لانگ مارچ کا شاہنامہ
دہشتگردی کی جنگ کا الجھاوا ختم ہونے میں نہیں آتا کہ اوپر سے بھارت نے لائن آف کنٹرول پر جارحیت کا آغاز کر دیا۔
DHEHERKI:
لانگ مارچ عوام کی امنگوں کا مظہر تھا،اس نے اسلام آباد کا رخ کیا تو دلوں کی دھڑکنیںتیز تر ہو گئیں اور ہونٹوں پر دعائیں مچلنے لگیں، قافلہ لاہور سے چلا تو کہا گیا کہ چند سو افراد نکل سکے، ایک دن اور ایک رات کے سفر کے بعد بلیو ایریا میں اس نے پڑاؤ ڈالا تو بھی کہا گیا کہ تعداد چند ہزار ہے، نہ ملین میں ہے اور نہ چار لاکھ یا چالیس لاکھ۔بلیو ایریا میں تو پھر بھی چند ہزار لوگ ضرور موجود تھے اور اب تو اس امر پر اتفاق رائے ہے کہ یہ تعداد ستر ہزار کے قریب تھی، ان میں شیر خوار بھی تھے، معصوم بچے بھی تھے۔
ڈاکٹر قادری نے اپنا ایجنڈہ مینار پاکستان کی تقریر میںپوری طرح واضح کر دیا تھا۔انھوں نے آئین اور انتخابی قوانین کے سوا کوئی حوالہ نہ دیا اور انھی میں درج شرائط کے تحت الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا۔ جواب میں یہ رٹ لگا دی گئی کہ ایک غیر ملکی اپنا ایجنڈہ کیسے مسلط کر سکتا ہے،کسی نے کہا کہ وہ تبدیلی کی بات کرتا ہے تو الیکشن لڑے۔کسی نے پوچھا ، اس قدر سرمایہ کہاں سے آیا۔ تعجب کی بات ہے کہ ان تمام اعتراضات کا جواب ان کی پہلی تقریر میں موجود تھا، وہ کہہ چکے تھے کہ جس دن وہ الیکشن لڑیں گے، بیرونی شہریت ترک کر دیں گے، موجودہ حیثیت میں آئین کی طرف سے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ، وہ بتا چکے تھے کہ پیسہ کیسے اکٹھے ہوا، وہ نگران حکومت کے لیے آئینی شق کے حوالے سے بھی واضح کر چکے تھے کہ یہ شق وسیع تر مشاورت سے نہیں روکتی۔ اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں۔
ان کی رو سے یہ اعتراض تو ختم ہو چکا ، حکومتی اتحادیوںنے بھی مان لیا کہ وہ نگران حکومت کے لیے مشاورت کا دائرہ وسیع کریں گے اور اپوزیشن کے قائد میاں نواز شریف بھی ریکارڈ پر ہیں کہ تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے کر ہی نگران حکومت تشکیل دی جائے گی، سو لانگ مارچ نے آئین کی اس شرط کو تو پہلے ہلے میں ہوا میں اڑا دیا، باقی تمام مطالبے تو آئین کے عین مطابق ہیں اور ہر کوئی خفت مٹانے کے لیے کہہ رہا ہے کہ ان کو منوانے کے لیے لانگ مارچ کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ان مطالبوں میں سر فہرست ہے آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کا حقیقی نفاذ۔ایک طرف یہ طنز کہ آئین میں یہ پابندی تو پہلے ہی موجود ہے۔
دوسری طرف یہ ڈھکوسلا کہ یہ پابندی ایک فوجی ڈکٹیٹر ضیا الحق نے ڈالی تھی ، ٹھیک ہے، اسی نے ڈالی تھی توا ٓٹھویں ترمیم سے لے کر بیسویں ترمیم تک کسی پارلیمنٹ نے یہ ترمیم برقرار کیوں رکھی اور اگر یہ آئین میں موجود ہے تو پھر اسے پارلیمنٹ کو own کرنا چاہیے اور اس پر عمل در آمد میں لیت و لعل سے کام کیوںلیا جا رہا ہے۔ لانگ مارچ نے سب سے بڑی کامیابی یہ بھی حاصل کی کہ باسٹھ تریسٹھ کے تحت چھان بین کے لیے ایک دن کے بجائے ایک ماہ مخصوص کیا جائے تاکہ کوئی غلط کار شخص پارلیمنٹ میں نہ پہنچ سکے۔اب اگر الیکشن ہوا تو باسٹھ تریسٹھ کی شرائط کے تحت ہو گا ورنہ دما دم مست قلندر ہو گا۔کوئی ٹیکس چور، کوئی بد دیانت، کوئی منافع خور ، کوئی استحصال کرنے والا، کوئی قرضے ہضم کرنے والا، کوئی جھوٹا، کوئی سزا یافتہ شخص الیکشن کے عمل میں داخل نہیں ہو سکتا۔
اگرچہ پاکستان میں بھارت کی طرح کا انتخا بی نظام نہیں جس میں الیکشن کے تمام جھگڑے الیکشن کمیشن نمٹاتا ہے،اس لیے خدشہ یہ ہے کہ جن پر اعتراضات وارد ہوں گے وہ عام عدالتوں سے اسٹے آرڈر لے کر الیکشن لڑ لیں گے۔پھر ان کے خلاف فیصلے مدتوں بعد بھی نہیں ہوں سکیں گے۔ دو ہزار دو کے الیکشن تنازعات ابھی تک عدالتوں میں لٹک رہے ہیں مگر اب عوام اس قدر با شعور ہیں کہ وہ کسی اسٹے آرڈر والے کو اپنے حلقے میں گھسنے نہ دیں گے۔اور عین ممکن ہے کہ عدالتیں بھی عوام کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر ایسے اسٹے جاری کرنے سے احتراز کریں۔اس لیے بد طینت افراد خاطر جمع رکھیں کہ لانگ مارچ نے ان کے راستے میں ہمیشہ کے لیے دیوار کھڑی کر دی اور ابھی تو عمران خان کا ریزرو حرکت میں نہیں آیا۔اس کے نوجوان کسی بدی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور خدشہ یہ ہے کہ بعض حلقے جس خونی انقلاب کی طرف اشارہ کرتے رہتے ہیں، وہ کہیں حقیقت ہی نہ بن جائے۔
لوگ تو پچھلے ہفتے ہی خون کے فواروں سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے، خدا کا شکر ہے کہ لانگ مارچ کے قائد اور حکومتی اتحادیوں نے فہم و فراست اور تحمل سے کام لیا اور معاملے کو بگڑنے سے بچا لیا ۔ اب جس نے پھبتی کسنی ہے، اس کی زبان تو نہیں روکی جا سکتی مگر حقیقت یہ ہے کہ مارچ امن کے قیام کے لیے تھا، امن کے ہتھیار سے لیس تھا اور پر امن طور پر اس کے نتائج حاصل کر لیے گئے۔اعتراض یہ ہے کہ ایک دن تو لانگ مارچ والے یزید یزید کہہ رہے تھے اور حکومت بھی جواب میں الزمات کی بارش کر رہی تھی پھر یہ کیسے ہو گیا کہ فریقین نے جپھیاں ڈال لیں۔جی ہاں! پاکستان اور بھارت بار بار میدان جنگ میں کودے اور ہر بار دونوں ملکوں کی حکومت نے باہم معاہدے کیے۔اب طالبان سے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں ۔
یہ تاریخ کا جبر ہے۔اسے ہضم کرنا ہوگا ، نقطہ اعتراض بنا کر نمبر بنانے کی روش ترک کرنا ہوگی۔لانگ مارچ اسلام آباد گیا اور واپس بھی آ گیا۔ مینار پاکستان سے شروع ہو کر ہر کارروائی پنجاب کی حدود میں ہو رہی تھی، کوئی اعتراض تھا تو پنجاب کی پولیس، اس کی خفیہ ایجنسیاں کہاں تھیں ، یہ سب کچھ غیر جمہوری قوتوں کا شاخسانہ تھا تو پنجاب حکومت اس کا کھرا کیوں نہیں پکڑ سکی۔ محض بلیم گیم کا سہاراکیوں لیا جارہا ہے۔ہماری سیاست میں وہ دن کب آئے گا جب الزام تراشی اور کردار کشی سے گریز کیا جائے گا۔پانچ سو کلو میٹر کا فاصلہ لانگ مارچ نے پنجاب کی جی ٹی روڈ پر طے کیا، دو دنوں میں طے کیا، یہ غیر جمہوری سرگرمی تھی تو اسے کیوں نہ روکا گیا، اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے اس کا داخلہ کیوں نہ روکا، صرف اس لیے نا کہ عدالت قرارد ے چکی تھی کہ لانگ مارچ ایک آئینی حق ہے۔
یہ حق میاں نواز نواز شریف نے استعمال کیا، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے استعمال کیا ،بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان نے استعمال کیا اور قاضی حسین احمد نے استعمال کیا۔کئی اور قوتوں نے بھی عوامی طاقت کے مظاہرے کیے اور حال ہی میں ایسے ہی ایک پر امن مظاہرے میں بلوچستان کی حکومت کو گھر جانا پڑا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے تو کوئی حکومت نہیں گرائی اور اگر عمران خان یہ کہتے ہیں کہ ان کی شمولیت سے حکومت ختم ہو سکتی تھی تو انھوں نے اس میں نہ شامل ہو کر اچھا کیا۔اور آخری اعتراض جس پر میں گزشتہ روز تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ اس لانگ مارچ کو کسی نادیدہ قوت، اسٹیبلشمنٹ یا آئی ایس آئی کی تائید حاصل تھی تو فوج کوہاتھ جوڑ کر کہہ دینا چاہیے کہ اسے کہیں ملوث نہ کیا جائے، ایک دہشت گردی کی جنگ کا الجھاوا ختم ہونے میں نہیں آتا کہ اوپر سے بھارت نے لائن آف کنٹرول پر جارحیت کا آغاز کر دیا، ان خطرات کے ہوتے ہوئے فوج کے پاس سیاست کاری کے لیے وقت کہاں ۔
لانگ مارچ عوام کی امنگوں کا مظہر تھا،اس نے اسلام آباد کا رخ کیا تو دلوں کی دھڑکنیںتیز تر ہو گئیں اور ہونٹوں پر دعائیں مچلنے لگیں، قافلہ لاہور سے چلا تو کہا گیا کہ چند سو افراد نکل سکے، ایک دن اور ایک رات کے سفر کے بعد بلیو ایریا میں اس نے پڑاؤ ڈالا تو بھی کہا گیا کہ تعداد چند ہزار ہے، نہ ملین میں ہے اور نہ چار لاکھ یا چالیس لاکھ۔بلیو ایریا میں تو پھر بھی چند ہزار لوگ ضرور موجود تھے اور اب تو اس امر پر اتفاق رائے ہے کہ یہ تعداد ستر ہزار کے قریب تھی، ان میں شیر خوار بھی تھے، معصوم بچے بھی تھے۔
ڈاکٹر قادری نے اپنا ایجنڈہ مینار پاکستان کی تقریر میںپوری طرح واضح کر دیا تھا۔انھوں نے آئین اور انتخابی قوانین کے سوا کوئی حوالہ نہ دیا اور انھی میں درج شرائط کے تحت الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا۔ جواب میں یہ رٹ لگا دی گئی کہ ایک غیر ملکی اپنا ایجنڈہ کیسے مسلط کر سکتا ہے،کسی نے کہا کہ وہ تبدیلی کی بات کرتا ہے تو الیکشن لڑے۔کسی نے پوچھا ، اس قدر سرمایہ کہاں سے آیا۔ تعجب کی بات ہے کہ ان تمام اعتراضات کا جواب ان کی پہلی تقریر میں موجود تھا، وہ کہہ چکے تھے کہ جس دن وہ الیکشن لڑیں گے، بیرونی شہریت ترک کر دیں گے، موجودہ حیثیت میں آئین کی طرف سے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ، وہ بتا چکے تھے کہ پیسہ کیسے اکٹھے ہوا، وہ نگران حکومت کے لیے آئینی شق کے حوالے سے بھی واضح کر چکے تھے کہ یہ شق وسیع تر مشاورت سے نہیں روکتی۔ اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں۔
ان کی رو سے یہ اعتراض تو ختم ہو چکا ، حکومتی اتحادیوںنے بھی مان لیا کہ وہ نگران حکومت کے لیے مشاورت کا دائرہ وسیع کریں گے اور اپوزیشن کے قائد میاں نواز شریف بھی ریکارڈ پر ہیں کہ تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے کر ہی نگران حکومت تشکیل دی جائے گی، سو لانگ مارچ نے آئین کی اس شرط کو تو پہلے ہلے میں ہوا میں اڑا دیا، باقی تمام مطالبے تو آئین کے عین مطابق ہیں اور ہر کوئی خفت مٹانے کے لیے کہہ رہا ہے کہ ان کو منوانے کے لیے لانگ مارچ کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ان مطالبوں میں سر فہرست ہے آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کا حقیقی نفاذ۔ایک طرف یہ طنز کہ آئین میں یہ پابندی تو پہلے ہی موجود ہے۔
دوسری طرف یہ ڈھکوسلا کہ یہ پابندی ایک فوجی ڈکٹیٹر ضیا الحق نے ڈالی تھی ، ٹھیک ہے، اسی نے ڈالی تھی توا ٓٹھویں ترمیم سے لے کر بیسویں ترمیم تک کسی پارلیمنٹ نے یہ ترمیم برقرار کیوں رکھی اور اگر یہ آئین میں موجود ہے تو پھر اسے پارلیمنٹ کو own کرنا چاہیے اور اس پر عمل در آمد میں لیت و لعل سے کام کیوںلیا جا رہا ہے۔ لانگ مارچ نے سب سے بڑی کامیابی یہ بھی حاصل کی کہ باسٹھ تریسٹھ کے تحت چھان بین کے لیے ایک دن کے بجائے ایک ماہ مخصوص کیا جائے تاکہ کوئی غلط کار شخص پارلیمنٹ میں نہ پہنچ سکے۔اب اگر الیکشن ہوا تو باسٹھ تریسٹھ کی شرائط کے تحت ہو گا ورنہ دما دم مست قلندر ہو گا۔کوئی ٹیکس چور، کوئی بد دیانت، کوئی منافع خور ، کوئی استحصال کرنے والا، کوئی قرضے ہضم کرنے والا، کوئی جھوٹا، کوئی سزا یافتہ شخص الیکشن کے عمل میں داخل نہیں ہو سکتا۔
اگرچہ پاکستان میں بھارت کی طرح کا انتخا بی نظام نہیں جس میں الیکشن کے تمام جھگڑے الیکشن کمیشن نمٹاتا ہے،اس لیے خدشہ یہ ہے کہ جن پر اعتراضات وارد ہوں گے وہ عام عدالتوں سے اسٹے آرڈر لے کر الیکشن لڑ لیں گے۔پھر ان کے خلاف فیصلے مدتوں بعد بھی نہیں ہوں سکیں گے۔ دو ہزار دو کے الیکشن تنازعات ابھی تک عدالتوں میں لٹک رہے ہیں مگر اب عوام اس قدر با شعور ہیں کہ وہ کسی اسٹے آرڈر والے کو اپنے حلقے میں گھسنے نہ دیں گے۔اور عین ممکن ہے کہ عدالتیں بھی عوام کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر ایسے اسٹے جاری کرنے سے احتراز کریں۔اس لیے بد طینت افراد خاطر جمع رکھیں کہ لانگ مارچ نے ان کے راستے میں ہمیشہ کے لیے دیوار کھڑی کر دی اور ابھی تو عمران خان کا ریزرو حرکت میں نہیں آیا۔اس کے نوجوان کسی بدی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور خدشہ یہ ہے کہ بعض حلقے جس خونی انقلاب کی طرف اشارہ کرتے رہتے ہیں، وہ کہیں حقیقت ہی نہ بن جائے۔
لوگ تو پچھلے ہفتے ہی خون کے فواروں سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے، خدا کا شکر ہے کہ لانگ مارچ کے قائد اور حکومتی اتحادیوں نے فہم و فراست اور تحمل سے کام لیا اور معاملے کو بگڑنے سے بچا لیا ۔ اب جس نے پھبتی کسنی ہے، اس کی زبان تو نہیں روکی جا سکتی مگر حقیقت یہ ہے کہ مارچ امن کے قیام کے لیے تھا، امن کے ہتھیار سے لیس تھا اور پر امن طور پر اس کے نتائج حاصل کر لیے گئے۔اعتراض یہ ہے کہ ایک دن تو لانگ مارچ والے یزید یزید کہہ رہے تھے اور حکومت بھی جواب میں الزمات کی بارش کر رہی تھی پھر یہ کیسے ہو گیا کہ فریقین نے جپھیاں ڈال لیں۔جی ہاں! پاکستان اور بھارت بار بار میدان جنگ میں کودے اور ہر بار دونوں ملکوں کی حکومت نے باہم معاہدے کیے۔اب طالبان سے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں ۔
یہ تاریخ کا جبر ہے۔اسے ہضم کرنا ہوگا ، نقطہ اعتراض بنا کر نمبر بنانے کی روش ترک کرنا ہوگی۔لانگ مارچ اسلام آباد گیا اور واپس بھی آ گیا۔ مینار پاکستان سے شروع ہو کر ہر کارروائی پنجاب کی حدود میں ہو رہی تھی، کوئی اعتراض تھا تو پنجاب کی پولیس، اس کی خفیہ ایجنسیاں کہاں تھیں ، یہ سب کچھ غیر جمہوری قوتوں کا شاخسانہ تھا تو پنجاب حکومت اس کا کھرا کیوں نہیں پکڑ سکی۔ محض بلیم گیم کا سہاراکیوں لیا جارہا ہے۔ہماری سیاست میں وہ دن کب آئے گا جب الزام تراشی اور کردار کشی سے گریز کیا جائے گا۔پانچ سو کلو میٹر کا فاصلہ لانگ مارچ نے پنجاب کی جی ٹی روڈ پر طے کیا، دو دنوں میں طے کیا، یہ غیر جمہوری سرگرمی تھی تو اسے کیوں نہ روکا گیا، اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے اس کا داخلہ کیوں نہ روکا، صرف اس لیے نا کہ عدالت قرارد ے چکی تھی کہ لانگ مارچ ایک آئینی حق ہے۔
یہ حق میاں نواز نواز شریف نے استعمال کیا، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے استعمال کیا ،بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان نے استعمال کیا اور قاضی حسین احمد نے استعمال کیا۔کئی اور قوتوں نے بھی عوامی طاقت کے مظاہرے کیے اور حال ہی میں ایسے ہی ایک پر امن مظاہرے میں بلوچستان کی حکومت کو گھر جانا پڑا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے تو کوئی حکومت نہیں گرائی اور اگر عمران خان یہ کہتے ہیں کہ ان کی شمولیت سے حکومت ختم ہو سکتی تھی تو انھوں نے اس میں نہ شامل ہو کر اچھا کیا۔اور آخری اعتراض جس پر میں گزشتہ روز تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ اس لانگ مارچ کو کسی نادیدہ قوت، اسٹیبلشمنٹ یا آئی ایس آئی کی تائید حاصل تھی تو فوج کوہاتھ جوڑ کر کہہ دینا چاہیے کہ اسے کہیں ملوث نہ کیا جائے، ایک دہشت گردی کی جنگ کا الجھاوا ختم ہونے میں نہیں آتا کہ اوپر سے بھارت نے لائن آف کنٹرول پر جارحیت کا آغاز کر دیا، ان خطرات کے ہوتے ہوئے فوج کے پاس سیاست کاری کے لیے وقت کہاں ۔