نادیدہ قوت وہ طاقت جو راستے کی ہر رکاوٹ دور کردیتی ہے
ہنر ہاتھ میں ہو اور سیکھنے اور آگے بڑھنے کی لگن اور جستجو ہو تو راستے خود بخود کُھلتے چلے جاتے ہیں۔
محنت، ذہانت اور قسمت بہت کم ایک ساتھ کسی فرد کے حصے میں آتی ہیں، لیکن اگر ایسا ہوجائے تو ایسا فرد ہر نئے دن کے ساتھ نئی کامیابیاں سمیٹتا رہتا ہے اور اگر ایسے فرد کو والدین کی خدمت کا موقع اور ان کی دعائیں بھی مل جائیں تو اس کی کام یابیوں میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔
محنت ذہانت، قسمت اور والدین کی دعاؤں کے ساتھ اگر قریبی دوستوں کا حلقہ اچھا ہو اور آدمی کے اندر مشورہ لینے کی عادت اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی اہلیت بھی ہو تو دنیاوی تعلیم اور تعلیمی ڈگریوں کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہنر ہاتھ میں ہو اور سیکھنے اور آگے بڑھنے کی لگن اور جستجو ہو تو راستے خود بخود کُھلتے چلے جاتے ہیں اور ایک کے بعد ایک نئی منزل قدموں سے گلے ملتی رہتی ہے۔
لیکن یہ سب عناصر یکجا ہوکر بہت کم ہی اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔
جواد سے جب میری پہلی ملاقات ہوئی تو وہ ایک آفس میں ریسیپشن پر ڈیوٹی کرتا تھا۔ چھوٹے سے قد کا سانولا، پرکشش نقوش والا، کھلنڈرا، ہنس مکھ، باتونی۔ میں ہفتے میں دو بار وہاں جایا کرتا۔ Cusultation کے لیے جواد ہی مریضوں سے فیس لیتا اور ان کو ہنستے باتیں کرتے Attend کرتا۔ مریض ختم ہوجاتے ہماری باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ ظاہر ہے ان باتوں میں میرا Role سامع کا ہی رہتا، جواد کے قصے کہانیاں فل اسپیڈ پر دوڑتے رہتے۔
آفس سے منسلک لیبارٹری اور ایکسرے یونٹ تھا، جو دونوں کی تیکنیک سیکھنے میں بہت وقت صرف کرتا۔ میں جب جاتا تو وہ پورے ہفتے کی روداد سناتا کہ اس بار اس نے کون کون سے Tests سیکھے یا خود سے کرکے لیبارٹری ٹیکنیشن کو دیے۔ اس میں جوش بھی تھا اور جذبہ بھی۔ بچپن سے محنت کرتا آرہا تھا۔ اسکول کی پڑھائی کے ساتھ دیگر کام۔ مستقل مزاجی کے ساتھ صبر اور حوصلہ بھی تھا اور ہر دم کچھ نیا سیکھنے کی لگن بھی تھی۔ آدمی کتابوں سے اتنا نہیں سیکھتا جاننا حالات وواقعات اور تجربات و حادثات سے۔ یہ ایک اور حقیقت ہے کہ ہر کسی کے نصیب میں سیکھنا بھی نہیں ہوتا۔ ہر کوئی ہر طرح کے تجربات سے گزرتا ہے۔ ہر روز ان گنت باتیں اور چیزیں مشاہدات کا حصہ بنتی ہیں۔ ہر بات، ہر تجربہ، ہر مشاہدہ اپنے اندر بیش بہا معلومات اور معنوں کی سوغات رکھتا ہے لیکن ہر کسی کے نصیب میں عملی زندگی کی یونی ورسٹی سے فیض اٹھانا اور اپنی زندگی میں عملی شکل میں ڈھالنا نہیں لکھا ہوتا۔
جواد اس حوالے سے قسمت کا دھنی تھا۔ بنگلادیش بننے کے بعد اس کے خاندان نے ہجرت کی تھی۔1971 کے بعد ہجرت کرنے والے اور ہزاروں خاندانوں کی طرح جواد کے والدین نے بھی اپنی زندگی کو نئے سرے سے استوار کرنے کی جدوجہد کی تھی۔ جواد کی پیدائش ہجرت کے چند سال بعد کی تھی، لیکن 9 برس کی عمر سے ہی اس کی عملی جدوجہد کا آغاز ہوگیا تھا۔ طرح طرح کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے ساتھ پڑھائی کا سلسلہ انٹر تک تو چلتا رہا مگر پھر معاشی ذمے داریوں نے نصابی تعلیم کی راہ روک دی۔
اس رکاوٹ کے باوجود محنت، مشقت اور سیکھنے کا عمل نہیں رک سکا۔ تنگ دستی اور پریشانیوں کے دور مستقل آتے آرہے مگر جواد کے چہرے پر ہر دور میں مسکراہٹ رہی اس کی کم زوری ایک تھی اور یہ کم زوری ہم میں سے بے شمار لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ وہ زیادہ دیر تک خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ جن دنوں اس سے ہفتہ وار دو ملاقاتیں ہوتی تھیں مجھے یہی لگتا تھا کہ شاید وہ سونے کی درمیان بھی باتیں کرتا ہوگا، لیکن اسی کم زوری کو اس نے اﷲ کے کرم سے اپنی سب سے بڑی خوبی بنا ڈالا۔
6برس کی محنت اور جدوجہد اور باتوں کی عادت نے اسے ذاتی کام اور کاروبار سیٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب اس کے Clients اس کی دل موہ لینے والی شخصیت اور اس کی رنگارنگ باتوں کے گرویدہ ہیں۔ بات سے بات نکالنا اور ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر گفتگو منتقل کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لب و لہجے کی نرمی، مہمان نوازی، والدین کی خدمت، رویے کی لچک، سخاوت، مستحق افراد کی خاموشی سے مدد، بچت کی عادت، سماجی روابط بڑھانے اور برقرار رکھنے کا حوصلہ، لوگوں کے مسائل میں عملی دل چسپی، بہن بھائیوں، رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات، سیر و تفریح و سیاحت، ہوٹلنگ اور کھانا پینا اور کھلانا بچوں سے شفقت ہم عمروں کے ساتھ ہلاگلا، غرض یہ کہ سماجی زندگی و کاروباری معاملات کے درمیان توازن کے ساتھ آگے بڑھتے جانا، اس کی زندگی کا حصہ ہے۔ جواد نے کتابوں سے کم اور اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھ کر زیادہ سیکھا۔
عملی زندگی سے سیکھ کر عملی زندگی کو اس علم کی بنیاد پر استوار کرنا ایک ایسا جوہر ہے جو فطرت نے ہر کسی کی فطرت میں نہیں رکھا ہوتا، اپنے اس جوہر سے آگاہی حاصل کرکے اسے علم سے عمل میں ڈھالنے کے لیے جس حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی ہم میں سے ہر کسی کی فطرت کا حصہ نہیں ہوتا۔ وقت کے دھارے بڑے بڑوں کو بہاکر لے جاتی ہیں۔ گیلی مٹی اور پانی کے بہاؤ میں اپنے پاؤں زمین پر مضبوطی سے جوڑے رکھنے کا یارا بھی فطرت ہر کسی کو عطا نہیں کرتی۔ کب اور کس طرح کس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا ہے اور کب کس سے کس طرح کی بات کرنی ہے، یہ فن بھی ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔
فطرت پہلے آزماتی ہے پھر نوازتی ہے، مگر ہر کوئی ہر آزمائش میں پورا نہیں اترتا۔ فطرت جن لوگوں سے خاص طرح کے کام لینا چاہتی ہے ان کی پرورش اور تعلیم اور تربیت کے لیے بھی خاص الخاص طریقے منتخب کرتی ہے۔ Hurdle Race کی طرح۔ ایک کے بعد ایک اور امتحان ایک کے بعد ایک اور دشواری اور رکاوٹ، فطرت کے امتحان بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کبھی لے کر آزماتی ہے کبھی دے کر آزماتی ہے اور سب سے دشوار اور خطرناک آزمائش ہوتی ہی انعام کی صورت ہے، اچھے اچھوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑجاتے ہیں۔
ایک کے بعد ایک اور نعمت کا ملنا بظاہر خوشی کا سماں پیدا کرتا ہے، لیکن ان خوشیوں کے پس پردہ آزمائشوں کی اونچی نیچی دیواریں چھپی ہوتی ہیں، نہ دکھنے والی رکاوٹیں، اور جو رکاوٹ دکھائی نہ دے تو اس سے الجھ کر لڑکھڑانا اور گرنا لازمی ہوجاتا ہے۔
نادیدہ دیواروں کو پھلانگنے کے لیے پوشیدہ قوتوں کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ پوشیدہ قوتیں نصیب والوں کو حیلے بہانے سے ملتی رہتی ہیں۔ کبھی والدین کی فرماںبرداری اور خدمت کے بہانے، کبھی اپنی نعمتوں اور خوشیوں میں اوروں کو شامل کرکے، تو کبھی خاموشی سے ناداروں اور مسکینوں کی مدد کرکے، کبھی اپنا وقت اپنی توانائی اپنا علم اپنی دولت دوسروں میں بانٹنے سے اور کبھی ادب احترام محبت اور عزت کے موتی بانٹنے سے یہ سب یا ان میں سے کچھ یا ان کی طرح کے کچھ اور باتیں ہمارے اندر ایسی صلاحیت، ایسی طاقت پیدا کردیتی ہیں جس کو بروئے کار لانے کے لیے حرکت میں لانے کے لیے ہمیں از خود کچھ نہیں کرنا پڑتا، سب کچھ Automatic ہوتا چلا جاتا ہے۔
پھر ہمارے راستے کی ان دیکھی رکاوٹیں از خود یوں تو ہمارے راستے سے ہٹنے لگتی ہیں اور یا ہم بہ آسانی ان کو عبور کرکے آگے نکلتے جاتے ہیں، جواد کا کہنا ہے کہ اس کی تمام تر کام یابی کے پیچھے اس کے والدین کی دعائیں ہیں۔ وہ اپنی ترقی کا کریڈٹ والدین کو ہر وقت ہر طرح سے خوش رکھنے اور ان کے ہر طرح کے دکھ درد و مسائل حل کرنے کے عمل کو دیتا ہے اور یہ بات غلط بھی نہیں ہے۔ ہر فرد کے لیے قدرت نے الگ طرح کی نادیدہ قوت رکھی ہوئی ہے جو دیگر قوتوں کی بہ نسبت زیادہ فعال ہوتی ہے اور ہماری کیمسٹری سے زیادہ مطابقت رکھی ہوتی ہے۔
اگر ہم سب نہیں صرف اپنی اس ایک چھپی ہوئی قوت سے آگاہی حاصل کرلیتے ہیں اور اسے عمل میں ڈھال لیتے ہیں تو پھر ہمارے راستے کی رکاوٹیں بھی آہستہ آہستہ دور ہونا شروع ہوجائیں گی اور ہماری آزمائشوں کی مدت بھی کم ہونے لگے گی۔ بس شرط صرف قدرت کی عطا کردہ مخصوص قوت کی کھوج لگانے کی اور اسے اپنے عمل میں لاکر عمل میں بدلنے اور مستقل عمل کرتے رہنے کی ہے۔
یہ نسخہ آزمائیے پھر کام یابی آپ سے بچ نہیں پائے گی۔
محنت ذہانت، قسمت اور والدین کی دعاؤں کے ساتھ اگر قریبی دوستوں کا حلقہ اچھا ہو اور آدمی کے اندر مشورہ لینے کی عادت اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی اہلیت بھی ہو تو دنیاوی تعلیم اور تعلیمی ڈگریوں کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہنر ہاتھ میں ہو اور سیکھنے اور آگے بڑھنے کی لگن اور جستجو ہو تو راستے خود بخود کُھلتے چلے جاتے ہیں اور ایک کے بعد ایک نئی منزل قدموں سے گلے ملتی رہتی ہے۔
لیکن یہ سب عناصر یکجا ہوکر بہت کم ہی اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔
جواد سے جب میری پہلی ملاقات ہوئی تو وہ ایک آفس میں ریسیپشن پر ڈیوٹی کرتا تھا۔ چھوٹے سے قد کا سانولا، پرکشش نقوش والا، کھلنڈرا، ہنس مکھ، باتونی۔ میں ہفتے میں دو بار وہاں جایا کرتا۔ Cusultation کے لیے جواد ہی مریضوں سے فیس لیتا اور ان کو ہنستے باتیں کرتے Attend کرتا۔ مریض ختم ہوجاتے ہماری باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ ظاہر ہے ان باتوں میں میرا Role سامع کا ہی رہتا، جواد کے قصے کہانیاں فل اسپیڈ پر دوڑتے رہتے۔
آفس سے منسلک لیبارٹری اور ایکسرے یونٹ تھا، جو دونوں کی تیکنیک سیکھنے میں بہت وقت صرف کرتا۔ میں جب جاتا تو وہ پورے ہفتے کی روداد سناتا کہ اس بار اس نے کون کون سے Tests سیکھے یا خود سے کرکے لیبارٹری ٹیکنیشن کو دیے۔ اس میں جوش بھی تھا اور جذبہ بھی۔ بچپن سے محنت کرتا آرہا تھا۔ اسکول کی پڑھائی کے ساتھ دیگر کام۔ مستقل مزاجی کے ساتھ صبر اور حوصلہ بھی تھا اور ہر دم کچھ نیا سیکھنے کی لگن بھی تھی۔ آدمی کتابوں سے اتنا نہیں سیکھتا جاننا حالات وواقعات اور تجربات و حادثات سے۔ یہ ایک اور حقیقت ہے کہ ہر کسی کے نصیب میں سیکھنا بھی نہیں ہوتا۔ ہر کوئی ہر طرح کے تجربات سے گزرتا ہے۔ ہر روز ان گنت باتیں اور چیزیں مشاہدات کا حصہ بنتی ہیں۔ ہر بات، ہر تجربہ، ہر مشاہدہ اپنے اندر بیش بہا معلومات اور معنوں کی سوغات رکھتا ہے لیکن ہر کسی کے نصیب میں عملی زندگی کی یونی ورسٹی سے فیض اٹھانا اور اپنی زندگی میں عملی شکل میں ڈھالنا نہیں لکھا ہوتا۔
جواد اس حوالے سے قسمت کا دھنی تھا۔ بنگلادیش بننے کے بعد اس کے خاندان نے ہجرت کی تھی۔1971 کے بعد ہجرت کرنے والے اور ہزاروں خاندانوں کی طرح جواد کے والدین نے بھی اپنی زندگی کو نئے سرے سے استوار کرنے کی جدوجہد کی تھی۔ جواد کی پیدائش ہجرت کے چند سال بعد کی تھی، لیکن 9 برس کی عمر سے ہی اس کی عملی جدوجہد کا آغاز ہوگیا تھا۔ طرح طرح کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے ساتھ پڑھائی کا سلسلہ انٹر تک تو چلتا رہا مگر پھر معاشی ذمے داریوں نے نصابی تعلیم کی راہ روک دی۔
اس رکاوٹ کے باوجود محنت، مشقت اور سیکھنے کا عمل نہیں رک سکا۔ تنگ دستی اور پریشانیوں کے دور مستقل آتے آرہے مگر جواد کے چہرے پر ہر دور میں مسکراہٹ رہی اس کی کم زوری ایک تھی اور یہ کم زوری ہم میں سے بے شمار لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ وہ زیادہ دیر تک خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ جن دنوں اس سے ہفتہ وار دو ملاقاتیں ہوتی تھیں مجھے یہی لگتا تھا کہ شاید وہ سونے کی درمیان بھی باتیں کرتا ہوگا، لیکن اسی کم زوری کو اس نے اﷲ کے کرم سے اپنی سب سے بڑی خوبی بنا ڈالا۔
6برس کی محنت اور جدوجہد اور باتوں کی عادت نے اسے ذاتی کام اور کاروبار سیٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب اس کے Clients اس کی دل موہ لینے والی شخصیت اور اس کی رنگارنگ باتوں کے گرویدہ ہیں۔ بات سے بات نکالنا اور ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر گفتگو منتقل کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لب و لہجے کی نرمی، مہمان نوازی، والدین کی خدمت، رویے کی لچک، سخاوت، مستحق افراد کی خاموشی سے مدد، بچت کی عادت، سماجی روابط بڑھانے اور برقرار رکھنے کا حوصلہ، لوگوں کے مسائل میں عملی دل چسپی، بہن بھائیوں، رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات، سیر و تفریح و سیاحت، ہوٹلنگ اور کھانا پینا اور کھلانا بچوں سے شفقت ہم عمروں کے ساتھ ہلاگلا، غرض یہ کہ سماجی زندگی و کاروباری معاملات کے درمیان توازن کے ساتھ آگے بڑھتے جانا، اس کی زندگی کا حصہ ہے۔ جواد نے کتابوں سے کم اور اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھ کر زیادہ سیکھا۔
عملی زندگی سے سیکھ کر عملی زندگی کو اس علم کی بنیاد پر استوار کرنا ایک ایسا جوہر ہے جو فطرت نے ہر کسی کی فطرت میں نہیں رکھا ہوتا، اپنے اس جوہر سے آگاہی حاصل کرکے اسے علم سے عمل میں ڈھالنے کے لیے جس حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی ہم میں سے ہر کسی کی فطرت کا حصہ نہیں ہوتا۔ وقت کے دھارے بڑے بڑوں کو بہاکر لے جاتی ہیں۔ گیلی مٹی اور پانی کے بہاؤ میں اپنے پاؤں زمین پر مضبوطی سے جوڑے رکھنے کا یارا بھی فطرت ہر کسی کو عطا نہیں کرتی۔ کب اور کس طرح کس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا ہے اور کب کس سے کس طرح کی بات کرنی ہے، یہ فن بھی ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔
فطرت پہلے آزماتی ہے پھر نوازتی ہے، مگر ہر کوئی ہر آزمائش میں پورا نہیں اترتا۔ فطرت جن لوگوں سے خاص طرح کے کام لینا چاہتی ہے ان کی پرورش اور تعلیم اور تربیت کے لیے بھی خاص الخاص طریقے منتخب کرتی ہے۔ Hurdle Race کی طرح۔ ایک کے بعد ایک اور امتحان ایک کے بعد ایک اور دشواری اور رکاوٹ، فطرت کے امتحان بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کبھی لے کر آزماتی ہے کبھی دے کر آزماتی ہے اور سب سے دشوار اور خطرناک آزمائش ہوتی ہی انعام کی صورت ہے، اچھے اچھوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑجاتے ہیں۔
ایک کے بعد ایک اور نعمت کا ملنا بظاہر خوشی کا سماں پیدا کرتا ہے، لیکن ان خوشیوں کے پس پردہ آزمائشوں کی اونچی نیچی دیواریں چھپی ہوتی ہیں، نہ دکھنے والی رکاوٹیں، اور جو رکاوٹ دکھائی نہ دے تو اس سے الجھ کر لڑکھڑانا اور گرنا لازمی ہوجاتا ہے۔
نادیدہ دیواروں کو پھلانگنے کے لیے پوشیدہ قوتوں کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ پوشیدہ قوتیں نصیب والوں کو حیلے بہانے سے ملتی رہتی ہیں۔ کبھی والدین کی فرماںبرداری اور خدمت کے بہانے، کبھی اپنی نعمتوں اور خوشیوں میں اوروں کو شامل کرکے، تو کبھی خاموشی سے ناداروں اور مسکینوں کی مدد کرکے، کبھی اپنا وقت اپنی توانائی اپنا علم اپنی دولت دوسروں میں بانٹنے سے اور کبھی ادب احترام محبت اور عزت کے موتی بانٹنے سے یہ سب یا ان میں سے کچھ یا ان کی طرح کے کچھ اور باتیں ہمارے اندر ایسی صلاحیت، ایسی طاقت پیدا کردیتی ہیں جس کو بروئے کار لانے کے لیے حرکت میں لانے کے لیے ہمیں از خود کچھ نہیں کرنا پڑتا، سب کچھ Automatic ہوتا چلا جاتا ہے۔
پھر ہمارے راستے کی ان دیکھی رکاوٹیں از خود یوں تو ہمارے راستے سے ہٹنے لگتی ہیں اور یا ہم بہ آسانی ان کو عبور کرکے آگے نکلتے جاتے ہیں، جواد کا کہنا ہے کہ اس کی تمام تر کام یابی کے پیچھے اس کے والدین کی دعائیں ہیں۔ وہ اپنی ترقی کا کریڈٹ والدین کو ہر وقت ہر طرح سے خوش رکھنے اور ان کے ہر طرح کے دکھ درد و مسائل حل کرنے کے عمل کو دیتا ہے اور یہ بات غلط بھی نہیں ہے۔ ہر فرد کے لیے قدرت نے الگ طرح کی نادیدہ قوت رکھی ہوئی ہے جو دیگر قوتوں کی بہ نسبت زیادہ فعال ہوتی ہے اور ہماری کیمسٹری سے زیادہ مطابقت رکھی ہوتی ہے۔
اگر ہم سب نہیں صرف اپنی اس ایک چھپی ہوئی قوت سے آگاہی حاصل کرلیتے ہیں اور اسے عمل میں ڈھال لیتے ہیں تو پھر ہمارے راستے کی رکاوٹیں بھی آہستہ آہستہ دور ہونا شروع ہوجائیں گی اور ہماری آزمائشوں کی مدت بھی کم ہونے لگے گی۔ بس شرط صرف قدرت کی عطا کردہ مخصوص قوت کی کھوج لگانے کی اور اسے اپنے عمل میں لاکر عمل میں بدلنے اور مستقل عمل کرتے رہنے کی ہے۔
یہ نسخہ آزمائیے پھر کام یابی آپ سے بچ نہیں پائے گی۔