پاک چین اقتصادی راہداریشکوک اور حقائق

یاد رکھیں کہ جب سرمایہ کاری ہوتی ہے تو اس سے یا تو برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے یا درآمدات میں کمی

اخبارات میں صحافی حضرات کی جانب سے ایسے بہت سے مضامین اور کاروباری حضرات کی طرف سے ایسے بہت سے بیانات شایع کیے جا رہے ہیں جن میں سی پیک سے منسلک صنعتی زونز کے بارے میں تحفظات کے اظہار کے ساتھ ساتھ ہماری قومی ذمے داریوں کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کیونکہ بہت سے منصوبے چینی اور دیگر سرمایہ کاروں کی جانب سے شروع کیے جا رہے ہیں جب کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ تمام شکوک وشبہات درست نہیں ہیں اور میں اپنے اس مضمون میں ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کروں گا۔

اگرچہ وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی حکومت سرمایہ کاری میں 13سے15فیصد تک اضافہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن پھر بھی اگر جنوبی ایشیا کے دیگر ہمسایہ ممالک سے موازنہ کیا جائے تو ان ممالک کی اوسط شرح 30فیصد تک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ہماری سرمایہ کاری کم ہو گی اس وقت تک ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں نہ تو قومی آمدن' نہ برآمدات اور نہ ہی ملازمت کے مواقع بڑھائے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری میں کمی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں پانی' بجلی' گیس کی قلت' سیکیورٹی خدشات' موثر انفراسٹرکچر کی کمی' ریگولیٹری اور ٹیکس کے ناسازگار قوانین شامل ہیں۔

ایک ایسا ملک جہاں سالانہ سرمایہ کاری تقریباً 40 ارب امریکی ڈالر اور براہ راست مجموعی غیرملکی سرمایہ کاری تقریباً ایک ارب امریکی ڈالر ہو تو چند سالوں میں چین کی طرف سے 46ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری بلاشبہ ایک قابل ذکر بات ہے۔ یہ سرمایہ کاری اب تک 46ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ 35 ارب ڈالر پرائیویٹ سیکٹر انویسٹمنٹ توانائی کے منصوبوں میں اور باقی11 ارب ڈالر روڈ اور ریلوے انفراسٹرکچر میںسرمایہ کاری کے لیے رعایتی قرضہ جات تھے۔ گزشتہ چار سالوں میں حکومت نے ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں جن کی وجہ سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے مشترکہ ذرایع کو بروئے کارلاتے ہوئے ملک بھر میں روڈز اور پاور پلانٹس تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

موجودہ حکومت کے سی پیک اور دیگر اقدامات (جیسا کہ ایل این جی کی درآمد اور پی ایس ڈی پی فنڈز کے ذریعے آر ایل این جی۔ فائرڈ پاور پلانٹس کا قیام) سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کی وجوہات کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ ایک اندازے کے مطابق صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ہماری معیشت کو جی ڈی پی کا تقریباً1.5فیصد (یا سالانہ 450 ارب روپے کا) نقصان ہوتا ہے۔ 2018ء تک جدید انفراسٹرکچر کی فراہمی' لوڈشیڈنگ کے جلد خاتمے اور گیس کی کمی کو پورا کرنے سے ملک کی معیشت میں کم از کم 600ارب روپے تک اضافہ ممکن بنایا جا سکے گا۔ یہ ایک گروپ سے دوسرے گروپ میں منتقلی نہیں بلکہ یہ ہماری معیشت میں ایک نئی آمدنی کی شمولیت ہے جو پہلے نہیں تھی۔

جب سافٹ ڈرنک یا شیمپو کی غیرملکی کمپنی پاکستان میں سرمایہ کاری کرتی ہے تو ہم خوش ہوتے ہیں اور اس بات سے فکرمند نہیں ہوتے کہ ہر منافع بخش کمپنی جتنا زرمبادلہ ملک میں لاتی ہے اس سے کہیں زیادہ باہر لے کر جاتی ہے ۔ کسی بھی غیرملکی کمپنی کے لیے یہ صحیح طریقہ کار ہے جو اپنا منافع ملک میں واپس لاتی ہے جس سے ہماری موجودہ قومی آمدن میں کمی نہیں ہوتی لیکن معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ منافع اور انٹرسٹ جو واپس لیا جائے گا وہ آمدن کا ایک چھوٹا حصہ ہو گا اور ہمیں اس بات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ واپس کی جانیوالی رقم غیرملکی زرمبادلہ میں ہو گی کیونکہ مارکیٹ میں اس طرح کے حالات سے نمٹا جا سکتا ہے۔

(یاد رکھیں کہ جب سرمایہ کاری ہوتی ہے تو اس سے یا تو برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے یا درآمدات میں کمی)۔ اسی طرح جب چین یا دیگر سرمایہ کار سی پیک پاور پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں تو ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ منافع کے طور پر اپنے ملک بھیجی جانے والی رقم یا درآمد کردہ ایندھن کی لاگت ' صرف آمدنی کا حصہ ہو گی جو وہ بنائیں گے۔ اسی طرح انفراسٹرکچر بھی جو حکومت اپنے وسائل اور طویل المدتی' بارعایت چینی قرضوں سے تعمیر کر رہی ہے۔ اس انفراسٹرکچر سے خواہ وہ گیس پائپ لائن ہو' روڈز فائبر آپٹک کیبل یا ریلویز سگنلنگ سسٹم' ہماری معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ہماری صنعتیں بین الاقوامی معیار کی پیداوار کے ذریعے برآمدات میں اضافے کا سبب بنیں گی۔

میں اس بات کی نشاندہی بھی کرنا چاہوں گا کہ گیس اور کوئلے سے تیار کیے جانے والے نئے پاور پلانٹس پہلے سے قائم شدہ پلانٹس سے بہتر اور زیادہ پیداواری صلاحیت کے حامل ہوں گے۔ (فرنس آئل پلانٹس کی 28فیصد ایفیشنسی کے مقابلے میں نئے گیس پلانٹس کی کارکردگی 61 فیصد زیادہ بہتر ہے۔ غیر تکنیکی قارئین کے لیے اس کا مطلب یہ کہ ایندھن میں توانائی کا 28 فیصد بجلی میں تبدیل ہوتا ہے باقی ضایع ہو جاتا ہے)۔ مزید یہ کہ ڈیزل اور فرنس آئل کی نسبت کوئلے اور گیس کو بطور ایندھن استعمال کرنے سے لاگت میں کمی آتی ہے چنانچہ جب مہنگا ڈیزل اور فرنس آئل درآمد نہیںکریں گے تو ہم خاطر خواہ غیرملکی زرمبادلہ بچا سکیں گے۔


ہم گیس سے صرف گرم پانی کے گیزر نہیں چلانا چاہتے یا بجلی سے صرف ایئر کنڈیشنز نہیں چلانا چاہتے۔ ہم اپنی فیکٹریاں چلانا چاہتے ہیں، ایسی فیکٹریاں جن کی مصنوعات کی مانگ دنیا بھر میں ہے اور جن سے بہت سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور انھیں میں سے سی پیک سے منسلکہ اسپیشل اکنامک زونز کاکردار سامنے آتا ہے۔ ہم نے اپنے چینی دوستوں کو 9مقامات کی نشاندہی کی ہے، ہر صوبے میں بشمول گلگت بلتستان' اے جے کے اور آئی سی ٹی میں ایک ایک۔ اس کے علاوہ کراچی اور فاٹا کے لیے دو اضافی زونز کیونکہ یہ دو علاقے ماضی قریب میں پریشانی سے دو چار رہے ہیں اور یہ دونوں علاقے وزیراعظم پاکستان کے دل کے بہت قریب ہیں۔

میں اپنے کاروباری دوستوں کے خدشات کے جواب میں یہ بتانا چاہوں گا کہ پاکستانی سرمایہ کار حضرات کو سی پیک سے منسلک راستوں پر اسپیشل اکنامک زونز کے قیام پر پابندی عائد نہیں کی جائے گی اور نہ ہی قیام کیے جانے والے زونز میں فیکٹریاں کھولنے سے روکاجائے گا۔ چینی سرمایہ کاروں کو سستی بجلی فراہم نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ان کو ٹیکس اورڈیوٹی میں مقامی سرمایہ کاروں سے زیادہ چھوٹ دی جائے گی۔ یہ بات واضح ہے کہ سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ ہم بین الاقوامی زونز کی طرح ان زونز میں بھی ون ونڈو کی سہولت فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم انھیں گیس' بجلی' پانی کی بلاتعطل فراہمی کو اسی ریٹ پر یقینی بنائیں گے جس ریٹ پر پاکستانی سرمایہ کاروں کو فراہم کی جائے گی۔ ہم زونز کے ساتھ بہتر رابطوں کو یقینی بنائیں گے تاکہ وہ بین الاقوامی کمپنیوں کے معیار کے مطابق کام کر سکیں لیکن ہم اپنے پاکستانی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں رکھیں گے۔

پاکستانی معیشت میں شرح ترقی گزشتہ دو دہائیوں سے 3سے 5 فیصد کے درمیان رہی۔ 2013سے 2018ء کے درمیان ترقی کی شرح 3 فیصد سے بھی کم رہی اور اب ہم نے ترقی کی شرح5 فیصد تک حاصل کر لی ہے اور اس سال کے آخر تک 5.5فیصد ہونے کا قوی امکان ہے لیکن معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے' وسیع پیمانے پر ملازمت کے مواقع کی فراہمی اور غربت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دو دہائیوں کے لیے 8 فیصد تک ہدف حاصل کریں اور یہ توانائی' انفراسٹرکچر' تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بلاشبہ سی پیک بہت بڑا گیم چینجر ثابت ہو گا اور اس کے ذریعے ترقی کے بے پناہ مواقع میسر آئیں گے۔ سی پیک کے ذریعے ہمیں دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس موقع سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس خواب کو کس طرح حقیقت میں بدلتے ہیں۔

ماضی میں ہم نے بہت سے مواقع ضایع کیے ہیں۔ کیا ہم ترقی و خوشحالی کے اس موقع کو بھی ضایع کرنا چاہتے ہیں یا ہم ایک با اعتماد قوم کی طرح دلجمعی کے ساتھ مل کر کام کریں اور سی پیک کے ذریعے ملک بھر میں فیکٹریاں ' انفراسٹرکچر' پاور پلانٹس کی تعمیر کو عملی جامہ پہنائیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو خوشحال مستقبل کا تحفہ دیں۔

مجھے یقین ہے کہ ہم سب اس مرتبہ صحیح سمت میں گامزن ہوں گے۔

(مضمون نگار وزیر اعظم کے معاون خصوصی

برائے سرمایہ کاری ہیں)
Load Next Story