توانائی بحران تساہل کی گنجائش نہیں
لوڈ شیڈنگ نے پاکستان کے عوام کے صبر و تحمل کا امتحان لے لیا ہے
MINGORA:
وزیراعظم نوازشریف نے موجودہ لوڈ شیڈنگ کے دورانیے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، متعلقہ وزارتوں اور ان کے اداروں نے پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی جس کے لیے ذمے داری کا تعین ہونا چاہیے۔ انھوں نے یہ بات جمعہ کو وزیراعظم ہاؤس میں توانائی کے بارے میں کابینہ کمیٹی کے رواں ماہ کے دوران مسلسل چوتھے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اسی برہمی کا اظہار وزیراعظم کابینہ کے ہر اس اجلاس میں کرتے رہے ہیں جس میں توانائی بحران اور ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ زیر غور آیا ہو، بعض انتہائی اعلیٰ سطح کے اجلاس بطور خاص توانائی بحران کے حل کے لیے طلب کیے جاتے رہے ہیں، حکومتی ماہرین اور وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف سمیت دیگر حکام نے اعداد وشمار جاری کرتے ہوئے عوام کو اس بات کی نوید سنائی کہ لوڈ شیڈنگ کا جلد خاتمہ ہوجائیگا، مگر بجلی بحران کی شدت ہے کہ بڑھتی جارہی ہے، متذکرہ اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی، وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال،وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور سینئر حکام نے شرکت کی۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ حکومت نے سی پیک سمیت بجلی کی پیداوار اور توانائی کے مختلف وسائل کے حصول کے لیے متعدد اہم منصوبوں پر کام شروع کردیا ہے، صرف سی پیک کے توانائی منصوبوں کی تکمیل ہو جائے تو نہ صرف بجلی تعطل کا سلسلہ بند ہو سکتا ہے بلکہ توانائی بحران کے خاتمہ کے لیے بریک تھرو کے بھی امکانات پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن ضرورت توانائی بحران کے بنیادی اسباب کے ادراک اور فالٹ فری نظام کو یقینی بنانے کی قوم کو جلد نوید دینے کی ہے، جہاں تک غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ کا تعلق ہے اسے عوام نے درپیش مسائل میں سب سے زیادہ اذیت ناک تجربہ قرار دیا ہے۔
بجلی کی فراہمی کے سسٹم میں خرابیوں کے ضمن میں بجلی محکموں اور بیوروکریسی کے پاس دس جواز اور معذرتیں ہو سکتی ہیں مگر ارباب اختیار کو دو بنیادی سوالوں کے جواب دینا ہوں گے اول، کیا انہیں اٹھتے ہوئے عوامی طوفان کا احساس و ادراک ہے جب آئندہ الیکشن میں ووٹ مانگنے کا اعصاب شکن پیمانہ لوڈ شیڈنگ ہوگا؟ کیونکہ انتخابی مہم تو شروع ہو چکی۔
2018ء کا انتظار کون کرے! دوسری بات بجلی یا توانائی کی قومی ترقی و استحکام سے جڑی ہوئی ہے، جدید دنیا میں بجلی اور برقی ٹیکنالوجی کے بغیر معیشت کے استحکام کا ہر دعوی غلط اور فریب دہی پر مبنی قرار پائیگا، ایک طرف دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں پاکستان کے شمار کیے جانے کی خوشخبری ہو اور دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر سمیت مختلف شہروں اور دیہی علاقوں میں بدترین لوڈ شیڈنگ تباہ کن تقابل ہو گا ، شمسی توانائی، ونڈ پاور، تھر پاور پروجیکٹ، مشترکہ منصوبوں اور معاہدوں کا غلغلہ بہت ہے لیکن کوئی کنٹی جنسی پلان، ایمرجنسی ریلیف نظر نہیں آتی، دس دس گھنٹے بجلی غائب رہے تو معیشت کیسے مستحکم ہو گی اور گھریلو صارفین کو اوور بلنگ اور لوڈ شیڈنگ سے کب نجات ملے گی۔
فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ حکمراں تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں، عوام بجلی بحران سے عاجز آ چکے ہیں، صنعتی ترقی شدید متاثر ہو چکی ہے، بیروزگاری کا ایک سبب لوڈ شیڈنگ بھی ہے، کئی ادارے اسی باعث بند ہو چکے ہیںِ کہ غیر ملکی کنسائنمنٹ وقت مقررہ پر بھیجے نہیں جا سکے تھے، ٹیکسٹائل انڈسٹری زوال پزیر ہے۔
اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے لوڈ شیڈنگ کی خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ہے، اس میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی بحران کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے، بجلی کے نظام کی دیرینہ فرسودگی دور کی جائے، پاور جنریشن اور ڈسٹری بیوشن سمیت بجلی کے ضیاع، چوری اور بلنگ کا نظام درست کیا جائے۔کنڈا سسٹم کا خاتمہ کیے بغیر بجلی کی فراہمی شفافیت سے محروم رہے گی۔
لوڈ شیڈنگ نے پاکستان کے عوام کے صبر و تحمل کا امتحان لے لیا ہے، ادھر وزیر اعظم نے سیکریٹری پانی و بجلی کو ہدایت کی ہے کہ بجلی کی فراہمی کی صورتحال کی ہر گھنٹے بعد نگرانی کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی جائے، یہ ٹیم بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کی نگرانی کے بارے میں بھی ہفتہ وار بنیاد پر رپورٹ دے۔ مگر اس میکانیکل کام میں بھی عوام کو ریلیف مہیا کرنے کی روح ڈالی جائے، بجلی زندگی کی حرارت کی امین ہے اور تاریکی ملکی معیشت کے لیے سخت ترین انتباہ، اب فیصلہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ بجلی کی فراہمی میں تساہل کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
وزیراعظم نوازشریف نے موجودہ لوڈ شیڈنگ کے دورانیے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، متعلقہ وزارتوں اور ان کے اداروں نے پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی جس کے لیے ذمے داری کا تعین ہونا چاہیے۔ انھوں نے یہ بات جمعہ کو وزیراعظم ہاؤس میں توانائی کے بارے میں کابینہ کمیٹی کے رواں ماہ کے دوران مسلسل چوتھے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اسی برہمی کا اظہار وزیراعظم کابینہ کے ہر اس اجلاس میں کرتے رہے ہیں جس میں توانائی بحران اور ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ زیر غور آیا ہو، بعض انتہائی اعلیٰ سطح کے اجلاس بطور خاص توانائی بحران کے حل کے لیے طلب کیے جاتے رہے ہیں، حکومتی ماہرین اور وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف سمیت دیگر حکام نے اعداد وشمار جاری کرتے ہوئے عوام کو اس بات کی نوید سنائی کہ لوڈ شیڈنگ کا جلد خاتمہ ہوجائیگا، مگر بجلی بحران کی شدت ہے کہ بڑھتی جارہی ہے، متذکرہ اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی، وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال،وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور سینئر حکام نے شرکت کی۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ حکومت نے سی پیک سمیت بجلی کی پیداوار اور توانائی کے مختلف وسائل کے حصول کے لیے متعدد اہم منصوبوں پر کام شروع کردیا ہے، صرف سی پیک کے توانائی منصوبوں کی تکمیل ہو جائے تو نہ صرف بجلی تعطل کا سلسلہ بند ہو سکتا ہے بلکہ توانائی بحران کے خاتمہ کے لیے بریک تھرو کے بھی امکانات پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن ضرورت توانائی بحران کے بنیادی اسباب کے ادراک اور فالٹ فری نظام کو یقینی بنانے کی قوم کو جلد نوید دینے کی ہے، جہاں تک غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ کا تعلق ہے اسے عوام نے درپیش مسائل میں سب سے زیادہ اذیت ناک تجربہ قرار دیا ہے۔
بجلی کی فراہمی کے سسٹم میں خرابیوں کے ضمن میں بجلی محکموں اور بیوروکریسی کے پاس دس جواز اور معذرتیں ہو سکتی ہیں مگر ارباب اختیار کو دو بنیادی سوالوں کے جواب دینا ہوں گے اول، کیا انہیں اٹھتے ہوئے عوامی طوفان کا احساس و ادراک ہے جب آئندہ الیکشن میں ووٹ مانگنے کا اعصاب شکن پیمانہ لوڈ شیڈنگ ہوگا؟ کیونکہ انتخابی مہم تو شروع ہو چکی۔
2018ء کا انتظار کون کرے! دوسری بات بجلی یا توانائی کی قومی ترقی و استحکام سے جڑی ہوئی ہے، جدید دنیا میں بجلی اور برقی ٹیکنالوجی کے بغیر معیشت کے استحکام کا ہر دعوی غلط اور فریب دہی پر مبنی قرار پائیگا، ایک طرف دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں پاکستان کے شمار کیے جانے کی خوشخبری ہو اور دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر سمیت مختلف شہروں اور دیہی علاقوں میں بدترین لوڈ شیڈنگ تباہ کن تقابل ہو گا ، شمسی توانائی، ونڈ پاور، تھر پاور پروجیکٹ، مشترکہ منصوبوں اور معاہدوں کا غلغلہ بہت ہے لیکن کوئی کنٹی جنسی پلان، ایمرجنسی ریلیف نظر نہیں آتی، دس دس گھنٹے بجلی غائب رہے تو معیشت کیسے مستحکم ہو گی اور گھریلو صارفین کو اوور بلنگ اور لوڈ شیڈنگ سے کب نجات ملے گی۔
فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ حکمراں تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں، عوام بجلی بحران سے عاجز آ چکے ہیں، صنعتی ترقی شدید متاثر ہو چکی ہے، بیروزگاری کا ایک سبب لوڈ شیڈنگ بھی ہے، کئی ادارے اسی باعث بند ہو چکے ہیںِ کہ غیر ملکی کنسائنمنٹ وقت مقررہ پر بھیجے نہیں جا سکے تھے، ٹیکسٹائل انڈسٹری زوال پزیر ہے۔
اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے لوڈ شیڈنگ کی خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ہے، اس میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی بحران کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے، بجلی کے نظام کی دیرینہ فرسودگی دور کی جائے، پاور جنریشن اور ڈسٹری بیوشن سمیت بجلی کے ضیاع، چوری اور بلنگ کا نظام درست کیا جائے۔کنڈا سسٹم کا خاتمہ کیے بغیر بجلی کی فراہمی شفافیت سے محروم رہے گی۔
لوڈ شیڈنگ نے پاکستان کے عوام کے صبر و تحمل کا امتحان لے لیا ہے، ادھر وزیر اعظم نے سیکریٹری پانی و بجلی کو ہدایت کی ہے کہ بجلی کی فراہمی کی صورتحال کی ہر گھنٹے بعد نگرانی کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی جائے، یہ ٹیم بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کی نگرانی کے بارے میں بھی ہفتہ وار بنیاد پر رپورٹ دے۔ مگر اس میکانیکل کام میں بھی عوام کو ریلیف مہیا کرنے کی روح ڈالی جائے، بجلی زندگی کی حرارت کی امین ہے اور تاریکی ملکی معیشت کے لیے سخت ترین انتباہ، اب فیصلہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ بجلی کی فراہمی میں تساہل کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔