’یاد سجن کی آئی‘
اگر بھارت میں پاکستانی جاسوس گرفتار ہوتا تو ہندوستان ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ہمیں اقوامِ متحدہ میں لے جاتا۔
نواز شریف نے سجن جندال کو اِن کشیدہ حالات میں پاکستان آنے کی دعوت دے کر پاکستانی عسکری اور فوجی قیادت کو پیغام دیا ہے کہ حالات چاہے کچھ بھی ہوں، آپ ہندوستان سے دوستی کے خواہاں ہوں یا نہ ہوں، 'را' پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں میں ملوث ہو یا نہ ہو، احسان اللہ احسان ہندوستان پر دہشت گردی کے جتنے چاہے الزام لگائے، کلبھوشن یادیو چاہے ہزاروں معصوم پاکستانیوں کے قتل میں ملوث ہی کیوں نہ ہو، مودی سرکار چاہے سینہ تان کر پاکستان میں دہشت گردی کروانے کا اعتراف کرے، میں ہندوستان کے ساتھ اپنے کاروباری تعلقات ختم نہیں کرسکتا اور مجھے مودی کے سب سے زیادہ قریبی دوست اور افغانستان میں 'را' کو سب سے زیادہ مالی مدد فراہم کرنے والے بزنس ٹائی کون سجن جندال سے ملنے کے لئے اسٹییبلشمنٹ کی اجازت کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ
نواز شریف نے پوری دنیا کو یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ چاہے سپریم کورٹ مجھے 'گاڈ فادر' کے کردار سے تشبیہہ دے، مجھے جھوٹا اور مکار کہے، میری ساری عمر کی کمائی گئی دولت کو کالا دھن کہے اور یہاں تک کہ اگر مجھے نااہل قرار دینے کا حکم بھی صادر کر دے تب بھی میرے بھارتی دوست میرے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ وہ مجھے اِس مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے، میں اگر گرنے لگا تو وہ مجھے بچالیں گے اور شاید یہی وہ اعتماد ہے جس کی بدولت وہ بار بار نہ صرف بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں بلکہ اکثر و بیشر اِس کا عملی ثبوت بھی دیتے ہیں۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر ہمارا جاسوس ہندوستان میں رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا اور وہ ہزاروں معصوم ہندوستانی عوام کے قتلِ عام میں ملوث ہوتا اور نواز شریف ہندوستان جاکر جندال سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے تو کیا ہوتا؟ آپ یقیناً اِس بات سے اتفاق کریں گے کہ اُسی وقت لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ شروع ہوجاتی اور ہمارے درجنوں شہری دن دیہاڑے شہید کردیئے جاتے اور ہمارے حکمران صرف یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے کہ بھارت ابھی غصے میں ہے اِس لئے وہ فائرنگ کرکے شہریوں کو شہید کر رہا ہے اور جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے بھارت خود ہی فائرنگ بند کردے گا۔ آپ اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اگر بھارت میں پاکستانی جاسوس گرفتار ہوتا تو ہندوستان ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ہمیں اقوامِ متحدہ میں لے جاتا۔
وہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے اور ہماری خفیہ ایجنسیوں کو پوری دنیا خصوصاً، جنوبی ایشیاء کے لیے خطرہ قرار دینے کے لیے ہر ملک میں بیٹھے اپنے نمائندوں کو متحرک کردیتا اور دنیا کے ہر فارم پر پاکستان کے خلاف ایسا پروپیگنڈا کرتا کہ ہمیں ہمارے پاکستانی ہونے پر شرم محسوس ہونے لگتی اور ہم دونوں ہاتھ اور پاؤں جوڑ کر بھی ہندوستان سمیت پوری دنیا سے معافی مانگتے تو بھی دنیا ہمیں کبھی معاف نہ کرتی۔ ایسی صورتحال میں نواز شریف کو کسی بھی صورت ہندوستان میں داخلے کی اجازت نہیں مل سکتی تھی۔
اِس لیے میری وزیراعظم پاکستان نواز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اِن حقائق کو سامنے رکھیں اور ہندوستان کو اعتماد میں لینے اور اُس سے دوستی کرنے کی کوشش کے بجائے اُس کا اصل چہرہ پوری دنیا کے سامنے آشکار کیا جائے، کیونکہ بھارت کی جانب سے پاکستان مخالف جذبات صرف پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ نہیں بلکہ ایک ایک پاکستانی کی جان کے لیے بھی خطرہ ہے۔ ابھی تو ایک کلبھوشن یادو گرفتار ہوا ہے، ہم میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ یہاں نہ جانے کتنے کلبھوشن اور موجود ہوں جو پاکستانیوں کی جان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اِس لیے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ وزیراعظم قوم کی امنگوں کے عین مطابق پاکستانی سیکیورٹی اداروں کو اعتماد میں لیں اور وطنِ عزیز کی حفاظت کے لیے کوئی مربوط کوششں کریں، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو وزارت تو جائے گی ساتھ سزا بھی ملے گی۔
[poll id="1369"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
''I am the Boss''
نواز شریف نے پوری دنیا کو یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ چاہے سپریم کورٹ مجھے 'گاڈ فادر' کے کردار سے تشبیہہ دے، مجھے جھوٹا اور مکار کہے، میری ساری عمر کی کمائی گئی دولت کو کالا دھن کہے اور یہاں تک کہ اگر مجھے نااہل قرار دینے کا حکم بھی صادر کر دے تب بھی میرے بھارتی دوست میرے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ وہ مجھے اِس مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے، میں اگر گرنے لگا تو وہ مجھے بچالیں گے اور شاید یہی وہ اعتماد ہے جس کی بدولت وہ بار بار نہ صرف بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں بلکہ اکثر و بیشر اِس کا عملی ثبوت بھی دیتے ہیں۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر ہمارا جاسوس ہندوستان میں رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا اور وہ ہزاروں معصوم ہندوستانی عوام کے قتلِ عام میں ملوث ہوتا اور نواز شریف ہندوستان جاکر جندال سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے تو کیا ہوتا؟ آپ یقیناً اِس بات سے اتفاق کریں گے کہ اُسی وقت لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ شروع ہوجاتی اور ہمارے درجنوں شہری دن دیہاڑے شہید کردیئے جاتے اور ہمارے حکمران صرف یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے کہ بھارت ابھی غصے میں ہے اِس لئے وہ فائرنگ کرکے شہریوں کو شہید کر رہا ہے اور جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے بھارت خود ہی فائرنگ بند کردے گا۔ آپ اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اگر بھارت میں پاکستانی جاسوس گرفتار ہوتا تو ہندوستان ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ہمیں اقوامِ متحدہ میں لے جاتا۔
وہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے اور ہماری خفیہ ایجنسیوں کو پوری دنیا خصوصاً، جنوبی ایشیاء کے لیے خطرہ قرار دینے کے لیے ہر ملک میں بیٹھے اپنے نمائندوں کو متحرک کردیتا اور دنیا کے ہر فارم پر پاکستان کے خلاف ایسا پروپیگنڈا کرتا کہ ہمیں ہمارے پاکستانی ہونے پر شرم محسوس ہونے لگتی اور ہم دونوں ہاتھ اور پاؤں جوڑ کر بھی ہندوستان سمیت پوری دنیا سے معافی مانگتے تو بھی دنیا ہمیں کبھی معاف نہ کرتی۔ ایسی صورتحال میں نواز شریف کو کسی بھی صورت ہندوستان میں داخلے کی اجازت نہیں مل سکتی تھی۔
اِس لیے میری وزیراعظم پاکستان نواز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اِن حقائق کو سامنے رکھیں اور ہندوستان کو اعتماد میں لینے اور اُس سے دوستی کرنے کی کوشش کے بجائے اُس کا اصل چہرہ پوری دنیا کے سامنے آشکار کیا جائے، کیونکہ بھارت کی جانب سے پاکستان مخالف جذبات صرف پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ نہیں بلکہ ایک ایک پاکستانی کی جان کے لیے بھی خطرہ ہے۔ ابھی تو ایک کلبھوشن یادو گرفتار ہوا ہے، ہم میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ یہاں نہ جانے کتنے کلبھوشن اور موجود ہوں جو پاکستانیوں کی جان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اِس لیے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ وزیراعظم قوم کی امنگوں کے عین مطابق پاکستانی سیکیورٹی اداروں کو اعتماد میں لیں اور وطنِ عزیز کی حفاظت کے لیے کوئی مربوط کوششں کریں، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو وزارت تو جائے گی ساتھ سزا بھی ملے گی۔
[poll id="1369"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔