مشترکہ خاندانی نظام سائبان ہے

روایتی طور پر ایشیائی باشندے ہمیشہ سے بڑے خاندانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔

مشترکہ خاندانی نظام میں بہوؤں سے سسرال والوں کی توقعات بہت زیادہ قائم ہو جاتی ہیں۔ فوٹو: فائل

مشترکہ خاندانی نظام ہماری مشرقی روایات کا آئینہ دار ہے، مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظام زندگی متروک ہوتا جا رہا ہے۔

روایتی طور پر ایشیائی باشندے ہمیشہ سے بڑے خاندانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں، جہاں سب سے بڑا آدمی گھر کا سربراہ مانا جاتا ہے۔ اس کے بعد شوہر، بیوی، بہو، بیٹے، چچا، چچی اور دادا، دادی وغیرہ ایک ہی چھت تلے مل جل کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ گائوں اور دیہی علاقوں میں تو مشترکہ خاندانی نظام اب بھی قائم ہے، تاہم شہروں میں اکائی خاندانی نظام اور آزادانہ طور پر زندگی گزارنے کی ریت پڑ گئی ہے۔ جدید دور کے مقابلے میں ماضی میں تعیشات کی کمی تھی اور زندگی سادہ اور پر سکون تھی۔

گو کہ ہم اس بات کا اعتراف برملا کرتے ہیں کہ آج کی نسل زیادہ سمجھ دار اور باشعور ہے، مگر جب معاملہ ایک دوسرے سے برداشت اور دلوں میں گنجائش کا آتا ہے تو ہم روز بہ روز اس سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ دلوں میں رنجشیں بڑھتی جا رہی ہیں، بھائی اپنے بھائی کے ساتھ رہنے پر رضا مند نہیں، اور جہاں آج یہ مشترکہ خاندانی نظام رہ گیا ہے وہاں بھی عجیب چپقلش جا ری ہے۔ کہیں ساس، بہو میں نہیں بنتی تو کہیں نند اور بھاوج دشمن بنی ہوئی ہیں، تو کسی گھر میں جٹھانی اپنی دیورانی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ غرض یہ کہ آپس میں نااتفاقیاں، لڑائی، جھگڑے بڑھتے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے شہروں میں بڑی تیزی سے مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹتا جا رہا ہے۔

زمانہ کی بڑھتی ہوئی ترقی، دولت کی ہوس اور نمود ونمائش نے خون کے رشتوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ ساتھ رہنے کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے ہر شخص اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں خوش ہے۔ حالات اس ڈگر تک پہنچ گئے ہیں کہ آج کل کی بہوئویں شادی کے فوری بعد الگ گھر کا مطالبہ کر دیتی ہیں۔ اس با ت میں کوئی شک نہیں کہ ایک نئے گھر میں اس کے لیے اتنے سارے رشتوں کے ساتھ گزارا کرنا بہت سی ذمہ داریوں کا تقاضا کرتا ہے، اگر احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو ہر گھڑی ایک نیا امتحان لاتی ہے، مگر یہ ہی وہ وقت ہوتا ہے جب کسی بھی لڑکی کی ماں کی بہترین تربیت کام آتی ہے، اور وہ بہ حسن وخوبی نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہوتی ہے بلکہ ساتھ ہی وہ اچھی بیوی، بہو اور بھاوج بن کر سسرالیوں کا بھی دل موہ لیتی ہے، جب کہ اگر صورت حال اس کے برعکس ہو تو معاملات بگڑنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔

مشترکہ خاندانی نظام میں بہوؤں سے سسرال والوں کی توقعات بہت زیادہ قائم ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات تو ان پر شوہروں کی طرف سے یہ دبائو ہوتا ہے کہ وہ گزشتہ زندگی کو بھول کر فوری طور پر ان کے گھر کے طور طریقے اپنا لیں۔ کچھ گھروں میں یہیں سے مسائل کی ابتدا ہوتی ہے، ایسے گھرانوں سوچنا چاہیے کہ بہو بن کر آنے والی لڑکی بھی ایک نئے ماحول میں آئی ہے۔ اسے خود کو اس ماحول سے ہم آہنگ کرنے میں تھوڑا وقت تو ملنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہو تو شوہر کو اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اپنے گھر والوں کو اس امر پر راضی کرنا چاہیے کہ وہ اس کی نصف بہتر کو نئی توقعات پر اترنے کے لیے کچھ وقت دیں۔


شوہر کا یہ مثبت رویہ ان کی شادی شدہ زندگی کی کام یابی کی ضمانت ثابت ہوگا۔ مرد پر یہ دُہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اسے ماں اور بیوی کے درمیان رابطہ کار کا کردار بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ حالات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب خدانخواستہ گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے ساس بہو کے درمیان سرد مہری میں بات چیت بند ہو۔ اس وقت وہ دونوں ہی شوہر یا بیٹے کو اپنی طرف کھینچنے میں لگ جاتی ہیں۔ یہاں شوہر کی فہم وفراست کام آتی ہے، اس لیے رشتوں میں توازن پیدا کرنا ضروری ہے۔

موجودہ دور میں اگرچہ مشترکہ خاندانی نظام تیزی سے قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مشرکہ خاندانی نظام نسل نو کوایک اعتماد بخشتا ہے، بچوں کو اپنے بزرگوں کی صحبت میسر آتی ہے جس کے ساری زندگی ان پر نقوش رہتے ہیں۔ والدین کے ساتھ رہنا اس دور میں ایک سعادت ہے۔ ساتھ رہنے میں جہاں کچھ مشکلیں ہیں، وہاں بہت ساری آسانیاں بھی ہیں۔

معاشرتی سہولیات کے ساتھ اس مہنگائی کے دور میں گھر کا بوجھ کسی ایک شخص کے کندھے پر نہیں ہوتا بلکہ سب مل جل کر بار اٹھا لیتے ہیں۔ رشتے داروں کے درمیان باہمی اتفاق پایا جاتا ہے۔ جب کہ انفرادی طور پر رہنے والوں کو روزگار کی پریشانیوں کے ساتھ بعض اوقات گھریلو مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں۔ جب کسی بھی فرد پر کوئی مشکل آ پڑتی ہے، تو سارے گھر والے اس کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے بکھرتے ہوئے اس نظام کو قائم رکھنے میں زیادہ قربانیاں گھر کے بڑوں خصوصا ساس سسر کو دینا پڑیں گی، کیوںکہ اگر وہ اپنی عقل مندی اور معاملہ فہمی سے چھوٹوں کی نادانیاں خصوصا بہو کی غلطیوں کو معاف کر دیں، تو یہ نظام ٹوٹنے سے بچ سکتا ہے۔

بہو اور بیٹی کے درمیان فرق روا رکھنے والے والدین پیار بھرے رشتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ساس، بہو ایک دوسرے کے مخالفین بننے کے بہ جائے ایک دوسرے کا سہارا بنیں، گھر کی عزت پر حرف نہ آنے دیں۔ بہو کو چاہیے کہ وہ ساس سسر کو اپنے والدین کی جگہ رکھ کر سوچے تواس کا دل خودبہ خود ان کی فرماں برداری کرنے لگے گا۔ اہل خانہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر آنے والی لڑکی کو کھلے دل سے قبول کریں۔

اس کی چھوٹی چھوٹی کاوشوں کی تعریف کریں۔ اس سے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے گنجایش پیدا ہوگی۔ اگر بھابی کی کسی بات سے دکھ پہنچے یا دل برا ہو تو چار لوگوں میں بیٹھ کر اس کا مذاق اڑانے یا اس پر طنز کرنے کے بہ جائے تنہائی میں بٹھا کر بات کی جائے تاکہ دلوں میں رنجشیں پروان نہ چڑھیں، گلے شکوے طول پکڑنے سے قبل ہی ختم ہو جائیں اور مشترکہ خاندانی نظام کسی گل دستے کی صورت برقرار رہے۔
Load Next Story