بس پیٹ کی آگ بجھ جائے
مجھے کیا معلوم کیا ہورہا ہے؟ بس سنا ہے کہ یوم مزدور کا کوئی پروگرام ہونے جارہا ہے، مجھے تو بس اپنے دہاڑی سے مطلب ہے۔
داتا دربار کے باہر بنے ہوئے ہوٹل پر رُکنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے، چائے کے کپ کے ساتھ ہی کسی پرانی فلم کے کچھ مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ اِس چائے کے ڈھابے کے ایک جانب اردو بازار، دوسری جانب داتا دربار، سامنے لوکل ٹرانسپورٹ کا اڈا جبکہ دائیں اور بائیں اطراف میں پکوڑے والے، دال ٹِکی والے، طوطے سے فال نکلوانے والے، قسمت کا حال بتانے والے، پرندے بیچنے والے اور بد ہضمی کی پھکیاں بیچنے والے حکیم نظر آتے ہیں۔ اِس سارے منظرنامے میں کچھ قابلِ توجہ لوگ بھی ہیں جو شکل و شبہات سے اِسی دنیا کے باسی لگتے ہیں، سڑک کنارے کدالیں اور بیلچے تھامے، ماتھے سے ٹپکتا پسینہ اور میلی آستینیں ۔۔۔۔۔ جو شاید اِس پسینے کو صاف کرنے کے بعد ماتھے پر جمی گرد اور گاڑیوں کے دھویں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہیں۔
کئی بار میرا اِن لوگوں سے گفتگو کرنے کا دل چاہا مگر کبھی ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ گزشتہ روز دریائے راوی کے کنارے دوستوں کی ایک محفل میں جانے کا اتفاق ہوا، واپسی پر چند منٹ کے لئے اِس چائے کے ڈھابے سے چند گھونٹ چائے پینے کے لئے رکا تو یہ چہرے ایک بار پھر میرے سامنے آگئے۔ لاہور کا موسم گزشتہ بارشوں کے بعد خاصا خوشگوار ہوگیا تھا، مگر چائے کے ڈھابے پر بیٹھے اِن مزدوروں کے ماتھے پر ابھی تک پسینے کے قطرے موتی بن کر ٹپک رہے تھے۔ چہروں سے تھکن کے آثار نمایاں تھے۔ چند مزدور سامنے ہی فٹ پاتھ پر سکون کی نیند سو رہے تھے جبکہ باقی ماندہ چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔
اِس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے بھی سوچا کہ چلیں آج اِن مزدوروں سے اُن کی کہانی سن ہی لی جائے۔ میں نے چائے کا کپ لے لیا اور نسبتاً چست نظر آنے والے مزدور کے پاس بیٹھ گیا۔ جس نے اپنا نام ارشد بتایا۔ ارشد کی کہانی بھی ہر پاکستانی جیسی ہے مگر اُس کے چہرے پر میں نے شکر کے الفاظ پڑھے، اُس کی آنکھوں نے مجھے قناعت کا درس دیا۔ اُسے جس دن مزدوری مل جائے تو کھانا کھا لیتا ہے، جس دن مزدوری نہیں ملتی تو اُسی فٹ پاتھ پر گتے کے ٹکرے بچھا کر سوجاتا ہے۔
ارشد کو کچھ علم نہیں کہ امریکہ اور شمالی کوریا کی جنگ ہونے والی ہے، یہ اِس بات سے بھی لاعلم ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر بموں کی ماں نامی بم چلا دیا۔ پانامہ کے فیصلے سے بھی ارشد کو کوئی فرق نہیں پڑا، ہاں لیکن اُسے یہ خبر ضرور ہے کہ ونود کھنہ کی موت واقع ہوگئی ہے اور یونس خان نے ٹیسٹ کرکٹ میں 10 ہزار رنز مکمل کرلیے ہیں۔ مزدوری کا یہ حال تھا کہ سیٹھ کام کرانے کے باوجود پیسے نہیں دے رہا تھا، چکر پر چکر لگانے کے باعث موچی سے مرمت کرائی گئی پشاوری چپل بھی گِھس چکی تھی۔
اِس مزدور کو شکوہ تھا تو چائے والے سے، نان والے سے، دال روٹی دینے والے سے کہ کتنی مہنگی کردی ہے۔ روٹی پیٹ بھر کر کھا بھی نہیں سکتے۔ دفعتًا میرے ذہن میں فوڈ اسٹریٹ کے درجنوں ٹیبلوں کا منظر گھوم گیا جہاں اکثر صاحب لوگ ٹیبل پر کھانا چھوڑ کر آجاتے ہیں۔ ارشد کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بجٹ میں مزدور کی کم از کم اُجرت بھی طے ہے، اُسے اِس بات کا بھی کوئی غم نہیں تھا۔ اُسے تو بس یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ صاحب لوگ مزدوری نہیں دیتے جس کے باعث اُس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ سکتا ہے۔
مجھے ارشد سے گفتگو کرتا دیکھ کر ایک اور مزدور ہمارے پاس آگیا۔ نام شاہد بتایا جس کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا۔ سر پر چادر لپیٹی ہوئی تھی جبکہ گفتگو سے سنجیدگی جھلک رہی تھی۔ ارشد کی نسبت اُسے معلومات کچھ زیادہ تھیں۔ رفتہ رفتہ میں اُس کے ساتھ بھی بے تکلف ہوگیا۔ اُسے یومِ مزدور منانے سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ بتانے لگا کہ بھائی یکم مئی کو ناصر باغ میں کافی کام ہے، شامیانے اتارنے اور لگانے کا کام، کرسیاں ٹرک سے اتارنی ہیں، سنا ہے وہاں کھانا بھی ہوگا اور مجھے برتن دھونے کا کام بھی مل جائے گا، اور یوں میں یکم مئی کو دو ہزار کے قریب کمالوں گا، اور اگر کام کا ٹھیکہ مل جائے تو شاید کچھ زیادہ پیسے بھی کما سکوں گا۔
جب میں نے اُس سے پوچھا کہ بھائی یکم مئی کو ناصر باغ میں کیا ہورہا ہے؟ تو اُس کا جواب تھا بھائی مجھے اِس سے کیا لینا؟ بس یہ معلوم ہے کہ کوئی پروگرام ہونے جارہا ہے، مجھے تو بس اپنے دہاڑی سے مطلب ہے تاکہ کچھ پیسے گھر بھجوا سکوں تاکہ میرے گھر والے رمضان المبارک میں شربت تو پی سکیں۔
'تمہیں تو پہلی تاریخ کا کام مل گیا ہے مگر میرا کیا ہوگا؟ ایک اتوار کو چھٹی ہے اور اُس کے ساتھ ہی پیر کی چھٹی، دو دنوں کی چھٹیوں کی وجہ سے مجھے پورے دو دن فاقہ کرنا پڑے گا،' اب کی بار ارشد نے اپنا غبار شاہد پر نکالا۔
سچ تو یہی ہے کہ یوم مزدور منانے سے مزدور کی حالت نہیں بدلتی بلکہ اُس کو اِس دن کی تعطیل کے باعث پورے 24 گھنٹے فاقوں سے لڑائی لڑنا پڑتی ہے۔
دونوں مزدوروں کے ساتھ ملاقات کے بعد میں اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگیا، کمرے میں پہنچ کر اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں سکون کے ساتھ آنکھیں موند لیں، اتنا بھی یاد نہیں رہا کہ چند منٹ پہلے مزدوروں نے زندگی کے تلخ حقائق بیان کئے تھے اور اپنے دل چیر کر میرے سامنے رکھ دیے تھے۔ شاید میں بھی پاکستانی قوم کی طرح بھولنے کے مرض میں مبتلا ہوں اور سب کچھ بس چند لمحوں میں اپنے ذہن سے نکال دیتا ہوں۔
زندگی کی یہ تلخیاں ہر دن میرے سامنے موجود ہوتی ہیں، تپتی دھوپ اور کڑکتی دوپہر میں لاہور کی سڑکوں پر صرف دو وقت کی روٹی کی راہ تکتے مزدور، کدالیں اور بیلچے اٹھائے، پینٹ کے ڈبے اور برش لہراتے ہوئے، مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے، بس ایک ہی جستجو اور خواہش لئے کسی چمکتی کار کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ شاید کوئی کار اِن کے پاس رُکے اور صاحب گاڑی کا شیشہ اُتار کر اُنہیں روٹی کا پیغام سنائیں، شاید چند گھنٹے کام کرنے کو مل جائیں، یہی اُمیدیں اُن کے ماتھے سے موتیوں کی صورت بہہ کر قمیض کے دامن میں اور کبھی تپتی سڑک کے تارکول میں کہیں غائب ہوجاتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کئی بار میرا اِن لوگوں سے گفتگو کرنے کا دل چاہا مگر کبھی ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ گزشتہ روز دریائے راوی کے کنارے دوستوں کی ایک محفل میں جانے کا اتفاق ہوا، واپسی پر چند منٹ کے لئے اِس چائے کے ڈھابے سے چند گھونٹ چائے پینے کے لئے رکا تو یہ چہرے ایک بار پھر میرے سامنے آگئے۔ لاہور کا موسم گزشتہ بارشوں کے بعد خاصا خوشگوار ہوگیا تھا، مگر چائے کے ڈھابے پر بیٹھے اِن مزدوروں کے ماتھے پر ابھی تک پسینے کے قطرے موتی بن کر ٹپک رہے تھے۔ چہروں سے تھکن کے آثار نمایاں تھے۔ چند مزدور سامنے ہی فٹ پاتھ پر سکون کی نیند سو رہے تھے جبکہ باقی ماندہ چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔
اِس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے بھی سوچا کہ چلیں آج اِن مزدوروں سے اُن کی کہانی سن ہی لی جائے۔ میں نے چائے کا کپ لے لیا اور نسبتاً چست نظر آنے والے مزدور کے پاس بیٹھ گیا۔ جس نے اپنا نام ارشد بتایا۔ ارشد کی کہانی بھی ہر پاکستانی جیسی ہے مگر اُس کے چہرے پر میں نے شکر کے الفاظ پڑھے، اُس کی آنکھوں نے مجھے قناعت کا درس دیا۔ اُسے جس دن مزدوری مل جائے تو کھانا کھا لیتا ہے، جس دن مزدوری نہیں ملتی تو اُسی فٹ پاتھ پر گتے کے ٹکرے بچھا کر سوجاتا ہے۔
ارشد کو کچھ علم نہیں کہ امریکہ اور شمالی کوریا کی جنگ ہونے والی ہے، یہ اِس بات سے بھی لاعلم ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر بموں کی ماں نامی بم چلا دیا۔ پانامہ کے فیصلے سے بھی ارشد کو کوئی فرق نہیں پڑا، ہاں لیکن اُسے یہ خبر ضرور ہے کہ ونود کھنہ کی موت واقع ہوگئی ہے اور یونس خان نے ٹیسٹ کرکٹ میں 10 ہزار رنز مکمل کرلیے ہیں۔ مزدوری کا یہ حال تھا کہ سیٹھ کام کرانے کے باوجود پیسے نہیں دے رہا تھا، چکر پر چکر لگانے کے باعث موچی سے مرمت کرائی گئی پشاوری چپل بھی گِھس چکی تھی۔
اِس مزدور کو شکوہ تھا تو چائے والے سے، نان والے سے، دال روٹی دینے والے سے کہ کتنی مہنگی کردی ہے۔ روٹی پیٹ بھر کر کھا بھی نہیں سکتے۔ دفعتًا میرے ذہن میں فوڈ اسٹریٹ کے درجنوں ٹیبلوں کا منظر گھوم گیا جہاں اکثر صاحب لوگ ٹیبل پر کھانا چھوڑ کر آجاتے ہیں۔ ارشد کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بجٹ میں مزدور کی کم از کم اُجرت بھی طے ہے، اُسے اِس بات کا بھی کوئی غم نہیں تھا۔ اُسے تو بس یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ صاحب لوگ مزدوری نہیں دیتے جس کے باعث اُس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ سکتا ہے۔
مجھے ارشد سے گفتگو کرتا دیکھ کر ایک اور مزدور ہمارے پاس آگیا۔ نام شاہد بتایا جس کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا۔ سر پر چادر لپیٹی ہوئی تھی جبکہ گفتگو سے سنجیدگی جھلک رہی تھی۔ ارشد کی نسبت اُسے معلومات کچھ زیادہ تھیں۔ رفتہ رفتہ میں اُس کے ساتھ بھی بے تکلف ہوگیا۔ اُسے یومِ مزدور منانے سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ بتانے لگا کہ بھائی یکم مئی کو ناصر باغ میں کافی کام ہے، شامیانے اتارنے اور لگانے کا کام، کرسیاں ٹرک سے اتارنی ہیں، سنا ہے وہاں کھانا بھی ہوگا اور مجھے برتن دھونے کا کام بھی مل جائے گا، اور یوں میں یکم مئی کو دو ہزار کے قریب کمالوں گا، اور اگر کام کا ٹھیکہ مل جائے تو شاید کچھ زیادہ پیسے بھی کما سکوں گا۔
جب میں نے اُس سے پوچھا کہ بھائی یکم مئی کو ناصر باغ میں کیا ہورہا ہے؟ تو اُس کا جواب تھا بھائی مجھے اِس سے کیا لینا؟ بس یہ معلوم ہے کہ کوئی پروگرام ہونے جارہا ہے، مجھے تو بس اپنے دہاڑی سے مطلب ہے تاکہ کچھ پیسے گھر بھجوا سکوں تاکہ میرے گھر والے رمضان المبارک میں شربت تو پی سکیں۔
'تمہیں تو پہلی تاریخ کا کام مل گیا ہے مگر میرا کیا ہوگا؟ ایک اتوار کو چھٹی ہے اور اُس کے ساتھ ہی پیر کی چھٹی، دو دنوں کی چھٹیوں کی وجہ سے مجھے پورے دو دن فاقہ کرنا پڑے گا،' اب کی بار ارشد نے اپنا غبار شاہد پر نکالا۔
سچ تو یہی ہے کہ یوم مزدور منانے سے مزدور کی حالت نہیں بدلتی بلکہ اُس کو اِس دن کی تعطیل کے باعث پورے 24 گھنٹے فاقوں سے لڑائی لڑنا پڑتی ہے۔
دونوں مزدوروں کے ساتھ ملاقات کے بعد میں اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگیا، کمرے میں پہنچ کر اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں سکون کے ساتھ آنکھیں موند لیں، اتنا بھی یاد نہیں رہا کہ چند منٹ پہلے مزدوروں نے زندگی کے تلخ حقائق بیان کئے تھے اور اپنے دل چیر کر میرے سامنے رکھ دیے تھے۔ شاید میں بھی پاکستانی قوم کی طرح بھولنے کے مرض میں مبتلا ہوں اور سب کچھ بس چند لمحوں میں اپنے ذہن سے نکال دیتا ہوں۔
زندگی کی یہ تلخیاں ہر دن میرے سامنے موجود ہوتی ہیں، تپتی دھوپ اور کڑکتی دوپہر میں لاہور کی سڑکوں پر صرف دو وقت کی روٹی کی راہ تکتے مزدور، کدالیں اور بیلچے اٹھائے، پینٹ کے ڈبے اور برش لہراتے ہوئے، مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے، بس ایک ہی جستجو اور خواہش لئے کسی چمکتی کار کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ شاید کوئی کار اِن کے پاس رُکے اور صاحب گاڑی کا شیشہ اُتار کر اُنہیں روٹی کا پیغام سنائیں، شاید چند گھنٹے کام کرنے کو مل جائیں، یہی اُمیدیں اُن کے ماتھے سے موتیوں کی صورت بہہ کر قمیض کے دامن میں اور کبھی تپتی سڑک کے تارکول میں کہیں غائب ہوجاتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔