ماں بے چاری کیا کرے
جرم کرنے والے کا جرم دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے مگر اسے ’’ قرار واقعی ‘‘ سزا دینے کا وعدہ کبھی وفا نہیں ہوتا۔
ہر ماں اپنے آرام کو تج کر، اپنی نیند اور سکون کو قربان کر کے اولاد کو پالتی ہے۔ اسے بیماری اور تکلیف میں دیکھ کر بے چین ہو جاتی ہے، اس کی جان کو خطرہ لا حق ہو تو اپنی جان پر کھیل کراسے بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر ماں ، خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے سے ہو، اپنی اولاد کے مستقبل کے حوالے سے خواب بنتی ہے اور اپنے خوابوں میں حقیقت کا رنگ دیکھنے کی آس میں جیتی ہے۔
اپنے بچے کی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی بھی ماں کے لیے بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ بچے کی ہر ہر حرکت پر صدقے واری جاتی ماں... اس کی پہلی مسکراہٹ ، پہلا بولا گیا لفظ، پہلی بار کب بیٹھا اور کب کھڑا ہوا، پہلا قدم کس دن اٹھایا، وہ قدم جو پہلی بار اٹھا تھا تو ماں باپ کی مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس کے بعد اس کا ہر قدم یوں اٹھنا ہوتا ہے کہ ایک روز وہ اپنے ماں باپ سے قدم قدم دور ہوتا جاتا ہے ۔ ہر قدم پر وہ اسے کہتی ہے، '' سنبھل کر بیٹا!''
اس کی عملی زندگی کا ہر سنگ میل اس کے ماں باپ کے لیے اہم ہوتا ہے، سکول میں اس کا پہلا دن، اس کی پہلی کلاس، اس کا پہلا سبق، پہلا دوست، کھیل کے مقابلے میں اس کی پہلی جیت... تقریری مقابلوںمیں اس کی شعلہ بیانی، پہلی کلاس میں اس کی کوئی پوزیشن... ماں کا سیروں خون بڑھتا ہے، جہاں اس کی کامیابیاں اس کا خون بڑھاتی ہیں وہیں اس کی ذرا سی تکلیف پر بھی وہ تڑپ اٹھتی ہے۔ پہلی کے بعد دوسری ، تیسری کلاس اوریونہی ایک ختم نہ ہونے والے سلسلے کا تسلسل۔
اسکول میں تعلیمی مراحل طے کرتا ہے تو اگلی منزل کی طرف رواں ہوتا ہے۔ کالج کے چار سال، ایک نئی دنیا، ایک وسیع کینوس، سخت مقابلہ، زندگی کے واضح ہوتے ہوئے نت نئے رنگ... حصول علم تو ایک اہم کام ہے ہی مگر اب اس کی کئی اور پوشیدہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ بچہ دنیا کے سمندر میں اترتا ہے تو ماں دل ہی دل میں اس کی سلامتی کے لیے ہر وقت دعا گو رہتی ہے۔
اسکول اور کالج کے بعد بچہ کتنا بدل جاتا ہے... ماں باپ کو ہی اپنی اولاد مختلف لگنے لگتی ہے، یونیورسٹی پہنچتا ہے تو اس میں پختگی پیدا ہو چکی ہوتی ہے، ماں باپ کسی حد تک اس سے بے فکر ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنا خیال رکھنے کے قابل ہو چکا ہے۔ اب اس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کی پرداخت ہو رہی ہوتی ہے، اسے اپنا خیال آپ رکھنا آ جاتا ہے، مگر نہیں... ایسا نہیں ہوتا، ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا!!!
کبھی کبھار معصوم سوچ رکھنے والے سیدھے سادے نوجوان، ماں باپ کے پلے پلائے بیٹے، کسی کا برا نہ چاہتے ہوئے بھی، کسی غلط فہمی کی بنا پر، یاکسی ذرا سے قصور پر، ان لوگوں کی درندگی کا شکار ہو جاتے ہیں جن کی فطرت میں بربریت ہے۔ جو پڑھے لکھے جاہل ہیں، کوئی ادارہ، کوئی یونیورسٹی اور کوئی تعلیم ان کے اندر کی جہالت کے اندھیرے کو نہیں مٹا سکتی۔ میرے اس دھرتی ماں کے جواں سال سپوت... یوں تاریک راہوںمیں مارے جاتے ہیں کہ آج ایسی کوئی مثال دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی، جی ہاں !! کسی مہذب معاشرے میں!!! مائیں کیا کریں، جو ان بچوں کو اپنی کوکھ میں تو سہج سنبھال کر رکھ سکتی ہیں مگر اس ظالم دنیا کے سمندر کی لہروں کی اٹھا پٹخ میں وہ کچھ نہیں کر پاتیں۔ وہ مائیں تو رہتی ہی نہیں ہیں، قبریں بن جاتی ہیں، سوچتی ہوں گی کہ کاش میں نے اسے جنم ہی نہ دیا ہوتا ، اسے اس بے رحم دنیا میں آگے بڑھنے کو چھوڑا ہی نہ ہوتا۔
ہم کس دنیا میں، کس ملک میں اور کن حالات میں رہتے ہیں؟ ہم پوچھتے ہیں کہ باہر کی دنیا میں ہمارے ملک کو برا کیوں کہا جاتا ہے، کیا کچھ برا ہم نہیں کرتے جو سوشل میڈیا کے ذریعے چند لمحوں میں دنیا بھر میں پہنچ جاتا ہے، ایک حالیہ واقعہ مشال خان کے سفاکانہ قتل کا ہے۔ اس سے قبل کیا کبھی کچھ نہیں ہوا، کوئی بے گناہ پولیس کے ہاتھوں مارا جاتا ہے، کوئی دہشت گردوں کے ہاتھوں تو کوئی خاندانی دشمنیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اب سے سات سال قبل ہونے والا واقعہ، جس میں سیالکوٹ میں دو سگے بھائیوں کو پولیس کی موجودگی میں مار دیا گیا تھا ۔ آج تک دنیا اس واقعے کو نہیں بھولی، اس پر مستزاد ہر آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ ہماری ''نیک نامی '' میں اضافے کے لیے رونما ہو جاتا ہے۔
مشال کی زندگی کی شمع تو بجھ گئی ہے مگر اس کے لہو نے خوف کے وہ چراغ ماؤں کے دل میں جلا دیے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو یونیورسٹی بھجواتے ہوئے بھی سو بار سوچیں گی۔ باتوں کی حد تک حکومت بہت کچھ کرتی ہے مگر آج تک کسی معصوم کے قاتلوں کو سر عام لٹکایا نہیں گیا۔
جرم کرنے والے کا جرم دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے مگر اسے '' قرار واقعی '' سزا دینے کا وعدہ کبھی وفا نہیں ہوتا، سزا دے بھی کون سکتا ہے؟ وہ جو خود کسی نہ کسی طرح قانون کو جواب دہ ہیں اور قانون انھیں سزا نہیں دے پا رہا؟؟ جہاں عدل ناپید ہوجائے اس معاشرے کا توازن بگڑ جاتا ہے، ماضی میں ہر وہ قوم زوال کا شکار ہوئی ہے جہاں عدل اور انصاف عام آدمی کی پہنچ سے دور تھا اور حکمرانوں کی عیاشیاں عروج پر، مگر ہماری رسی اللہ تعالی نے ابھی تک درازکر رکھی ہے۔
یہ ہڈی بوٹی پر پلنے والے، تمہیں بھی جان سے عزیز تر ہیں
میں ان کے گورے نسب کا شجرہ کہیں ملا دوں تو کیا کرو گے
یتیم دھرتی کے قاتلوں سے، کوئی نہیں جو قصاص مانگے
میں اپنے بچوں کو درس دے کر ابھی لگا دوں تو کیا کرو گے
اے گونگے بہرو جیو گے کب تک، زمیں کے سینے پہ بوجھ بن کے
میں سارے ناگوں کے سب ٹھکانے تمہیں بتا دوں تو کیا کرو گے
یہ لکھنا پڑھنا ، یہ کہنا سننا، چلے گا کب تک خرد کے مارو
میں اپنی کاغذ کی دنیا ، ابھی جلا دوں تو کیا کرو گے
اگر طلب ہے تمہیں کہ دیکھو، وہ پہلے قطرے کا سولی چڑھنا
میں کوئے جاناں سے سوئے مقتل، قدم اٹھا دوں تو کیا کرو گے
تمہاری آنکھوں میں دم نہیں ہے، کہ سہہ سکیں وہ کوئی سویرا
میں شب کے سینے پہ مونگ دل کے، دیا جلا دوں تو کیا کرو گے
یہ سچ کا ہیضہ جسے ہوا ہے، وہ تم میں باقی کہاں رہا ہے
جو سو رہا ہے منافق عابی، اسے جگا دوں تو کیا کرو گے
( عابی مکھنوی)
ایک ماں ہونے کی حیثیت سے ایسا واقعہ میرا دل دہلا دیتا ہے... میرا بس نہیں چلتا کہ میں اپنے بچوں کو اپنے پروں میں سمیٹ کر بیٹھ جاؤں، اس بے رحم معاشرے میں کسی کے ساتھ میل جول بھی نہ رکھنے دوں ، انھیں گھر پر بٹھا کر رکھوں ، سکول نہ بھیجوں کہ کہیں وہ چھٹی جماعت تک پہنچتے پہنچتے کسی استانی کے عشق میں گرفتار ہو، اس کی طرف سے سرزنش کرنے پر خود اپنی زندگی کا خاتمہ نہ کر لے، کہیں ناکے پر نہ رکنے پر اسے گولی نہ مار دی جائے، ایک سستا سا فون چھینتے ہوئے احتجاج پر کوئی اسے گولی نہ مار دے، چوری کا جھوٹا الزام لگا کر اسے سڑکوں پر نہ گھسیٹا جائے۔ کسی بڑے آدمی کا بیٹا اپنی اکڑ میں اسے روند کر نہ چلا جائے اور پھر قانون کے شکنجے سے بچ نکلے اور اپنی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عزت سے اس ملک سے رخصت ہو جائے۔
اس کے تعلیمی ادارے میں مذہبی یا لسانی گروہ بندی ہو اور وہ کسی گروہ کے ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی بے گناہ مارا جائے۔ اسے گھر سے بھیجوں تو مجھے یہی خدشہ لگا رہے کہ کوئی اس کی ذرا سی بات پر بپھر کر اسے نقصان نہ پہنچا دے۔ ہم اللہ کے بعد خالق کے درجے پر فائز ہوتی ہیں، اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے پال پوس کر جوان کرتی ہیں اور ان کی سلامتی کے لیے دعا گو رہتی ہیں، مگر ہماری دعائیں عرش سے ٹکرا کر لوٹ آئیں، ہمارے دل ویران اور وجود بنجر ہو جائیں، جن سپوتوں کو ہم نے سالوں سینچا اور اپنے قد سے اونچا ہوتے ہوئے دیکھا ہے، انھیں یوں کسی کی بربریت کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھ کر مرنے سے بہتر نہیں کہ ہم مائیں ہی مر جائیں، ہم انھیں جنم ہی نہ دیں اور نہ ہی یہ دن دیکھیں جب ہمارے پیارے، ہمارے سامنے... یااللہ! تیرا آسمان کانپ اٹھتا ہے ایسی بربریت دیکھ، ہمارے حکمران کیوں نہیں کانپتے جنھیں ایک دن تیرے سامنے کھڑے ہو کر تیرے سوالوں کا جواب دینا ہوتا ہے ؟؟؟
اپنے بچے کی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی بھی ماں کے لیے بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ بچے کی ہر ہر حرکت پر صدقے واری جاتی ماں... اس کی پہلی مسکراہٹ ، پہلا بولا گیا لفظ، پہلی بار کب بیٹھا اور کب کھڑا ہوا، پہلا قدم کس دن اٹھایا، وہ قدم جو پہلی بار اٹھا تھا تو ماں باپ کی مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس کے بعد اس کا ہر قدم یوں اٹھنا ہوتا ہے کہ ایک روز وہ اپنے ماں باپ سے قدم قدم دور ہوتا جاتا ہے ۔ ہر قدم پر وہ اسے کہتی ہے، '' سنبھل کر بیٹا!''
اس کی عملی زندگی کا ہر سنگ میل اس کے ماں باپ کے لیے اہم ہوتا ہے، سکول میں اس کا پہلا دن، اس کی پہلی کلاس، اس کا پہلا سبق، پہلا دوست، کھیل کے مقابلے میں اس کی پہلی جیت... تقریری مقابلوںمیں اس کی شعلہ بیانی، پہلی کلاس میں اس کی کوئی پوزیشن... ماں کا سیروں خون بڑھتا ہے، جہاں اس کی کامیابیاں اس کا خون بڑھاتی ہیں وہیں اس کی ذرا سی تکلیف پر بھی وہ تڑپ اٹھتی ہے۔ پہلی کے بعد دوسری ، تیسری کلاس اوریونہی ایک ختم نہ ہونے والے سلسلے کا تسلسل۔
اسکول میں تعلیمی مراحل طے کرتا ہے تو اگلی منزل کی طرف رواں ہوتا ہے۔ کالج کے چار سال، ایک نئی دنیا، ایک وسیع کینوس، سخت مقابلہ، زندگی کے واضح ہوتے ہوئے نت نئے رنگ... حصول علم تو ایک اہم کام ہے ہی مگر اب اس کی کئی اور پوشیدہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ بچہ دنیا کے سمندر میں اترتا ہے تو ماں دل ہی دل میں اس کی سلامتی کے لیے ہر وقت دعا گو رہتی ہے۔
اسکول اور کالج کے بعد بچہ کتنا بدل جاتا ہے... ماں باپ کو ہی اپنی اولاد مختلف لگنے لگتی ہے، یونیورسٹی پہنچتا ہے تو اس میں پختگی پیدا ہو چکی ہوتی ہے، ماں باپ کسی حد تک اس سے بے فکر ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنا خیال رکھنے کے قابل ہو چکا ہے۔ اب اس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کی پرداخت ہو رہی ہوتی ہے، اسے اپنا خیال آپ رکھنا آ جاتا ہے، مگر نہیں... ایسا نہیں ہوتا، ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا!!!
کبھی کبھار معصوم سوچ رکھنے والے سیدھے سادے نوجوان، ماں باپ کے پلے پلائے بیٹے، کسی کا برا نہ چاہتے ہوئے بھی، کسی غلط فہمی کی بنا پر، یاکسی ذرا سے قصور پر، ان لوگوں کی درندگی کا شکار ہو جاتے ہیں جن کی فطرت میں بربریت ہے۔ جو پڑھے لکھے جاہل ہیں، کوئی ادارہ، کوئی یونیورسٹی اور کوئی تعلیم ان کے اندر کی جہالت کے اندھیرے کو نہیں مٹا سکتی۔ میرے اس دھرتی ماں کے جواں سال سپوت... یوں تاریک راہوںمیں مارے جاتے ہیں کہ آج ایسی کوئی مثال دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی، جی ہاں !! کسی مہذب معاشرے میں!!! مائیں کیا کریں، جو ان بچوں کو اپنی کوکھ میں تو سہج سنبھال کر رکھ سکتی ہیں مگر اس ظالم دنیا کے سمندر کی لہروں کی اٹھا پٹخ میں وہ کچھ نہیں کر پاتیں۔ وہ مائیں تو رہتی ہی نہیں ہیں، قبریں بن جاتی ہیں، سوچتی ہوں گی کہ کاش میں نے اسے جنم ہی نہ دیا ہوتا ، اسے اس بے رحم دنیا میں آگے بڑھنے کو چھوڑا ہی نہ ہوتا۔
ہم کس دنیا میں، کس ملک میں اور کن حالات میں رہتے ہیں؟ ہم پوچھتے ہیں کہ باہر کی دنیا میں ہمارے ملک کو برا کیوں کہا جاتا ہے، کیا کچھ برا ہم نہیں کرتے جو سوشل میڈیا کے ذریعے چند لمحوں میں دنیا بھر میں پہنچ جاتا ہے، ایک حالیہ واقعہ مشال خان کے سفاکانہ قتل کا ہے۔ اس سے قبل کیا کبھی کچھ نہیں ہوا، کوئی بے گناہ پولیس کے ہاتھوں مارا جاتا ہے، کوئی دہشت گردوں کے ہاتھوں تو کوئی خاندانی دشمنیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اب سے سات سال قبل ہونے والا واقعہ، جس میں سیالکوٹ میں دو سگے بھائیوں کو پولیس کی موجودگی میں مار دیا گیا تھا ۔ آج تک دنیا اس واقعے کو نہیں بھولی، اس پر مستزاد ہر آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ ہماری ''نیک نامی '' میں اضافے کے لیے رونما ہو جاتا ہے۔
مشال کی زندگی کی شمع تو بجھ گئی ہے مگر اس کے لہو نے خوف کے وہ چراغ ماؤں کے دل میں جلا دیے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو یونیورسٹی بھجواتے ہوئے بھی سو بار سوچیں گی۔ باتوں کی حد تک حکومت بہت کچھ کرتی ہے مگر آج تک کسی معصوم کے قاتلوں کو سر عام لٹکایا نہیں گیا۔
جرم کرنے والے کا جرم دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے مگر اسے '' قرار واقعی '' سزا دینے کا وعدہ کبھی وفا نہیں ہوتا، سزا دے بھی کون سکتا ہے؟ وہ جو خود کسی نہ کسی طرح قانون کو جواب دہ ہیں اور قانون انھیں سزا نہیں دے پا رہا؟؟ جہاں عدل ناپید ہوجائے اس معاشرے کا توازن بگڑ جاتا ہے، ماضی میں ہر وہ قوم زوال کا شکار ہوئی ہے جہاں عدل اور انصاف عام آدمی کی پہنچ سے دور تھا اور حکمرانوں کی عیاشیاں عروج پر، مگر ہماری رسی اللہ تعالی نے ابھی تک درازکر رکھی ہے۔
یہ ہڈی بوٹی پر پلنے والے، تمہیں بھی جان سے عزیز تر ہیں
میں ان کے گورے نسب کا شجرہ کہیں ملا دوں تو کیا کرو گے
یتیم دھرتی کے قاتلوں سے، کوئی نہیں جو قصاص مانگے
میں اپنے بچوں کو درس دے کر ابھی لگا دوں تو کیا کرو گے
اے گونگے بہرو جیو گے کب تک، زمیں کے سینے پہ بوجھ بن کے
میں سارے ناگوں کے سب ٹھکانے تمہیں بتا دوں تو کیا کرو گے
یہ لکھنا پڑھنا ، یہ کہنا سننا، چلے گا کب تک خرد کے مارو
میں اپنی کاغذ کی دنیا ، ابھی جلا دوں تو کیا کرو گے
اگر طلب ہے تمہیں کہ دیکھو، وہ پہلے قطرے کا سولی چڑھنا
میں کوئے جاناں سے سوئے مقتل، قدم اٹھا دوں تو کیا کرو گے
تمہاری آنکھوں میں دم نہیں ہے، کہ سہہ سکیں وہ کوئی سویرا
میں شب کے سینے پہ مونگ دل کے، دیا جلا دوں تو کیا کرو گے
یہ سچ کا ہیضہ جسے ہوا ہے، وہ تم میں باقی کہاں رہا ہے
جو سو رہا ہے منافق عابی، اسے جگا دوں تو کیا کرو گے
( عابی مکھنوی)
ایک ماں ہونے کی حیثیت سے ایسا واقعہ میرا دل دہلا دیتا ہے... میرا بس نہیں چلتا کہ میں اپنے بچوں کو اپنے پروں میں سمیٹ کر بیٹھ جاؤں، اس بے رحم معاشرے میں کسی کے ساتھ میل جول بھی نہ رکھنے دوں ، انھیں گھر پر بٹھا کر رکھوں ، سکول نہ بھیجوں کہ کہیں وہ چھٹی جماعت تک پہنچتے پہنچتے کسی استانی کے عشق میں گرفتار ہو، اس کی طرف سے سرزنش کرنے پر خود اپنی زندگی کا خاتمہ نہ کر لے، کہیں ناکے پر نہ رکنے پر اسے گولی نہ مار دی جائے، ایک سستا سا فون چھینتے ہوئے احتجاج پر کوئی اسے گولی نہ مار دے، چوری کا جھوٹا الزام لگا کر اسے سڑکوں پر نہ گھسیٹا جائے۔ کسی بڑے آدمی کا بیٹا اپنی اکڑ میں اسے روند کر نہ چلا جائے اور پھر قانون کے شکنجے سے بچ نکلے اور اپنی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عزت سے اس ملک سے رخصت ہو جائے۔
اس کے تعلیمی ادارے میں مذہبی یا لسانی گروہ بندی ہو اور وہ کسی گروہ کے ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی بے گناہ مارا جائے۔ اسے گھر سے بھیجوں تو مجھے یہی خدشہ لگا رہے کہ کوئی اس کی ذرا سی بات پر بپھر کر اسے نقصان نہ پہنچا دے۔ ہم اللہ کے بعد خالق کے درجے پر فائز ہوتی ہیں، اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے پال پوس کر جوان کرتی ہیں اور ان کی سلامتی کے لیے دعا گو رہتی ہیں، مگر ہماری دعائیں عرش سے ٹکرا کر لوٹ آئیں، ہمارے دل ویران اور وجود بنجر ہو جائیں، جن سپوتوں کو ہم نے سالوں سینچا اور اپنے قد سے اونچا ہوتے ہوئے دیکھا ہے، انھیں یوں کسی کی بربریت کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھ کر مرنے سے بہتر نہیں کہ ہم مائیں ہی مر جائیں، ہم انھیں جنم ہی نہ دیں اور نہ ہی یہ دن دیکھیں جب ہمارے پیارے، ہمارے سامنے... یااللہ! تیرا آسمان کانپ اٹھتا ہے ایسی بربریت دیکھ، ہمارے حکمران کیوں نہیں کانپتے جنھیں ایک دن تیرے سامنے کھڑے ہو کر تیرے سوالوں کا جواب دینا ہوتا ہے ؟؟؟