چین کی سیاسی کروٹ

اس وقت دنیا واضح طور پر دو بلاکوں میں منقسم ہوچکی ہے

anisbaqar@hotmail.com

KARACHI:
گزشتہ کئی ماہ سے عالمی صورت حال ماضی کے مقابلے میں کافی کشیدہ ہوگئی ہے اور خصوصاً روس اور امریکا میں سرد جنگ کے مقابلے میں حالات زیادہ نازک ہوگئے ہیں۔ یہ میرا خیال نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ایک سیاسی رپورٹ کے مطابق صورت حال عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اس وقت دنیا واضح طور پر دو بلاکوں میں منقسم ہوچکی ہے۔ ایک بلاک روس اور چین کا حامی ہے، جب کہ دوسرا امریکا، اسرائیل اور خلیجی ممالک ہیں، جن کی سرپرستی نیٹو کے اتحادی بھی اپنے مفادات کے تحت گاہے بہ گاہے کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ امریکا جیسے ملک میں ٹرمپ نے امریکا کی سابقہ جنگی پالیسیوں سے انحراف کرنے کا وعدہ کیا تھا اور ملک کو جنگی چکی سے نکالنے اور اسلحہ کی دوڑ سے نجات کی بات کی تھی، مگر حال ہی میں ٹرمپ نے جو کچھ کیا وہ دنیا کے سامنے ہے۔

شام پر میزائل حملہ نہ صرف خود کیا بلکہ اس کی ایما پر اسرائیل بھی شام پر حملہ کیا۔ دراصل اس واقعے نے دنیا کو یہ دھمکی دی کہ افغانستان پر جس قسم کا بم گرایا گیا جس کو امریکا نے تمام بموں کی ''ماں'' قرار دیا، جس نے ایک حملے میں تقریباً 500 لوگوں کی جان لی۔ اس طرح اس نے شام اور شمالی کوریا کو ڈرایا، مگر روس نے شام کو میزائل کے حصار میں رکھنے کا عندیہ دے دیا اور چین اور روس نے امریکا کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسا نہ کرے۔

ایسے نازک وقت پر جب کہ اسلامی ممالک بھی دو حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے سعودی عرب کے حامی اسلامی ممالک کی کمان سے اپنا الحاق ظاہر کیا ہے، جب کہ چین کا کردار واضح ہے کہ وہ روسی بلاک کے ساتھ کھڑا ہے۔ گویا وہ بھی ایک قسم کے تذبذب میں ہے اور اس کے وزیر خارجہ مسٹر وانگ نے 18 اپریل کو ایک اخباری بیان دیا جس کو بھارت کے تمام اخباروں نے بڑی سرخی میں شایع کیا، خصوصاً ہندوستان ٹائمز(Hindustan Times)، دی ہندو اور فرسٹ پوسٹ (First Post) اور پاکستان کے بعض روزناموں نے بھی شایع کیا، جس میں چینی وزیر خارجہ نے بھارت کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی ہے، مگر اس سے پہلے چین کی جانب سے ایسا کوئی بیان نہیں دیا جاتا رہا۔

محض یہی نہیں بلکہ چینی وزیر خارجہ نے یہ بھی واضح کیا کہ چین کا کشمیر کے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں اور اگلے ماہ بیجنگ میں جو ایشیائی ممالک کی کانفرنس ہوگی اس میں بھارت کو بھی دعوت دی گئی ہے، اس کے علاوہ بھارتی اخباروں میں چین کی جانب سے بھارت کو ایک حیرت انگیز پیشکش کی گئی ہے جو بھارتی اخبارات میں چھاپی گئی ہے، وہ ہے BCIM بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ، جس میں بی برائے بنگلا دیش، چین برائے سی اور ایم میانمار یعنی برما، گویا یہ پروجیکٹ بنگلہ دیش سے ہوتا ہوا چین سے گزر کر اس خطے کے مختلف ممالک کا معاشی دروازہ کھولے گا اور ہم ایسے علاقے کو کشیدہ صورت حال کی طرف لے جارہے ہیں اور چین کو دیکھیے کہ وہ بھارت کو اس راستے سے گزرنے کی دعوت دے رہا ہے اور ہم اس مسئلے پر خاموش ہیں، ہمارے لیے عجیب صورت حال پیدا ہوگئی ہے، کیونکہ ایرانی انتخابات اگلے ماہ ہونے جارہے ہیں۔

یمن کی صورت حال پر ایران کا کیا موقف ہوتا ہے، سامنے آئے گا۔ لیکن ایران اور سعودی عرب کے موقف میں واضح فرق ہے، جیسا کہ شام کے مسئلے پر تھا۔ ہماری ماضی کی غلطی سے پاکستان اور افغانستان میں حالات بہت خراب تھے اور اس کا اثر ہماری موجودہ صورت حال پر بھی پڑ رہا ہے اور اب چونکہ چین اور روس کی مخالفت کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے، کیونکہ امریکا کا تعاون ایک طرف اور سی پیک اس سے دس گنا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگا، لہٰذا پاکستان کو دوربینی اور دوراندیشی سے خارجہ حکمت عملی پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اب چونکہ بقول اقوام متحدہ کے اس وقت دنیا کو شدید نیوکلیئر جنگ کے خدشات لاحق ہیں اور اگر نیوکلیئر جنگ نہ بھی ہوئی تو بھی مسلم دنیا کو شدید خطرات لاحق ہیں، کیونکہ گزشتہ برسوں میں جو کچھ بھی جانی اور مالی نقصان ہوا وہ سب کا سب مسلم امہ کا ہوا اور ان کی سرزمین ہی میدان جنگ بنی۔

رہ گیا مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ تو دنیا کے کسی ملک سے کوئی خطرہ لاحق نہیں کیونکہ مذاہب عالم میں ان مقامات مقدسہ کے خلاف کوئی بھی ملک کارروائی کی جرأت نہیں کرسکتا۔ البتہ مسلم ممالک میں چونکہ شہنشاہی پوری آب و تاب سے موجود ہے لہٰذا مسلمانوں میں شہنشاہیت کے خلاف بعض لوگوں میں اور فرقوں میں جذبات موجود ہیں۔


بعض مسلم علما میں خلافت اور ملوکیت پر بڑی بحث چلتی رہی، اس موضوع پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی مقالے اور کتابیں لکھی ہیں، کیونکہ اسلام میں سلطانی حکومت پر خلافت کو ترجیح دی گئی ہے، مگر اسلامی فوجی کمان کی طرف سے پاکستان اور سعودی حکومت کو قریب تر لانے کی کوشش جاری رکھے گا، ممکن ہے ایسا ہوسکے، مگر فکری طور پر دونوں کے مکاتب فکر میں واضح اختلافات موجود ہیں، جس کی وجہ سے مسلم ممالک میں دو متضاد زاویہ نگاہ پروان چڑھ رہے ہیں، اس کی واضح مثال شام کی خانہ جنگی ہے اور عراق بھی ایک بہت بڑی آزمائش سے گزر رہا ہے اور چین بالکل واضح طور پر ان دنوں روس کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔

امریکی انتخابات سے قبل روس اور امریکا کے صدور میں بڑی ہم آہنگی نظر آتی تھی بلکہ یہاں تک کہ ٹرمپ پر امریکا میں الزامات لگائے گئے کہ ٹرمپ کو برسر اقتدار لانے میں روسی مداخلت کا بڑا عمل دخل ہے۔ یہ صورت حال اس قدر پیچیدہ ہوچکی تھی کہ مسٹر ٹرمپ کی کرسی کھسک رہی تھی، آخرکار مسٹر ٹرمپ نے عملی طور پر ہر وہ قدم اٹھایا جو روسی موقف کے خلاف جاتا تھا، جس میں شام پر میزائل حملہ اور اسرائیل کا ایک ہفتہ بعد شام پر حملہ، یہی وہ مسٹر ٹرمپ ہیں جنھوں نے اقوام متحدہ پر دوران الیکشن گفتگو میں اقوام متحدہ کو گپ شپ کی کلب قرار دیا تھا مگر اب وہ مسلم ممالک کی افواج کی پشت پناہی کررہے ہیں، جس سے مستقبل قریب میں پیچیدہ عالمی صورت حال پیدا ہورہی ہے۔

اس وقت یمن اور شمالی کوریا دو تصادم کے پہلو ہیں۔ یمن اور شمالی کوریا کے موضوعات ایسے ہیں جن میں آخرکار پاکستان کو واضح موقف اختیار کرنا پڑے گا، اس طرح سی پیک کی صورت حال مخدوش ہوسکتی ہے۔ اسی موضوع پر چینی وزیر خارجہ مسٹر وانگ کا موقف عالمی سطح پر واضح ہوچکا ہے، جس میں انھوں نے آزاد کشمیر کے موضوع پر انھوں نے چین کو غیر جانبدار قرار دیا ہے اور اس نازک موقف پر اس نے بی سی آئی ایم (BCIM) کا شوشہ چھوڑ دیا جس کا کوئی تذکرہ پاکستانی میڈیا میں نہیں ہے۔

دنیا کی بدلتی صورت حال پر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں وہ احتیاط نہیں دکھائی گئی جس کا یہ علاقہ تقاضا کر رہا تھا۔ رفتہ رفتہ صورت حال اس قدر بدل سکتی ہے کہ پاکستان کو صرف خلیجی ممالک پر انحصار کرنا پڑے گا۔ انھی دنوں جب کہ پاکستان اور اسلامی اتحادی افواج کی کمان پر گفتگو جاری ہے۔ ایران کے پریس ٹی وی نے خبر دی ہے کہ ولادی میر پوتن نے شام کو یقین دلایا ہے کہ وہ شام کے دفاع کے لیے اپنی فوجیں بھیجنے پر تیار ہوگیا ہے۔

اس طرح شام کی صورت حال مستقبل قریب میں سنگین صورت حال کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے، جب کہ اس کے ساتھ ہی ایرانی خبر رساں ایجنسی کے مطابق چین اور ایران میں ہیوی واٹر کی تیاری پر ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ اگر صورت حال کا بغور مطالعہ کیا جائے تو روس اور چین مشرق وسطی میں اپنے اپنے اتحادیوں کی مسلسل سرپرستی میں مصروف ہیں اور یہ صورت حال ایسی ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی خامی ہوئی وہیں پراکسی وار شروع ہونے کا اندیشہ موجود ہے ایسے موقع پر میر انیس کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

مگر ہمارے یہاں صرف بیانات سے کام لیا جارہا ہے اور ان کو یہ بتلایا جارہا ہے کہ اسلامی فوج ایران اور سعودی عرب میں مفاہمت کا کردار ادا کرے گی، اس وقت شمالی کوریاکے معاملات سے تو پاکستان کا براہ راست کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر یمن کی صورت حال ایسی ہے جس میں چین روس کبھی بھی اسلامی فوج کے مد مقابل آسکتے ہیں، کیونکہ شام میں حلب کی جنگ میں چین نے پچاس ہزار فوج روس کی حمایت میں بھیجنے کا عندیہ دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ اختلاف سی پیک معاہدے پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

پاکستانی میڈیا کے علاوہ دنیا کا ہر میڈیا اب لوگ اپنی جیب میں لے کر چل رہے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا سے جو خبریں آرہی ہیں ان میں یمن کی جنگ کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنے پڑوس میں کسی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر یہ جنگ بڑھی تو چین روس ایران کے ساتھ کہیں کروٹ نہ لے۔لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں پاکستان بہت سوچ سمجھ کر اپنا کردار ادا کرے کیونکہ پاکستان کے لیے دائیں اور بائیں دونوں طرف مشکلات کھڑی ہیں۔
Load Next Story