نوحۂ غم یا نغمۂ شادی

عدالتی حکم کی تعمیل میں 6 محکموں نے JIT کی تشکیل کے لیے اپنے نمائندوں کے نام سپریم کورٹ کو بھجوا دیے ہیں۔

h.sethi@hotmail.com

بیس اپریل 2017ء کے بعد دوپہر 2 بجے ٹیلیوژن پر سپریم کورٹ کا پانامہ گیٹ سے متعلق فیصلہ سنکر میں چائے کی پیالی منگوا کر فیصلے کے مضمرات پر غور کرنیکا موڈ بنا رہا تھا کہ میرے دو دوست اچانک وارد ہو گئے۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں وہ اخبار تھا جس میں چند ماہ قبل میرا کالم چھپا تھا جس کا عنوان تھا ''راجہ بیوپاری پرجا بھکاری'' ان میں سے ایک نے کہا کہ ''تم نے تو لکھا کہ اگر تمہیں اپنی ملازمت کی پہلی پوسٹنگ پر پھر سے مجسٹریٹ تعینات کر دیا جائے تو تم پانامہ گیٹ کیس کا فیصلہ پندرہ دن میں کر سکتے ہو۔ ہم دونوں کی اپنے پندرہ دوستوں کو زبردست قسم کا کھانا کھلانے کی شرط لگی ہوئی ہے دونوں کا قیافہ ایک دوسرے سے مختلف نکلا ہے۔ اب تم بتاؤ شرط کون جیتا۔''

میں نے ہنستے ہوئے مزید چائے منگوائی اور کہا میں اپنے دعوے پر اب بھی قائم ہوں لیکن تمہاری شرطیں جو بھی تھیں تم باری باری پندرہ دوستوں کو کھانا کھلانے کا بندوبست کرو کیونکہ تم دونوں ہار گئے ہو اور جیت بھی گئی ہو لیکن ہار جیت پر ایک شعر یاد آ گیا وہ سن لو:

یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو غم کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

میرے دوست نے شعر سن کر کہا کہ لو پھر تم بھی شعیب بن عزیز کا حسب حال شعر سنو؎

شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا

دونوں میں سے ہر ایک نے جب اصرار کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ چونکہ اس کے حق میں آیا ہے لہٰذا دوسرا ہارنے والا کھانا کھلائے تو میں نے کہا کہ تم ایک کھانا کھلانے پر تکرار کر رہے ہو۔ ملک میں ہزاروں نہیں لاکھوں شرطیں لگا رکھی ہوں گی لہٰذا میں اپنا Interim فیصلہ سناتا ہوں کہ عدالت کے دیے ہوئے 7 دن کے بعد جب جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم(JIT) Constitute ہو جائے اور JIT کو ٹرمز آف ریفرینس مل جائیں تو وہ مجھے سے دوبارہ رجوع کریں لیکن اس دوران اخلاقاً دو عدد دعوتوں کا انتظام فوری کریں جس کے لیے دن اور مقام کا تعین ابھی کر لیا جائے۔ یوں ان دونوں نے جیت بھی مان لی اور ہار بھی۔


سپریم کورٹ کے فیصلے کا باریک نکتہ سمجھانے کے لیے میں نے شیخ رشید کی تشریح کا سہارا لیا اور ان دونوں کو بتایا کہ دو سینئر ججوں نے چونکہ وزیراعظم کے بارے میں صادق اور امین نہ ہونے کا فیصلہ دے کر ان کو نااہل قرار دیا ہے جب کہ تین ججوں نے JIT کے ذریعے مزید ثبوت فراہم کرنے کا موقع دے دیا ہے۔ لہٰذا آپ یوں سمجھ لیں کہ نواز شریف دو مضامین میں فیل ہو گئے ہیں اور تین پرچوں میں ان کی کمپارٹمنٹ آئی ہے۔ اور ان تین پرچوں کے امتحان کا رزلٹ سوا دو ماہ بعد نکلے گا۔ نگرانی بہرحال تین جج ہی کریں گے۔ لیکن بیس اپریل کی صبح ہی سے پورے ملک کی سیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی نے ایک ہنگامہ بپا کر رکھا ہے۔

لاہور جمخانہ کلب کی چاندنی لاؤنج میں اگرچہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سننے کے لیے ممبر حضرات نے کوئی صوفہ خالی نہ چھوڑا تھا لیکن وہاں چند مخصوص صوفوں پر اعتزاز احسن، مصطفے احمد خاں، عارف نظامی، ایم اے خاں، شریف جنجوعہ، زاہد نبی ملک کی عدم موجودگی محسوس کی جا رہی تھی اور اس کی وجہ محض یہ تھی کہ جمعرات ان کی بیٹھک کا دن نہیں ہوتا۔ فیصلے کے دن سے لے کر آج نو دن تک صبح دوپہر شام رات مقدمہ کے حاضر اور غیر حاضر فریق کھلی جگہوں پر جلسے کرنے اور ٹیلیوژن اسکرینوں پر اپنی اپنی فتح کے جشن مناتے اور تنقیدی سوال اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں، یعنی بقول غالبؔ حالت یہ ہے کہ

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی

عدالتی حکم کی تعمیل میں 6 محکموں نے JIT کی تشکیل کے لیے اپنے نمائندوں کے نام سپریم کورٹ کو بھجوا دیے ہیں جب چھ ممبروں کا حتمی انتخاب ہو جاتا ہے تو یہ کمیٹی وزیراعظم کے لندن کے اثاثوں کی چھان بین میں مصروف ہو کر ہر پندرہ روز کے بعد اپنی کارکردگی کی رپورٹ عدالت عظمیٰ کو بھجوانے کا عمل شروع کر دے گی۔

اس کمیٹی کے لیے یہ Probe ایک امتحان ہو گا لیکن ملک کے عوام و خواص کو بیورو کریسی اور بورا کریسی کے درمیان فرق ضرور واضح ہو جائے گا جب کہ ساٹھ دن گزرتے پتہ ہی نہیں چلے گا اور عرف عام میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اتفاق سے نواز شریف کو وزیراعظم ہونے کی وجہ سے اس مشکل کا سامنا ہے ورنہ یہ حمام اتنا وسیع و عریض ہے کہ سیکڑوں نہیں ہزاروں معتبرین بغیر لنگوٹ کے اس میں مصروف اشنان ملیں گے۔

ادھر جب JIT ممبران کے سر پر پندرہ روزہ والی تلوار لٹکتی نظر آئے گی تو انھیں 60=4x15 کا پہاڑہ یاد آتا رہے گا۔ اگرچہ JIT ممبر ایک طرف سے وزیراعظم کے ماتحت سرکاری افسر ہوں گے اور موجودہ حکمرانوں کے نزدیک ترین افسروں کی شہرت اور ریکارڈ دیکھیں تو آپ انھیں Yes Men کہنے پر مجبور ہوں گے لیکن انسانوں ہی کا ضمیر جاگا کرتا ہے اور پھر اس JIT کو تو عدالت عظمیٰ ہی نہیں ملک کے بیس کروڑ عوام بھی سوا دو ماہ تک دیکھ رہے ہوں گے۔

انتیس اپریل کو یہ دوست چائے پینے کا بہانہ کر کے پھر آ گئے اور مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کی تو الٹا میں نے ان سے تین سوال کر دیے پہلا یہ کہ کیا لندن کے اپارٹمنٹس کی ملکیت وزیراعظم فیملی نے تسلیم کی ہے۔ دوسرا سوال یہ کہ کیا خریداری کی منی ٹریل اس قابل ہے کہ ایک درجہ سوم کا جج بھی اسے مان لے اور تیسرا سوال یہ کہ کیا وزیراعظم نے ان اپارٹمنٹس کی خریداری کی بابت مختلف بیانی کی ہے جو دروغ گوئی کے زمرے میں آتی ہے۔

میں نے اپنے ان دوستوں سے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ''ان سوالات کا جواب بتانے کے لیے اب مجھ سے سوا دو ماہ کے بعد ملنا اور چاہو تو آپس میں پھر شرط لگا لو کم از کم ہم پندرہ دوستوں کی ایک اور ضیافت کا اہتمام ہو جائے گا اور ہاں جواب تلاش کرنے میں سپریم کورٹ کی طرف سے JIT کو دیے گئے تیرہ TOR آپ کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔
Load Next Story