ناول نگاری کا ستارہ ٹوٹ گیا
ایم اے راحت نے 800سے زائد ناول لکھے وہ مقبولیت کی ان بلندیوں پر پہنچے جو بہت کم قلم کاروں کے حصے میں آتی ہے
ناول نگاری کے فن کو بام عروج پر پہنچانے والا ایک روشن ستارہ ٹوٹ گیا، ایم اے راحت دار فانی سے کوچ کرگئے ،ان کے ناولوں کے لاکھوں پڑھنے والوں کو جہاں یہ خبر اداس کر گئی، وہیں اسے ہم ادب کا بہت بڑا نقصان قرار دے سکتے ہیں ۔ اپنے قلم کے ذریعے لاکھوں قارئین کو اپنا مداح بنانے والے ایم اے راحت نے آٹھ سوسے زائد ناول لکھے، وہ مقبولیت کی ان بلندیوں پر پہنچے جو بہت کم قلمکاروں کے حصے میں آتی ہے ۔ ناول نگاری کی صنف گوکہ ہماری زبان اردو میں مغرب سے آئی، لیکن ہمارے قلم کاروں نے اس صنف کو اتنا بام عروج پر پہنچایا کہ یہ اردو ادب کی مقبول ترین صنف بن گئی۔ اس میں ان تمام اہل قلم کا نمایاں حصہ ہے ، جنھوں نے ہزاروں ، لاکھوں صفحات لکھے، اور امر ہوگئے۔
ایم اے راحت جاسوسی تحریروں میں ابن صفی اور تاریخی ادب میں نسیم حجازی سے متاثر ضرور تھے، لیکن فکشن میں ان کا اپنا منفرد اسلوب تھا،وہ اْردو ادب کے چند بڑے ناموں میں شمار کیے جاتے ہیں ،800 سے زائد ناولوں کے لکھاری، کالا جادو، ناگ دیوتا، کمند، کالے گھاٹ والی، کفن پوش، صندل کے تابوت، شہر وحشت، جھرنے، سایہ، کالے راستے انْ کی دیومالائی تخلیقات میں سے ہیں۔انھوں نے بچوں کے لیے بھی بے شمارکہانیاں لکھیں۔ عمران سیریز میں ان کی کہانیاں لیڈی پارکر، کالی طاقت اور عمران ان ایکشن آج بھی مقبول عام ہیں۔ مغرب میں تو فکشن رائٹرزکو بہت بھاری معاوضے دیے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات توایک مقبول ناول مصنف کو راتوں رات کروڑ یا ارب پتی بنا دیتا ہے۔
ہمارے یہاں ایسی کوئی روایت ہی نہیں، سارا فائدہ پبلشر اور تقسیم کار ادارے اٹھاتے ہیں۔ ہمارے تو یہ صورتحال ہے کہ ایم اے راحت آٹھ ماہ سے برین ٹیومرکے عارضے میں مبتلا تھے، 8روز قبل کومہ میں چلے گئے اوراسی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ سماج اور حکومتی اداروں کا بے رحمانہ رویہ اتنے بڑے ناول نگار کے ساتھ ہماری قدروں کے زوال کی علامت ہے ۔ حکومتی سطح پر ایم اے راحت کی قلمی کاوشوں کے حوالے سے بڑے اعزاز سے نوازا جانا ضروری ہے تاکہ ان جیسے قلمکاروں کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے ، ناقدری اور ناشناسی سے بچا جائے۔ بہرحال ایم اے راحت اپنے فن کے حوالے سے یکتا تھے اور اب وہ امر ہوگئے یہی ایک قلمکار کی عظمت کی دلیل ہے۔
ایم اے راحت جاسوسی تحریروں میں ابن صفی اور تاریخی ادب میں نسیم حجازی سے متاثر ضرور تھے، لیکن فکشن میں ان کا اپنا منفرد اسلوب تھا،وہ اْردو ادب کے چند بڑے ناموں میں شمار کیے جاتے ہیں ،800 سے زائد ناولوں کے لکھاری، کالا جادو، ناگ دیوتا، کمند، کالے گھاٹ والی، کفن پوش، صندل کے تابوت، شہر وحشت، جھرنے، سایہ، کالے راستے انْ کی دیومالائی تخلیقات میں سے ہیں۔انھوں نے بچوں کے لیے بھی بے شمارکہانیاں لکھیں۔ عمران سیریز میں ان کی کہانیاں لیڈی پارکر، کالی طاقت اور عمران ان ایکشن آج بھی مقبول عام ہیں۔ مغرب میں تو فکشن رائٹرزکو بہت بھاری معاوضے دیے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات توایک مقبول ناول مصنف کو راتوں رات کروڑ یا ارب پتی بنا دیتا ہے۔
ہمارے یہاں ایسی کوئی روایت ہی نہیں، سارا فائدہ پبلشر اور تقسیم کار ادارے اٹھاتے ہیں۔ ہمارے تو یہ صورتحال ہے کہ ایم اے راحت آٹھ ماہ سے برین ٹیومرکے عارضے میں مبتلا تھے، 8روز قبل کومہ میں چلے گئے اوراسی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ سماج اور حکومتی اداروں کا بے رحمانہ رویہ اتنے بڑے ناول نگار کے ساتھ ہماری قدروں کے زوال کی علامت ہے ۔ حکومتی سطح پر ایم اے راحت کی قلمی کاوشوں کے حوالے سے بڑے اعزاز سے نوازا جانا ضروری ہے تاکہ ان جیسے قلمکاروں کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے ، ناقدری اور ناشناسی سے بچا جائے۔ بہرحال ایم اے راحت اپنے فن کے حوالے سے یکتا تھے اور اب وہ امر ہوگئے یہی ایک قلمکار کی عظمت کی دلیل ہے۔