سعودی فوجی اتحاد میں ایران کو شامل کرنیکی پاکستانی کوششیں تیز
ایران اور سعودیہ کو ایک پلیٹ فارم پر لانا بڑا چیلنج ہے، پاکستانی حکام
پاکستان نے سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے اسلامی فوجی اتحاد میں ایران کو شامل کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں اور اس حوالے سے بھرپور سفارتی مہم جاری ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کو ملنے والی مصدقہ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے اس سلسلے میں اٹارنی جنرل اشتراوصاف کو خصوصی ٹاسک دیکر گزشتہ ماہ سعودی عرب بھیجا تھا، سعودی عرب سے واپسی پر اشتر اوصاف ایران بھی جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل نے سعودی حکام سے اس حوالے سے کئی ملاقاتیں کی ہیں، آرمی چیف جنرل راحیل کی ایرانی سفیر سے ڈیڑھ ماہ میں 2 ملاقاتیں بھی اس حوالے سے تھیں جس وقت راحیل شریف کو این او سی ملا تو ایرانی سفیر جی ایچ کیو میں تھے، پاکستان ایران کو یہ یقین دلانے کی بھرپور کوشش کررہا ہے اور کرے گا کہ سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت اور جنرل (رٹائرڈ) راحیل شریف کے فوجی اتحاد کی سربراہی سنبھالنے کے فیصلوں سے پاک ایران تعلقات پر کسی بھی قسم کا منفی اثر نہیں پڑے گا۔
دوسری جانب جنرل (رٹائرڈ) راحیل شریف نے بھی اس شرط پر سعودی فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ اس اتحاد میں ایران، شام اور عراق کو بھی شمولیت کی دعوت دی جائے گی تاکہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر کام کیا جاسکے، ذرائع کے مطابق گو اس وقت ایران سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کے لیے رضا مند نہیں ہے اور اسے اس اتحاد کے حوالے سے کافی تحفظات ہیں تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی مسلسل کوششوں کے بعد ایران کے موقف میں بھی تبدیلی آئے گی۔
شام کے تنازع پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان شدید اختلافات رہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے، ایران کا موقف ہے کہ سعودی عرب اسلامی فوجی اتحاد کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے گا، پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد میں سعودی عرب اور ایران دونوں کی شمولیت کا فیصلہ ایک بڑا چیلنج ہے جس کے لیے بے حد طویل اور مسلسل سفارت کاری کی ضرورت ہوگی، ہم اس حوالے سے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق کشیدگی سے پاک ایران سعودی تعلقات کی وجہ سے پاکستان کا کام زیادہ آسان ہوجائے گا، دوسری جانب پاکستان نے سعودی عرب پر بھی واضح کردیا ہے کہ اگر سعودی فوجی اتحاد کو فرقہ وارانہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان اس اتحاد سے باہر ہوجائے گا، اس کے ساتھ ہی پاکستان نے ایران کو بھی واضح طور پر بتادیا ہے کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد میں موجودگی کو مثبت انداز میں لیا جانا چاہیے، سابق آرمی چیف راحیل شریف ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کریں گے جس سے پاکستان اور ایران کے تعلقات کو زک پہنچے۔
ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق جنرل راحیل شریف کے سامنے ایک بڑا چیلنج سعودی فوجی اتحاد کی پالیسیوں، فیصلوں اور اقدامات میں توازن برقرار رکھنا ہوگا، حال ہی میں سعودی حکام نے وال اسٹریٹ جرنل سے گفتگو میں کہا تھا کہ اسلامی فوجی اتحاد حوثی باغیوں جیسے گروپوں کے خلاف بھی کارروائی کرسکتا ہے جبکہ ایران حوثیوں کے حوالے سے سعودی تشریح کو نہیں مانتا۔ دوسری جانب سیاسی ودفاعی تجزیہ نگار سعودی فوجی اتحاد کے اغراض ومقاصد کے حوالے سے بھی سوال اٹھارہے ہیں کہ ابھی تک اس کے صحیح مقاصد اور اہداف سامنے نہیں آئے۔
ایکسپریس ٹریبیون کو ملنے والی مصدقہ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے اس سلسلے میں اٹارنی جنرل اشتراوصاف کو خصوصی ٹاسک دیکر گزشتہ ماہ سعودی عرب بھیجا تھا، سعودی عرب سے واپسی پر اشتر اوصاف ایران بھی جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل نے سعودی حکام سے اس حوالے سے کئی ملاقاتیں کی ہیں، آرمی چیف جنرل راحیل کی ایرانی سفیر سے ڈیڑھ ماہ میں 2 ملاقاتیں بھی اس حوالے سے تھیں جس وقت راحیل شریف کو این او سی ملا تو ایرانی سفیر جی ایچ کیو میں تھے، پاکستان ایران کو یہ یقین دلانے کی بھرپور کوشش کررہا ہے اور کرے گا کہ سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت اور جنرل (رٹائرڈ) راحیل شریف کے فوجی اتحاد کی سربراہی سنبھالنے کے فیصلوں سے پاک ایران تعلقات پر کسی بھی قسم کا منفی اثر نہیں پڑے گا۔
دوسری جانب جنرل (رٹائرڈ) راحیل شریف نے بھی اس شرط پر سعودی فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ اس اتحاد میں ایران، شام اور عراق کو بھی شمولیت کی دعوت دی جائے گی تاکہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر کام کیا جاسکے، ذرائع کے مطابق گو اس وقت ایران سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کے لیے رضا مند نہیں ہے اور اسے اس اتحاد کے حوالے سے کافی تحفظات ہیں تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی مسلسل کوششوں کے بعد ایران کے موقف میں بھی تبدیلی آئے گی۔
شام کے تنازع پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان شدید اختلافات رہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے، ایران کا موقف ہے کہ سعودی عرب اسلامی فوجی اتحاد کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے گا، پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد میں سعودی عرب اور ایران دونوں کی شمولیت کا فیصلہ ایک بڑا چیلنج ہے جس کے لیے بے حد طویل اور مسلسل سفارت کاری کی ضرورت ہوگی، ہم اس حوالے سے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق کشیدگی سے پاک ایران سعودی تعلقات کی وجہ سے پاکستان کا کام زیادہ آسان ہوجائے گا، دوسری جانب پاکستان نے سعودی عرب پر بھی واضح کردیا ہے کہ اگر سعودی فوجی اتحاد کو فرقہ وارانہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان اس اتحاد سے باہر ہوجائے گا، اس کے ساتھ ہی پاکستان نے ایران کو بھی واضح طور پر بتادیا ہے کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد میں موجودگی کو مثبت انداز میں لیا جانا چاہیے، سابق آرمی چیف راحیل شریف ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کریں گے جس سے پاکستان اور ایران کے تعلقات کو زک پہنچے۔
ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق جنرل راحیل شریف کے سامنے ایک بڑا چیلنج سعودی فوجی اتحاد کی پالیسیوں، فیصلوں اور اقدامات میں توازن برقرار رکھنا ہوگا، حال ہی میں سعودی حکام نے وال اسٹریٹ جرنل سے گفتگو میں کہا تھا کہ اسلامی فوجی اتحاد حوثی باغیوں جیسے گروپوں کے خلاف بھی کارروائی کرسکتا ہے جبکہ ایران حوثیوں کے حوالے سے سعودی تشریح کو نہیں مانتا۔ دوسری جانب سیاسی ودفاعی تجزیہ نگار سعودی فوجی اتحاد کے اغراض ومقاصد کے حوالے سے بھی سوال اٹھارہے ہیں کہ ابھی تک اس کے صحیح مقاصد اور اہداف سامنے نہیں آئے۔