راؤ تحسین کے خلاف کارروائی سراسر زیادتی ہے
اس کہانی کا ایک نقص یہ بھی ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے جس اجلاس کی گفتگو کو خبر بنایا گیا۔
پاناما پیپرز لیکس جیسے ہی ایک معروف اور سنسنی خیز اسکینڈل نیوزلیکس کی بلی بھی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے جب کہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی خان کے خلاف ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز 1973 کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے جب کہ انگریزی اخبار ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس اور رپورٹر سرل المیڈا کا معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کو ارسال کر دیا گیا ہے۔ ابھی یہ خبر ٹی وی چینل پر چل رہی تھی کہ پاک فوج کا ردعمل بھی آ گیا۔ پاک فوج نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر وزیراعظم کے نوٹیفکیشن کو مسترد کر دیا۔ یوں نیوزلیکس اسکینڈل نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔
میرے خیال میں اب وزیراعظم کے نوٹیفکیشن کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی کیونکہ اس اسکینڈل کے اصل فریق نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات کو ہی مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ نوٹیفکیشن نامکمل ہے۔ ایسی صورت میں اس نوٹیفکیشن کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اس پنڈورا باکس سے آگے کیا کیا بلائیں نکلیں گی اور کس کس کے گلے کاٹیں گی، اس بارے میں تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھ والا محاورہ ہی دہرایا جا سکتا ہے۔
نیوز لیکس اسکینڈل 6 اکتوبر 2016ء کو منظرعام پر آیا تھا۔ فوج کے شدید ردعمل کے باعث وفاقی حکومت نے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید سے وزارت واپس لی اور نیوز لیکس کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کر دی۔ کمیٹی کے ذمہ اس خبر کو لیک کرنے، اسے تیار یعنی خبر ڈرافٹ کرنے اور متعلقہ رپورٹر یا اخبار تک پہنچانے اور چھپوانے کے ذمے دار کرداروں کا تعین کرنا تھا۔ اس انکوائری کمیٹی کی سربراہی ریٹائرڈ جسٹس عامر رضا خان کر رہے تھے۔
گزشتہ دنوں اس انکوائری کمیٹی نے اپنی سفارشات وزارت داخلہ کو پیش کر دی تھیں اور وہاں سے فائل وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئی، اس رپورٹ کو تو منظرعام پر نہیں لایا گیا البتہ وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔
اس منظوری کا جو نوٹیفکیشن وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہوا، اس کے مطابق اس اسکینڈل کے ذمے دار یہ کردار ہمارے سامنے آئے، طارق فاطمی، راؤ تحسین علی خان، ڈان اخبار کے ایڈیٹر ظفر عباس اور رپورٹر سرل المیڈا لیکن بڑی صفائی کے ساتھ طارق فاطمی کو بچا لیا گیا، شاید اس لیے کہ انھوں نے سپریم کورٹ میں جانے کی دھمکی دی تھی جب کہ ظفر عباس اور سرل المیڈا کی گیند اے پی این ایس کے کورٹ میں پھینک دی گئی، اب باقی بچے راؤ تحسین علی خان تو ان کے خلاف ایکشن لینے کی منظوری دی گئی ہے۔
نوٹیفکیشن میں اے پی این ایس کو ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کو کہا گیا ہے جو خاص طور پر پرنٹ میڈیا کے لیے ملکی سلامتی کے معاملات پر رپورٹنگ کے حوالے سے قواعد وضوابط کا تعین کرے گا اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ قومی اہمیت اور سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر خبریں صحافت کے بنیادی اور ادارتی اصولوں کے خلاف شائع نہ ہوں۔ مزید کہا گیا کہ اس سلسلے میں متعلقہ وزارتیں اور ڈویژنز مزید کارروائی کر سکتی ہیں۔ یوں ظفر عباس اور سرل المیڈا والا معاملہ بھی گول ہی سمجھیں۔
ادھر ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ طارق فاطمی سے معاون خصوصی برائے خارجہ امور کا قلمدان واپس لے کر انھیں کوئی اور ذمے داری دے دی جائے گی جب کہ پرویز رشید کا نام بھی کسی انکوائری یا کارروائی میں شامل نہیں۔ یوں وہ بھی بچ نکلے۔ آ جا کے بیچارہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین رہ گیا تھا جس کا سر اوکھلی میں دے دیا گیا، صرف ایک بندے کو سارے اسکینڈل کا ملزم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دینا سراسر زیادتی ہے۔ ایسا کر کے سرکاری افسروں کو کیا پیغام دیا گیا ہے۔
میں ایک صحافی ہوں اور اپنے بیس بائیس سال کے تجربے کی روشنی میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی پی آئی او نیوز لیکس جیسی خبر رکوا نہیں سکتا اور نہ ہی ایسی خبر کو چھپوا سکتا ہے۔ پی آئی او اپنے عہدے کی بناء پر صحافیوں سے رابطہ رکھنے پر مجبور ہوتا ہے، وہ ان کے ناز نخرے تو اٹھا سکتا ہے، ان پر دباؤ نہیں ڈال سکتا، ویسے بھی بعض خبریں پی آئی او، ایڈیٹرز اور رپورٹرز کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہوتی ہیں اور ان کے چھاپنے یا نہ چھاپنے کے فیصلے بھی کہیں اور ہوتے ہیں۔
لہٰذا یہ کہنا کہ پی آئی او راؤ تحسین علی خان نے خبر کو چھپوانے سے روکنے کی کوشش نہیں کی، ایک بے معنی استدلال اور جواز ہے، پی آئی او نے کسی صحافی کو فون کیا، کسی سے ملاقات کی یا اس کے فون سے کسی کا نمبر مل گیا، یہ انہونی یا قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ پی آئی او بیچارہ تو روٹین کی سرکاری خبریں چھپوانے کے لیے ایڈیٹرز، نیوز ایڈیٹرز اور رپورٹرز کی منتیں کرتا ہے۔ اس پر بھی ایڈیٹرز کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس کی درخواست کو کتنا وزن دیتے ہیں، خبر چھاپتے ہیں تو اسے کتنی جگہ دیتے ہیں یا شائع ہی نہیں کرتے۔
جس خبر پر راؤ تحسین علی خان کے خلاف کارروائی کی منظوری دی گئی ہے، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی خبر پی آئی او عہدے کا افسر نہ لیک کر سکتا ہے نہ اسے چھپوا سکتا ہے اور نہ ہی اسے رکوا سکتا ہے۔ اس نقطے کو ایک جونیئر صحافی بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ انکوائری کمیٹی کے معزز ارکان اور اس کے سربراہ اس نقطے کو کیوں نہیں سمجھ پائے۔
تحقیقاتی کمیشن کے معزز ارکان اور اس کے سربراہ اگر کسی سینئر صحافی کو ٹیلی فون کر کے ہی معلوم کر لیتے کہ بھائی ذرا وہ صحافتی میکنزم تو بتانا جس کے ذریعے نیوز لیکس جیسی خبر کسی بڑے اور معتبر اخبار یا ٹی وی چینل میں چھپوائی اور آن ایئر کرائی جا سکتی ہے اور اس میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر کا کردار کتنا اہم ہوتا ہے تو وہ صحافی انکوائری کمیٹی کے معزز ارکان کے سامنے سارا منظرنامہ بیان کر دیتا جس سے انکوائری کمیٹی کے معزز ارکان کو درست اور مستند فیصلے تک پہنچنے میں مدد ملتی لیکن افسوس انھوں نے اس پہلو پر شاید غور ہی نہیں کیا یا پھر وہ دیدہ دانستہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔
اس کہانی کا ایک نقص یہ بھی ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے جس اجلاس کی گفتگو کو خبر بنایا گیا، پی آئی او راؤ تحسین علی خان کا اس اجلاس سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ بلحاظ عہدہ اس اجلاس میں شرکت کے مجاز نہیں لہٰذا ایک شخص اجلاس میں موجود ہی نہیں تھا تو وہ وہاں ہونے والی گفتگو کے مندرجات کیسے لیک کر سکتا ہے البتہ طارق فاطمی اس اجلاس میں شریک تھے اور انھوں نے پریزنٹیشنز بھی پیش کیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اس خبر کو لیک کرنے کے ذمے دار ہیں کیونکہ وہ اس سے انکار کرتے ہیں۔
اصل حقیقت کیا ہے یہ تو مکمل رپورٹ میں ہی بیان کی گئی ہو گی۔ بہرحال خبر شائع ہونے سے ایک رات پہلے یعنی 5 اکتوبر کو راؤ تحسین لاہور میں تھے۔ میری اور میرے گروپ ایڈیٹر ایاز خان کے ساتھ ان کی ملاقات طے تھی۔ یہ روٹین کی گپ شپ والی ملاقات تھی یعنی ایک پی آئی او اور صحافیوں کی کرسٹی ملاقات، وہ لاہور آئیں یا کسی اور شہر جائیں، صحافیوں سے میل ملاقات ان کے عہدے کا تقاضا ہے۔
راؤ صاحب تقریباً رات دس سوا دس بجے کے قریب ہمارے پاس لاہور کی لبرٹی مارکیٹ آئے جہاں چائے کے کپ پر کچھ دیر بڑے خوشگوار موڈ میں گپ شپ ہوئی، سوا گیارہ یا ساڑھے گیارہ بجے کے قریب وہ کار پر اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے۔ وہ اسلام آباد اس وقت پہنچے ہوں گے جب اخباروں کی کاپیاں پریس میں چلی جاتی ہیں۔ اگلے روز خبر کا دھماکہ ہو گیا۔اصولی طور پر تو وزیراعظم کو یہ نوٹیفکیشن واپس لے لینا چاہیے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے جب کہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی خان کے خلاف ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز 1973 کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے جب کہ انگریزی اخبار ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس اور رپورٹر سرل المیڈا کا معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کو ارسال کر دیا گیا ہے۔ ابھی یہ خبر ٹی وی چینل پر چل رہی تھی کہ پاک فوج کا ردعمل بھی آ گیا۔ پاک فوج نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر وزیراعظم کے نوٹیفکیشن کو مسترد کر دیا۔ یوں نیوزلیکس اسکینڈل نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔
میرے خیال میں اب وزیراعظم کے نوٹیفکیشن کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی کیونکہ اس اسکینڈل کے اصل فریق نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات کو ہی مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ نوٹیفکیشن نامکمل ہے۔ ایسی صورت میں اس نوٹیفکیشن کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اس پنڈورا باکس سے آگے کیا کیا بلائیں نکلیں گی اور کس کس کے گلے کاٹیں گی، اس بارے میں تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھ والا محاورہ ہی دہرایا جا سکتا ہے۔
نیوز لیکس اسکینڈل 6 اکتوبر 2016ء کو منظرعام پر آیا تھا۔ فوج کے شدید ردعمل کے باعث وفاقی حکومت نے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید سے وزارت واپس لی اور نیوز لیکس کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کر دی۔ کمیٹی کے ذمہ اس خبر کو لیک کرنے، اسے تیار یعنی خبر ڈرافٹ کرنے اور متعلقہ رپورٹر یا اخبار تک پہنچانے اور چھپوانے کے ذمے دار کرداروں کا تعین کرنا تھا۔ اس انکوائری کمیٹی کی سربراہی ریٹائرڈ جسٹس عامر رضا خان کر رہے تھے۔
گزشتہ دنوں اس انکوائری کمیٹی نے اپنی سفارشات وزارت داخلہ کو پیش کر دی تھیں اور وہاں سے فائل وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئی، اس رپورٹ کو تو منظرعام پر نہیں لایا گیا البتہ وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔
اس منظوری کا جو نوٹیفکیشن وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہوا، اس کے مطابق اس اسکینڈل کے ذمے دار یہ کردار ہمارے سامنے آئے، طارق فاطمی، راؤ تحسین علی خان، ڈان اخبار کے ایڈیٹر ظفر عباس اور رپورٹر سرل المیڈا لیکن بڑی صفائی کے ساتھ طارق فاطمی کو بچا لیا گیا، شاید اس لیے کہ انھوں نے سپریم کورٹ میں جانے کی دھمکی دی تھی جب کہ ظفر عباس اور سرل المیڈا کی گیند اے پی این ایس کے کورٹ میں پھینک دی گئی، اب باقی بچے راؤ تحسین علی خان تو ان کے خلاف ایکشن لینے کی منظوری دی گئی ہے۔
نوٹیفکیشن میں اے پی این ایس کو ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کو کہا گیا ہے جو خاص طور پر پرنٹ میڈیا کے لیے ملکی سلامتی کے معاملات پر رپورٹنگ کے حوالے سے قواعد وضوابط کا تعین کرے گا اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ قومی اہمیت اور سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر خبریں صحافت کے بنیادی اور ادارتی اصولوں کے خلاف شائع نہ ہوں۔ مزید کہا گیا کہ اس سلسلے میں متعلقہ وزارتیں اور ڈویژنز مزید کارروائی کر سکتی ہیں۔ یوں ظفر عباس اور سرل المیڈا والا معاملہ بھی گول ہی سمجھیں۔
ادھر ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ طارق فاطمی سے معاون خصوصی برائے خارجہ امور کا قلمدان واپس لے کر انھیں کوئی اور ذمے داری دے دی جائے گی جب کہ پرویز رشید کا نام بھی کسی انکوائری یا کارروائی میں شامل نہیں۔ یوں وہ بھی بچ نکلے۔ آ جا کے بیچارہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین رہ گیا تھا جس کا سر اوکھلی میں دے دیا گیا، صرف ایک بندے کو سارے اسکینڈل کا ملزم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دینا سراسر زیادتی ہے۔ ایسا کر کے سرکاری افسروں کو کیا پیغام دیا گیا ہے۔
میں ایک صحافی ہوں اور اپنے بیس بائیس سال کے تجربے کی روشنی میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی پی آئی او نیوز لیکس جیسی خبر رکوا نہیں سکتا اور نہ ہی ایسی خبر کو چھپوا سکتا ہے۔ پی آئی او اپنے عہدے کی بناء پر صحافیوں سے رابطہ رکھنے پر مجبور ہوتا ہے، وہ ان کے ناز نخرے تو اٹھا سکتا ہے، ان پر دباؤ نہیں ڈال سکتا، ویسے بھی بعض خبریں پی آئی او، ایڈیٹرز اور رپورٹرز کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہوتی ہیں اور ان کے چھاپنے یا نہ چھاپنے کے فیصلے بھی کہیں اور ہوتے ہیں۔
لہٰذا یہ کہنا کہ پی آئی او راؤ تحسین علی خان نے خبر کو چھپوانے سے روکنے کی کوشش نہیں کی، ایک بے معنی استدلال اور جواز ہے، پی آئی او نے کسی صحافی کو فون کیا، کسی سے ملاقات کی یا اس کے فون سے کسی کا نمبر مل گیا، یہ انہونی یا قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ پی آئی او بیچارہ تو روٹین کی سرکاری خبریں چھپوانے کے لیے ایڈیٹرز، نیوز ایڈیٹرز اور رپورٹرز کی منتیں کرتا ہے۔ اس پر بھی ایڈیٹرز کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس کی درخواست کو کتنا وزن دیتے ہیں، خبر چھاپتے ہیں تو اسے کتنی جگہ دیتے ہیں یا شائع ہی نہیں کرتے۔
جس خبر پر راؤ تحسین علی خان کے خلاف کارروائی کی منظوری دی گئی ہے، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی خبر پی آئی او عہدے کا افسر نہ لیک کر سکتا ہے نہ اسے چھپوا سکتا ہے اور نہ ہی اسے رکوا سکتا ہے۔ اس نقطے کو ایک جونیئر صحافی بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ انکوائری کمیٹی کے معزز ارکان اور اس کے سربراہ اس نقطے کو کیوں نہیں سمجھ پائے۔
تحقیقاتی کمیشن کے معزز ارکان اور اس کے سربراہ اگر کسی سینئر صحافی کو ٹیلی فون کر کے ہی معلوم کر لیتے کہ بھائی ذرا وہ صحافتی میکنزم تو بتانا جس کے ذریعے نیوز لیکس جیسی خبر کسی بڑے اور معتبر اخبار یا ٹی وی چینل میں چھپوائی اور آن ایئر کرائی جا سکتی ہے اور اس میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر کا کردار کتنا اہم ہوتا ہے تو وہ صحافی انکوائری کمیٹی کے معزز ارکان کے سامنے سارا منظرنامہ بیان کر دیتا جس سے انکوائری کمیٹی کے معزز ارکان کو درست اور مستند فیصلے تک پہنچنے میں مدد ملتی لیکن افسوس انھوں نے اس پہلو پر شاید غور ہی نہیں کیا یا پھر وہ دیدہ دانستہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔
اس کہانی کا ایک نقص یہ بھی ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے جس اجلاس کی گفتگو کو خبر بنایا گیا، پی آئی او راؤ تحسین علی خان کا اس اجلاس سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ بلحاظ عہدہ اس اجلاس میں شرکت کے مجاز نہیں لہٰذا ایک شخص اجلاس میں موجود ہی نہیں تھا تو وہ وہاں ہونے والی گفتگو کے مندرجات کیسے لیک کر سکتا ہے البتہ طارق فاطمی اس اجلاس میں شریک تھے اور انھوں نے پریزنٹیشنز بھی پیش کیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اس خبر کو لیک کرنے کے ذمے دار ہیں کیونکہ وہ اس سے انکار کرتے ہیں۔
اصل حقیقت کیا ہے یہ تو مکمل رپورٹ میں ہی بیان کی گئی ہو گی۔ بہرحال خبر شائع ہونے سے ایک رات پہلے یعنی 5 اکتوبر کو راؤ تحسین لاہور میں تھے۔ میری اور میرے گروپ ایڈیٹر ایاز خان کے ساتھ ان کی ملاقات طے تھی۔ یہ روٹین کی گپ شپ والی ملاقات تھی یعنی ایک پی آئی او اور صحافیوں کی کرسٹی ملاقات، وہ لاہور آئیں یا کسی اور شہر جائیں، صحافیوں سے میل ملاقات ان کے عہدے کا تقاضا ہے۔
راؤ صاحب تقریباً رات دس سوا دس بجے کے قریب ہمارے پاس لاہور کی لبرٹی مارکیٹ آئے جہاں چائے کے کپ پر کچھ دیر بڑے خوشگوار موڈ میں گپ شپ ہوئی، سوا گیارہ یا ساڑھے گیارہ بجے کے قریب وہ کار پر اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے۔ وہ اسلام آباد اس وقت پہنچے ہوں گے جب اخباروں کی کاپیاں پریس میں چلی جاتی ہیں۔ اگلے روز خبر کا دھماکہ ہو گیا۔اصولی طور پر تو وزیراعظم کو یہ نوٹیفکیشن واپس لے لینا چاہیے۔