دیکھا تیرا امریکا تئیسویں اور آخری قسط
اب واپسی میں چند ہی روز باقی تھے۔ ہمیں پاکستان سے آئے دو ماہ ہونے کو تھے، یہ وقت کیسے گزرا؟ پتا بھی نہیں چلا۔
KARACHI:
نیویارک سے واپس آئے کئی روز ہوگئے تھے، اور اب پاکستان واپسی میں بھی بس چند ہی روز باقی تھے۔ ہمیں پاکستان سے آئے دو ماہ ہونے کو تھے، یہ وقت کیسے گزرا؟ پتا بھی نہیں چلا، اب ہم نے عدیل کو کہہ دیا تھا کہ اب کہیں نہیں جانا، کیونکہ باقی جو دن ہماری واپسی کے تھے وہ اپنی پیاری سی گڑیا کے ساتھ گزارنے تھے۔ ویسے بھی ہمارا امریکا آنے کا مقصد یہی تھا کہ بچے اِس بار اپنی مصروفیت کی وجہ سے پاکستان نہیں آئے تو اُن ملاقات کرلی جائے۔ ساتھ ساتھ ہم اپنی پیاری سی گڑیا عنایہ کی سالگرہ منانا چاہتے تھے اور اِس بات کا احساس عدیل کو اچھی طرح سے تھا۔ وہ دونوں خود بھی اُداس ہوگئے تھے لیکن کام ہی کچھ ایسے تھے کہ وہاں رکنا مجبوری بن گیا تھا، پھر ایک روز اُس نے ہمیں اطلاع کی کہ آُ لوگوں کے ٹکٹ ہوگئے ہیں تو اب آپ امریکا آجائیں۔
واپسی کی تاریخ میں اُس نے خیال رکھا تھا کہ عنایہ کی سالگرہ ہماری وہاں موجودگی میں ہی آئے۔ عنایہ کی سالگرہ جوں جوں قریب آ رہی تھی، اُس کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ پہلی سالگرہ اُسے یاد تھی جو اُس کے بابا نے دھوم دھام سے منائی تھی۔ اِس بار بھی عدیل خوب دھوم سے عنایہ کی سالگرہ منانا چاہتا تھا لیکن ایک تو عنایہ ابھی اسکول نہیں جاتی اِس لئے اُس کے کوئی دوست نہیں ہیں کہ انہیں بلاوہ دیا جاتا۔ دوسری بات یہ کہ امریکا میں نزدیک کوئی رشتہ دار بھی نہیں رہتا کہ انہیں ہی بلا لیا جائے۔ لے دے کر شازیہ اور احرار تھے اور ساتھ والے فلیٹ میں زین ظفر، اُس کی بیوی اور عنایہ کی دوست زین کی بیٹی تھی۔ ہمارے جانے سے تعداد 10 پر تو پہنچ ہی گئی تھی۔
دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)
دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)
دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (گیارہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (بارہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (تیرہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چودہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (پندرہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا(سولہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (سترہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا(اٹھارہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (انیسویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (بیسویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (اکیسویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (بائیسویں قسط)
عدیل اور میں نے عنایہ کے لئے کھلونے پہلے ہی لے آئے تھے۔ عنایہ اُن کپڑوں میں بالکل پری لگ رہی تھی جو اُس کی دادی پاکستان سے لے کر گئیں تھیں۔ عنایہ اپنی اکلوتی دوست نہال کے ساتھ سالگرہ کے تحفوں سے کھیلنے میں مشغول تھی۔ زین، عدیل کے بچپن کا دوست ہے، اب ایک ہی جگہ کام کرتے ہیں اور اِن کی بچیاں بھی بچپن کی سہیلیاں بن گئی ہیں، بچپن کی دوستی بڑی مضبوط ہوتی ہے۔
رابعہ نے دو کیک میز پر رکھے تو سب نے سوالیہ انداز میں دیکھا، رابعہ نے بتایا کہ ایک کیک عنایہ کے بابا خود اپنی پسند سے لائے تھے جو عنایہ نے ریجیکٹ کردیا اور خود اپنے بابا کے ساتھ جاکر نیا کیک لائی ہے۔ عنایہ نے اپنی دوست نہال کے ساتھ مل کر اپنی سالگرہ کا کیک کاٹا اور دوبارہ اپنی دوست کے ساتھ کھیلنے لگی۔ اچانک اُسے نجانے کیا سوجھی کہ اپنے ایک کھلونے کا میوزک اسٹارٹ کرکے بولی،
ابو لیٹس ڈانس ۔۔۔ اور دادا اِس عمر میں بچے بن گئے۔
اگلے دو دن کیسے گزر گئے، پتہ ہی نہیں چلا۔ عدیل، رابعہ اور دادا کی جان عنایہ ہمیں خدا حافظ کہنے ایئرپورٹ آئے تو منظر وہی پرانا تھا، آج بھی عنایہ اپنے بابا کی گود سے اُتر کر دادی کی طرف بھاگ رہی تھی۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُس روز دادی نے عنایہ کو اٹھا لیا تھا اور آج اُس کے بابا نے اُسے اُٹھایا اور خدا حافظ کہہ کر واپسی کے لئے مڑ گیا۔
ہیپی برتھ ڈے عنایہ
نیویارک سے واپس آئے کئی روز ہوگئے تھے، اور اب پاکستان واپسی میں بھی بس چند ہی روز باقی تھے۔ ہمیں پاکستان سے آئے دو ماہ ہونے کو تھے، یہ وقت کیسے گزرا؟ پتا بھی نہیں چلا، اب ہم نے عدیل کو کہہ دیا تھا کہ اب کہیں نہیں جانا، کیونکہ باقی جو دن ہماری واپسی کے تھے وہ اپنی پیاری سی گڑیا کے ساتھ گزارنے تھے۔ ویسے بھی ہمارا امریکا آنے کا مقصد یہی تھا کہ بچے اِس بار اپنی مصروفیت کی وجہ سے پاکستان نہیں آئے تو اُن ملاقات کرلی جائے۔ ساتھ ساتھ ہم اپنی پیاری سی گڑیا عنایہ کی سالگرہ منانا چاہتے تھے اور اِس بات کا احساس عدیل کو اچھی طرح سے تھا۔ وہ دونوں خود بھی اُداس ہوگئے تھے لیکن کام ہی کچھ ایسے تھے کہ وہاں رکنا مجبوری بن گیا تھا، پھر ایک روز اُس نے ہمیں اطلاع کی کہ آُ لوگوں کے ٹکٹ ہوگئے ہیں تو اب آپ امریکا آجائیں۔
واپسی کی تاریخ میں اُس نے خیال رکھا تھا کہ عنایہ کی سالگرہ ہماری وہاں موجودگی میں ہی آئے۔ عنایہ کی سالگرہ جوں جوں قریب آ رہی تھی، اُس کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ پہلی سالگرہ اُسے یاد تھی جو اُس کے بابا نے دھوم دھام سے منائی تھی۔ اِس بار بھی عدیل خوب دھوم سے عنایہ کی سالگرہ منانا چاہتا تھا لیکن ایک تو عنایہ ابھی اسکول نہیں جاتی اِس لئے اُس کے کوئی دوست نہیں ہیں کہ انہیں بلاوہ دیا جاتا۔ دوسری بات یہ کہ امریکا میں نزدیک کوئی رشتہ دار بھی نہیں رہتا کہ انہیں ہی بلا لیا جائے۔ لے دے کر شازیہ اور احرار تھے اور ساتھ والے فلیٹ میں زین ظفر، اُس کی بیوی اور عنایہ کی دوست زین کی بیٹی تھی۔ ہمارے جانے سے تعداد 10 پر تو پہنچ ہی گئی تھی۔
دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)
دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)
دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (گیارہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (بارہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (تیرہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چودہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (پندرہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا(سولہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (سترہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا(اٹھارہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (انیسویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (بیسویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (اکیسویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (بائیسویں قسط)
عدیل اور میں نے عنایہ کے لئے کھلونے پہلے ہی لے آئے تھے۔ عنایہ اُن کپڑوں میں بالکل پری لگ رہی تھی جو اُس کی دادی پاکستان سے لے کر گئیں تھیں۔ عنایہ اپنی اکلوتی دوست نہال کے ساتھ سالگرہ کے تحفوں سے کھیلنے میں مشغول تھی۔ زین، عدیل کے بچپن کا دوست ہے، اب ایک ہی جگہ کام کرتے ہیں اور اِن کی بچیاں بھی بچپن کی سہیلیاں بن گئی ہیں، بچپن کی دوستی بڑی مضبوط ہوتی ہے۔
رابعہ نے دو کیک میز پر رکھے تو سب نے سوالیہ انداز میں دیکھا، رابعہ نے بتایا کہ ایک کیک عنایہ کے بابا خود اپنی پسند سے لائے تھے جو عنایہ نے ریجیکٹ کردیا اور خود اپنے بابا کے ساتھ جاکر نیا کیک لائی ہے۔ عنایہ نے اپنی دوست نہال کے ساتھ مل کر اپنی سالگرہ کا کیک کاٹا اور دوبارہ اپنی دوست کے ساتھ کھیلنے لگی۔ اچانک اُسے نجانے کیا سوجھی کہ اپنے ایک کھلونے کا میوزک اسٹارٹ کرکے بولی،
ابو لیٹس ڈانس ۔۔۔ اور دادا اِس عمر میں بچے بن گئے۔
اگلے دو دن کیسے گزر گئے، پتہ ہی نہیں چلا۔ عدیل، رابعہ اور دادا کی جان عنایہ ہمیں خدا حافظ کہنے ایئرپورٹ آئے تو منظر وہی پرانا تھا، آج بھی عنایہ اپنے بابا کی گود سے اُتر کر دادی کی طرف بھاگ رہی تھی۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُس روز دادی نے عنایہ کو اٹھا لیا تھا اور آج اُس کے بابا نے اُسے اُٹھایا اور خدا حافظ کہہ کر واپسی کے لئے مڑ گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔