ڈرون حملوں پر امریکی سفیر کا تازہ ارشاد
امریکا نے ڈرون حملے جاری رکھنے کاعندیہ دے کر واضح کر دیا ہے کہ وہ یہاں ایک طویل جنگ جاری رکھناچاہتا ہے۔
لاہور:
پاکستان میں متعین امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے ڈرون حملوں کی پالیسی کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بند نہیں ہو سکتے۔امریکی سفیر کا یہی کہنا ہے کہ یہ غیر ریاستی عناصر کے خلاف پاکستانی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہیں۔ امریکی سفیر نے یہ بات ہفتے کو پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے منعقدہ ایک مباحثے کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہی۔ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ گزشتہ کئی سال سے جاری ہے جن میں اب تک متعدد القاعدہ اور طالبان رہنمائوں مارے گئے ہیں لیکن ان حملوں میںمقامی عورتوں' بچوں سمیت سیکڑوں بے گناہ افراد بھی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
پاکستان کا ڈرون حملوں کے بارے میں موقف ہے کہ یہ اس کی خود مختاری پر کھلم کھلا حملے ہیں۔ ان حملوں میں عورتوں اور بچوں سمیت بے گناہ افراد کی بڑی تعداد جاں بحق ہو رہی ہے جس سے شدت پسندی میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے ۔ مگر امریکا نے پاکستان کے مطالبے کو ہر بار مسترد کیا۔یوں امریکا کے یہ حملے بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ پاکستان کی ڈرون حملوں کے بارے میں پالیسی ابھی تک گومگو کا شکار ہے۔ پہلے تو وہ ڈرون حملوں پر احتجاج کرتا رہا جس کے بارے میں بعض امریکی حلقوں کی جانب سے یہ باتیں بھی سامنے آئیں کہ پاکستانی حکام اندرون خانہ ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہیں۔
اب کافی عرصہ سے ہونے والے ڈرون حملوں پر پاکستانی حکام نے چپ سادھ رکھی اور احتجاج کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ پاکستانی حکومت کو ڈرون حملوں کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کرنا ہو گی آیا کہ وہ ڈرون حملوں کی مخالف ہے یا حامی۔ اس گومگو کی کیفیت کو ختم کرنا ہو گا۔پاکستانی حکومت کی کمزور پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب ایک بار پھر امریکی سفیر نے اعلان کر دیا ہے کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اب یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے اور پاکستان کو ان حملوں سے کب نجات ملے گی اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ امریکی سفیر کے بیان پر پاکستانی حکام کا کوئی ردعمل بھی سامنے نہیں آیا ۔
دوسری جانب امریکی سفیر نے ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے' دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ امریکی حکام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قربانیوں کا کئی بار اعتراف کر چکے ہیں مگر وہ ڈرون حملے بند کرنے کا پاکستانی مطالبہ ماننے کو تیار نہیں۔ دوسری جانب وہ سول جوہری ٹیکنالوجی پاکستان کو دینے سے مسلسل انکاری ہیں جب کہ پاکستان کے حریف بھارت سے اس کا معاہدہ کر چکے ہیں۔ امریکی سفیر نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کو سول جوہری ٹیکنالوجی دینے کا منصوبہ زیر غور نہیں۔
امریکا نے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے مگر وہ اپنے اہداف میں مکمل کامیاب نہیں ہو سکا اور طالبان اب بھی اس کے خلاف گوریلا جنگ جاری رکھے ہوئے اور بھرپور حملے کر رہے ہیں۔ امریکا کی افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کو مذاکرات کی متعدد بار دعوت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ جنگ کے ذریعے طالبان کو ختم نہیں کر سکا۔ اپنے اہداف کے حصول کے لیے اسے مزید ایک طویل جنگ لڑنا پڑے گی جس کا اس کی معیشت پر بھاری اثر پڑے گا۔
اب امریکا نے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھنے کا عندیہ دے کر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ یہاں ایک طویل جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اس طویل جنگ کے پاکستان کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیںجس سے ملک میں انتشار' بدامنی اور افراتفری پھیلے گی۔ پاکستان کو ڈرون حملے رکوانے کے لیے اپنی گومگو کی پالیسی میں تبدیلی لانا ہو گی ورنہ وہ دہشت گردی کی جنگ کے پنجوں میں طویل عرصے تک جکڑا رہے گا۔
پاکستان میں متعین امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے ڈرون حملوں کی پالیسی کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بند نہیں ہو سکتے۔امریکی سفیر کا یہی کہنا ہے کہ یہ غیر ریاستی عناصر کے خلاف پاکستانی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہیں۔ امریکی سفیر نے یہ بات ہفتے کو پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے منعقدہ ایک مباحثے کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہی۔ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ گزشتہ کئی سال سے جاری ہے جن میں اب تک متعدد القاعدہ اور طالبان رہنمائوں مارے گئے ہیں لیکن ان حملوں میںمقامی عورتوں' بچوں سمیت سیکڑوں بے گناہ افراد بھی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
پاکستان کا ڈرون حملوں کے بارے میں موقف ہے کہ یہ اس کی خود مختاری پر کھلم کھلا حملے ہیں۔ ان حملوں میں عورتوں اور بچوں سمیت بے گناہ افراد کی بڑی تعداد جاں بحق ہو رہی ہے جس سے شدت پسندی میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے ۔ مگر امریکا نے پاکستان کے مطالبے کو ہر بار مسترد کیا۔یوں امریکا کے یہ حملے بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ پاکستان کی ڈرون حملوں کے بارے میں پالیسی ابھی تک گومگو کا شکار ہے۔ پہلے تو وہ ڈرون حملوں پر احتجاج کرتا رہا جس کے بارے میں بعض امریکی حلقوں کی جانب سے یہ باتیں بھی سامنے آئیں کہ پاکستانی حکام اندرون خانہ ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہیں۔
اب کافی عرصہ سے ہونے والے ڈرون حملوں پر پاکستانی حکام نے چپ سادھ رکھی اور احتجاج کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ پاکستانی حکومت کو ڈرون حملوں کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کرنا ہو گی آیا کہ وہ ڈرون حملوں کی مخالف ہے یا حامی۔ اس گومگو کی کیفیت کو ختم کرنا ہو گا۔پاکستانی حکومت کی کمزور پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب ایک بار پھر امریکی سفیر نے اعلان کر دیا ہے کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اب یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے اور پاکستان کو ان حملوں سے کب نجات ملے گی اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ امریکی سفیر کے بیان پر پاکستانی حکام کا کوئی ردعمل بھی سامنے نہیں آیا ۔
دوسری جانب امریکی سفیر نے ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے' دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ امریکی حکام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قربانیوں کا کئی بار اعتراف کر چکے ہیں مگر وہ ڈرون حملے بند کرنے کا پاکستانی مطالبہ ماننے کو تیار نہیں۔ دوسری جانب وہ سول جوہری ٹیکنالوجی پاکستان کو دینے سے مسلسل انکاری ہیں جب کہ پاکستان کے حریف بھارت سے اس کا معاہدہ کر چکے ہیں۔ امریکی سفیر نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کو سول جوہری ٹیکنالوجی دینے کا منصوبہ زیر غور نہیں۔
امریکا نے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے مگر وہ اپنے اہداف میں مکمل کامیاب نہیں ہو سکا اور طالبان اب بھی اس کے خلاف گوریلا جنگ جاری رکھے ہوئے اور بھرپور حملے کر رہے ہیں۔ امریکا کی افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کو مذاکرات کی متعدد بار دعوت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ جنگ کے ذریعے طالبان کو ختم نہیں کر سکا۔ اپنے اہداف کے حصول کے لیے اسے مزید ایک طویل جنگ لڑنا پڑے گی جس کا اس کی معیشت پر بھاری اثر پڑے گا۔
اب امریکا نے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھنے کا عندیہ دے کر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ یہاں ایک طویل جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اس طویل جنگ کے پاکستان کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیںجس سے ملک میں انتشار' بدامنی اور افراتفری پھیلے گی۔ پاکستان کو ڈرون حملے رکوانے کے لیے اپنی گومگو کی پالیسی میں تبدیلی لانا ہو گی ورنہ وہ دہشت گردی کی جنگ کے پنجوں میں طویل عرصے تک جکڑا رہے گا۔