یاد رکھیے یہی بچے ہمارا مستقبل ہیں
تعلیم تو انسان کو شعور اور آگہی دیتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ تشدد کا واقعہ اکثر و بیشتر پڑھا لکھا طبقہ ہی کرتا ہے؟
KARACHI:
آنکھوں میں چمک، گول مٹول چہرہ، گندمی رنگت اور دبتا ہوا قد، یہ عادل ہے، جس کی عمر 8 سے 9 برس کے درمیان ہوگی۔ عادل شکل سے بھلے ہی بھولا بھالا لگتا ہو، لیکن اِس میں سمجھداری بلا کی ہے۔ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننا چاہتا ہے مگر غربت نے اِس کے ننھے ننھے خوابوں اور خواہشوں کو اپنے بوجھ تلے دبارکھا ہے۔ دل پڑھائی کی جانب جتنا بھی مائل ہو لیکن اُسے یہ معلوم ہے کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اپنی خواہش کی قربانی دینی ہے۔
عادل جب 4 برس کا تھا تو باپ کا سایہ سر سے اُٹھ چکا تھا۔ ماں ہے مگر معذوری کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتی، اِس لیے دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے اُسے بڑے صاحب کے گھر سارا دن ملازمت کرنا پڑتی ہے۔ کون بڑے صاحب؟ وہی بڑے صاحب جو ایک معروف تنظیم چلاتے ہیں اور انسانی حقوق کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن اندر سے ایک دم دوغلے ہیں۔ عادل بڑے صاحب اور اُن کے بچوں کے بوٹ پالش کرتا، گھر کا سودا سلف لاتا، برتن دھوتا اور دن بھر کئی کام کرتا ہے، لیکن بدلے میں مالک کی جھڑکیاں، ڈانٹ اور مغلظات کے بعد صرف اتنا معاوضہ ملتا کہ دو وقت کی روٹی ہی مل پاتی۔ عادل کبھی اپنے زخموں کا تذکرہ معذور ماں سے نہ کرتا، لیکن دل میں ہمیشہ بڑے صاحب کا خوف رہتا۔ یہ خوف روز بروز بڑھتا جارہا تھا، ایک دن کپڑے استری کرتے ہوئے عادل سے بڑے صاحب کا کُرتا جل گیا، بس پھر کیا تھا بڑے صاحب نے آپے سے باہر ہوکر اُسی استری سے عادل کے ننھے ہاتھ جلادیے۔ صاحب کا بڑا پن عادل کی چیخوں تلے کہیں گم ہوگیا۔
نجانے عادل جیسے کتنے ہی بچے اور بچیاں گھریلو تشدد کا نشانہ بنتے ہیں، جن کی عمر ہاتھوں میں پینسل اور کمر پر بستہ ٹانگے اسکول جانے کی ہوتی ہے، مگر وہ غربت کا بوجھ کمر پر اٹھائے، بھوک مٹانے کے لیے کبھی بڑے صاحب کی جھڑکیاں کھاتے ہیں تو کبھی میم صاحب کی، حد تو یہ ہے کہ اکثر اسکولوں میں بھی بچوں پر ایسے تشدد کیا جاتا ہے جیسے وہ آپ کے خریدے گئے ملازم ہوں، جس کی حالیہ مثال لاڑکانہ کیڈٹ کالج میں محمد احمد پر ٹیچر کی جانب سے کیا جانے والا وحشت ناک تشدد ہے جس کے نتیجے میں اُس کے گلے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور ایک ہونہار و قابل لڑکا بولنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا۔ وہ تو شکر ہے اللہ تعالی کا کہ میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد محمد احمد امریکا میں کامیاب آپریشن کے بعد تیزی سے روبصحت ہورہا ہے۔
تعلیم انسان کو شعور اور آگہی دیتی ہے، اچھائی اور بُرائی میں تمیز دکھاتی ہے، صبر و برداشت کرنا سکھاتی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ تشدد کا واقعہ اکثر و بیشتر پڑھا لکھا طبقہ ہی کرتا ہے۔ آج کل کے حالات کے مطابق بچوں پر گھریلو تشدد سب سے زیادہ بااثر اور تعلیم یافتہ افراد کرتے ہیں۔ والدین غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے جبری مشقت اور گھریلو ملازمت پر لگوا دیتے ہیں۔ کچھ والدین قرض میں اتنے جکڑے ہوتے ہیں کہ بچوں کو قرضے کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بچوں پر تشدد خاص کر گھریلو تشدد کا کوئی قابلِ ذکر قانون موجود ہی نہیں اور اگر کوئی قانون ہے بھی تو اتنا پیچیدہ کہ کوئی بھی ان سب چکروں میں پڑنے کے بجائے سیدھا سادھا تشدد کرنے والی پارٹی سے رقم وصول کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
کہتے ہیں کہ انسان کو جس کام میں دلچسپی ہو وہ کام زیادہ بہتر طریقے سے ہوتا ہے، لیکن بہت سے والدین بچوں پر اپنی مرضی مسلط کردیتے ہیں یا مزاج کے اتنے سخت ہوتے ہیں کہ بچہ اپنے دل کی بات والدین تک پہنچا ہی نہیں پاتا۔ مثلاً والدین چاہتے ہیں کہ بچہ کلاس میں فرسٹ پوزیشن لے یا پھر اُن کی مرضی کا پیشہ اختیار کرے، ایسے میں بچہ اگر والدین کی توقعات پر پورا نہیں اُترتا تو وہ خوف کے مارے یا تو گھر سے فرار ہوجاتا ہے یا پھر خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر تعلیم یافتہ طبقہ پھول جیسے بچوں کو کیوں زدوکوب کرتا ہے، مارتا پیٹتا اور کوستا ہے؟
میرے نزدیک اِس کے بہت سے محرکات ہیں۔
یہ ساری تمہید باندھنے کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ بچے اپنے ہوں یا پرائے طبعیت میں پھولوں کی طرح نازک اور رنگین ہوتے ہیں، ذرا سی شدت اُن کی رونق اور تازگی چھین لیتی ہے۔ آپ نہ اپنے بچوں پر سختی کیجئے نہ ہی حالات کا شکار کم سن ملازموں پر، کیونکہ اُن کے دل نازک آبگینوں جیسے ہی ہوتے ہیں جو ذرا سی ٹھیس سے چٹک جاتے ہیں کجا کہ تشدد۔۔ یہی بچے کل کا مستقبل ہیں، ہم جو کوتاہیاں آج کریں گے، کل کو یہی اِن بچوں کے مستقبل کی بنیاد ہیں۔ چاہے تو اُن میں رواداری، مضبوط حوصلوں، عزم اور انسانیت کے بیج بوئیں یا تشدد، سختی، جبر اپنا کر اُن کی شخصیت کی بنیاد رکھ دیں، لیکن ہاں، کل کو یہ شکوہ نہیں کیجئے گا کہ معاشرہ بگڑ رہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آنکھوں میں چمک، گول مٹول چہرہ، گندمی رنگت اور دبتا ہوا قد، یہ عادل ہے، جس کی عمر 8 سے 9 برس کے درمیان ہوگی۔ عادل شکل سے بھلے ہی بھولا بھالا لگتا ہو، لیکن اِس میں سمجھداری بلا کی ہے۔ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننا چاہتا ہے مگر غربت نے اِس کے ننھے ننھے خوابوں اور خواہشوں کو اپنے بوجھ تلے دبارکھا ہے۔ دل پڑھائی کی جانب جتنا بھی مائل ہو لیکن اُسے یہ معلوم ہے کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اپنی خواہش کی قربانی دینی ہے۔
عادل جب 4 برس کا تھا تو باپ کا سایہ سر سے اُٹھ چکا تھا۔ ماں ہے مگر معذوری کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتی، اِس لیے دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے اُسے بڑے صاحب کے گھر سارا دن ملازمت کرنا پڑتی ہے۔ کون بڑے صاحب؟ وہی بڑے صاحب جو ایک معروف تنظیم چلاتے ہیں اور انسانی حقوق کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن اندر سے ایک دم دوغلے ہیں۔ عادل بڑے صاحب اور اُن کے بچوں کے بوٹ پالش کرتا، گھر کا سودا سلف لاتا، برتن دھوتا اور دن بھر کئی کام کرتا ہے، لیکن بدلے میں مالک کی جھڑکیاں، ڈانٹ اور مغلظات کے بعد صرف اتنا معاوضہ ملتا کہ دو وقت کی روٹی ہی مل پاتی۔ عادل کبھی اپنے زخموں کا تذکرہ معذور ماں سے نہ کرتا، لیکن دل میں ہمیشہ بڑے صاحب کا خوف رہتا۔ یہ خوف روز بروز بڑھتا جارہا تھا، ایک دن کپڑے استری کرتے ہوئے عادل سے بڑے صاحب کا کُرتا جل گیا، بس پھر کیا تھا بڑے صاحب نے آپے سے باہر ہوکر اُسی استری سے عادل کے ننھے ہاتھ جلادیے۔ صاحب کا بڑا پن عادل کی چیخوں تلے کہیں گم ہوگیا۔
نجانے عادل جیسے کتنے ہی بچے اور بچیاں گھریلو تشدد کا نشانہ بنتے ہیں، جن کی عمر ہاتھوں میں پینسل اور کمر پر بستہ ٹانگے اسکول جانے کی ہوتی ہے، مگر وہ غربت کا بوجھ کمر پر اٹھائے، بھوک مٹانے کے لیے کبھی بڑے صاحب کی جھڑکیاں کھاتے ہیں تو کبھی میم صاحب کی، حد تو یہ ہے کہ اکثر اسکولوں میں بھی بچوں پر ایسے تشدد کیا جاتا ہے جیسے وہ آپ کے خریدے گئے ملازم ہوں، جس کی حالیہ مثال لاڑکانہ کیڈٹ کالج میں محمد احمد پر ٹیچر کی جانب سے کیا جانے والا وحشت ناک تشدد ہے جس کے نتیجے میں اُس کے گلے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور ایک ہونہار و قابل لڑکا بولنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا۔ وہ تو شکر ہے اللہ تعالی کا کہ میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد محمد احمد امریکا میں کامیاب آپریشن کے بعد تیزی سے روبصحت ہورہا ہے۔
تعلیم انسان کو شعور اور آگہی دیتی ہے، اچھائی اور بُرائی میں تمیز دکھاتی ہے، صبر و برداشت کرنا سکھاتی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ تشدد کا واقعہ اکثر و بیشتر پڑھا لکھا طبقہ ہی کرتا ہے۔ آج کل کے حالات کے مطابق بچوں پر گھریلو تشدد سب سے زیادہ بااثر اور تعلیم یافتہ افراد کرتے ہیں۔ والدین غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے جبری مشقت اور گھریلو ملازمت پر لگوا دیتے ہیں۔ کچھ والدین قرض میں اتنے جکڑے ہوتے ہیں کہ بچوں کو قرضے کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بچوں پر تشدد خاص کر گھریلو تشدد کا کوئی قابلِ ذکر قانون موجود ہی نہیں اور اگر کوئی قانون ہے بھی تو اتنا پیچیدہ کہ کوئی بھی ان سب چکروں میں پڑنے کے بجائے سیدھا سادھا تشدد کرنے والی پارٹی سے رقم وصول کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
کہتے ہیں کہ انسان کو جس کام میں دلچسپی ہو وہ کام زیادہ بہتر طریقے سے ہوتا ہے، لیکن بہت سے والدین بچوں پر اپنی مرضی مسلط کردیتے ہیں یا مزاج کے اتنے سخت ہوتے ہیں کہ بچہ اپنے دل کی بات والدین تک پہنچا ہی نہیں پاتا۔ مثلاً والدین چاہتے ہیں کہ بچہ کلاس میں فرسٹ پوزیشن لے یا پھر اُن کی مرضی کا پیشہ اختیار کرے، ایسے میں بچہ اگر والدین کی توقعات پر پورا نہیں اُترتا تو وہ خوف کے مارے یا تو گھر سے فرار ہوجاتا ہے یا پھر خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر تعلیم یافتہ طبقہ پھول جیسے بچوں کو کیوں زدوکوب کرتا ہے، مارتا پیٹتا اور کوستا ہے؟
میرے نزدیک اِس کے بہت سے محرکات ہیں۔
- سب سے پہلا تو یہ کہ تشدد کرنے والے کی ماضی میں کچھ تلخ یادیں یا تجربات رہے ہیں۔ جس کی خلش میں وہ خود سے کمزور پر اپنا رعب جماتا ہے۔
- دوسرا خود کو برتر اور دوسرے کو کمتر دکھانے کے لیے بھی کوئی ایسی حرکت کرتا ہے، جس سے اُس کی اپنی ذات کو تسکین پہنچے۔ وہ والدین جو اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے تشدد کرتے ہیں، درحقیقت اُن میں یہی خوف اور حسد کی آگ ہوتی ہے کہ کہیں پڑوسی یا رشتے دار کا بچہ اُن کے بچے سے آگے نہ نکل جائے یا وہ اہداف جو والدین اپنے بچپن میں حاصل نہیں کرسکے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کے بچے بھی وہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ یہ وہ بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت ہے جس کی کشمکش میں وہ کوئی انتہائی قدم اُٹھا بیٹھتے ہیں۔
یہ ساری تمہید باندھنے کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ بچے اپنے ہوں یا پرائے طبعیت میں پھولوں کی طرح نازک اور رنگین ہوتے ہیں، ذرا سی شدت اُن کی رونق اور تازگی چھین لیتی ہے۔ آپ نہ اپنے بچوں پر سختی کیجئے نہ ہی حالات کا شکار کم سن ملازموں پر، کیونکہ اُن کے دل نازک آبگینوں جیسے ہی ہوتے ہیں جو ذرا سی ٹھیس سے چٹک جاتے ہیں کجا کہ تشدد۔۔ یہی بچے کل کا مستقبل ہیں، ہم جو کوتاہیاں آج کریں گے، کل کو یہی اِن بچوں کے مستقبل کی بنیاد ہیں۔ چاہے تو اُن میں رواداری، مضبوط حوصلوں، عزم اور انسانیت کے بیج بوئیں یا تشدد، سختی، جبر اپنا کر اُن کی شخصیت کی بنیاد رکھ دیں، لیکن ہاں، کل کو یہ شکوہ نہیں کیجئے گا کہ معاشرہ بگڑ رہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔