پاکستان ایران افغانستان اشتراک برائے امن وترقی

پاکستان کو کچھ مشکلات اپنے ایک شمال مغربی پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ پیش آئیں

پاکستان میں بعض حلقے مذہبی، مسلکی یا لسانی بنیادوں پر اپنے مغربی اسلامی ممالک کے بارے میں جو بھی گمان رکھیں حقیقت یہ ہے کہ ملکوں کے درمیان تعلقات مذہب، زبان، ثقافت کی یکسانیت پر نہیںبلکہ ملکوں کے اپنے مفادات کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ مفادات ہوں تو یکسر مختلف ثقافت اور متضاد رویوں والے ممالک کے درمیان قریبی تعلقات قائم ہوجاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا اور یورپ کے قریبی تعلقات کو پیش نظر رکھیے۔ مفادات کا ٹکراؤ ہو تو ایک مذہب، ایک زبان اورتقریباً یکساں ثقافت والے ملک آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں، ماضی قریب میں کویت عراق اورکویت سعودی عرب تنازعات اور اب شام کے عربی بولنے والے پڑوسی عرب ممالک کے ساتھ تنازعات اس کی واضح مثالیں ہیں۔

پاکستان کی سرحد چار ممالک بھارت، چین، افغانستان اور ایران سے ملتی ہے۔ ان چاروں ممالک میں قومی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ چین اور ایران کے ساتھ پاکستان کے انتہائی قریبی تعلقات رہے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد سب سے پہلے اسے ایران نے تسلیم کیا تھا۔1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی ایران نے پاکستان کی مکمل حمایت کی اور پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ عوامی جمہوریہ چین (P.R.C) کا قیام 1948ء میں عمل میں آیا۔ چین اور پاکستان میں لسانی اور ثقافتی فرق بہت زیادہ ہے۔ پاکستان نے چین کی حکومت کو تسلیم کیا اور اس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے۔ امریکا کے دباؤ پر عالمی برادری ایک طویل عرصے تک چیئرمین ماؤزے تنگ اور وزیر اعظم چواین لائی کی سربراہی میں عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنے سے ہچکچاتی رہی۔ ایسے میں چین اور امریکا کے درمیان تعلقات کے قیام میں پاکستان نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

بھارت اور پاکستان میں سرکاری زبان انگلش ہے اردو، پنجابی اور سندھی زبانیں بھی دونوں ممالک میں بولی جاتی ہیں۔ چند ثقافتی مشترکات بھی ہیں ان سب کے باوجود بھارت کی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی تاریخ تکلیف دہ واقعات اور بھارت کی جانب سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششوں سے بھری پڑی ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی خواہش تھی کہ برصغیر کی دوخود مختار ریاستوں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایسے تعلقات قائم ہوں جیسے براعظم امریکا میں امریکا اور کینیڈا کے درمیان ہیں، لیکن کانگریسی رہنماؤں کی تنگ نظری اور انتہا پسند جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ R.S.S. کے 1947ء کے فوری بعد بھارت میں بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بانی ٔپاکستان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی بلکہ آگے چل کر بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ مستقل دشمنی کی پالیسی اختیار کر لی۔ 1947ء کے بعد اگر بھارتی سیاسی قیادت اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنے کی بانیانِ پاکستان کی خواہشات کا مثبت جواب دیتی تو یہ خطہ کئی تنازعات اورکئی جنگوں سے محفوظ رہتا ۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کے منفی رویوں کی بڑی وجہ بھارتی قیادت کی جانب سے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہ کرنا ہے۔

پاکستان کو کچھ مشکلات اپنے ایک شمال مغربی پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ پیش آئیں۔ ان مشکلات کی بڑی وجہ افغان بادشاہت پر پہلے زار روس اور پھر سوویت یونین کا بڑھتا دباؤ تھا۔ سوویت غلبے کے زیر اثر افغانستان کی حکومت نے اقوامِ متحدہ میں بھی پاکستان کی مخالفت کی۔ افغانستان میں 1973 میں بادشاہت کے خاتمہ ہوگیا لیکن وہاں سوویت رسوخ اسی طرح قائم رہا۔ افغانستان کے غیر شاہی حکمران بھی وفاقی اور خارجہ پالیسیاں سوویت یونین کے غلبے کے تحت بناتے رہے۔ سوویت یونین دیگر مقاصد کے علاوہ تیل پیدا کرنے والے ایرانی علاقوں تک اثرورسوخ کے لیے اور بحر عرب و بحر ہند کے پانیوں تک رسائی کے لیے بھی افغانستان کو استعمال کرناچاہتا تھا۔ سوویت یونین اور افغانستان کی پاکستان مخالف بعض پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو چند تکالیف تو یقیناً اُٹھانا پڑیں لیکن ان پالیسیوں کا خود افغانستان کو بھی کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ معیشت، تعلیم، سماجی ترقی اور دیگر کئی شعبوں میں افغانستان بہت پیچھے رہ گیا۔

افغانستان کے تعلیم یافتہ اور باشعور طبقات کو اب جائزہ لینا چاہیے کہ سرد جنگ کے دور میں سوویت پالیسی کا معاون بن کر افغانستان کیا حاصل کرپایا؟ امریکا ہو یا سابق سوویت یونین دراصل ان بڑی طاقتوں کے اپنے بڑے بڑے گیم ہوتے ہیں۔ اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے چھوٹے اورکمزور ممالک سے کسی بڑے گیم میں ضرورت پڑنے پرکام لیا جاتا ہے۔ ضرورت کے وقت کسی بڑی طاقت کے التفات کو اخلاص سمجھ لینا یا کسی گیم میں خود کو ہمیشہ کیلیے ناگزیر سمجھنا کمزور قوموں کی غلط فہمی ہے۔ پاکستان امریکا تعلقات میں ایسے کئی مقامات آچکے ہیں جب امریکنز نے پاکستانیوں کی توقعات کی بھری ٹوکری کو بیچ چوراہے پر پٹخ دیا۔ سوویت یونین سے مقابلہ آرائی کے دوران یا 11 ستمبر 2001ء کے بعد حسب ضرورت پاکستان کو اپنا گہرا دوست قرار دینے والے ملک امریکا نے کام نکل جانے کے بعد پاکستان کے کئی جائز مطالبات اور اہم معاملات کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔

افغانستان کو سوویت یونین اور پھر امریکا کے ساتھ اور پاکستان اور ایران کو امریکا کے بدلتے رویوں کے خوب تجربات ہوچکے ہیں۔ پاکستان، ایران اور افغانستان ایک دوسرے کے پڑوسی ممالک ہیں۔ ان تینوں ممالک کے باہمی دوستانہ تعلقات تینوں کے مفاد میں ہیں۔ پاکستان، ایران اور افغانستان کے پالیسی سازوں اور سیاسی قیادتوں کو امریکا یا روس کی طرف دیکھتے رہنے کے بجائے عوام کی ترقی اور بہبود کے لیے تینوں پڑوسی ممالک کے اشتراک وتعاون کے طریقوں پر غورکرنا چاہیے۔ پاکستان، ایران، افغانستان (P.I.A) کے درمیان اشتراک سے سب سے زیادہ فائدہ کئی دہائیوں تک جنگ میں مبتلا رہنے والے ملک افغانستان کو ہوگا۔ اس اشتراک و تعاون سے وسطی ایشیائی ریاستوں کی معیشت کیلیے بھی ترقی کی راہیں کھلیں گی۔ اس اشتراک سے توانائی کے بحران میں مبتلا پاکستان کے لیے سستی توانائی کا حصول آسان ہوگا۔ پاکستان کے مغربی پڑوسی ملک ایران کی برامدات کو اس کے مشرقی ممالک تک تیز ترین فراہمی اور ایرانی معیشت کی ترقی کے لیے نئی نئی راہیں کھلیں گی۔


توقع ہے کہ سرد جنگ سے بری طرح متاثرہ یہ تینوں ملک یعنی پاکستان ایران اور افغانستان آپس میں تعاون برائے امن اور ترقی کے ایجنڈے پر مشترکہ طور پر کام کا آغاز کریں گے۔

..................

جنرل راحیل کی نئی ذمے داریاں

پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو ان کی شاندار خدمات کی وجہ سے پوری قوم نے بہت عزت و احترام سے نوازا۔ یہ محترم مقام تاریخ میں بہت کم جرنیلوں کے حصے میں آیا ہے۔ پاکستان آرمی سے بحیثیت سپہ سالار ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل راحیل شریف دہشت گردی کے خلاف 41مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک تاریخی اعزاز ہے۔ جنرل راحیل کی وساطت سے ملنے والے اس اعزاز پر پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستانی قوم کو فخر ہے۔ توقع ہے کہ جنرل راحیل شریف دنیا بھر خصوصاً مسلم ممالک میں امن کے حصول کے لیے کامیاب کوششوں کے ساتھ ساتھ ایران اور عرب ممالک کو قریب لانے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔

..................

وزارت عظمیٰ کو ندامت عظمیٰ کا سبب نہ بننے دیں۔

سپریم کورٹ میں پاناما مقدمے کے دونوں فریق 20اپریل کے فیصلے کو اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ حتمی طور اس کیس کا فیصلہ جو بھی آئے مجھے تو یہ کہنا ہے کہ عوامی عہدوں یا سرکاری مناصب کا حصول امانت کی پاسداری اور دیانت داروں کے ساتھ قوم کی خدمت اور تاریخ میں ایک محترم مقام بنانے کیلیے ہونا چاہیے۔ صدر، وزیر اعظم، وزراء سمیت سارے عوامی عہدے اور سب سرکاری عہدے قوم کی امانت سمجھے جانے چاہئیں۔ وزارت عظمیٰ کو ندامت عظمیٰ نہیںبلکہ سعادت عظمیٰ میں تبدیل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ جنرل یحیٰ خان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کا دور صدارت پوری قوم کے لیے ندامت کا سبب بنا۔ سیاست کے میدان میں اقتدار کے کھیل میں مصروف ہر کھلاڑی یہ عہد کرلے کہ وہ اقتدار کو ہمیشہ ایک امانت اور سعادت سمجھے گا۔ وزارت عظمیٰ کو کبھی ندامت عظمیٰ کا سبب نہیں بننے دے گا۔
Load Next Story