مشعلیں کرو روشن دور تک اندھیرا ہے
ملک بھر کے صف اول کے علما مفتی محمد نعیم، مولانا سمیع الحق ودیگر نے مشال کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے
PESHAWAR:
اپنی درسگاہ کے ہوسٹل کی تیسری منزل پر اپنے کمرے میں موجود مشال سیل فون پر اساتذہ کو بتارہا تھا کہ یہ سب میرے خلاف زہر اگلا جارہا ہے، میں اپنی بات خود سامنے آکر کرنا چاہتا ہوں۔ نیچے ہنگامہ برپا تھا۔ چند لوگ ماحول کو گرما رہے تھے، جن اساتذہ سے مشال نے سیل فون پر رابطہ کیا تھا، انھوں نے مشتعل طلبا سے کہا ''مشال وضاحت کے لیے آرہا ہے، اس کی بات سن لیں'' مگر ''کچھ کرنے'' پر تلے مجمع نے ایک نہیں سنی اور ہوسٹل کی تیسری منزل پر اس کمرے پر دھاوا بول دیا جہاں مشال موجود تھا، کمرے کا دروازہ توڑ کر مشال کو نکالا گیا اور پھر اسے گھسیٹتے ہوئے نیچے لایا گیا۔ اسے گولی ماری اور پھر ڈنڈوں سے اسے بغیر سنے مار دیا گیا۔
یہ واقعہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پیش آیا۔ مشال پر الزام لگایا گیا تھا کہ ''اس نے توہین کی ہے'' جب کہ مشال انکار کر رہا تھا کہ ''اس نے ایسا کچھ نہیں کیا''۔ تمام عالم کے لیے سراپا رحمت کے نام پر ایسی بربریت سمجھ سے باہر ہے۔ وہ نبیؐ جس نے گالیاں کھاکر دعائیں دیں، وہ جس پر پتھر برسائے گئے اور آپ لہولہان ہوگئے، سر سے بہنے والا خون پاؤں کی جوتی تک آگیا، مگر آپ نے حضرت جبرائیلؑ کو منع کردیا کہ طائف شہر کو صفحہ ہستی سے مٹانا نہیں ہے۔ محبوب خدا نے کہا ! اس طائف سے لوگ میرا پیغام لے کر نکلیںگے۔
ملک بھر کے صف اول کے علما مفتی محمد نعیم، مولانا سمیع الحق ودیگر نے مشال کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والا بھی توہین رسالتؐ کا مرتکب ہوتا ہے اور اسی سزا کا حق دار ہے، مگر افسوس کہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی فیصلہ ہوگیا۔
یہ یونیورسٹی جس کے نام سے منسوب ہے اس کا بڑا اچھا کردار رہا ہے، زندگی بھر عبدالولی خان کو اس کے مخالفین غدار کہتے رہے مگر ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد بھی غداری ثابت نہ کرسکے۔ ولی خان پر الزام لگایا گیا کہ ملک توڑنا چاہتا ہے، یہ پختونستان بنانا چاہتا ہے۔ ولی خان پر یہ الزام، الزام ہی رہے، ملک کسی غدار نے نہیں ''محب وطنوں'' نے توڑ دیا اور افغانیوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول کر پورے ملک میں پختون آباد کردیے۔
مردان یونیورسٹی کے عبدالولی خان وہی ہیں کہ جنھوں نے 1974 میں لیاقت باغ راولپنڈی سے 22 پختونوںکی میتیں اٹھائیں اور خاموشی سے صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں دفنا دیں۔ حزب اختلاف کے جلسے لیاقت باغ راولپنڈی پر جیل سے لائے گئے غنڈوں سمیت چاروں اطراف سے وحشیانہ فائرنگ کی گئی۔ اسٹیج پر صدر جلسہ پیر پگارا، سردار شوکت حیات، میر غوث بخش بزنجو، مولانا شاہ احمد نورانی ودیگر قائدین کے علاوہ شاعر عوام حبیب جالب بھی تھے۔
ایک پختون نوجوان نے ولی خان کی گود میں دم توڑا تو اجمل خٹک نے کہا ''ولی خان! یہ ہے تمہارا پاکستان!'' اور پھر اجمل خٹک افغانستان چلے گئے۔ غالب کا شعر اجمل خٹک کے جانے پر کسی نے لگایا تھا، کارٹون بنایاگیا تھا کہ ایک شخص بیگ اٹھائے سرحد کی تاریں عبور کررہا ہے۔ بیگ پر اجمل خٹک لکھا ہوا تھا، شعر یہ تھا:
وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل، تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
ولی خان، باچا خان کا بیٹا، خدائی خدمت گار عبدالغفار خان تمام زندگی سچ بولنے پر زیر عتاب رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ساری حکومتیں جھوٹ بولتی رہیں اور ان کا زہریلا جھوٹ ریڈیو سے دن رات نشر ہوتا رہا۔ معصوم و بے خبر عوام کے ذہنوں میں زہر اتارا جاتا رہا جس کا نتیجہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ صرف چند لوگوں نے کروڑوں عوام کا حق چھین رکھا ہے، یہی چند ہیں جو ملک کو بربادی کی طرف لے جاتے ہیں، اسے آباد نہیں ہونے دیتے، آج ستر سال ہوگئے پاکستان کو قائم ہوئے مگر آج بھی عوام بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد عبدالغفار خان نے قائداعظم سے کہا تھا ''اب جب کہ پاکستان بن گیا ہے تو اسے مضبوط کرنے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں'' مگر دشمنوں نے جناح صاحب اور غفار خان کی ملاقات نہ ہونے دی اور بابڑہ میں سیکڑوں سرخ پوشوں پر فائر کھول کر جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کردی۔ اگر جناح، باچاخان ملاقات ہوجاتی، غداری کے الزامات کی بھرمار نہ ہوتی تو نہ ملک دولخت ہوتا اور نہ ہم چند لوگوں کے نرغے میں ہوتے۔
مشال کا اصل جرم یہی تھا کہ وہ ''چند لوگوں'' کے خلاف سوچنے لگا تھا اور اسے خطرہ جان کر توہین رسالت کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔ توہین رسالت کے علاوہ بھی ان چند لوگوںکے پاس بڑے حربے ہیں۔ یہ انھیں بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ چند لوگ اپنے مفاد کی خاطر ملک توڑ دیتے ہیں، ان چند لوگوں نے سیاست کو بھی کھیل تماشا بنادیا ہے۔ ادھر ادھر کی چھتریوں والے پھر سے ادھر ادھر ہورہے ہیں۔ یہ چند لوگ ہمیں جینے کا حق حاصل نہیں کرنے دیںگے۔
عوام بھوکے، بغیر دوا، بغیر تعلیم، بدن پر لباس کے نام پر چیتھڑے، ننگے پاؤں، چوراہوں پر بھکاریوں کا ہجوم اور یہ چند لوگ 2018 کے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف، اپنے اپنے پارٹی لیڈروں کے حق میں جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ مشال خان انھی چند لوگوں کے رائج کردہ نظام کو بدلنے کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ 1962 کے خودساختہ دستور جسے جنرل ایوب خان نے نافذ کیا تھا اس کے خلاف حبیب جالب نے پہلی آواز بلند کی تھی۔ دیکھ لیں آج 60 سال بعد بھی حالات جوں کے توں ہیں، مگر نظم دستور نقل نہیں کروںگا، 'میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا' سب کو یاد ہے، میں اس وقت اسی زمانے کی ایک اور نظم ''جمہوریت'' سے اقتباس پیش کروںگا۔
دس کروڑ انسانو!
زندگی سے بیگانو!
صرف چند لوگوں نے حق تمہارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر یہ بھی کوئی جینا ہے
بے شعور بھی تم کو بے شعور کہتے ہیں
سوچتا ہوں یہ ناداں کس ہوا میں رہتے ہیں
اور یہ قصیدہ گو فکر ہے یہی جن کو
ہاتھ میں علم لے کر تم نہ اٹھ سکو لوگو!
کب تلک یہ خاموشی چلتے پھرتے زندانو
دس کروڑ انسانو!
جب سے کالے باغوں نے آدمی کو گھیرا ہے
مشعلیں کرو روشن دور تک اندھیرا ہے
ملک کو بچا بھی ملک کے نگہبانو
دس کروڑ انسانو!
(1962 میں ملک کی آبادی بشمول بنگلہ دیش دس کروڑ تھی)
اپنی درسگاہ کے ہوسٹل کی تیسری منزل پر اپنے کمرے میں موجود مشال سیل فون پر اساتذہ کو بتارہا تھا کہ یہ سب میرے خلاف زہر اگلا جارہا ہے، میں اپنی بات خود سامنے آکر کرنا چاہتا ہوں۔ نیچے ہنگامہ برپا تھا۔ چند لوگ ماحول کو گرما رہے تھے، جن اساتذہ سے مشال نے سیل فون پر رابطہ کیا تھا، انھوں نے مشتعل طلبا سے کہا ''مشال وضاحت کے لیے آرہا ہے، اس کی بات سن لیں'' مگر ''کچھ کرنے'' پر تلے مجمع نے ایک نہیں سنی اور ہوسٹل کی تیسری منزل پر اس کمرے پر دھاوا بول دیا جہاں مشال موجود تھا، کمرے کا دروازہ توڑ کر مشال کو نکالا گیا اور پھر اسے گھسیٹتے ہوئے نیچے لایا گیا۔ اسے گولی ماری اور پھر ڈنڈوں سے اسے بغیر سنے مار دیا گیا۔
یہ واقعہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پیش آیا۔ مشال پر الزام لگایا گیا تھا کہ ''اس نے توہین کی ہے'' جب کہ مشال انکار کر رہا تھا کہ ''اس نے ایسا کچھ نہیں کیا''۔ تمام عالم کے لیے سراپا رحمت کے نام پر ایسی بربریت سمجھ سے باہر ہے۔ وہ نبیؐ جس نے گالیاں کھاکر دعائیں دیں، وہ جس پر پتھر برسائے گئے اور آپ لہولہان ہوگئے، سر سے بہنے والا خون پاؤں کی جوتی تک آگیا، مگر آپ نے حضرت جبرائیلؑ کو منع کردیا کہ طائف شہر کو صفحہ ہستی سے مٹانا نہیں ہے۔ محبوب خدا نے کہا ! اس طائف سے لوگ میرا پیغام لے کر نکلیںگے۔
ملک بھر کے صف اول کے علما مفتی محمد نعیم، مولانا سمیع الحق ودیگر نے مشال کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والا بھی توہین رسالتؐ کا مرتکب ہوتا ہے اور اسی سزا کا حق دار ہے، مگر افسوس کہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی فیصلہ ہوگیا۔
یہ یونیورسٹی جس کے نام سے منسوب ہے اس کا بڑا اچھا کردار رہا ہے، زندگی بھر عبدالولی خان کو اس کے مخالفین غدار کہتے رہے مگر ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد بھی غداری ثابت نہ کرسکے۔ ولی خان پر الزام لگایا گیا کہ ملک توڑنا چاہتا ہے، یہ پختونستان بنانا چاہتا ہے۔ ولی خان پر یہ الزام، الزام ہی رہے، ملک کسی غدار نے نہیں ''محب وطنوں'' نے توڑ دیا اور افغانیوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول کر پورے ملک میں پختون آباد کردیے۔
مردان یونیورسٹی کے عبدالولی خان وہی ہیں کہ جنھوں نے 1974 میں لیاقت باغ راولپنڈی سے 22 پختونوںکی میتیں اٹھائیں اور خاموشی سے صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں دفنا دیں۔ حزب اختلاف کے جلسے لیاقت باغ راولپنڈی پر جیل سے لائے گئے غنڈوں سمیت چاروں اطراف سے وحشیانہ فائرنگ کی گئی۔ اسٹیج پر صدر جلسہ پیر پگارا، سردار شوکت حیات، میر غوث بخش بزنجو، مولانا شاہ احمد نورانی ودیگر قائدین کے علاوہ شاعر عوام حبیب جالب بھی تھے۔
ایک پختون نوجوان نے ولی خان کی گود میں دم توڑا تو اجمل خٹک نے کہا ''ولی خان! یہ ہے تمہارا پاکستان!'' اور پھر اجمل خٹک افغانستان چلے گئے۔ غالب کا شعر اجمل خٹک کے جانے پر کسی نے لگایا تھا، کارٹون بنایاگیا تھا کہ ایک شخص بیگ اٹھائے سرحد کی تاریں عبور کررہا ہے۔ بیگ پر اجمل خٹک لکھا ہوا تھا، شعر یہ تھا:
وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل، تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
ولی خان، باچا خان کا بیٹا، خدائی خدمت گار عبدالغفار خان تمام زندگی سچ بولنے پر زیر عتاب رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ساری حکومتیں جھوٹ بولتی رہیں اور ان کا زہریلا جھوٹ ریڈیو سے دن رات نشر ہوتا رہا۔ معصوم و بے خبر عوام کے ذہنوں میں زہر اتارا جاتا رہا جس کا نتیجہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ صرف چند لوگوں نے کروڑوں عوام کا حق چھین رکھا ہے، یہی چند ہیں جو ملک کو بربادی کی طرف لے جاتے ہیں، اسے آباد نہیں ہونے دیتے، آج ستر سال ہوگئے پاکستان کو قائم ہوئے مگر آج بھی عوام بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد عبدالغفار خان نے قائداعظم سے کہا تھا ''اب جب کہ پاکستان بن گیا ہے تو اسے مضبوط کرنے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں'' مگر دشمنوں نے جناح صاحب اور غفار خان کی ملاقات نہ ہونے دی اور بابڑہ میں سیکڑوں سرخ پوشوں پر فائر کھول کر جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کردی۔ اگر جناح، باچاخان ملاقات ہوجاتی، غداری کے الزامات کی بھرمار نہ ہوتی تو نہ ملک دولخت ہوتا اور نہ ہم چند لوگوں کے نرغے میں ہوتے۔
مشال کا اصل جرم یہی تھا کہ وہ ''چند لوگوں'' کے خلاف سوچنے لگا تھا اور اسے خطرہ جان کر توہین رسالت کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔ توہین رسالت کے علاوہ بھی ان چند لوگوںکے پاس بڑے حربے ہیں۔ یہ انھیں بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ چند لوگ اپنے مفاد کی خاطر ملک توڑ دیتے ہیں، ان چند لوگوں نے سیاست کو بھی کھیل تماشا بنادیا ہے۔ ادھر ادھر کی چھتریوں والے پھر سے ادھر ادھر ہورہے ہیں۔ یہ چند لوگ ہمیں جینے کا حق حاصل نہیں کرنے دیںگے۔
عوام بھوکے، بغیر دوا، بغیر تعلیم، بدن پر لباس کے نام پر چیتھڑے، ننگے پاؤں، چوراہوں پر بھکاریوں کا ہجوم اور یہ چند لوگ 2018 کے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف، اپنے اپنے پارٹی لیڈروں کے حق میں جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ مشال خان انھی چند لوگوں کے رائج کردہ نظام کو بدلنے کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ 1962 کے خودساختہ دستور جسے جنرل ایوب خان نے نافذ کیا تھا اس کے خلاف حبیب جالب نے پہلی آواز بلند کی تھی۔ دیکھ لیں آج 60 سال بعد بھی حالات جوں کے توں ہیں، مگر نظم دستور نقل نہیں کروںگا، 'میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا' سب کو یاد ہے، میں اس وقت اسی زمانے کی ایک اور نظم ''جمہوریت'' سے اقتباس پیش کروںگا۔
دس کروڑ انسانو!
زندگی سے بیگانو!
صرف چند لوگوں نے حق تمہارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر یہ بھی کوئی جینا ہے
بے شعور بھی تم کو بے شعور کہتے ہیں
سوچتا ہوں یہ ناداں کس ہوا میں رہتے ہیں
اور یہ قصیدہ گو فکر ہے یہی جن کو
ہاتھ میں علم لے کر تم نہ اٹھ سکو لوگو!
کب تلک یہ خاموشی چلتے پھرتے زندانو
دس کروڑ انسانو!
جب سے کالے باغوں نے آدمی کو گھیرا ہے
مشعلیں کرو روشن دور تک اندھیرا ہے
ملک کو بچا بھی ملک کے نگہبانو
دس کروڑ انسانو!
(1962 میں ملک کی آبادی بشمول بنگلہ دیش دس کروڑ تھی)