ساتھ کس طرح کے مراسم استوار کیے جانے چاہئیں جو وطن عزیز کے لیے سود مند اور مفید ثابت ہوں۔
فرانس اور ایران دونوں پاکستان کے لیے خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہاں جب سربراہان کی تبدیلی ہو گی تو یقیناً ان دونوں ملکوں کی پالیسی میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو ایران اور فرانس میں ہونے والے الیکشن پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور صدارتی امیدواروں کے خیالات، نظریات اور رجحانات کی بھی گہری اسٹڈی کرنی چاہیے۔
بہرحال یہ ایران کا اپنا معاملہ ہے کہ کس کو صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ملتی ہے اور کس کو نہیں ملتی، میڈیا کے مطابق ایران کے صدارتی انتخابات میں چھ امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں مصطفیٰ میر سلیم، حامد باغائی، اسحاق جہانگیری، ابراہیم رئیسی اور حسن روحانی شامل ہیں۔ 56 سالہ ابراہیم رئیسی سابق جج ہیں جن کے بارے میں توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ملک میں عدلیہ کے نظام میں اہم اصلاحات کر سکیں گے۔ ادھر فرانس میں بھی صدارتی انتخابی مہم شروع ہو رہی ہے۔
فرانس کے موجودہ صدر ہولینڈے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے۔ فرانس کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ برسراقتدار صدر الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا۔ فرانس کی صدارت کی دوڑ میں فرانکوئس فلن، عمانویل میکرون، مارین لی پن، بینٹ ہامون اور جان لک میلینچ شامل ہیں۔ فرانسی الیکشن میں دہشت گردی کے خطرات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے صدارتی امیدواروں کی حفاظت کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ وہاں جمعرا ت کے دن ایک شخص کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا جس سے ملک بھر میں سراسیمگی پھیل گئی۔
فائرنگ کا واقعہ دارالحکومت پیرس کے سب سے بارونق مقام شانزے لیزے میں پیش آیا تاہم پولیس وین نے تعاقب کر کے حملہ آور کو بھی ہلاک کر دیا۔ حکام کا خیال ہے کہ انتخابات کے دوران دہشت گردی کے مزید واقعات پیش آ سکتے ہیں لہٰذا حفاظتی انتظامات کو مزید سخت کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ ان دونوں غیرملکی انتخابات کا حوالہ دینے کی ضرورت اس بناء پر پیش آئی کہ پاکستان کو اس امر کا پیشگی دھیان رکھنا چاہیے کہ وہاں پر بننے والی نئی حکومت میں کون لوگ شامل ہوں گے اور ان کے ساتھ کس طرح کے مراسم استوار کیے جانے چاہئیں جو وطن عزیز کے لیے سود مند اور مفید ثابت ہوں۔
فرانس اور ایران دونوں پاکستان کے لیے خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہاں جب سربراہان کی تبدیلی ہو گی تو یقیناً ان دونوں ملکوں کی پالیسی میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو ایران اور فرانس میں ہونے والے الیکشن پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور صدارتی امیدواروں کے خیالات، نظریات اور رجحانات کی بھی گہری اسٹڈی کرنی چاہیے۔