گیس بحران سے نمٹنے کیلیے تمام شعبے قربانی دیں زہیر صدیقی
حکومت کے لیے گھریلو صارفین ترجیح ہیں، صنعتی شعبے کو اولیت دینی چاہیے۔
سوئی سدرن گیس کمپنی کو کے ای ایس سی کی جانب سے تاحال42 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگیاں نہیں کی گئیں اور اب کے ای ایس سی نے لیٹ پیمنٹ سرچارج کی ادائیگی سے بھی انکار کردیا ہے۔
یہ بات ایس ایس جی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر زہیرصدیقی نے ہفتے کو کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے ظہرانے سے خطاب کے دوران کہی، انہوں نے بتایا کہ پاکستان اسٹیل پر بھی 10 ارب روپے کے واجبات ہیں لیکن اس ادارے کے بلاسٹ فرنس سسٹم کی بندش کے بعد دوبارہ بحالی کے مشکل ترین امر کے باعث پاکستان اسٹیل کا گیس کنکشن منقطع نہیں کیا جارہا۔
زہیر صدیقی نے کہا کہ جاری قدرتی گیس کے بحران پر قابو پانے کیلیے تمام شعبوں کو قربانی دینی پڑے گی، یہ بات درست ہے کہ اولین ترجیح صنعتی شعبے کو دینے کی ضرورت ہے لیکن حکومت نے گیس کی فراہمی میں پہلی ترجیح گھریلو صارفین کو دے رکھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایس ایس جی سی کے سسٹم میں آئندہ سال 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس مزید داخل ہوجائے گی لیکن ملک میں گیس کی ڈیمانڈ بھی بتدریج بڑھ رہی ہے تاہم امکان ہے کہ آئندہ سال قدرتی گیس کے بحران میں قدرے کمی واقع ہو۔
انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ صنعتی شعبہ اور سی این جی سیکٹر کی جانب سے ریکوری کی شرح 100 فیصد ہے اور ادارہ ان شعبوں کی ادائیگیوں کے طرز عمل سے انتہائی مطمئن ہے لیکن موسم سرما کے دوران بڑھتی ہوئی طلب کے سبب صنعتی شعبے کیلیے ہفتے میں ایک دن کی گیس لوڈشیڈنگ ناگزیر ہوگئی ہے، گیس لوڈشیڈنگ سے صنعتوں کو پہنچنے والے نقصانات کو کم کرنے کیلیے مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
ایس ایس جی سی نے گیس بحران کو کم کرنے کے لیے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ گھروں میں گیس پر چلنے والے گیزر کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہوئے ملک میں سولر گیزرکو فروغ دے اور اس ضمن میں سولرگیزرکی اقساط پر فراہمی کی حکمت عملی مرتب کرے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت سے یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ وہ سی این جی کو اگر ایل پی جی پر منتقل کرنے کی پالیسی وضح کرے تو یہ اقدام بھی گیس بحران میں کمی کرسکتا ہے۔
انہوں نے اپنے ادارے کی جانب سے صنعتوں میں قدرتی گیس کے ضیاع کو روکنے کیلیے مفت کنسلٹیشن دینے کی پیشکش کرتے ہوئے کورنگی صنعتی علاقے کے مسائل کا فوری ازالے کی غرض سے 2 سینئر افسران کو نامزد کرنے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین، سینیٹر عبدالحسیب خان، کاٹی کے چیئرمین زبیر چھایا و دیگر نے بھی خطاب کیا۔
یہ بات ایس ایس جی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر زہیرصدیقی نے ہفتے کو کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے ظہرانے سے خطاب کے دوران کہی، انہوں نے بتایا کہ پاکستان اسٹیل پر بھی 10 ارب روپے کے واجبات ہیں لیکن اس ادارے کے بلاسٹ فرنس سسٹم کی بندش کے بعد دوبارہ بحالی کے مشکل ترین امر کے باعث پاکستان اسٹیل کا گیس کنکشن منقطع نہیں کیا جارہا۔
زہیر صدیقی نے کہا کہ جاری قدرتی گیس کے بحران پر قابو پانے کیلیے تمام شعبوں کو قربانی دینی پڑے گی، یہ بات درست ہے کہ اولین ترجیح صنعتی شعبے کو دینے کی ضرورت ہے لیکن حکومت نے گیس کی فراہمی میں پہلی ترجیح گھریلو صارفین کو دے رکھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایس ایس جی سی کے سسٹم میں آئندہ سال 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس مزید داخل ہوجائے گی لیکن ملک میں گیس کی ڈیمانڈ بھی بتدریج بڑھ رہی ہے تاہم امکان ہے کہ آئندہ سال قدرتی گیس کے بحران میں قدرے کمی واقع ہو۔
انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ صنعتی شعبہ اور سی این جی سیکٹر کی جانب سے ریکوری کی شرح 100 فیصد ہے اور ادارہ ان شعبوں کی ادائیگیوں کے طرز عمل سے انتہائی مطمئن ہے لیکن موسم سرما کے دوران بڑھتی ہوئی طلب کے سبب صنعتی شعبے کیلیے ہفتے میں ایک دن کی گیس لوڈشیڈنگ ناگزیر ہوگئی ہے، گیس لوڈشیڈنگ سے صنعتوں کو پہنچنے والے نقصانات کو کم کرنے کیلیے مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
ایس ایس جی سی نے گیس بحران کو کم کرنے کے لیے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ گھروں میں گیس پر چلنے والے گیزر کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہوئے ملک میں سولر گیزرکو فروغ دے اور اس ضمن میں سولرگیزرکی اقساط پر فراہمی کی حکمت عملی مرتب کرے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت سے یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ وہ سی این جی کو اگر ایل پی جی پر منتقل کرنے کی پالیسی وضح کرے تو یہ اقدام بھی گیس بحران میں کمی کرسکتا ہے۔
انہوں نے اپنے ادارے کی جانب سے صنعتوں میں قدرتی گیس کے ضیاع کو روکنے کیلیے مفت کنسلٹیشن دینے کی پیشکش کرتے ہوئے کورنگی صنعتی علاقے کے مسائل کا فوری ازالے کی غرض سے 2 سینئر افسران کو نامزد کرنے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین، سینیٹر عبدالحسیب خان، کاٹی کے چیئرمین زبیر چھایا و دیگر نے بھی خطاب کیا۔