پاناما فیصلہ مضمرات و اثرات
فیصلہ آتے ہی حکومتی حلقوں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جس خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے
پاناما لیکس کے مقدمے کا فیصلہ آگیا۔ اس فیصلے میں بظاہر عدالت عظمیٰ کی یہ نیت سامنے آئی ہے کہ کوئی ایسا فیصلہ نہ دیا جائے، جو پہلے سے مختلف نوعیت کی مشکلات میں گھری ریاست کو مزید مشکلات کا شکار کردے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دو ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں وزیراعظم کو ڈی نوٹیفائی قرار دیا ہے، جب کہ باقی تین جج بھی انھیں معصوم نہیں سمجھتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مزید تحقیق پر اتفاق کیا گیا ہے۔ مگر اس فیصلے نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے، جو نئے مسائل اور مشکلات کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
فیصلہ آتے ہی حکومتی حلقوں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جس خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے، وہ ناقابل فہم نہیں ہے۔ ایوزیشن کے لیے دو ججوں کی جانب سے دیا گیا اختلافی نوٹ اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے انھیں وزیراعظم کے خلاف سیاسی مہم کے لیے ایشو ہاتھ آگیا ہے، جب کہ حکومتی حلقوںکے خیال میں اتفاقی فیصلے سے ان کے سر پر لٹکی تلوار ہٹ گئی ہے۔ اس میں جو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، ان کی تکمیل تک اگلے انتخابات سر پر آجائیں گے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت بھی یہ عمل مکمل نہ ہوسکے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کی خوشی بھی بلاجواز نہیں ہے۔
مگر بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ خوشی ڈھٹائی اور بے شرمی سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیونکہ جب جج اپنے ریمارکس میں Mario Puzo کے شہرہ آفاق ناول Godfather کا حوالہ دیں اور یہ لکھیں کہ "Behind every great fortune there is a crime" تو پھر سرخرو ہونے کا دعویٰ قوم کی بے بسی کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ جب کہ حضرت علیؓ بہت پہلے فرما گئے کہ ''دولت مندی کی ریل پیل کے پس پشت بدقماشی ہوتی ہے''۔ یعنی بے بہا دولت بغیر کسی مجرمانہ فعل ممکن نہیں۔
بہرحال جو بھی فیصلہ آیا ہے، اس کے مندرجات پر بحث کرنے کے بجائے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہونے جارہے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ راقم ایک سے زائد مرتبہ ان صفحات پر اس رائے کا اظہار کرچکا ہے کہ یہ ایک سیاسی اور انتظامی معاملہ ہے، اس لیے ابتدائی مراحل میں عدالت سے رجوع کرنا دانشمندی نہیں تھا۔ اس مقصد کے لیے اپوزیشن کو متحد ہوکر وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد پارلیمان مختلف انتظامی اداروں کے ایسے سینئر افسران پر مشتمل ایک کمیشن قائم کرتی، جن کی غیر جانبداری مشکوک نہ ہوتی۔ تفتیشی رپورٹ پارلیمان میں پیش کی جانی چاہیے تھی، جس کی منظوری کے بعد اس رپورٹ کی بنیاد پر عدلیہ سے فیصلہ لیا جاتا، تو ٹھوس اور مثبت نتائج کی توقع کی جاسکتی تھی۔
اب عدالتی فیصلہ آگیا ہے، اس لیے پرانی باتوں کو دہرانے کے بجائے آگے کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے کمیشن کی جگہ JIT (جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم) تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے، جو FIA، NAB، اسٹیٹ بینک اور فاریکس کے علاوہ ISI اور MI کے نمایندوں پر مشتمل ہوگی۔ FIA وفاقی وزارت داخلہ کا محکمہ ہے جو وفاقی وزیر داخلہ کے ماتحت ہے۔ NAB کی کارکردگی کے بارے میں خود سپریم کورٹ کے ریمارکس فیصلے میں موجود ہیں۔ اسی طرح اسٹیٹ بینک اور فاریکس سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کی غیر جانبداری بھی مشکوک نظر آتی ہے، البتہ ISI اور MI کے نمایندوں کا اس ٹیم میں شامل کیا جانا شاید ان جرائم کی تہہ تک پہنچنا ہے، جن کا تعلق سفید کالر جرائم سے ہے۔ یہاں اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ JIT کو سوالات بھی خود عدالت مہیا کررہی ہے۔
لیکن تفتیش اسی وقت غیر جانبدارانہ ہوسکتی ہے، جب وزیراعظم اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔ کیونکہ ان کی موجودگی میں تفتیش کے شفاف ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔ ویسے بھی JIT جرائم پیشہ افراد سے اقبال جرم کے لیے بنائی جاتی ہے۔ کیا حاضر سروس وزیراعظم کا، جو ملک کا چیف ایگزیکٹیو ہوتا ہے، ایک ملزم کے طور پر تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونا، اس عہدے کی بے توقیری نہیں ہے؟ اس لیے ضروری ہے کہ میاں نواز شریف محدود مدت کے لیے ہی سہی اپنے عہدے سے رضاکارانہ طور پر سبکدوش ہوجائیں۔ تفتیش پر اثرانداز ہونے کے خدشات تو اس وقت بھی موجود رہیں گے، جب میاں نواز شریف کی جگہ کسی دوسرے لیگی رہنما کو وزیراعظم بنایا جاتاہے۔ لیکن شاید اس صورت میں مداخلت کی وہ شدت نہ ہو، جو ان کی موجودگی میں متوقع ہے۔
ان شکوک و شبہات کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بیوروکریسی کا کردار انتہائی غیر متوازن رہا ہے۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں سیاسی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی تھی، جب کہ 1972ء میں اس کے ڈھانچہ میں جو تبدیلیاں لائی گئیں، وہ اتنی غیر مناسب اور غیر ذمے دارانہ تھیں کہ ان کے نتیجے میں بیوروکریسی حکمران اشرافیہ کی ذاتی ملازم بن کر رہ گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے ڈھانچے کو قومی سوچ سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے اسے قبائلی اور جاگیردارانہ طرز پر چلانے کی کوشش کی گئی۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا بیشتر وقت جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں صرف ہوا۔ جس کی وجہ سے اول، انھیں انتظامی ڈھانچہ میں بہتری لانے کا موقع نہیں ملا، دوئم ان میں وہ بصیرت اور عزم نہیں تھا، جو اداروں کو طویل المدتی بنیادوں پر مستحکم بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے، نتیجتاً معاشرہ کرپشن سمیت مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔
بھارت میں آزادی کے فوراً بعد ہی مختلف کمیٹیاں تشکیل دے کر ہر شعبہ کے اصلاح احوال کی کوششیں کی گئیں اور انگریز سے ورثے میں ملنے والے اداروں کو نوآبادیاتی سوچ سے آزاد کراکے قومی دھارے میں لانے کا عمل شروع کردیا گیا تھا۔ بیوروکریسی کو قومی سوچ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ولبھ بھائی پٹیل کی زیر قیادت کمیٹی نے انڈین سول سروس کا پورا ڈھانچہ تبدیل کرنے کے بجائے صرف تربیتی ماڈیول (Module) تبدیل کرنے کی سفارش کی تھی، جس کے نتیجے میں سول سروس بھارت کی قومی سوچ کی آئینہ دار بن گئی۔
آج وہ انتظامی طور پر سیاسی حکومت کے ماتحت ضرور ہے، مگر اصولی طور پر بھارتی آئین کے تابع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں جب بھی کسی سیاسی شخصیت کے خلاف ریاستی ادارے تفتیش کرتے ہیں، تو بہت کم انگشت نمائی ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں سول اداروں کی ساکھ بری طرح متاثر ہونے کی وجہ پر شکوک و شبہات برقرار رہتے ہیں۔
عدالتی فیصلے کے تناظر میں نظر یہ آرہا ہے کہ پاناما کا قضیہ اگلے الیکشن تک جاری رہے گا۔ چونکہ پاکستان میں عام انتخابات کی حرکیات بالکل مختلف ہے۔ ان پر عدالتی فیصلوں، کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ قبائلیت، برادری سسٹم اور جاگیردارانہ کلچر میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ اس لیے یہاں انتخابات اچھی حکمرانی (Good Governance) کے اہداف حاصل کرنے کے بجائے تھانہ کچہری کے معاملات سے مشروط ہوتے ہیں۔ جن میں برادریوں کی وابستگی، فیوڈلز کی حمایت اور قبائلی سرداروں کے حکم کی تعمیل ایک طاقتور ذریعہ ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کو یہ یقین ہے کہ پنجاب کی مضبوط برادریاں اس کے زیر اثر ہیں، جنھیں توڑنے میں تحریک انصاف ناکام ہوچکی ہے، جب کہ پیپلز پارٹی اپنی غلط حکمت عملیوں کے باعث انھیں کھو چکی ہے۔ اس لیے کرپشن اور بدعنوانیوں کے تمامتر الزامات کے باوجود وسطی پنجاب اس کی مٹھی میں ہے۔
سرائیکی علاقے سے بھی چند نشستیں اسے مل جاتی ہیں۔ خیبر پختونخوا کی ہزارہ بیلٹ اور دیہی سندھ سے تین سے چار نشستیں حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔ یوں اسے اگلے انتخابات میں کوئی بڑا چیلنج نظر نہیں آرہا۔ بشرطیکہ پاناما کیس گلے کی ہڈی نہیں بن جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے رہنما اور کارکن جشن منانے میں مصروف ہیں۔ مگر محسوس یہ ہورہا ہے کہ اس مرتبہ اس کے گرد صحیح معنی میں گھیرا تنگ ہورہا ہے، کیونکہ جسٹس کھوسہ کے اختلافی نوٹ میں دیے گئے حوالہ جات اور ریمارکس خاصے معنی خیز ہیں۔
فیصلہ آتے ہی حکومتی حلقوں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جس خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے، وہ ناقابل فہم نہیں ہے۔ ایوزیشن کے لیے دو ججوں کی جانب سے دیا گیا اختلافی نوٹ اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے انھیں وزیراعظم کے خلاف سیاسی مہم کے لیے ایشو ہاتھ آگیا ہے، جب کہ حکومتی حلقوںکے خیال میں اتفاقی فیصلے سے ان کے سر پر لٹکی تلوار ہٹ گئی ہے۔ اس میں جو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، ان کی تکمیل تک اگلے انتخابات سر پر آجائیں گے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت بھی یہ عمل مکمل نہ ہوسکے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کی خوشی بھی بلاجواز نہیں ہے۔
مگر بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ خوشی ڈھٹائی اور بے شرمی سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیونکہ جب جج اپنے ریمارکس میں Mario Puzo کے شہرہ آفاق ناول Godfather کا حوالہ دیں اور یہ لکھیں کہ "Behind every great fortune there is a crime" تو پھر سرخرو ہونے کا دعویٰ قوم کی بے بسی کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ جب کہ حضرت علیؓ بہت پہلے فرما گئے کہ ''دولت مندی کی ریل پیل کے پس پشت بدقماشی ہوتی ہے''۔ یعنی بے بہا دولت بغیر کسی مجرمانہ فعل ممکن نہیں۔
بہرحال جو بھی فیصلہ آیا ہے، اس کے مندرجات پر بحث کرنے کے بجائے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہونے جارہے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ راقم ایک سے زائد مرتبہ ان صفحات پر اس رائے کا اظہار کرچکا ہے کہ یہ ایک سیاسی اور انتظامی معاملہ ہے، اس لیے ابتدائی مراحل میں عدالت سے رجوع کرنا دانشمندی نہیں تھا۔ اس مقصد کے لیے اپوزیشن کو متحد ہوکر وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد پارلیمان مختلف انتظامی اداروں کے ایسے سینئر افسران پر مشتمل ایک کمیشن قائم کرتی، جن کی غیر جانبداری مشکوک نہ ہوتی۔ تفتیشی رپورٹ پارلیمان میں پیش کی جانی چاہیے تھی، جس کی منظوری کے بعد اس رپورٹ کی بنیاد پر عدلیہ سے فیصلہ لیا جاتا، تو ٹھوس اور مثبت نتائج کی توقع کی جاسکتی تھی۔
اب عدالتی فیصلہ آگیا ہے، اس لیے پرانی باتوں کو دہرانے کے بجائے آگے کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے کمیشن کی جگہ JIT (جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم) تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے، جو FIA، NAB، اسٹیٹ بینک اور فاریکس کے علاوہ ISI اور MI کے نمایندوں پر مشتمل ہوگی۔ FIA وفاقی وزارت داخلہ کا محکمہ ہے جو وفاقی وزیر داخلہ کے ماتحت ہے۔ NAB کی کارکردگی کے بارے میں خود سپریم کورٹ کے ریمارکس فیصلے میں موجود ہیں۔ اسی طرح اسٹیٹ بینک اور فاریکس سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کی غیر جانبداری بھی مشکوک نظر آتی ہے، البتہ ISI اور MI کے نمایندوں کا اس ٹیم میں شامل کیا جانا شاید ان جرائم کی تہہ تک پہنچنا ہے، جن کا تعلق سفید کالر جرائم سے ہے۔ یہاں اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ JIT کو سوالات بھی خود عدالت مہیا کررہی ہے۔
لیکن تفتیش اسی وقت غیر جانبدارانہ ہوسکتی ہے، جب وزیراعظم اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔ کیونکہ ان کی موجودگی میں تفتیش کے شفاف ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔ ویسے بھی JIT جرائم پیشہ افراد سے اقبال جرم کے لیے بنائی جاتی ہے۔ کیا حاضر سروس وزیراعظم کا، جو ملک کا چیف ایگزیکٹیو ہوتا ہے، ایک ملزم کے طور پر تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونا، اس عہدے کی بے توقیری نہیں ہے؟ اس لیے ضروری ہے کہ میاں نواز شریف محدود مدت کے لیے ہی سہی اپنے عہدے سے رضاکارانہ طور پر سبکدوش ہوجائیں۔ تفتیش پر اثرانداز ہونے کے خدشات تو اس وقت بھی موجود رہیں گے، جب میاں نواز شریف کی جگہ کسی دوسرے لیگی رہنما کو وزیراعظم بنایا جاتاہے۔ لیکن شاید اس صورت میں مداخلت کی وہ شدت نہ ہو، جو ان کی موجودگی میں متوقع ہے۔
ان شکوک و شبہات کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بیوروکریسی کا کردار انتہائی غیر متوازن رہا ہے۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں سیاسی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی تھی، جب کہ 1972ء میں اس کے ڈھانچہ میں جو تبدیلیاں لائی گئیں، وہ اتنی غیر مناسب اور غیر ذمے دارانہ تھیں کہ ان کے نتیجے میں بیوروکریسی حکمران اشرافیہ کی ذاتی ملازم بن کر رہ گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے ڈھانچے کو قومی سوچ سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے اسے قبائلی اور جاگیردارانہ طرز پر چلانے کی کوشش کی گئی۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا بیشتر وقت جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں صرف ہوا۔ جس کی وجہ سے اول، انھیں انتظامی ڈھانچہ میں بہتری لانے کا موقع نہیں ملا، دوئم ان میں وہ بصیرت اور عزم نہیں تھا، جو اداروں کو طویل المدتی بنیادوں پر مستحکم بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے، نتیجتاً معاشرہ کرپشن سمیت مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔
بھارت میں آزادی کے فوراً بعد ہی مختلف کمیٹیاں تشکیل دے کر ہر شعبہ کے اصلاح احوال کی کوششیں کی گئیں اور انگریز سے ورثے میں ملنے والے اداروں کو نوآبادیاتی سوچ سے آزاد کراکے قومی دھارے میں لانے کا عمل شروع کردیا گیا تھا۔ بیوروکریسی کو قومی سوچ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ولبھ بھائی پٹیل کی زیر قیادت کمیٹی نے انڈین سول سروس کا پورا ڈھانچہ تبدیل کرنے کے بجائے صرف تربیتی ماڈیول (Module) تبدیل کرنے کی سفارش کی تھی، جس کے نتیجے میں سول سروس بھارت کی قومی سوچ کی آئینہ دار بن گئی۔
آج وہ انتظامی طور پر سیاسی حکومت کے ماتحت ضرور ہے، مگر اصولی طور پر بھارتی آئین کے تابع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں جب بھی کسی سیاسی شخصیت کے خلاف ریاستی ادارے تفتیش کرتے ہیں، تو بہت کم انگشت نمائی ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں سول اداروں کی ساکھ بری طرح متاثر ہونے کی وجہ پر شکوک و شبہات برقرار رہتے ہیں۔
عدالتی فیصلے کے تناظر میں نظر یہ آرہا ہے کہ پاناما کا قضیہ اگلے الیکشن تک جاری رہے گا۔ چونکہ پاکستان میں عام انتخابات کی حرکیات بالکل مختلف ہے۔ ان پر عدالتی فیصلوں، کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ قبائلیت، برادری سسٹم اور جاگیردارانہ کلچر میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ اس لیے یہاں انتخابات اچھی حکمرانی (Good Governance) کے اہداف حاصل کرنے کے بجائے تھانہ کچہری کے معاملات سے مشروط ہوتے ہیں۔ جن میں برادریوں کی وابستگی، فیوڈلز کی حمایت اور قبائلی سرداروں کے حکم کی تعمیل ایک طاقتور ذریعہ ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کو یہ یقین ہے کہ پنجاب کی مضبوط برادریاں اس کے زیر اثر ہیں، جنھیں توڑنے میں تحریک انصاف ناکام ہوچکی ہے، جب کہ پیپلز پارٹی اپنی غلط حکمت عملیوں کے باعث انھیں کھو چکی ہے۔ اس لیے کرپشن اور بدعنوانیوں کے تمامتر الزامات کے باوجود وسطی پنجاب اس کی مٹھی میں ہے۔
سرائیکی علاقے سے بھی چند نشستیں اسے مل جاتی ہیں۔ خیبر پختونخوا کی ہزارہ بیلٹ اور دیہی سندھ سے تین سے چار نشستیں حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔ یوں اسے اگلے انتخابات میں کوئی بڑا چیلنج نظر نہیں آرہا۔ بشرطیکہ پاناما کیس گلے کی ہڈی نہیں بن جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے رہنما اور کارکن جشن منانے میں مصروف ہیں۔ مگر محسوس یہ ہورہا ہے کہ اس مرتبہ اس کے گرد صحیح معنی میں گھیرا تنگ ہورہا ہے، کیونکہ جسٹس کھوسہ کے اختلافی نوٹ میں دیے گئے حوالہ جات اور ریمارکس خاصے معنی خیز ہیں۔